غلام غوث ہزاروی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
سابق ناظم اعلیٰ مجلس احرار پاکستان۔ پورانام مولانا غلام غوث ہزاروی ہے۔
غلام غوث ہزاروی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1896ء ضلع مانسہرا |
تاریخ وفات | 4 فروری 1981ء (84–85 سال) |
شہریت | پاکستان |
جماعت | جمیعت علمائے پاکستان مجلس احرار الإسلام |
مناصب | |
رکن قومی اسمبلی | |
برسر عہدہ 1972 – 10 جنوری 1977 |
|
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند مظاہر علوم سہارنپور |
استاذ | محمود حسن دیوبندی ، انور شاہ کشمیری ، شبیر احمد عثمانی |
تلمیذ خاص | محمد سرفراز خان صفدر |
پیشہ | محقق ، مصنف ، لیکچرر ، عالم |
تحریک | عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمآپ 1896ء کو بفہ تحصیل ضلع مانسہرہ ہزارہ ڈویژن میں موضع سجی کوٹ میں پیدا ہوئے۔۔ آپ کے والد کا نام حکیم سید گل ہے اس کا تعلق ڈڈم مداخیل کالا ڈھاکہ (مانسہرہ) سے تھا جو غنڈاخیل قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ 1914ء میں مڈل کا امتحان پاس کیا اسی دوران ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرتے رہے اعلیٰ تعلیم کے لیے 1915ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے ۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کے فیضان صحبت سے فیضیاب ہوئے ۔ 1337ھ میں علامہ انور شاہ کشمیری سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔
تعلیم
ترمیمابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی۔ پرائمری کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی اسی طرح انھوں نے 1910ء میں ورنیکولر مشرقی یعنی اردو مڈل اسکول بفہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا، بعد از اں 1915ء کو دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ پھر 1337ھ بمطابق 1919ء میں علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی، عالم دین مولانا محمد رسول خان ہزاروی اور مولانا محمد ابراہیم بلیاوی سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔
تدریس
ترمیمفراغت کے بعد دار العلوم دیوبند میں بطور معین المدرس تدریس کی۔ دیوبند میں مولانا نے اپنی خدمات 2 سال تک بغیر کسی تنخواہ کے انجام دیں جب مولانا ہزاروی دیوبند میں پڑھا رہے تھے کہ اس اثناء میں مدرسہ کے انتظامیہ کو حیدرآباد دکن کے حکمران میر محمد عثمان کی طرف سے درخواست موصول ہوئی جس میں حیدرآباد دکن میں بدعات کے خلاف دو عالم بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی 1922ء مولانا ہزاروی اور مولانا محمد یوسف جونپوری کو وہاں بدعات کے خلاف کام کرنے کے لیے روانہ کیا گیا مولانا ہزاروی نے وہاں پہنچ کر گدوال نامی قصبہ میں غیر شرعی فعل کو روکنے کے لے مسجد میں علاقہ کے لوگوں کو جمع کیا اور ان کو توحید و رسالت پر درس دیا جس کی وجہ سے وہ لوگ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے لگے بدعات سے دور ہوکر بتوں کیخلاف ہو گئے مولانا کے کہنے پر وہاں پر موجود بتوں کو توڑ کر لوگوں نے اس جگہ مسجد تعمیر کی 1926ء میں مولانا ہزاروی واپس بفہ آئے اور 1927ء میں انجمن اصلاح الرسوم بفہ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی، بفہ میں بھی تدریس کرتے رہے،
اہم کارنامے
ترمیم- حیدرآباد، دکن کی ایک ہندو ریاست "سمستان گدوال" میں 2 سال تک تبلیغی خدامت انجام دیں۔
- تحریک ختم نبوت 1953ء کے دوران میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ اپنے ایک خادم کے ساتھ بھیس بدل کر خانقاہ سراجیہ آئے۔ اس وقت خانقاہ سراجیہ کے سجادہ نشین مولانا محمد عبد اللہ ثانی ؒ تھے۔ انھوں نے اپنے ایک مرید، جو بھلوال ضلع سرگودھا سے تعلق رکھتے تھے، ان کے ایک دور دراز کھیتوں کے ڈیرہ پر مولانا کی رہائش کا انتظام کر دیا۔ پولیس اور فوج آپ کی گرفتاری کے لیے جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ’’مجھے سخت پریشانی لاحق تھی اور اپنی حالت پر سوچتا تھا اگر اس حالت میں گولی سے مارا جاتا ہوں تو یہ بزدلی کی موت ہے اور اگر گرفتاری کے لیے ظاہر ہوتا ہوں تو مرکز کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ یہ پریشانی تین دن تک رہی اور تیسرے دن مجھے کچھ نیند اور کچھ بیداری کی حالت میں حضورِ انورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارتِ مبارک نصیب ہوئی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:
’’غلام غوثؒ! تم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لیے قربانی دی ہے، پریشان مت ہو، کوئی تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘
جب میری آنکھ کھلی تو طبیعت میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور کامل اطمینان پیدا ہو گیا۔ بعد میں بہت سی تکالیف بھی آئیں لیکن مجھے قطعاً پریشانی نہیں ہوئی اور اس کے بعد ہی میں فوج اور پولیس کو جُل دے کر نکل گیا اور ایسے اوقات بھی آئے کہ میرے پیچھے فوج اور پولیس والے نماز پڑھتے رہے لیکن پہچان نہ سکے۔ یہ سب حفاظت الٰہی اور بشارتِ نبویصلی اللہ علیہ وسلم کا نتیجہ تھا۔ 1932ء میں مجلس احرار اسلام سے وابستہ ہوئے اور مرزائیت کے خلاف تحریک میں زبردست حصہ لیا۔
- 1940ء میں تحریک آزادی میں نمایاں کام کیا۔ کئی سال قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
- 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لیا۔
- 1956ء میں جمیعت علمائے اسلام کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے۔
- 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لا اور 1962ء میں عائلی قوانین کے خلاف ڈٹ گئے۔
- 1970ء کے الیکشن مین قومی اسملی کے ارکان منتخب ہوئے۔
تصانیف
ترمیم- اسلام میں غلامی،
- مسلمہ اصول جنگ
- جواب محضر نامہ
سوانح حیات
ترمیم- مولانا غلام غوث ہزاروی ، مذہبی و سیاسی خدمات ، ایک تحقیقی دستاویز ، (سہیل احمد اعوان)
- سوانح مجاہد ملت مولانا غلام غوث ہزاروی (عبد القیوم حقانی)
- مجاہد ملت بطل حریت بابائے جمعیت مولانا غلام غوث ہزاروی (حافظ مومن خان عثمانی)
مخالفت
ترمیمعلامہ مشرقی اور ابو الاعلی مودودی کی سخت ترین مخالفت کرتے تھے۔