غلام رسول رضوی
محدث کبیر غلام رسول رضوی، ایک عالم دین اور حدیث کے استاد تھے انھوں نے حد یث کی مشہور کتاب صحیح بخاری پر کام کر کے شرح تفہیم البخاری لکھی[1] اور جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور قائم کیا، [2]
غلام رسول رضوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1338ھ؍ 1920ء سیسنہ امرتسر |
وفات | 14 نومبر، 2001ء فیصل آباد |
شہریت | پاکستانی |
مذہب | اسلام |
مکتب فکر | بریلوی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ رضویہ مظہر الاسلام |
استاذ | عطا محمد بندیالوی |
متاثر | مفتی عبدالقیوم ہزاروی ، مفتی محمد علی نقشبندی |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمغلام رسول رضوی ابن چودھری نبی بخش 1338ھ؍ 1920ء میں امرتسر کے مضافات میں واقع ایک گاؤں ”سیسنہ“ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا پیشہ زمین داری تھا۔
تعلیم
ترمیمشیخ الحدیث غلام رسول نے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ قران مجید صرف ونحو اور اصول فقہ کی ابتدائی کتب امرتسر کی مسجد خیر الدین میں واقع مدرسہ نعمانیہ میں پڑھیں۔ بعد میں جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں علامہ مہر محمد سے فنون کی بقیہ کتب پڑھیں اور یہیں سے دورۂ حدیث کرنے کے بعد سند فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ پھر صحاح ستہ کی تکرار کی غرض سے لاہور سے بریلی شریف پہنچے اور محدث اعظم پاکستان محمد سردار احمد قادری فیصل آبادی سے دوبارہ کتب احادیث مکمل طور پر پڑھیں۔
تدریس
ترمیمدار العلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت کے بعد آپ واپس لاہور آئے اور شرقپور شریف میں میاں شیر محمد کے درس تدریس کا آغاز کیا۔ یہاں چھ سال تک علوم اسلامیہ کی تدریس کی۔ آپ نے ہارون آباد، بصیر پور اور بورے والا میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ چار سال لاہور کی قدیمی درس گاہ حزب الاحناف میں منصب تدریس پر فائز ہے۔ جامع مسجد خراسیاں اندرون لوہاری دروازہ لاہور میں خطیب مقرر ہوئے۔ مسجد ملحقہ ایک باغ (باغیچی نہال چند) میں ایک اسلامی درس گاہ جامعہ نظامیہ رضویہ کے نام سے ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی۔
جامعہ رضویہ مظہر اسلام
ترمیمجامعہ نظامیہ رضویہ نے ابھی اپنی زندگی کے چھ سال ہی طے کیے تھے کہ محدث اعظم محمد سردار احمد رضوی کی وفات ہو گئی۔ جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد غلام رسول حضرت محدثِ اعظم پاکستان کے شاگرد ہونے کے علاوہ داماد بھی اس لیے آپ نے جامعہ نظامیہ رضویہ نظامت اپنے قابل مخلص اور محنتی تلمیذ رشید علامہ مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس (اہلسنت) پاکستان کے سپرد کی اور خود جامعہ رضویہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے فرائض انجام دینے لگے۔
بیعت و خلافت
ترمیمغلام رسول رضوی نے بریلی قیام کے دوران میں الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کے دست پر شرف بیعت حاصل کیا۔ اور جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت ملی محدث اعظم پاکستان سے بھی اجازت بیعت حاصل تھی۔
تلامذہ
ترمیممولانا غلام رسول سے کثیر تعداد نے فیض حاصل کیا۔ جن میں سے چند مشہور علما کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
- عارفِ ربانی قبلہ عالم پیر سید عابد حسین شاہ صاحب فخر لاثانی علی پوری
- مولانا حافظ احسان الحق، فیصل آباد
- مولانا مفتی امین فیصل آباد
- مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی لاہور
- مولانا انوار الاسلام (مکتبہ حامدیہ) لاہور
- مولانا معین الدین شافعی، فیصل آباد
- مولانا عبد القادر ،فیصل آباد
- مولانا سید مزمل حسین شاہ، لاہور
- * علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری لاہور
- مولانا گل احمد عتیقی، فیصل آباد
- مولانا الحاج محمد علی، لاہور
تالیفات
ترمیمغلام رسول رضوی نے بعض کتب کا ترجمہ اور بعض درسی کتب پر گرانقدر حواشی تحریر کیے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
- 1۔ ترجمہ جواہر البحار شریف
- 2۔ جامع کرامات اولیاء
- 3۔ حاشیہ مسلم الثبوت
- 4۔ حاشیہ کنز الدقائق
- 5۔ حاشیہ سلم العلوم
- 6۔ تفہیم البخاری
علاوہ ازیں اور بھی کئی کتب پر حواشی تحریرکئے ۔
وفات
ترمیمشیخ المحدثین علامہ مولانا غلام رسول رضوی کا انتقال 27 شعبان المعظم 1422ھ 14 نومبر، 2001ء بدھ کے روز ہوا، ان کا مزار فیصل آباد میں مرکزی جامع العلوم سراجیہ رسولیہ رضویہ (ٹرسٹ) میں ہے۔[3][4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Marfat Library"۔ 17 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2016
- ↑ جامعہ نظامیہ رضویہ میں طلبہ کی فراغت کے موقع پر ختم
- ↑ نور نور چہرے ،محمد عبد الحکیم شرف قادری ،صفحہ 281،مکتبہ قادریہ لاہور
- ↑ تعارف علما اہل سنت ص 2235، محمد صدیق ہزاروی،مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور