عبد المجید سالک
مولانا عبد المجید سالک (پیدائش: 12 ستمبر، 1894ء - وفات: 27 ستمبر، 1959ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر، صحافی، افسانہ نگار اور کالم نگار تھے۔
عبد المجید سالک | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 ستمبر 1894ء بٹالا |
وفات | 27 ستمبر 1959ء (65 سال)[1] لاہور ، پاکستان |
مدفن | مسلم ٹاؤن، لاہور |
شہریت | پاکستان مملکت متحدہ |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ذاکر حسین دہلی کالج |
پیشہ | مترجم ، شاعر ، افسانہ نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
کارہائے نمایاں | روزنامہ انقلاب، لاہور |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی و ادبی خدمات
ترمیمعبد المجید سالک 12 ستمبر، 1894ء کو بٹالہ، گرداسپور، برطانوی ہندوستان میں ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم بٹالہ اور پٹھان کوٹ میں حاصل کی اور پھر اینگلو عربک کالج دہلی سے تکمیل کی۔ انھوں نے 1914ء میں رسالہ فانوس خیال جاری کیا۔ پھر 1915ء سے 1920ء تک وہ ماہنامہ تہذیب نسواں، ماہنامہ پھول اور ماہنامہ کہکشاں کے مدیر رہے۔ 1920ء میں وہ روزنامہ زمیندار کے عملۂ ادارت میں شامل ہوئے۔ 1927ء میں انھوں نے مولانا غلام رسول مہر کے اشتراک سے انقلاب جاری کیا جس کے ساتھ وہ اکتوبر 1949ء میں اس کے خاتمے تک وابستہ رہے۔ عبد المجید سالک اخبار روزنامہ انقلاب میں ایک کالم افکار و حوادث کے نام سے لکھا کرتے تھے، یہی کالم ان کی پہچان بن گیا۔ ان کے خودنوشت سوانح سرگزشت کے نام سے اشاعت پزیر ہوئی۔ ان کی دیگر تصانیف میںذکرِ اقبال، یاران کہن، میراث اسلام اور مسلم ثقافت ہندوستان میں کے علاوہ ان کا مجموعہ کلام راہ و رسم منزلہا شامل ہیں۔[2]
تصانیف
ترمیم- میراث اسلام
- مسلم ثقافت ہندوستان میں
- ذکر اقبال (اقبالیات)
- سرگزشت (آپ بیتی)
- راہ و رسم منزلہا (شاعری)
- چمپا اور دوسرے افسانے (افسانے)
- یاران کہن
- تشکیلِ انسانیت (ترجمہ)
- اسلام اور تحریکِ تجرّد مصر میں (ترجمہ)
- تاریخ بھی مزے کی چیز ہے (ترجمہ)
- انڈونیشیا اور اس کے لوگ
- امداد باہمی
- بوڑھا بگولا (ترجمہ)
- مسئلے کیوں کر حل ہوں (ترجمہ)
- خودکشی کی انجمن
- ایجادات
- قدیم تہذیبیں
- کاریگری
- آئین حکومت ہند
- چترا (ترجمہ)
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
چراغ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے | چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے | |
جوانو اب تمہارے ہاتھ میں تقدیرِ عالم ہے | تمہیں ہوگے فروغ بزم امکاں ہم نہیں ہوں گے | |
جئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زلفِ جاناں کی | سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں ہم نہیں ہوں گے | |
ہمارے ڈوبنے کے بعد ابھریں گے نئے تارے | جبیں دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے | |
نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوعِ مہر کا جلوہ | سحر ہو جائے گی شامِ غریباں ہم نہیں ہوں گے | |
اگر ماضی منور تھا کبھی تو ہم نہ تھے حاضر | جو مستقبل کبھی ہو گا درخشاں ہم نہیں ہوں گے | |
ہمارے دور میں ڈالیں خرد نے الجھنیں لاکھوں | جنوں کی مشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے | |
کہیں ہم کو دکھا دو اک کرن ہی ٹمٹماتی سی | کہ جس دن جگمگائے گا شبستاں ہم نہیں ہوں گے | |
ہمارے بعد ہی خونِ شہیداں رنگ لائے گا | یہی سرخی بنے گی زیبِ عنواں ہم نہیں ہوں گے |
وفات
ترمیمعبد المجید سالک 27 ستمبر، 1959ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے اور لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[2][3][4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.rekhta.org/authors/abdul-majeed-salik
- ^ ا ب پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ص 164، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
- ↑ عبد المجید سالک، ریختہ ڈاٹ کام، بھارت
- ↑ عبد المجید سالک، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان