فرحت احساس (1952ء کو پیدا ہوئے)۔ وہ عصر حاضر کے ایک معروفاردو شاعر، صحافی اور مترجم ہیں۔ انھوں نے بڑے پیمانے پر سماجی و ثقافتی اور سیاسی مسائل پر لکھا ہے۔

فرحت احساس
پیدائشفرحت اللہ خان
1952ء
محلہ قاضی پورہ جنوب شہر بہرائچ اتر پردیش بھارت
پیشہمصنف
زباناردو
قومیتبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمایم۔اے(انگریزی)،ایم۔اے(اسلامیات)
مادر علمیجامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
موضوعنظم ،غزل
نمایاں کاممیں رونہ چہتا ہوں،
رشتہ دارحمید اللہ خاںوصفی بہرائچی،محمد نعیم اللہ خیالی

حالات

ترمیم

آپ کا اصلی نام ہے فرحت اللہ خان ہے۔ آپ کی   پیدائش 1952ء میں شہر بہرائچ[1] اتر پردیش، بھارت کے ایک مشہور خاندان میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام بشارت اللہ خان تھا جو شہر بہرائچ کے مشہور وکیل اور اعزازی جج تھے۔ فرحت احساس نے ابتدائی تعلیم بہرائچ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے (انگریزی)، ایم۔ اے (اسلامیات) کی تعلیم مکمل کی۔ فرحت احساس نے ایک تحقیقی جریدے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کیا ہے جوجامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے اسلامک اسٹڈیز کے ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ ان کی خود کی نوشتہ کتاب کا نام  تصوف اور ہندوستانی تصوف ہے۔

ادبی خدمات

ترمیم

فرحت احساس نے اپنا سفر آزادنہ صحافت کے ساتھ شروع کیا تھا،بعد میں آپ نے اردو کے مشہور روزنامہ قومی آواز نئی دہلی [2] سے وابستہ ہو ئے اور اس کے ادبی ضمیمے کے نگراں کی حیشیت سے تخلیقی صحافت کو فروغ دیا ۔1998ءمیں فرحت احساس نے ایک تحقیقی جریدے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کیا ہے جوجامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے اسلامک اسٹڈیز کے ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے شائع ہونے والے رسالوں اسلام اینڈ دی ماڈرن ایج (انگریزی) اور اسلام اور عصر جدید(اردو)کی ادارت سے وابستہ رہے۔[3] آپ نے شاعری کے علاوہ سماجی ،ثقافتی،سیاسی اور تہذیبی معاملات اور قومی و بین اقوامی انسانی صورت حال پر تقریبن 250 سے زیادہ مضامین لکھے ہیں۔ آپ نے ایک عرصے تک آل انڈیا ریڈیو کے لیے حالات حاضرہ پر تبصرے ،تجزیے اور فیچر بھی لکھے ہیں ۔[3] نعمت بہرائچی اپنی کتاب تذکرہ شعراے بہرائچ میں فرحت احساس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

فرحت احساس صاحب خوش گو،ہونہار اور جدید لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔سنجیدگی،متانت اور زبان کی شستگی آپ کے کلام میں پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ آپ ٹیلی ویزن پر ادبی گفتگو کرتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ بی۔بی۔سی۔ ریڈیو سے بھی آپ کے تبصرے نشر ہو چکے ہیں۔

[4]

پروفیسر وہاب اشرفی فرحت احساس کے بارے میں اپنی کتاب تاریخ ادب اردو جلد 3 میں صفحہ 681پر لکھتے ہیں کہ

فرحت احساس نئے لوگوں میں خاصا امتیاز رکھتے ہیں ان کی علمی استعداد کے ثبوت ملتے رہتے ہیں ۔ان کا مطالعہ وسیع ہے۔اس لیے ان کے شعور کی بالیدگی اکثر موقعوں پر نمایا ہوتی ہے ۔اپنے حلقے اور معاصرین کے درمیان پر وقار نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ان کے علم و کلام کی چھاپ ان نثری تحریروں میں بہت نمایا ہیں۔گاہے گاہے جو مضامین لکھتے ہیں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ان کی غزلوں میں ایک خاص قسم کا تیور پایا جاتا ہے،جو ان کی راہ دوسروں سے الگ کرتا ہے۔لفظوں پر اچھی گرفت ہے اور ان کے جدلیاتی استعمال کے گر سے واقفیت رکھتے ہیں۔پرانے خیالات اور تصورات نئے سانچے پر ڈھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔لہذا ان کے کلام میں تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

[2]

حوالہ جات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم