عبید اللہ کیہر

اردو زبان کے سفرنامہ نگار، ڈاکومنٹری میکر، سیاح اور میکینکل انجنیئر

عبید اللہ کیہر اردو زبان کے معروف سفرنامہ نگار، ڈاکومنٹری میکر، سیاح، کالم نگار، بلاگر، فوٹوگرافر اور میکینکل انجینئر ہیں۔ وہ اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب دریا دریا وادی وادی کے خالق بھی ہیں۔ پاکستان کے کئی اخبارات و جرائد میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان، ایران، چین، آذربائیجان، ترکی، سعودی عرب اور بنگلہ دیش کے سفر پر مشتمل ان کے سات سفرنامے شائع ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کراچی سے متعلق یاداشتوں پر مبنی کتاب کراچی جو اک شہر تھا شائع ہوئی ہے۔

عبید اللہ کیہر

معلومات شخصیت
پیدائش 12 ستمبر 1965ء (59 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع خیرپور ،  سندھ ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سفرنامہ نگار ،  فوٹوگرافر ،  سیاح ،  میکینکل انجینئر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سفرنامہ ،  کالم نگار ،  بلاگ ،  عکاسی   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

عبیداللہ کیہر 12 ستمبر 1965ء کو سندھ کے شہر ضلع خیرپور میں پیدا ہوئے۔ آبائی تعلق سندھ کے قدیم کیہر قبیلے سے ہے۔ ان کے والد حافظ عبد الرحمٰن کیہر عالم دین اور عربی کے استاد تھے ۔ درس و تدریس کے سلسلے میں وہ سندھ کے مختلف شہروں میں ہجرت کرتے رہے۔ 1972ء میں ان کا خاندان خیرپو ر سے کراچی منتقل ہو گیا اور سب سے پہلی رہائش لیاقت آباد میں اختیار کی، لیکن سال بھر بعد لانڈھی قائد آباد آ گئے۔ پھر چھ سال قائد آباد میں، بارہ سال ملیر کھوکھراپار میں اور اگلے دس سال الفلاح سوسائٹی میں گزارے۔

عبیداللہ کیہر نے ابتدائی تعلیم ریڈیو پاکستان کالونی قائدآباد کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان آصف اسکول کالا بورڈ سے پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ ڈی جے سائنس کالج سے کر کے این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی تک پہنچ گئے، جہاں سے 1990ء میں میکینکل انجنیئر بن کر نکلے۔ اگلے دس سال کراچی میں انجنیئرنگ اور میڈیا کے مختلف اداروں میں گزار کر یکم جنوری 2001ء کے دن نئی صدی کے آغاز پر اسلام آباد منتقل ہو گئے۔[1]

ادبی خدمات

ترمیم

عبیداللہ کیہر نے اپنے تحریری سفر کا آغاز 1982ء میں ہمدرد نونہال میں بچوں کے لیے لاہور کا سفرنامہ لکھ کر کیا تھا، جبکہ ان کی پہلی ادبی تحریر 1987ء میں وادی سوات کی خزاں میں کے نام سے روزنامہ مشرق میں شائع ہوئی۔دوسری تحریر چین کا سفرنامہ تھا جو اکتوبر 1987ء میں روزنامہ جسارت میں سندھ سے سنکیانگ تک کے عنوان سے شائع ہوا۔نومبر 1987ء میں ہفت روزہ اخبارِ خواتین میں چین کا مفصل سفرنامہ قراقرم کے پار کے نام سے قسط وار شائع ہوا۔ 1988ء سے ماہنامہ رابطہ میں پاکستانی شہروں کے تعارفی سلسلے ایک شہر ایک انجمن کے تحت مضامین لکھنے کا آغاز کیا جو اگلے بارہ سال جاری رہا۔ 2000ء میں روزنامہ امت میں ایران کا سفرنامہ کیسپیئن کی چاہ میں قسط وار شائع ہوا۔ 2007ء میں روزنامہ امت میں سیاحتی کالموں کا سلسلہ سفر کہانیاں کے نام سے لکھنا شروع کیا جو 2011ء تک جاری رہا۔ 2012ء روزنامہ جسارت میں بنگلہ دیش کا سفرنامہ دریاؤں کے دیس میں قسط وار شائع ہوا۔ 2013ء میں روزنامہ جسارت میں ترکی کے سفرنامے یارِ من ترکی کی اشاعت کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ نومبر 2014ء تک جاری رہا۔ اکتوبر 2017ء سے ڈان نیوز کی ویب گاہ پر اردو بلاگ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو تا حال جاری ہے۔[1]

تصانیف

ترمیم
  • سفر کہانیاں
  • شہر کہانیاں
  • کیسپیئن کنارے
  • قراقرم کے پار
  • دریاؤں کے دیس میں
  • یہ دریا میرے دریا ہیں
  • یار من ترکی
  • کراچی جو اک شہر تھا

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب عبید اللہ کیہر، کراچی جو اِک شہر تھا، فضلی سنز کراچی، 2019ء، پسِ ورق