فتح طرابلس 1289ء
فتحِ طرابلس یا سقوط طرابلس یا معرکہ طرابلس ان سب سے مراد طرابلس کی 1289ء میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہے، جو مملوک سلطنت کی جانب سے سلطان سیف الدین قلاوون کی قیادت میں ہوئی تھی۔
تاریخی پس منظر
ترمیمسنہ 589ھ / 1193ء کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد شام کے بعض ساحلی شہر صلیبیوں کے زیر اقتدار باقی رہ گئے تھے۔ طرابلس، شام کا سب سے بڑا آخری شہر تھا جو صلیبیوں کے اقتدار میں باقی تھا، بلکہ شام میں قائم صلیبی حکومت کے چار اہم مراکز میں سے سب آخری مرکز تھا۔[1][2] جس وقت ایوبی سلطنت کو صلیبیوں کے خلاف طاقت وفوج جمع کرنے کی ضرورت تھی تو اسی زمانے میں صلاح الدین ایوبی کی اولاد اور ان کے بھائی سیف الدین کے درمیان اختلاف ہو گیا، یہاں تک سلطان سیف الدین کی وفات تک صلیبیوں نے مصر اور شام میں پے در پے تین حملے کر چکے تھے۔ پھر یہاں تک کہ 626ھ / 1229ء میں محمد طواعیہ نے فریڈرک دوم، مقدس رومی شہنشاہ کے ہاتھ پر بیت المقدس سے دستبردار ہو گیا، اسی طرح الاشرف موسی شرف الدین اور المعظم عیسی شرف الدین کے مابین بھی شام اور جزیرہ نما عرب کی سرحدوں سے متعلق اختلاف رونما ہوا اور حکومت کے یہ اختلاف اس قدر بڑھتے اور سخت ہوتے گئے کہ بالآخر ایوبی سلطنت کا زوال ہو گیا۔ سلطنت کے اسی زوال کے عرصہ میں منگول طاقت بڑھ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے مشرقی وسطی خطہ حملہ کر دیا۔ لوئی ہشتم شاہ فرانس کے بیٹے لوئی نہم شاہ فرانس نے ان حالات سے فائدہ اٹھایا اور ساتویں صلیبی جنگ کے نام سے جانی جانے والی تاریخ کی ایک نئی صلیبی جنگ کی تیاری شروع کر دی۔
ساتویں صلیبی جنگ مصر میں ہونے والی بڑی صلیبی جنگوں میں سے آخری جنگ ثابت ہوئی، جہاں مملوکوں کی سلطنت ابھر رہی تھی، جنھوں نے منگولوں کو شکست دی تھی۔ بالآخر سلطنت مملوک (مصر) کے ہاتھوں آخری صلیبی جنگجؤوں کا بھی خاتمہ ہو گیا اور پورے مشرق وسطی پر مملوک سلطنت کے پرچم لہرانے لگے۔
نقشے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مصلح خضر (2014-01-01)۔ جذور الاستبداد و الربيع العربي (بزبان عربی)۔ Al Manhal۔ ISBN 9796500145907۔ 10 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "زلزال فتح طرابلس الشام وتصدع الكيان الصليبي في الشام"۔ www.alukah.net (بزبان عربی)۔ 2017-07-06۔ 4 أغسطس 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2019