عبد الرحمن کاشغری ندوی

عبد الرحمن کاشغری ندوی بن مولوی عبد الہادی (1912ء1971ء) جو دملا بید اخونم کے لقب سے معروف ہیں عربی کے ادیب و شاعر اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز فضلا میں شمار ہوتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کاشغر میں حاصل کی، مزید تعلیم کے لیے بھارت کا سفر کیا، یہاں دار العلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی۔ فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء، پھر مدرسہ عالیہ کلکتہ اور اخیر میں جب مدرسہ عالیہ ڈھاکہ منتقل ہوا تو وہاں تدریس سے وابستہ رہے۔ عربی شعر و لغت سے خصوصی دلچسپی تھی، عربی زبان کے ایک قادر الکلام شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ دینیات، لسانیات و علم اللغۃ پر بھی گہری دسترس حاصل تھی۔ ایک دیوان اور کئی علمی کتابیں یادگار چھوڑیں۔ سنہ 1971ء میں ڈھاکہ میں وفات ہوئی۔

عبد الرحمن کاشغری
معلومات شخصیت
پیدائش 1912ء
کاشغر، چینی ترکستان
وفات مارچ سنہ 1971ء
ڈھاکہ
مذہب اسلام
مکتب فکر حنفی
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متاثر ابو محفوظ الکریم معصومی

ولادت

ترمیم

15 ستمبر 1912ء کو چینی ترکستان کے دار الحکومت کاشغر میں ان کی ولادت ہوئی۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

ابتدائی تعلیم مقامی علما و فضلا سے حاصل کی، ابتدا ہی سے اعلی تعلیم کے حصول کا غایت درجہ شوق تھا، ہندوستان کے علما کی شہرت سن کر ہندوستان جانے کا اشتیاق پیدا ہوا، چنانچہ گیارہ برس کی عمر میں ایک قافلہ کے ساتھ کوہستانی راستہ کو اختیار کرتے ہوئے ہندوستان کی جانب روانہ ہوئے۔  دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرتے ہوئے قرہ کول، پامیر ہوتے ہوئے افغانستان کے علاقہ میں داخل ہوئے اور دخان پہنچے، وہاں سے بارک پہنچے جو فیض آباد علاقہ بدخشاں سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔ وہاں سے زیباق کے راستہ چترال پہنچے، مہتر چترال کی وساطت اور عنایت سے درگئی کے مقام تک آ گئے، یہاں تک مہینوں پیدل چلنے کے بعد پہنچے تھے اور پیادہ پا سفر کی یہ آخری منزل تھی، یہاں سے ریل کے ذریعہ امرتسر پہنچے۔ اور وہاں کے مشور عالم مولانا عبد اللہ منہاس کی خدمات میں حاضر ہوئے جن کے نام مہتر چترال نے مہربانی فرماکر ایک سفارشی خط لکھ دیا تھا، انھوں نے مہتر چترال کی ہدایت کے بموجب مولانا عبد الحئی حسنی ناظم ندوۃ العلماء کی خدمت میں پہنچا دیا۔

چنانچہ 1922ء سے 1930ء تک دار العلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کرتے رہے، 1931ء میں فراغت حاصل کرتے ہی ندوہ میں درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ اسی عرصہ میں لکھنؤ یونیورسٹی سے   فاضل ادب اور مدرسہ  فرقانیہ سے قراءت سبعہ کی سندیں حاصل کیں۔ دار العلوم ندوۃ العلماء میں چند سال تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ کے فقہ و اصول کے شعبہ میں لکچرر مقرر ہوئے، قیام پاکستان کے بعد جب مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ڈھاکہ منتقل ہو گیا تو عبد الرحمن بھی ڈھاکہ منتقل ہو گئے اور مدرسہ عالیہ میں آخری عمر تک خدمات انجام دیتے رہے۔

علمی مقام

ترمیم

عبد الرحمن کاشغری ندوی ایک قادر الکلام عربی شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ دینیات، لسانیات اور علم اللغۃ کی بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ جس کا واضح ثبوت ان کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے اکثر غیر مطبوعہ ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کے علوم و معارف سے خصوصی شغف تھا، چنانچہ انھوں نے "الضیاء" میں جو مولانا مسعود عالم ندوی کی زیر ادارت دار العلوم ندوۃ العلماء سے شائع ہوتا تھا، شاہ ولی اللہ دہلوی پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ نیز شاہ صاحب کی شہرۂ آفاق کتاب "ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء" کا عربی میں ترجمہ بھی کیا، جو اب تک غیر مطبوع ہے۔ ان کے عربی اشعار کا ایک مجموعہ "الزھرات" کے عنوان سے ندوے کے قیام کے دوران ہی میں شائع ہو گیا تھا، جس پر مسعود عالم ندوی نے 25 صفحات پر مشتمل مقدمہ لکھا ہے۔ بقیہ دو دیوان "العبرات" اور "الشذرات" ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔ ان کے کئی قصائد "الضیاء" میں بھی شائع ہوئے۔

سید سلیمان ندوی سے خصوصی تعلق تھا، چنانچہ ان کے مطبوعہ دیوان "الزھرات" میں کئی قصائد سید سلیمان ندوی کی شان میں کہے گئے ہیں۔ عبد العزیز میمن کے احباب میں سے تھے، میمن صاحب نے "سمط اللآلی" کی تحقیق کے دوران میں اس کے بعض نسخوں کے تقابل کرتے وقت عبد الرحمن کاشغری سے بھی مدد لی تھی۔

عبد الرحمن کاشغری کے ممتاز شاگردوں میں علامہ قاضی نور الاسلام ہاشمی، علامہ ابو محفوظ الکریم معصومی کا نام ہے۔ ان کی وفات پر ابو محفوظ الکریم معصومی نے ایک طویل مرثیہ کہا جو پندرہ روزہ الرائد، لکھنؤ میں شائع ہوا۔

وفات

ترمیم

مارچ سنہ 1971ء میں ڈھاکہ میں وفات ہوئی۔

تصانیف

ترمیم

عبد الرحمن کاشغری نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں سے ان کی حیات میں صرف دو کتابیں ہی طبع ہوئیں، ان کی کتاب امثال اللغتین بھی ابھی جلد ہی شائع ہوئی ہے۔

مطبوعہ تصانیف

ترمیم
  1. الزهرات (کاشغری کے عربی اشعار کا مجموعہ):مطبوعہ لکھنؤ، 1354ھ۔ اس پر مولانا مسعود عالم ندوی نے مفصل مقدمہ لکھا ہے اور ہندوستان کی عربی شاعری پر بلیغ تبصرہ کیا ہے۔[1]
  2. المفيد لمن يستفيد (عربی – اردو لغت) مطبوعہ ڈھاکہ، 1959ء۔[2]
  3. أمثال اللغتین: اس میں انھوں نے اردو اور عربی کہاوتوں اور محاوروں کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کا بعض حصہ مجلہ "الضیاء" میں 9 قسطوں میں شائع ہوا۔ اس کی پہلی قسط جون-جولائی 1934ء کے "الضیاء" میں بعنوان "إلى الأدباء المفتين" شائع ہوئی۔[3]

غیر مطبوعہ تصانیف

ترمیم
  1. العبرات (شعری دیوان)
  2. الشذرات (شعری دیوان)
  3. محك النقد في شرح نقد الشعر لقدامة بن جعفر الكاتب
  4. كتاب الأسد وكناه للصغاني (تحقیق وتعلیق)
  5. كتاب الذئب وكناه للصغاني (تحقیق وتعلیق)
  6. نظام اللسد في أسماء الأسد للسيوطي (تحقیق وتعلیق)
  7. ديوان ابن مقبل العدلاني (تحقيق وتخريج)
  8. المحبر في المؤنث والمذكر
  9. إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء للشاه ولي الله الدهلوي (تعريب وتخريج)[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مسعود عالم ندوی: مقدمہ "الزھرات "، لکھنؤ 1354ھ، صفحہ 17 تا 29۔
  2. عبد الرحمن کاشغری ندوی: المفيد لمن يستفيد (عربی – اردو لغت)۔ مطبوعہ ڈھاکہ، 1959ء۔
  3. دیکھیے: مجلة الضياء، لکھنؤ، سال سوم، شمارہ 3 ربیع الاول 1353ھ مطابق جون – جولائی 1934ء