غلام رسول رضوی
محدث کبیر شارح بخاری علامہ غلام رسول رضوی، ایک عالم دین اور حدیث کے استاد تھے انھوں نے حدیث کی مشہور کتاب صحیح بخاری کی شرح "تفہیم البخاری" کے نام سے لکھی[1] ۔آپ نے دو ادارے جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور اور جامعہ سراجیہ رسولیہ رضویہ قائم کیے۔ [2]جامعہ رضویہ مظہر اسلام اور جامعہ سراجیہ رسولیہ رضویہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے. آپ کے تلامذہ اندرون و بیرون ملک خدمت دین میں مصروف عمل ہیں۔
غلام رسول رضوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1338ھ؍ 1920ء پسیا امرتسر |
وفات | 14 نومبر، 2001ء فیصل آباد |
شہریت | پاکستانی |
مذہب | اسلام |
مکتب فکر | بریلوی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ رضویہ مظہر اسلام |
استاذ | عطا محمد بندیالوی |
متاثر | مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی ، مفتی محمد علی نقشبندی |
درستی - ترمیم |
ولادت:
ترمیمعلامہ غلام رسول رضوی ۲۳ اپریل ۱۹۲۰ء / ۱۳۳۸ھ کو ضلع امرتسر کے گاؤں پسیا میں پیدا ہوئے
آپ کے والدماجد چوہدری نبی بخش جٹ واہلہ دین دار اور زمین دار تھے۔اُن کی آرزو تھی کہ میرا بیٹا عالمِ دین بنے ، ان کی دعاؤ ں کا اثر تھا کہ ان کے صاحب زادے عالم ہی نہیں، عالم گر بنے[3]
تعلیم:
ترمیمآپ نے مڈل تک سکول کی تعلیم حاصل کی اور سنگھ پورہ ضلع گورداس پور سے 1935 میں مڈل کا امتحان پاس کیا[4]
سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے قرآنِ پاک اور چارسال تک صرف و نحو اور فقہ و اصولِ فقہ کی کتابیں امرتسر میں پڑھیں۔ پھر تقریباً ۱۹۳۶ء کوجامعہ فتحیہ، اچھرہ لاہور آگئے ،جہاں استاذ الاساتذہ ملک التدریس مولانا عطا محمد چشتی گولڑوی رحمہ اللہ تعالیٰ سے سراجی، ملا حسن، مسلم الثبوت، تفسیر بیضاوی ، جلالین، میبذی، مقامات، حماسہ، متنبی، حسامی اور اقلیدس وغیرہ کتب پڑھیں اور محسنِ اہلِ سنت، استاذ الکل مولانا علامہ مہر محمد اچھروی رحمہ اللہ تعالیٰ سے میرزاہد، ملا جلال،رسالہ قطبیہ، غلام یحییٰ شرح چغمینی، متنِ متین، عبدالغفور، شرح عقائدِ نسفی، شرح عقائدِ جلالی، صدرا، شمسِ بازغہ، امورِ عامہ، خیالی، شفا ء ابن سینا، توضیح وتلویح، ہدایہ اخیرین، قاضی مبارک اور حمداللہ وغیرہ کتب کے علاوہ دورۂ حدیث شریف کی کتابیں بھی پڑھیں[5] اور ۱۳۵۹ھ/ ۱۹۴۰ء میں سندِ فراغت سے نوازے گئے۔
آپ کی سند الفراغ پر شیخ الاسلام علامہ غلام محمد محدّثِ گھوٹوی،استاذ الکل مولانا علامہ مہر محمد اچھروی ، علامہ جان محمد ، علامہ محمد اکرم اور مہتمم جامعہ فتحیہ اچھرہ ، لاہور کے دستخط موجود ہیں ۔ شیخ الاسلام علامہ غلام محمد محدث گھوٹوی علیہ الرحمہ آپ کے دادا اُستاذ ہیں۔[4]
دورۂ حدیث شریف:
ترمیمجن دنوں (۱۹۴۱ ء تا ۱۹۴۷ء)آپ جامعہ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری، شرقپور میں پڑھا رہے تھے، انہی ایام میں رمضان المبارک کی تعطیلات میں حضرت محدثِ اعظم مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ بریلی شریف گئےجو ان دنوں جامعہ رضویہ مظہر اسلام، بریلی شریف کے صدر مدرس تھے اور ان سے بخاری شریف، مسلم شریف، ترمذی شریف اور نسائی شریف پڑھیں اور سند ِحدیث حاصل کی۔ یوں آپ نے دو دفعہ دورۂ حدیث شریف کیا۔ [6]
اساتذہ:
ترمیمآپ کے اساتذہ میں سر فہرست جن شخصیات کا نام آتا ہے وہ درج ذیل ہیں:
محدثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری(م: 1382ھ/ 1962ء)
ملک التدریس مولانا عطا محمد چشتی گولڑوی (1420ھ/1999ء)
استاذالکل مولانا مہر محمد اچھروی (1374ھ/1954ء)
مولانا محمد شریف امرتسری
مفتیٔ اعظم ہند علامہ شاہ محمد مصطفیٰ رضا نوری (1402ھ/1982ء) علیہم الرحمہ
تدریس:
ترمیمشارحِ بخاری علامہ غلام رسول رضوی نے یُوں توزمانۂ طالبِ علمی ہی میں تدریس کا آغاز کر دیا تھا، لیکن فراغت کے بعد با قاعدہ آغاز ۱۹۴۰ء میں کیا۔ آپ نے ایک سال جامعہ حنفیہ فریدیہ، بصیر پور(1940ء)، چھ سال (1941ء تا 1947ء) جامعہ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ، ایک سال جامعہ رضویہ ہارون آباد(1951-1952)، ایک سال جامعہ احیاء العلوم، بورے والا(1952-1953)اور چار سال دارالعلوم حزب الاحناف لاہور (1953-1956ء) میں تدریس کے فرائض انجام دیے[7]
جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کی بنیاد اور تدریس:
ترمیمحزب الاحناف لاہور میں تدریس کے دوران آپ جامع مسجد خراسیاں میں امامت و خطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے ۔ ان ہی دنوں میں محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری دربار داتا صاحب پر حاضری دے کر ٹانگے پر اسٹیشن جا رہے تھے، لوہاری دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے فرمایا: اس جگہ ایک رضوی ہونا چاہیے۔ نور محمد صاحب نے بتایا: علامہ غلام رسول رضوی ایک مدرسہ بنانا چاہتے ہیں ، حالانکہ اس وقت یہ خیال بھی نہ تھا۔آپ نے پو چھا :کیا یہ صحیح ہے ؟ حضرت علامہ رضوی نے عرض کیا: جی ہاں! ایک ولی کامل کی زبان سے نکلے ہوئے یہ کلمات رنگ لائے اور۱۲ شوال ۱۳۷۵ھ/ مئی۱۹۵۶ء کو جامعہ نظامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتداء ًمولانا حاجی محمد علی(خطیب جامع مسجد تکیہ سادھواں ، لاہور)، قاری محمد حنیف ملتانی ، مولانا محمد یار سیالوی ، چودھری نظام دین ٹھیکیدار ، شیخ محمد شریف وغیرہم گیارہ افراد کی میٹنگ ہوئی اور ابتدائی چندہ ایک سو اسی روپے ہوا۔ تین روزہ جلسے کا اہتمام کیا گیا ، جس میں محدث اعظم پاکستان، شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی ، مناظرِ اسلام مولانا محمد عمر اچھروی اور سلطان الواعظین ابو النور مولانا محمد بشیر کوٹلی لوہاراں رحمہم اللہ تعالیٰ نے خطاب کیا ۔ بعد ازاں اہل محلہ نے بھی تائید کی ۔انجمن کے صدر پیکر ِ اخلاص حاجی فیض محمد قادری رحمہ اللہ تعالیٰ قرار پائے اور ابتدائی طور پر چالیس طلبہ نے داخلہ لیا ۔
جامعہ نظامیہ رضویہ کی ابتدا جامع مسجد خراسیاں میں کی گئی۔ مسجد سے متصل باغیچی نہال چند، جو نشے کے عادیوں کا اڈہ اور پہلوانوں کا اکھاڑہ تھی، یہاں ٹینٹ لگا کر علوم دینیہ کی تدریس کا آغاز کیا گیا ۔بعد ازاں مشکلا ت اور مصائب کا طویل سلسلہ شروع ہوا، جن سے عہدہ برآ ہونا حضرت علامہ رضوی علیہ الرحمہ کے فولادی اعصاب کا ہی کام تھا ۔
جامعہ نظامیہ رضویہ میں سرکارِ دوعالم ﷺ کی زیارت:
ترمیمشرفِ ملّت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: حضرت استاذگرامی کو چند مرتبہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ جامعہ نظامیہ رضویہ دفتر کے سامنے تہ خانے کی سیڑھیوں کے پاس سیدِ عالمﷺ تشریف فرماہیں۔ حضرت محدثِ اعظم پاکستان آپ کے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں، استاذ گرامی کی زبان پر بے ساختہ یہ کلمات جاری ہوگئے : ’’عَقِیْدَتُنَا أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یَعْلَمُ کُلَّ ذَرَّۃٍ ذَرَّۃٍ۔(ہمارا عقیدہ ہے کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ ایک ایک ذرے کو جانتے ہیں)‘‘یہ سُن کر حضور پُر نور ﷺ خاموش رہے۔ خواب حضرت محدثِ اعظم پاکستان کے سامنے بیان کیاتو انہوں نے فرمایا : یہاں علمی چرچا ہوگا۔
کچھ عرصہ بعد جامع مسجد خراسیاں کی جنوبی دیوار کے پاس حضور اقدس ﷺ کی زیارت ہوئی ، آپ مسجد کی طرف رخِ انور کرکے کھڑے ہیں۔ حضرت استاذ گرامی تقریباً تین فٹ کے فاصلے پر آپ کے پیچھے دست بستہ کھڑے ہیں، اچانک پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں تو نیم کے درخت کے پاس موٹے بان کی ایک چار پائی بچھی ہوئی ہے اور اس پر حضرت مولانا مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ مسجد خراسیاں میں خطابت کا پہلا سال تھا اور اس وقت جامعہ نظامیہ کا تصور بھی نہ تھا ۔
ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت محدثِ اعظم،نبیِ کریم ﷺ کی مبارک آنکھوں میں سُرمہ لگا رہے ہیں۔اس کی تعبیر حضرت محدث اعظم قدس سرہ نے یہ بیان کی کہ یہاں سے حضور اکرم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہورہا ہے[8]
جامعہ رضویہ مظہر اسلام میں درسِ حدیث :
ترمیمیکم شعبان ۱۳۸۲ھ/ ۱۹۶۲ء کو محدثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ہوا تو جامعہ رضویہ مظہر الاسلام، فیصل آباد میں حدیث شریف پڑھانے کے لیے نگاہِ انتخاب علامہ غلام رسول رضوی پر مرکوز ہوگئی۔ چنانچہ آپ نے جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور کا انتظام اپنے لائق و فائق شاگردمفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا اور خود جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کی مسندِ حدیث پر فائزہوئے اور ۱۹۹۰ء تک، 28 سا ل یہاں درسِ حدیث شریف دینے کا شرف حاصل کیا۔[9]
دارالعلوم سراجیہ رسولیہ رضویہ کی بنیاد اور تدریس:
ترمیمشیخ الحدیث علامہ رضوی نے یکم محرم الحرام ۱۴۰۶ھ/۱۶ ستمبر۱۹۸۵ء کو اعظم آباد ، فیصل آباد میں کم و بیش دوکنال زمین کے رقبے پردارالعلوم سراجیہ رسولیہ رضویہ کی بنیاد رکھی[10] اور تا دمِ آخریں (۱۴ نومبر ۲۰۰۱ء) اسی مدرسہ میں تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہے۔
آپ نے تمام عمر علومِ دینیہ کی تدریس میں صرف کر دی۔ ۶۰ سال سے زائد عرصہ مسندِ تدریس کو زینت بخشی ۔ شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے خطابات میں فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت سرِفہرست دو ہی مدرس ہیں:[11]
۱۔ملک التدریس مولانا علامہ عطا محمد چشتی گولڑوی
۲۔استاذ الافاضل مولانا علامہ غلام رسول رضوی[12]
محدث کبیر علیہ الرحمہ کا انداز تدریس:
ترمیممفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی علیہ الرحمہ اپنے استاذِ گرامی کا اندازِ تدریس یوں بیان فرماتے ہیں:
آپ کا طریقۂ تدریس یہ تھا کہ ہر فن کی کم از کم ایک کتاب ضرور یاد کروادیتے اور پھر اس فن کی دیگر کتب طلبہ کو مطالعہ کرکے از خود بیان کرنے کا پابند بناتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے تلامذہ تدریس کے میدان میں خود اعتمادی رکھتے ہیں اور نفس کتاب کو بجز مطالعہ بھی بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں،البتہ قیل و قال کے لیے حواشی و شروح کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔آپ کا کمال یہ تھا کہ کتاب کی طویل عبارت کا مطلب طالبِ علم کو مختصر تقریر میں سمجھا دیتے، پھر اس سے بیان بھی کرواتے اور تحت اللفظ ترجمہ اِس طرح کرواتے کہ ترجمہ کے ساتھ سبق کی تقریر منطبق ہوتی چلی جاتی۔
آپ کا اندا زِ تقریر درسی کتب پر آپ کے حواشی سے واضح طور پر اخذ کیا جاسکتا ہے ، چنانچہ مُسلّم الثُّبوت پر آپ کا مطبوعہ حاشیہ اِس لیے مقبول ِ عام ہے کہ وہ کتاب کو مختصر اور جامع الفاظ میں حل کرتاہے ۔ سلم العلوم ،قاضی مبارک اور کنز الدقائق پر آپ کے حواشی غیر مطبوعہ موجود ہیں اور ان مشکل کتب کا بہترین حل ہیں[13]
شیخ الحدیث مفتی گل احمد خان عتیقی زید مجدہ محدث کبیر علیہ الرحمہ کی تدریس کے بارے میں رقم طراز ہیں:
آپ فقہ، اصولِ فقہ، حدیث،اصول ِ حدیث، تفسیر، اصولِ تفسیر، صرف، نحو، بیان، معانی ، ادب عربی اور ریاضی، الغرض تمام علوم عقلیہ و نقلیہ میں ید ِ طولیٰ رکھتے تھے۔ آپ ہر فن کے مشکل سے مشکل ترین مسئلہ اور کتاب کونہایت عام فہم اور ایسے جامع انداز میں سمجھاتے کہ غبی سے غبی تر طالب علم آسانی سے سمجھ کر ذہن نشین کر لیتا ۔
مباحث ِ احادیث ہوں یا رُموزِ تفسیر ، فقہی جزئیات ہوں یا منطق وفلسفہ اور علمِ کلام کی موشگافیاں...ہر فن میں آپ کو عبور حاصل تھا ، ہر فن میں آپ کامنفرد اور جامع انداز تھا۔[14]
بیعت وخلافت:
ترمیمغلام سول رضوی نے بریلی قیام کے دوران میں الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کے دست پر شرف بیعت حاصل کیا۔ اور جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت ملی محدث اعظم پاکستان سے بھی اجازت بیعت حاصل تھی۔
تلامذہ
ترمیمآپ کے ہم عصر علما ، بلکہ آپ کے نامور اساتذہ سے بھی آپ کا حلقۂ درس بہت وسیع تھا۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے جو اندرون ِ ملک اور بیرون ملک اپنے اپنے انداز میں درس و تدریس، تصنیف و تالیف، وعظ و تبلیغ سے دین ِ حق کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں ، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آ پ کی دین ِ حق کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی اور آپ کے فیو ض و برکات سے اطراف و اکنافِ عالم کے ہزاروں مسلمانوں کے دل متبرک اور مستفید ہورہے ہیں۔
چند معروف تلامذہ کے اسما یہ ہیں:-
پیر طریقت مولانا قاضی محمد فضلِ رسول رضوی، سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدثِ اعظم پاکستان ، فیصل آباد
مفتی ٔ اعظم پاکستان مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، سابق ناظم اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ
مولانا مفتی محمد امین ،ناظم اعلیٰ جامعہ امینیہ رضویہ محمد پورہ، فیصل آباد
مولانا محمد سعید احمد نقشبندی ،سابق خطیب مسجد حضرت داتا گنج بخش،لاہور
مولانا محمد حبیب اللہ برادر حضرت فقیہِ اعظم مولانا محمد نور اللہ نعیمی ، بصیر پور
مولانا حاجی پیر عبدالواحد نقشبندی ، جہلم شریف
شیخ الحدیث مولانا محمد گل احمد عتیقی، شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ، لاہور
مولانا پیر محمدافضل قادری ، نیک آباد شریف، گجرات
مولانا غلام محمد سیالوی، سابق ناظم شعبہ امتحانات تنظیم المدارس پاکستان
مولانا الحاج محمد علی نقشبندی بانی جامعہ رسولیہ شیرازیہ، لاہور
مولانا محمدعبدالوہاب صدیقی ابن مناظر اسلام مولانا محمد عمر اچھروی ،لاہور
مناظر اسلام مولانا محمد عبدالتواب صدیقی،سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ
ابو النصرمولانا منظور احمد ، جامعہ فریدیہ، ساہیوال
شیخ الحدیث مولانا پیر محمد چشتی، بانی جامعہ غوثیہ معینیہ،پشاور
مولانا پیر محمد عبدالرشید قادری، سمندری شریف
مناظرِ اسلام مولانا محمد سعید احمد اسعد،فیصل آباد
مولانا قاضی محمد مظفر اقبال رضوی، ٹیکسالی دروازہ، لاہور
مولانا مفتی محمد عبدالعلیم سیالوی، شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ، لاہور
شیخ المناطقہ مولانا مفتی محمد سلیمان رضوی، راولپنڈی
مولانا مفتی علی احمد سندیلوی، سابق شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ داتا دربار، لاہور
شرفِ ملت علامہ محمد عبدالحکیم شر ف قادری، سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور
مولانا انوار الاسلام، سابق مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ وبانی مکتبہ حامدیہ، لاہور
مولانا معین الدین شافعی ، فیصل آباد
مولانامحمد عبد القادرشہید، جامعہ قادریہ رضویہ، فیصل آباد
مولانا سید مزمل حسین شاہ ، ناظم اعلیٰ جامعہ حسینیہ ،لاہور
مولانا حافظ محمد احسان الحق برادر اکبر مولانا انوار الاسلام، سابق مدرس جامعہ رضویہ مظہر الاسلام ، فیصل آباد
استاذ الاساتذہ مولانا محمد باقر ، سابق صدرمدرس دار العلوم حنفیہ فریدیہ ، بصیر پور
امام الصرف و النحو مولانا محمد ہاشم علی ، مدرس دار العلوم حنفیہ فریدیہ ، بصیر پور
مولانا صاحب زادہ غلام نقشبند، سجادہ نشین آستانہ عالیہ کھریپڑ شریف، ضلع قصور
مولانا سید محمد عبداللہ شاہ، بانی ابرار العلوم ، ملتان
مولانا مفتی ہدایت اللہ پسروری، ناظم اعلیٰ ھدایت القرآن ، ملتان
مولانا غلام یسین ، امریکہ
مولانا محمد طیب، انگلینڈ
مولانا محمد بوستان، انگلینڈ
مولانا سید معظم الدین ، خواجہ آباد ، میانوالی
مولانا صاحب زادہ عبدالمالک، ناظم اعلیٰ جامعہ اکبریہ، میانوالی
مولانامیاں محمد ناظم ، ناظم اعلیٰ جامعہ صدیقیہ ، میانوالی
مولانا غلام محمد ، مدرس جامعہ امدادیہ مظہریہ ، بندیال شریف
مولانا محمد بشیر احمد ، ساہیوال
مولانا غلام رسول ، ایس۔ پی۔ ضلع ساہیوال
مولانا مفتی غلام نبی ، ناظم اعلیٰ جامعہ حنفیہ رضویہ ، عارف والا، ضلع پاکپتن شریف
مولانا فقیر محمد ،پاکپتن شریف
مولانا میاں خیر محمد خلفِ رشید جناب مولانا محمد صدیق، بھور شریف
مولانا سید نذر حسین شاہ ، صدر جمعیت علما ءِ پاکستان ، فیصل آباد
مولانا مفتی محمد گل رحمٰن قادری ، انگلینڈ
استاذ العلما مولانا بشیر احمد سیالوی جہلمی، انگلینڈ
مولانا غلام نبی نقشبندی، ناظمِ اعلیٰ جامعہ نقشبندیہ، گکھڑ
مولانا معین الدین ، ناظم اعلیٰ جامعہ نقشبندیہ، ڈسکہ
مولانا علی محمد، ناظم اعلیٰ جامعہ فیض العلوم ، وہاڑی
مولانا صاحب زادہ سید عابد حسین شاہ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ علی پور شریف
مولانا سید عباس علی شاہ ، فاروق آباد
مولانا محمد فضل رسول ، ناظم اعلیٰ جامعہ رضویہ ، سرگودھا
مولانا صاحب زادہ بشیر الدین ، معظم آباد شریف ضلع سرگودھا
مولانا مفتی محمد اشفاق ، خطیب مرکزی جامع مسجد، خانیوال
مولانا شیخ احمد،ناظم اعلیٰ جامعہ شمسیہ نظامیہ ، چنیوٹ
مولانا سید عباس علی شاہ، مدرس جامعہ رضویہ، ماڈل ٹاؤن ، لاہور
مولانا علامہ محمد طفیل، بانی جامعہ شمس العلوم ، کراچی[15]
بیعت و خلافت
ترمیمبریلی شریف میں قیام کے دوران مفتیٔ اعظم ہند مولانا الشاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں نوری رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے اور ۱۹۴۵ء کو مدینہ شریف میں مفتیٔ اعظم ہند نے شرفِ خلافت سے مشرف کیا اورفرمایا: مَیں حضرت والدِ محترم (امام احمد رضا بریلوی) کے تمام اوراد و وظائف اور تعویزات کی اجازت دیتا ہوں۔آپ کو محدثِ اعظم پاکستان علیہ الرحمہ سے بھی اجازتِ بیعت حاصل تھی[16]
زیارتِ حرمین شریفین
ترمیمآپ کو ۱۹۴۵ء میں زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل ہوئی[16]
مختلف مناصب
ترمیمحضور محدث کبیر علیہ الرحمہ مختلف اوقات میں درج ذیل مناصب پر فائز رہے:
ترمیم۱۔صدر جماعت اہل سنت پاکستان ، صوبہ پنجاب
ترمیم۲۔ممبر قومی کمیٹی حکومت پاکستان
ترمیم۳۔ رکن اسلامی نظریاتی کونسل
ترمیم۴۔ممبر قومی کمیٹی برائے نصاب تعلیم
ترمیمتالیفات
ترمیمغلام رسول رضوی نے بعض کتب کا ترجمہ اور بعض درسی کتب پر گرانقدر حواشی تحریر کیے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
- 1۔ ترجمہ جواہر البحار شریف
- 2۔ جامع کرامات اولیاء
- 3۔ حاشیہ مسلم الثبوت
- 4۔ حاشیہ کنز الدقائق
- 5۔ حاشیہ سلم العلوم
- 6۔ تفہیم البخاری
علاوہ ازیں اور بھی کئی کتب پر حواشی تحریرکئے ۔
وفات
ترمیمشیخ المحدثین علامہ مولانا غلام رسول رضوی کا انتقال 27 شعبان المعظم 1422ھ 14 نومبر، 2001ء بدھ کے روز ہوا، ان کا مزار فیصل آباد میں مرکزی جامع العلوم سراجیہ رسولیہ رضویہ (ٹرسٹ) میں ہے۔
حوالہ جات:
ترمیم- ↑ شرف قادری، علامہ محمد عبد الحکیم۔ نور نور چہرے۔ لاہور: مکتبہ قادریہ۔ ص ص:281
- ↑ جامعہ نظامیہ رضویہ میں طلبہ کی فراغت کے موقع پر ختم
- ↑ شرفِ ملّت مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری، نور نور چہرے، مکتبہ قادریہ ،لاہور، ص:۲۸۱
- ^ ا ب شرف قادری، علامہ عبدالحکیم۔ عظمتوں کے پاسباں۔ مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص شرفِ ملّت مولانا عبد الحکیم شر ف قادری علیہ الرحمہ نے اپنی تصنیف’’ عظمتوں کے پاسباں ‘‘کے آخر میں محدث کبیر علیہ الرحمہ کی اسناد کے عکس دیے ہیں،تاریخ کی معلومات وہاں سے لی گئیں ۔
- ↑ علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ لاہور: مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص ۲۸۱۔ ۲۸۲
- ↑ نور نور چہرے ،محمد عبد الحکیم شرف قادری ،صفحہ 284،مکتبہ قادریہ لاہور
- ↑ علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص 283
- ↑ علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ لاہور: مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص 288،289
- ↑ علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ لاہور: مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص 287
- ↑ ایم طفیل۔ تذکرہ حضور محدث کبیر، چمنستان حضور محدث کبیر۔ فیصل آباد۔ ص 65
- ↑ علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص 287
- ↑ علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص 287
- ↑ "شیخ الحدیث نمبر"۔ مجلہ النظامیہ: صفحہ 32
- ↑ گل احمد خان عتیقی، شیخ الحدیث مفتی۔ "علامہ غلام رسول رضوی ایک نادر روزگار شخصیت"۔ مجلہ النظامیہ شیخ الحدیث نمبر۔ جلد 3 شمارہ 7: 41
- ↑ علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ مکتبہ قادریہ لاہور۔ ص 289–293
- ^ ا ب علامہ عبدالحکیم شرف قادری، شرف ملت۔ نور نور چہرے۔ لاہور۔ ص 286
- ↑ "شیخ الحدیث نمبر"۔ مجلہ النظامیہ: صفحہ:32