عَمرو بن عَبسہ سُلمی قدیم الاسلام جلیل القدر صحابی رسول اور اصحاب صفہ میں شامل ہیں علامہ ابونعیم اصبہانی نے عمرو بن عبسہ کو اصحابِ صفہ میں شمار کیا ہے ۔[1] عمرو بن عَبسہ کی کنیت ابو نجیح ، والد کا نام عَبسہ بن خالد، قبیلۂ بنو سُلیم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ عمرو بن عبسہ ۔ خود فرماتے ہیں : رأیتني ربع الإ سلام مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، لم یسلمِ قبلي إلا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبوبکر وبلال حتی لا یدری متی أسلم الاٰ خر ۔ میں اپنے تئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چوتھے نمبر کا مسلمان سمجھتا ہوں ، مجھ سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر و بلال رضی اللہ عنہما کے علاوہ کوئی اسلام نہیں لایا اور دوسرے کے اسلام لانے کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔عمرو بن عبسہ غزوۂ بدر میں شریک رہے ہیں اور جنگِ یرموک میں ایک دستہ کے امیر رہ چکے ہیں ۔ [2] مولیٰ کعب کا بیان ہے کہ میں نے ان کی زندگی میں کسی کے سامنے اس راز کا افشا نہیں کیا ۔

عمرو بن عبسہ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی

نام و نسب ترمیم

عمرونام، ابونجیح کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، عمرو بن عبسہ بن عامر بن خالد بن غاضرہ بن عتاب بن امراؤالقیس، ماں کانام رملہ بنت دقیعہ تھا، یہ خاتون قبیلہ بنی حزام سے تھیں، عمرو مشہور صحابی حضرت ابوذرغفاریؓ کے ماں جائے بھائی تھے۔ [3]

اسلام ترمیم

عمرو ابتدا ہی سے سلیم الفطرت تھے؛ چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں جب کہ سارا عرب بت پرستی میں مبتلا تھا، ان کو اس سے نفرت تھی اور بت پرستوں کو گمراہ سمجھتے تھے، بعثت نبوی ﷺ کی خبر پاکر مکہ آئے،اس وقت آنحضرت مشرکین کی معاندانہ روش کے باعث علی الاعلان دعوت اسلام نہیں کرتے تھے، اس لیے عمرو بن عبسہؓ نے خفیہ طور پر آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا، آپ کون ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا نبی ہوں، پوچھا نبی کیا چیز ہے؟ فرمایا مجھ کو اللہ نے بھیجا ہے،پوچھا کن تعلیمات کے ساتھ؟ فرمایا :صلہ رحمی،بت شکنی اور توحید کے ساتھ، پوچھا کسی اور نے بھی اس دعوت کو قبول کیا ہے؟فرمایا:ہاں ایک غلام اور ایک آزاد نے،اس وقت صدیق اکبرؓ اور سرخیل عشاق بلالؓ آپ کے ساتھ تھے، اس سوال وجواب کے بعد عرض کیا ،مجھ کو بھی خدا پرستوں کے زمرہ میں داخل کیجئے میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گا، فرمایا ایسی حالت میں جب کہ ہر چہار جانب سے میری مخالفت کے طوفان اٹھ رہے ہیں، میرے ساتھ کیسے رہ سکتے ہو اس وقت تم وطن واپس جاؤ،میرے ظہور کے بعد پھر چلے آنا۔ [4]

وطن کی واپسی ترمیم

غرض مشرف باسلام ہونے کے بعد حسبِ ارشاد نبوی وطن لوٹ گئے اور آنے جانے والوں سے برابر حالات کا پتہ چلاتے رہے، اتفاق سے یثرب کے کچھ اشخاص آپ کے یہاں آگئے،ان سے پوچھا کہ جو شخص مدینہ آیا ہے، اس کا کیا حال ہے انھوں نے کہا کہ لوگ جوق درجوق اس کی طرف ٹوٹ رہے ہیں، اس کی قوم نے تو اس کو قتل کر دینے کا تہیہ کر لیا تھا، مگر قتل نہ کرسکی، اب وہ مدینہ آگیا ہے۔

ہجرت ترمیم

اس خبر کے بعد مدینہ روانہ ہو گئے اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا تعارف کرایا، آپ نے فرمایا، میں نے تم کو پہچان لیا تم مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے تھے پھر کچھ صوم وصلوۃ کے مسائل وغیرہ دریافت کرکے وہیں مقیم ہو گئے۔ [5]

غزوات ترمیم

غزوہ بدر، غزوہ احد،صلح حدیبیہ اور غزوہ خیبر وغیرہ کے معرکے وطن کے زمانہ قیام میں ختم ہو چکے تھے، سب سے پہلا غزوۂ جس میں ابورہم شریک ہوئے فتح مکہ ہے،[6] غزوہ طائف میں بھی شرکت کا ایک روایت سے پتہ چلتا ہے،ان کا بیان ہے کہ طائف کے محاصرہ میں آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایک تیر چلائے گا، اس کے لیے جنت میں ایک دروازہ کھل جائے گا، یہ بشارت سن کر میں نے 16 تیر چلائے،[7] غزوہ طائف کے علاوہ اور کسی غزوۂ کی شرکت کی تصریح نہیں ملتی ؛لیکن اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد بھی بعض غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔

وفات ترمیم

زمانہ وفات صحت کے ساتھ نہیں بتایا جا سکتا، ارباب سیر قیاساً آخر عہدِ عثمانی بتاتے ہیں؛چنانچہ صاحب اصابہ نے محض اس قیاس پر کہ یہ عہد عثمانی کے فتنوں اور معاویہ کے زمانہ میں کہیں نظر نہیں آتے ان کا زمانہ وفات آخر عہد عثمانی لکھا ہے،[8] لیکن مسند احمد بن حنبل میں سلیم بن عامر سے ایک روایت ہے کہ امیر معاویہ اور رومیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کی رو سے امیر معاویہؓ ایک مدت معینہ تک اس پر حملہ نہیں کرسکتے تھے ؛چنانچہ یہ اس حساب سے حملہ کی تیاریاں کرکے چلے کہ رومیوں کی سرحد تک پہنچتے پہنچتے میعاد ختم ہو جانے کے ساتھ ہی فورا ًحملہ کر دیا جائے، اس وقت حضرت عمرو بن عبسہؓ پکارتے پھرتے تھے کہ وعدہ وفا کرو، دھوکا نہ دو۔ [9]

اس روایت سے یہ احتمال ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ کے زمانہ تک زندہ تھے؛لیکن اگر صاحب اصابہ کا قیاس صحیح مانا جائے تو یہ واقعہ اس عہد کا ہوگا، جب امیر معاویہؓ عہد عثمانی رضی اللہ عنہ میں شام کے گورنر تھے؛کیوں کہ اس زمانہ میں بھی ان کے اور رومیوں کے درمیان نبرد آزمائیاں ہوتی رہتی تھیں۔

فضل و کمال ترمیم

عمرو بن عبسہؓ کو گو صحبت نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضیاب ہونے کا بہت کم موقع ملا، تاہم جو لمحات بھی میسر آئے ان میں خوشہ چینی سے غافل نہ رہے؛چنانچہ مدینہ آنے اور اپنا تعارف کرانے کے بعدسب سے پہلا سوال آنحضرت سے یہی کیا کہ" علمنی ما علمک اللہ "آپ کو جو اللہ نے سکھایا ہے وہ تھوڑا مجھے بھی سکھائیے، اسی لیے اس قلیل مدت کے باوجود آپ کی 48 روایتیں کتب حدیث میں موجود ہیں،[10] اور آپ کے رواۃ کے نام حسب ذیل ہیں، عبداللہ بن مسعود، سہیل بن سعد، ابوامامہ باہلی، معدان بن ابی طلحہ، ابو عبد اللہ صنابجی، شرجیل بن سخط وغیرہ۔ [11]

حوالہ جات ترمیم

  1. حلیۃ الأولیاء: 2/16
  2. حلیۃ الأولیاء: 2/17
  3. (مستدرک حاکم:3/616)
  4. "مقامات وأضرحة الصحابة في حمص... تحف فنية رائعة تعكس تطور الفن الإسلامي خلال مختلف العصور"۔ zamanalwsl.net (بزبان عربی)۔ 20 نوفمبر 2013۔ 23 أكتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. (مسلم:1/307،308،ومسند احمد بن حنبل:5/112)
  6. (اصابہ:5/5)
  7. (اصابہ:5/2)
  8. (مسند احمد بن حنبل:4/113،بہ روایت ترمذی میں بھی ہے)
  9. (اصابہ:5/2)
  10. (تہذیب الکمال:291)
  11. (تہذیب التہذیب :8/69)