غلام جیلانی برق
ڈاکٹر غلام جیلانی برق (ولادت: 26 اکتوبر 1901ء - وفات: 12 مارچ 1985ء) معروف عالم دین، ماہر تعلیم، دانشور، مصنف، مترجم اور شاعر تھے۔
غلام جیلانی برق | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 26 اکتوبر 1901ء بسال، ضلع اٹک |
وفات | 12 مارچ 1985ء (84 سال)[1] اٹک |
شہریت | برطانوی ہند (1901–1947) مملکت پاکستان (1947–1956) پاکستان |
دیگر نام | برق[2] |
عملی زندگی | |
پیشہ | الٰہیات دان ، معلم ، دانشور ، مصنف ، مترجم ، شاعر ، محقق |
درستی - ترمیم |
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی وجہ شہرت بر صغیر پاک و ہند میں مروجہ گمراہ کن اسلامی عقائد و خیالات کے خلاف قلم اٹھانا تھا ۔ جس کے سلسلے میں ان کی کتاب دو قرآن ، دو اسلام بہت شہرت پائیں ۔ اس کوشش میں انہو ں نے دین میں بدعت، گمراہی کی وجہ بننے والے تمام ماخذ کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کیا۔ جس کی زد ميں سب سے پہلے اسلامی جھوٹی روایات و احادیث آئیں۔ جس کی وجہ سے ان پر منکر حدیث ہونے کا لیبل لگا ۔ اسی وجہ سے خطہ برصغیر کے دیگر مکتب فکر جن کی بنیاد جھوٹی احادیث پر تھیں، ان کے خلاف قلم آرا ہو گئیں اور ان کی تصانیف کے جواب میں صفحات کالے کر کے اس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ انھوں نے غلام جیلانی برق کے موقف کا جواب دے دیا ہے۔ برق نے دیگر مختلف موضوعات پر بھی چالیس کے لگ بھگ کتابیں تحریر کیں جن میں فلسفیان اسلام، مؤرخین اسلام، حکمائے عالم، فرمانروایان اسلام، دانش رومی و سعدی، بھائی بھائی، ہم اور ہمارے اسلاف اور میری آخری کتاب خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ وہ مجلہ ترقی اٹک کیمبل پور کے ایڈیٹر بھی رہے۔
ابتدائی زندگی و خاندان
ترمیمآپ 26 اکتوبر 1901ء کو کنٹ، پنڈی گھیب ضلع کیمبل پور (موجودہ، اٹک) میں پیدا ہوئے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اسناد فضیلت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں ابن تیمیہ پر انگریزی میں تحقیقی مقالہ لکھ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کے شعبے سے وابستگی اختیار کی۔
خاندان
ترمیمڈاکٹر غلام جیلانی برق تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک کے ایک گاؤں کنٹ میں ملک محمد قاسم شاہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ملک محمد قاسم شاہ کا تعلق اعوانوں کی مشہور گوت ”صدکال“ سے تھا۔ وہ محکمہ مال میں پٹواری تھے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو مذہبی اور اسکولی تعلیم دلوائی۔ ان کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے تین (مولوی نورالحق علوی، پروفیسر غلام ربانی عزیز اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق) نے اپنے علمی اور ادبی مشاغل کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں شہرت پائی۔ مولوی نورالحق علوی اور پروفیسر غلام ربانی عزیز دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ ڈاکٹر علام جیلانی برق نے بھی ابتدائی تعلیم اسلامی مدرسوں میں پائی لیکن اس کی تکمیل نہ کر سکے اور کالج اور جامعات میں جا پہنچے۔ ایم اے عربی اور فارسی میں کیا جبکہ ابن تیمیہ کے حالات و افکار پر انگریزی میں مقالہ لکھا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ یہ مقالہ ہی ان کی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے۔ جس کا اردو ترجمہ چھپ چکا ہے، لیکن اصل انگریزی متن ابھی تک شائع نہیں ہوا۔
شجرۂ نسب
ترمیمڈاکٹر برق صاحب نے خود اپنا شجرہ سرکاری دستاویزات سے اخذ شدہ اس طرح بیان کیا ہے:
غلام جیلانی برق بن محمد قاسم شاہ بن حسین شاہ بن محمد حسن بن محمد اعظم بن محمد غازی بن محمد جمیل
(اس شجرہ نسب کے ساتھ ڈاکٹر برق صاحب نے یہ نوٹ لکھا:
”یہ شجرہ اگست 1888ء کو حضرت والد صاحب نے ضلع کے سرکاری کاغذات سے تیار کرایاـ قوم اعوان ہے۔ محمد جمیل سے اوپر کے نام نہیں مل سکے“[3]
تعلیم و تربیت
ترمیم” | قبلہ والد صاحب نے 1906 میں مجھے گاؤں کے لوئر پرائمری اسکول میں داخل کیا۔ اسکول میں ایک ہی ماسٹر تھے۔ نام دیوان چند، وہ اسکول سے بھاگے والے اور نالائق بچوں کو بہت پیٹتے تھے میں ان میں سر فہرست تھا۔[4] | “ |
1908ء تا 1917ء اورنگ آباد کے دینی مدرسے میں زیر تعلم رہے۔ 1917ء کے بعد پنڈی س رہال میں مولوی عبد الرحمان کے مدرسہ میں داخل ہوئے۔ 1918ء میں چکوال کے دار العلوم میں چلے گئے۔ 1918ء کے اواخر میں دار العلوم نعمانیہ لاہور میں داخل ہوئے لیکن کچھ ہی دنوں میں دار العلوم حمیدیہ لاہور میں چلے گئے۔[5] 1919 میں منشی فاضل کیا۔
نظریات پر رد عمل و تنقید
ترمیم” | "دو اسلام" کی زبان غیر سنجیدہ ، غیر علمی اور سخت جانبدارانہ ہے ! میرا یہ موقف کہ احادیث کی تدوین و تسوید اڑھائی سو برس بعد ہوئی تھی ، سر و پا غلط ہے۔ میں نے اس کی تلافی تو کر دی ہے کہ "تاریخ تدوین حدیث" لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ حضور پرنور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیاتِ مبارکہ ہی میں تقریباً 40 ہزار احادیث ضبط ہو چکی تھیں۔[6] |
“ |
—غلام جیلانی برق، کا مکتوب بنام مسعود احمد صاحب مصنف تفہیم اسلام بجواب دو اسلام، 16-مئی-1971ء[7] |
دو اسلام کے جواب میں سینکڑوں کتب تحریر کی گئیں۔ جن میں سے مولانا سرفراز خان صفدر نے صرف ایک اسلام، مفتی احمد یا خان نعیمی نے ایک اسلام، حافظ محمد گوندلوی نے دوامِ حدیث، مولانا مسعود احمد بی۔ ایس۔ سی نے تفہیم اسلام بجواب دو اسلام اس کتاب میں مسعود احمد صاحب نے "دو اسلام" کے ایک ایک پیرا کا علاحدہ علاحدہ جواب لکھا ہے۔ غیر مصدقہ قیاس آرائیاں ہیں کہ اس کتاب (تفہیم اسلام بجواب دو اسلام) کو پڑھ کر غلام جیلانی برق صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور کتاب تاریخ تدوین حدیث لکھی۔
نظریات سے رجوع
ترمیمغلام جیلانی برق نے اپنی پہلی تین کتب، ایک اسلام، دو اسلام اور دو قرآن سے رجوع کر لیا تھا یا نہیں، اس پر ان کی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی بحث جاری ہے۔ رجوع کے حامی ان کے کچھ مکتوبات جو جیلانی برق کی حیات میں مختلف کتب میں شائع ہوئے، جن میں انھوں نے اپنی کتب کے مندرجات سے رجوع کیا ہے۔ اور دیگر کتب میں ان کتب میں پیش کردہ نظریات کے برخلاف دوسرا نقطہ نظر پیش کیا، جیسے تدیون حدیث اور محدثین کی زندگی پر کتاب لکھ کر۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں دو معروف کالم نویسوں کے درمیان بھی یہ بحث جاری ہے۔
- 26 اپریل 2015:جاوید چوہدری نے اپنے ایک کالم ”دو اسلام“ میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا تعارف کرایا اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔[8]
- اوریا مقبول جان نے جوابی کالم میں یہ ثابٹ کرنے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنے نظریات سے رجوع کر چکے تھے۔
- 28 اپریل 2015:جاوید چوہدری نے جوابی کالم ”کیا ڈاکٹر برق واقعی نادم تھے؟“ لکھا۔[9]
- 1 مئی 2015: جاوید چوہدری نے اپنے کالم ”دو اسلام (مزید)“ میں براہ راست تو ڈاکٹر برق کا حوالہ نہیں دیا مگر لگتا تھا کہ اُن کے خیال میں ڈاکٹر برق نے معاشرے سے ڈر کر اپنی باتوں سے رجوع کیا۔[10]
- اوریا مقبول جان نے جوابی کالم میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے اُن خطوط کا حوالہ دیا جو انھوں نے مسعود بی اے صاحب کو لکھے تھے اور اپنے نظریات سے رجوع کرنے کے بارے میں لکھا تھا۔
- 3 مئی کو جاوید چوہدی نے اوریا مقبول جان کے کالم کے جواب در جواب میں ایک کالم میں نادم ہوں لکھا۔[11] اس کالم میں جاوید چوہدری نے اوریا مقبول جان پر تنقید کی اور اسی اصرار کے ساتھ بحث ختم کرنے کا اعلان کیا کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اپنے پبلیشر کو کتاب دو اسلام کی اشاعت سے منع نہیں کیا تھا۔
- ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے رجوع کرنے کی افواہ کی بنیاد کسی معروف رسالے یا کتاب کی بجائے محض اس خط کو بنایا گیا ہے جو ڈاکٹر صاحب نے مسعود بی اے کے نام اپنے گھر پہ حملہ ہونے کے بعد لکھا تھا۔ واقعات کے مطابق ایک گروہ نے ان کے گھر پر ہلہ بول دیا تھا اور ان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ موقف سے رجوع کریں اور قرین قیاس ہے کہ انھوں نے اپنے خاندان کی سلامتی کو خطرے میں دیکھ کر ایسا کیا ہو گا [12]
تصانیف
ترمیمبرق ایک کثیر التصانیف مصنف تھے۔ ان کی کچھ تصانیف ذيل ہیں ،
|
|
تراجم
ترمیم- سلاطین اسلام (لین پول کی کتاب کا ترجمہ، اس کتاب کا دوسری طباعت فرمانروایان اسلام کے نام سے ہوئی)
- حکمائے عالم (جمال الدین ابو الحسن علی القفلی کی کتاب تاریخ الحکما کا ترجمہ)
- معجم البلدان (یاقوت حموی کی کتاب کا ترجمہ و تلخیص)
آخری ایام
ترمیم12 مارچ 1985ء کو ڈاکٹر غلام جیلانی برق اٹک میں وفات پاگئے اور قبرستان عیدگاہ میں مدفون ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.rekhta.org/authors/ghulam-jilani-barq
- ↑ برق بے تاب (ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا منظوم کلام) | مرتب = سید شاکرالقادری | مصنف ربط =https://www.facebook.com/shakirulqadree | صفحہ =0.-146 | باب =نظم بہ عنوان: میں اور وہ | ناشر =القلم ادارہ مطبوعات، اٹک | تاریخ اشاعت = 2004ء
- ↑ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے خطوط | مرتب = ڈاکٹر عبد العزیز ساحر | صفحہ =231 | ناشر =حسنین پبلی کیشنز، لاہور | سال اشاعت = 1999ء
- ↑ میری سترویں سالگرہ| ڈاکٹر غلام جیلانی برق| ”قافلہ“ لاہور| یکم نومبر 1978: ص33
- ↑ میری داستان حیات| ڈاکٹر غلام جیلانی برق| باردوم| 1989| ص:44 تا46
- ↑ "قابل تجدید توانائی فورم، بخش فاﺅنڈیشن نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی'"۔ flahi-idare۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2015
- ↑ مکتوب بنام مسعود احمد صاحب مصنف تفہیم اسلام بجواب دو اسلام، طبع دوم صفحہ 575 تا 579
- ↑ کالم، جاوید چوہدری دو اسلام
- ↑ کالم، جاوید چوہدری، کیا ڈاکٹر برق واقعی نادم تھے؟
- ↑ کالم، جاوید چوہدری، دو اسلام (مزید)
- ↑ میں نام دہوں
- ↑ خضر حیات خان (12-Aug-2019)۔ "ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے ساتھ ناانصافی کیسے ہوئی؟"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 26-May-2023