عماد فایز مغنیہ
عماد فایز مغنیہ (عربی: عماد فايز مغنية ۔ 7 دسمبر 1962 تا 12 فروری 2008) لبنان کی تنظیم حزب اللہ کے ایک اہم رکن تھے اور حزب اللہ کے بانی ارکان میں سے تھے۔ وہ حزب اللہ کے شعبہ تحفظ (سیکیوریٹی سیکشن) کے صدر بھی رہے ہیں۔ وہ حاج رضوان کے نام سے بھی مشہور رہے ہیں۔ عماد امریکا کے مطلوب ترین افراد میں شامل تھے کیونکہ ان پر مختلف الزام عائد کیے جاتے رہے ہیں مثلاً 1983 میں لبنان میں موجود امریکی افواج پر حملہ کر کے 350 افراد کو ایک ہی دن میں مار دینا اور 1992 میں بیونس آئرس (ارجنٹائن) میں اسرائیلی سفارت خانہ پر بم سے حملہ وغیرہ۔ امریکا نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر پچاس لاکھ روپے کا انعام رکھا تھا۔ انھوں نے حزب اللہ اور حماس کے درمیان مفاہمت میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھیں 12 فروری 2008ء کو دمشق کے قریب ایک بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا جس کا الزام اسرائیل کی تنظیم موساد پر لگایا گیا ہے۔ لبنان سے اسرائیلی افواج کے اخراج اور 2006ء کی لبنان۔ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ کے شعبہ اسلامی مزاحمت میں ان کے کردار کی وجہ سے انھیں اسرائیلی اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ امریکا انھیں ایک نہائت تیز و طرار شخص کے طور پر تسلیم کرتا تھا[4]
عماد فایز مغنیہ | |
---|---|
(عربی میں: عماد مغنية) | |
حزب اللہ Head of Security | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 7 دسمبر 1962ء |
وفات | 12 فروری 2008ء (46 سال)[1][2] |
وجہ وفات | bioavilibility |
مدفن | بیروت |
قاتل | موساد [3]، سی آئی اے [3] |
طرز وفات | قتل |
شہریت | لبنان |
مذہب | اسلام، اثناعشری |
جماعت | فتح (–1984) حزب اللہ |
اولاد | مصطفیٰ ، فاطمہ، جہاد مغنیہ ، فواد، حسن، حسین |
عملی زندگی | |
مادر علمی | امریکن یونیورسٹی بیروت |
پیشہ | عسکری قائد |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، انگریزی ، فرانسیسی |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
حالاتِ زندگی
ترمیمعماد جنوبی لبنان کے مشہور شہر صور (انگریزی: TYRE) میں دسمبر 1962ء میں پیدا ہوئے۔ 1976ء میں انھوں نے یاسر عرفات کی تحریک آزادیِ فلسطین میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جامعہ امریکیہ بیروت(American University of Beirut) میں تعلیم بھی حاصل کی۔ حزب اللہ کی تشکیل میں انھوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور اس کے بانی ارکان میں سے ہونے کے علاوہ اس کے شعبہ مزاحمت اسلامی اور شعبہ تحفظ کے صدر بھی رہے۔ اس دوران میں انھوں نے مختلف ممالک کے خفیہ سفر بھی کیے۔ اسی کی دہائی میں ان کا بنیادی مقصد لبنان سے پہلے امریکی افواج کو نکالنا اور اس کے بعد اسرائیل کے بیس سالہ قبضہ سے جنوبی لبنان کو چھڑانا شامل تھے جن میں وہ کامیاب رہے۔ اس دوران میں ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے۔ وہ عربی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں سے بخوبی واقف تھے اور اپنی خوبصورتی اور خوش لباسی کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ ان کی بنیادی خواہش اسلامی اتحاد بھی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے حماس اور حزب اللہ کے درمیان مفاہمت و روابط میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ مبینہ طور پر ان کا رابطہ القاعدہ سے بھی تھا۔
دہشت گردی کے الزامات
ترمیمان کا بنیادی مقصد لبنان سے امریکی اور اسرائیلی افواج کا اخراج تھا۔ اس کے علاوہ وہ فلسطین کی آزادی کے بڑے حامی تھے اور یاسر عرفات سے ایک زمانے میں رابطہ رکھتے تھے۔ لبنان میں قابض افواج پر حملہ کو امریکا اور اسرائیل نے دہشت گردی کا نام دیا اور ان پر مختلف الزامات بھی عائد کیے جن میں سے کچھ درست اور کچھ غلط ہیں۔ ان پر بنیادی الزامات میں درج ذیل شامل ہیں
- 1976ء سے یاسر عرفات کے ساتھ تحریک آزادی فلسطین میں عملی حصہ لیا۔
- 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں امریکا اور اسرائیل کے اہداف پر حملے کیے۔
- 1983ء میں بیروت میں امریکیوں پر حملہ میں 60 سے زیادہ امریکیوں کو قتل کیا۔
- 1983ء ہی میں ایک ٹرک بم دھماکا کے ذریعے 241 امریکیوں کو قتل کیا۔
- جون 1985ء میں یورپ سے ایک امریکی طیارہ اغوا کیا۔
- 1992ء میں ارجنٹائن میں اسرائیلی سفارت خانہ پر حملہ کیا۔
- 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں متعدد امریکیوں کو اغوا کیا جن میں سے کچھ قتل ہوئے جس میں امریکی افواج کا ایک کرنل بھی شامل تھا۔
شہادت
ترمیمعماد ایف بی آئی اور سی آئی اے کی بہت مطلوب افراد کی فہرست میں ہونے کے علاوہ اسرائیلی موساد کا بھی ہدف تھے۔ 12 فروری 2008ء کو شام کے دار الحکومت دمشق کے قریب ایک کار بم کے ذریعے اسرائیلی تنظیم موساد نے انھیں شہید کر دیا۔[5] حزب اللہ اور حماس کے افراد کو اسی طریقہ سے شہید کرنے کے سابقہ واقعات کو اسرائیل نے تسلیم کیا ہے مگر فی الحال عماد کی شہادت کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اسرائیلی جاسوسی تنظیم موساد کے ایک سابقہ سربراہ دنی یاتوم کے مطابق وہ اس زمین کے خطرناک ترین دہشت گردوں میں سے تھے۔[6] ان کی شہادت پر اسرائیل اور امریکا،[7] نے خوشی کے بیانات جبکہ شام، لبنان[8] فلسطین اور ایران[9] نے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔
بیرونی روابط
ترمیم- مغنیہ پر بی بی سی کی رپورٹ
- یوٹیوب پر عماد مغنیہ کی شہادت پر حزب اللہ کا ردعمل اور عماد کا جنازہ۔ بزبان عربی یوٹیوب پر
- الجزیرہ کی خبر یوٹیوب پر
- حزب اللہ اور تحریک امل کا ردِ عمل۔ بزبان اردو[مردہ ربط]
- مغنیہ پر طیارہ کے اغوا کا الزام۔ بزبان اردوآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ rewardsforjustice.net (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://fr.jpost.com/servlet/Satellite?cid=1202742147314&pagename=JPost/JPArticle/ShowFull
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Imad-Mugniyah — بنام: Imad Mugniyah — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ https://www.washingtonpost.com/world/national-security/cia-and-mossad-killed-senior-hezbollah-figure-in-car-bombing/2015/01/30/ebb88682-968a-11e4-8005-1924ede3e54a_story.html
- ↑ Wright, Robin, Sacred Rage, Simon & Schuster, 2001, p.270
- ↑ 13 فروری 2008ء REUTERS
- ↑ واشنگٹن پوسٹ
- ↑ بی بی سی
- ↑ بی بی سی
- ↑ بی بی سی