محمد نعیم اللہ خیالی
ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ کی پیدائش 15 اپر یل 1920ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں خان عبد اللہ کے یہاں ہوئی۔ آپ کے والد محترم شہر کے زمینداروں اور مجاہد آزادی کے صفِ اوّل کے رہنماؤں میں تھے۔ آپ کے گھر میں دینی ماحول تھا ،آٓپ کے والد حضرت شاہ فضل الرحمٰن گنج مُرادآبادیؒ سے بیعت تھے۔ ڈاکڑ خیالی ؔ بعمر 16 سال 1936ء میں شوقیہ طور پر ایک بزرگ حضرت سید مرحوم شاہ پیشاوری ؒ سے سلسلہ قادریہ مجدّدیہ میں بیعت ہو گئے،کتب درسیہ میں خلاصہ کیدانی اور قدوری کا درس بھی ان سے حاصل کیا ۔1938ء میں میں آپ کے شیخ پیشاور میں رحلت کر گئے۔ اگلے سال 1939ء میں ابتدائی عربی و فارسی ادب و طب یونانی کے اُستاد حکیم صاحب بھی انتقال فرما گئے ،جن کا آپ پر گہرا اثر تھا،جس سے آپ محروم ہو گئے ۔اگست 1940ء میں والد محترم کا بھی انتقال ہو گیا اس طرح لگاتار 3 سالوں میں روحانی،علمی اور جسمانی سر پرتوں کا سایہ شفقت سے محروم ہو گئے۔ خیالی صاحب اسکولوں کالجوں کی زندگی سے محروم رہے لیکن علم و ذکاء اورعقل و ادراک کے خالق نے آپ کو وہ استعداد،اہلیت اور عرفان و شعور عطا کیا جس کی بدولت خیالی صاحب روایتی مدرسوں اور رسمی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قدم رکھے بغیر ہائی اسکول سے لے کر ایم۔ اے۔ تک سارے مدارج و مراحل پرائیوٹ امیدوار کی حشیت سے طے کیے ان کے علاوہ منشی کامل ،دبیر کامل ،فاضل طب وغیرہ کے امتحانات بھی نمایاں پوزیشن سے پاس کیے ۔
ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ | |
پیدائش | محمد نعیم اللہ ابن عبد اللہ 15اپریل 1920ء محلہ شہرقاضی پورہ دکھنی بہرائچ، اتر پردیش، ہندوستان |
---|---|
وفات | 31دسمبر1991 بہرائچ، یوپی، انڈیا |
اقامت | محلہ قاضی پورہ دکھنی شہر بہرائچاتر پردیش ہندوستان |
دیگر نام | ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ |
پیشہ | ماہر تعلیم ، ڈاکٹڑ |
وجۂ شہرت | لسانیات ،تصوف ،شاعری |
مذہب | اسلام |
شریک حیات | حامدہ بیگم |
والدین |
|
رشتے دار | وصفی بہرائچی، حمید اللہ خاں،فرحت احساس |
دستخط | |
مضامین بسلسلہ |
ادبی خدمات
ترمیمخیالی صاحب کوعربی ،فارسی،ہندی،اردو،تمل،تیلگو،بنگلہ کے علاوہ روسی ،فرنچ،جرمن،انگریزی، چینی،ترکی اور لاطینی زبانوں میں بھی کافی عبور تھا۔
لسانیات کے علاوہ ایلوپیتھی،طب یونانی،آیورویدک طریقہ علاج میں عملی طور پر زبردست مہارت تھی ،لیکن آپ نے علمی اور ادبی ذوق کی پرورش اور تعلیم و تدریس کے جذبات کے پیش نظر پیشۂمعلمی کا انتخاب کیا اور 1956ء سے 1980ء تک آزاد کالج بہرائچ میں اردو اورعربی کا درس دیتے رہے ۔ آخر میں کچھ وقت کے لیے کسان ڈگری کالج میں بحیسیت پروفیسر اردو تقرر ہو گیا۔ سبکدوش ہونے کے بعد تصنیف و تالیف کے کاموں میں لگ گئے اور "ادارہ لسانیات " اور " ادارۃ المصنفین" کا قیام کیا۔ ڈاکٹر خیالی صاحب کا ایک تاریخی کام حضرت شاہ ابو الحسن زید فاروقی کی فارسی کتاب "مناہیج السّیر "کا اردو ترجمہ بنام "مدارج الخیر" کے کیا جو تصوف کی ایک اعٰلی درجہ کی کتاب ہے اور سلسلہ نقشبندیہ مجدّدیہ کے راہ سلوک پر مستند کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ خیالی صاحب نے لسانیات میں ایک عظیم کام انجام دیا ہے۔ آپ نے "اردو کی بین الااقوامی حیثیت" پر کئی کتابے لکھی ہے۔ خیالی صاحب کے ملک اور بیرون ملک کے ادبی و تنقیدی رسائل و جرائد میں تاعمر مضامین اور مقالے شائع ہوتے رہے جن کا کوئی شمار نہیں۔ آپ بہرائچ سے شائع ہونے والے ماہنامہ "چودھویں صدی" کے با نی اور مدیر تھے ۔
ادبی سخصیات سے رابطہ
ترمیممحمد نعیم اللہ خیالی بہرائچی شہرو ضلع بہرائچ کے مشہور استاد شاعر اور ادیب تھے۔ آپ کے دادا ضامن علی خا ں انیقؔ بہرائچی میر انیس[1] کے ہم عصر شاعر تھے اور صاحب دیوان شاعر تھے۔ آپ کے بھائی عبد الرحمن خاں وصفی ؔ بہرائچی بھی ضلع بہرائچ کے مشہورمشہور استاد شاعر تھے ہونے کے ساتھ افکار وصفی مطبوعہ 1986ءکے مصنف تھے۔ خیالی صاحب کا ضلع بہرائچکے تمام ادیبوں اور شاعروں سے گہرا تعلق تھا۔ آپ حاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی کے گہرے دوست تھے۔ خیالی صاحب کا رافعت بہرائچی، شوق بہرائچی،بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال ،حکیم اظہر وارثی، واصل بہرائچی واصف ؔ القادری نانپاروی،ایمنؔ چغتائی نانپاروی ،محسن ؔ زیدی،عبد الطیف زرگر شوق نیپالی، اظہار وارثی، عبرت بہرائچی ،والی آسی لکھنوئی فنا نانپاروی،اثر بہرائچی،شاعر جمالی وغیرہ سے گہرا تعلق تھا ۔
سماجی خدمات
ترمیملسانیات کے علاوہ ہومیوپیتھی،یونانی،آیورویدک طریقہ علاج میں عملی طور پر زبردست مہارت تھی ،اور اس فن کے ماہر افراد سے استفادہ کرتے رہے اور پورے شہر میں ہومیوپیتھی کے ایک مشہور طبیب ہوئے۔آزاد انٹر کالج بہرائچ میں آپ آپ نے تدرسی خدمات بھی انجام دی اور وہاں سے رئٹایر بھی ہوئے بعد میں شہر کے کسان ڈگری کالج میں بھی خدمات انجام دی۔
وفات
ترمیم31 دسمبر 1991ء کو آپ کا بہرائچ میں انتقال ہوا،اور تدفن احاتہ شاہ نعیم اللہ ؒ (خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں ؒ ) میں ہوئی ،جس میں شہر کے تمام بہت سے لوگوں نے سرکت کی تھی۔
نمونہ کلام
ترمیم” | چمن میں خندہ گل کی صدائے پیہم ہے
ہنسو ،ہنسو کہ یہاں فرصت خوشی کم ہے |
“ |
” | فانوس دل ٹوٹا خیالی تو غم نہیں
افسوس یہ ہے رہ گیا انسان بے چراغ |
“ |
محمد نعیم اللہ خیالیؔ نے حکیم محمد اظہر وارثی کے انتقال پر جو تاریخ وفات کہی وہ اس طرح ہے
[4]اے خیالیؔ جہاں میں مرگ حکیم | عقل والوں کو درس نعبرت ہو | |
ہجری و عیسوی میں سنہ وفات | ناز غفراں غریق رحمت ہو | |
1389ھ 1969ء |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ افکار وصفی مطبوعہ 1986ء
- ↑ https://rekhta.org/ebooks/tazkira-e-shora-e-zila-bahraich-ebooks#
- ↑ فانوس کلمی نشخہ از محمد نعیم اللہ خیالی غیر مطبوعہ
- ↑ https://rekhta.org/ebooks/tazkira-shoara-e-uttar-pradesh-volume-010-irfan-abbasi-ebooks#
- مدارج الخیر
- اُردو کی بین الاقوامی حیثیت مطبوعہ 1982
- بیان خیرالبشر مطبوعہ1991
- معارف مکتوبات امام ربانی مطبوعہ2002
بیرونی روابط
ترمیم- http://nlpd.gov.pk/NLALibraryGrammarBooks.php
- https://ia902308.us.archive.org/0/items/BeyanEKhairUlBashar/Beyan%20e%20Khair%20ul%20bashar.pdf
- http://www.naqshbandiya.in/publishing.htmlآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ naqshbandiya.in (Error: unknown archive URL)
- معارف مکتوبات امام ربانی مطبوعہ2002آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ marfat.com (Error: unknown archive URL)
- مدارج الخیرآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ marfat.com (Error: unknown archive URL)
- بیان خیرالبشر مطبوعہ1991[مردہ ربط]
- مضامین ڈاٹ کام پر مضمون[مردہ ربط]