عجائب گھر، لاہور
لاہور میوزیم 1894ء میں تعمیر کیا گیا جو جنوبی ایشیاء کے چند اہم ترین تاریخ کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لاہور میوزیم کو مرکزی میوزیم بھی کہا جاتا ہے اور یہ لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کا ناول کئم لاہور میوزیم کے گرد گھومتا ہے۔ 2005ء میں اس میوزیم میں تشریف لانے والے سیاحوں کی تعداد تقریباً 250،000 سے زیادہ تھی۔[1]
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس میوزیم میں مغل اور سکھوں کے دور کی نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس میوزیم میں چند آلات موسیقی بھی رکھے گئے ہیں، اس کے علاوہ قدیم زیورات، کپڑا، برتن اور جنگ و جدل کا ساز و سامان شامل ہیں۔ یہاں قدیم ریاستوں کی یادگاریں بھی ہیں جو سندھ طاس تہذیب کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بدھا دور کی یادگاریں بھی ہیں۔ بدھا کا ایک مجسمہ جس کو نروان بدھا کا نام دیا جاتا ہے اس میوزیم کی سب سے مشہور یادگار تصور کی جاتی ہے۔ 2004ء میں نوبواکی تاناکا جو پاکستان میں جاپانی سفیر تھے، انھوں نے پہلی بار جاپان کی جامعات کو یہاں اس مجسمے پر تحقیق کے لیے دعوت دی اور پاکستانی حکومت اور جامعات کے شعبہ جات تاریخ کو اس بارے مزید تحقیق سے روشنائی ہوئی، کیونکہ بدھا جاپان میں انتہائی قابلِ احترام تصور ہوتے تھے اور محققین کا کام قابل ستائش ہے۔[2]
لاہور عجائب گھر Lahore Museum | |
---|---|
لاہور عجائب گھر | |
سنہ تاسیس | 1865, بعد میں موجودہ مقام پر 1894 میں منتقل کر دیا گیا موجودہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا: 3 فروری 1890ء |
محلِ وقوع | مال روڈ, لاہور, پنجاب, پاکستان |
متناسقات | 31°34′06″N 74°18′29″E / 31.568226°N 74.308174°E |
نوعیت | علم الآثار, آرٹ گیلری, ورثہ، جدید تاریخ، مذہبی |
حجمِ مجموعات | مہاتما بدھ کے مجسمے, پرانی پینٹنگز |
زائرین | 250,000 سن 2005 |
ویب سائٹ | دفتری ویب سائٹ |
کرڈیارڈ کپلنگ کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کے ناول کِم میں بھی اس عجائب گھر کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔
اس میوزیم میں گندھارا، مغل اور سکھوں کے دور کے نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے، مجسمے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، شامل ہیں۔ یہاں رکھے گئے نوادرات، سِکے اور تصاویر ایک قومی اثاثہ ہیں جن کی کہیں کوئی مثال نہیں گئی۔
اس میوزیم میں چند آلات موسیقی کے علاوہ قدیم زیورات، دیدہ زیب روایتی ملبوسات، پیتل ، کانسی اور مختلف دھاتوں کے برتن، چینی کے ظروف اور جنگ و جدل کا سامان بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
اس میوزیم کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہاں دیگر ممالک سے لائے گئے نوادرات اور تحفے بھی رکھے گئے ہیں جن میں برما، بھوٹان، نیپال، تبت (چین)، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشاء اور افریقہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ ان چیزوں نے اس عجائب گھر کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔
یہاں کی گندھارا گیلری کی بات کریں تو پشاور کے بعد لاہور میوزیم میں گندھارا سلطنت کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے جس میں سِکری، جمال گڑھی سے لایا گیا وہ خوبصورت سٹوپا بھی شامل ہے جو ہال کے وسط میں رکھا گیا ہے۔
یہاں روکھڑی (میانوالی) اور اکھنور (جموں) سے لائے گئے بدھا کے مجسموں کے سر، مختلف حالتوں میں گوتم بدھا کے مختلف مجسمے، قیمتی اور منفرد روزہ کی حالت میں موجود بدھا اور پتھر پر کُندہ مختلف درباری مناظر جیسے شاہکار بھی رکھے گئے ہیں۔
بات کریں دریائے سندھ کی قدیم تہذیبوں کی تو اس گیلری میں وادئ سون، ہڑپہ، موہنجودڑو اور مہر گڑھ سے دریافت کیے گئے شاہکاروں کو جگہ دی گئی ہے۔
مٹی سے بنے چھوٹے پتھر، سکے، زیورات، پانسے، چھکڑے اور کھلونے شامل ہیں۔
منی ایچر تصاویر کی گیلری میں برصغیر کی سب سے بڑی کلیکشن موجود ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں اکٹھی کی گئی۔ اس میں تقریباً ایک ہزار چھوٹی تصاویر شامل ہیں جو سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کی ہیں۔ ان میں فارسی، مغل اور راجپوت کلیکشن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
لاہور میوزیم کی قیام پاکستان گیلری آپ کو کئی برس پیچھے لے جاتی ہے اور مختلف تصاویر اور اخباری تراشوں کے ذریعے آپ کو پاکستان کے قیام کی کہانی یوں سناتی ہے جیسے آپ اسے سامنے دیکھ رہے ہوں۔ بلاشبہ یہاں رکھی گئی کئی تحریریں اور تصویریں آپ کو رلانے کے لیے کافی ہیں۔
میوزیم کی سکہ جاتی گیلری برصغیر کی سب سے بڑی گیلری مانی جاتی ہے جس میں لگ بھگ چالیس ہزار سِکے شامل ہیں۔
یہاں ساتویں صدی قبل از مسیح سے لے کر برصغیر پر حکمرانی کرنے والے تمام خاندانوں کے دور کے سکے شام ہیں جو یقیناً کسی خزانے سے کم نہیں۔
ان کے علاوہ سکھ گیلری، مختلف ثقافتی گیلریاں، تحریک پاکستان گیلری اور ڈاک ٹکٹ گیلری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ پنچ مندری کپورتھلہ کا ماڈل، اشوک چکرا، برما کا سنہری بُدھا، ملکہ وکٹوریہ کا دھاتی مجسمہ، مینار پاکستان کا ماڈل، بدھا کی تصاویر والا ہاتھی دانت، گولڈن ٹیمپل امرتسر اور بادشاہی مسجد لاہور کے ماڈل، سٹوپے اور صوبائی ثقافتی گیلریاں یہاں کی منفرد ترین چیزیں ہیں،
(تحریر و تحقیق: ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "سیاحتی مقامات - حکومت پاکستان" (PDF)۔ 10 جون 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2010
- ↑ نریوان بدھا پاکستان کے محققین کو امداد دلائیں گے — بدھا چینل