فاروق عادل

پاکستانی محقق و انشور

ڈاکٹر فاروق عادل (15 ستمبر 1962ء لیاقت پور ضلع رحیم یار خان)مصنف، تحقیقی صحافی، تاریخی محقیق اور کالم نگار ہیں۔

فاروق عادل
معلومات شخصیت
پیدائش 15 ستمبر 1962ء (62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لیاقت پور ،  ضلع رحیم یار خان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے ،  پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محقق ،  مصنف ،  صحافی ،  کالم نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش و تعلیم ترمیم

فاروق عادل ضلع جھنگ کے ایک معروف زمیندار اور علمی گھرانے میں 15 ستمبر 1962ء کو لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے۔ سرگودھا میں ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے جامعہ کراچی سے بی اے آنرز، ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا۔ پاکستان اور بیرون پاکستان میں ان کی شناخت جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ایک معروف دانشور کی ہے۔

تحقیق ترمیم

تحقیق کے شعبے میں ان کی اہم ترین خدمت وہ تحقیق ہے جس کے ذریعے ان اسباب کا تعین کیا گیا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو جمہوریت کا خاتمہ کر کے شخصی آمریت کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ اس موضوع پر یہ دنیا میں پہلی تحقیق ہے جس کے ذریعے نظریہ ابلاغی اضطراب (میڈیا ملائس تھیوری) میں ترمیم ہوئی اور رائے عامہ کی تشکیل کے ضمن میں دو نئے عوامل اس تھیوری میں شامل ہوئے۔ تیسری دنیا کے جمہوری معاشروں میں جمہوریت کے فروغ کے ضمن میں اس تحقیق کو عالمی سطح پر نہایت اہم قرار دیا گیا اور اسے سراہا گیا۔[1]

ادبی خدمات ترمیم

ڈاکٹر فاروق عادل نے ایک ادیب کی حیثیت سے عالمی سطح پر پاکستان کی ادبی سفارت کاری میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے پلیٹ فارم سے ان کی تجویز پر ایک بین الاقوامی اردو جرنل ادبیات انٹرنیشنل کا اجرا ہوا جس کے یہ بانی ایڈیٹر تھے۔ اس حیثیت میں انھوں نے دنیا کے پانچ براعظموں کے اردو کے ادیبوں اور دانش وروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ادبی سفیروں کا تقرر کر کے پاکستان کے سوفٹ امیج کو اجاگر کیا۔

تحقیقی صحافی، کالم نگار اور ابلاغ عامہ کے ایک استاد کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات 37 برس طویل اور نہایت شاندار ہیں۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے الیکٹرانک صحافت کا عملی کورس مرتب کر کے کئی برس تک طالب علموں کو تربیت دی۔ ان کے ہزاروں شاگرد اس وقت میڈیا انڈسٹری میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ قومی زبان کے نفاذ کے سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد صدر ممنون حسین نے انھیں ایوان صدر میں اردو کے نفاذ کی ذمے داری سونپی۔ ڈاکٹر صاحب یہ ذمے داری بھرپور طریقے سے انجام دے کر سرخرو ہوئے۔[2] اسی حیثیت میں انھوں نے ایوان صدر کے اہم مقامات کے نام قومی مشاہرین سے منسوب کرنے کا عمل بھی کامیابی سے مکمل کیا، اس سے قبل ان مقامات کو انگریزی ناموں سے پکارا جاتا تھا۔

تصنیفات ترمیم

ڈاکٹر فاروق عادل کی متعدد تحقیقی اور ادبی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں پاکستان کی بھولی بسری تاریخ ہم نے جو بھلا دیا قومی اور سیاسی کرداروں کے شخصی خاکے جو صورت نظر آئی[3] اور امریکا کا سفر نامہ ایک آنکھ میں امریکا شامل ہیں۔ ان کی تقریبا ایک درجن کتابیں زیر اشاعت ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم


حوالہ جات ترمیم

  1. "جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کی راہ میں چٹان: سیلیوٹ ٹو یو مشاہد اللہ خان"۔ NayaDaur Urdu۔ 2021-02-21۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2023 [مردہ ربط]
  2. "Author index"۔ IEEE۔ 2003۔ doi:10.1109/grid.2003.1261719۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2023 
  3. ارشاد محمود (2018-04-14)۔ "جو صورت نظر آئی"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2023