ڈاکٹر فریاد آزر : تخلیق کیVirgin Territory کی سیاحت، عصر حاضر کے بہت ہی کم فنکاروں کا مقدر بنی ہے، غیر ممسوس منطقے کی سیر کے لیے جس آشفتگی ،دیوانگی ،جرأت، بے خطری اور عصری آگہی کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے بہت سے تخلیق کار محروم ہیں۔ فریاد آزر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو نیا سیاق وسباق، نیا مفہوم اور نیا تناظرعطا کرنے کی جدو جہد میں اس فکری اور اظہاری منطقہ تک رسائی میں کامیاب ہوئے ہیں جو بہت حد تک کنوارا اورقدرے غیر مستعمل ہے۔ ان کی تخلیق میں وہ مرکزی نقطہ اور محوری نکتہ بھی موجود ہے جو عصر ِحا ضر کی بیشتر تخلیق سے غائب ہو گیاہے۔

آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میں تازگی، تحیر اور تابندگی آتی ہے۔ انھوں نے’ تخلیقی اجتہاد‘سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑسے بھی بچالیا ہے جس میں اکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میں مدتوں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ‘‘ تاقیا مت کھلا ہے باب سخن۔.........فریاد آزر کی شاعری میں باب ِسخن کے نئے نئے در کھلے جا تے ہیں اور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی ومشینی عہد میں آزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریں ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہیں۔ فریاد آزر کی شاعری میں جو احساس و اظہار ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں‘گذشتہ‘مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیں مگر مستنیر ضرور ہے۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approachہے۔ آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جداگانہ ہے۔ ان کے یہاں اس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ‘گلوبل گاؤں‘ میں اپنی شناخت کھو چکاہے اور بے چہرگی جس کی پہچان ہے۔ بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی دا خلی ‘ خارجی صورت حال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globalised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوں کے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورت حال میں ان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بلکہ آج کے معاشی‘ اقتصادی‘ سماجی‘تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔

جدید غزل کے منظر نامے پر فریاد آزر کا نام اس اعتبار سے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ روایتی حصار سے باہر نکل کر عصری حالات‘ تغیرات اور تموجات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اور آج کے عہد کی تفہیم بالکل نئے زاویے سے کی ہے اور اس انسانی ضمیر اور روح کی بازیافت بھی کی ہے جو تینوں زمانوں پر محیط ہے۔

فریاد آزر کی تخلیقی اڑان کے زاویے الگ ہیں انھوں نے احساس و اظہاار کے جو صنم کدے تعمیر کیے ہیں‘ اس میں ان کے خونِ جگر کی نمود ہے۔ وہ اپنی ذات میںگم نہیں ہیں بلکہ گردو پیش پہ ان کی گہری نظر ہے:

فضائے آتش ِگجرات سے جوبچ نکلے پرندے پھرنہ گئے لوٹ کر جہنم میں ٭ اچھا ہو ا کہ لوگ بیاں سے مکر گئے بھن جاتے ورنہ وہ بھی کسی ’بیکری‘کے ساتھ ٭ خون مشرق کے بہاتے ہی رہیںگے ناحق اور کرسکتے ہیں کیامغربی آقاؤں کے لوگ ٭ ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیںگے سطحِ’ اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے ٭ ﴿2﴾ دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم رحم ہی میں ماردیتا ہے اسے دورِ جدید ٭ رواج گاؤں میں پردے کا اس قدر نہ تھا مگر مزاج میں بے پردگی بہت کم تھی ٭ یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی ٭ یہ ان کے تخلیقی ذہن کی ارتعاشی لہریں ہیں۔ سیاست ‘سماج اور دیگر مختلف سطحوں پر ان کے ذہنی تحرک کے ثبوت کے لیے یہ اشعار کافی ہیں۔ ان کی نگاہ کسی خاص نقطہ پر محدود نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری ایک طرح سے ’جام ِجہاں نما‘ ہے جس میں پوری انسانی کائنات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اکثر شعروں میں حیرتوں کی نئی قندیل جلاتے ہیں‘ ان کی شاعری کی مجموعی قرأت سے پتہ چلتا ہے ان کے یہاں تخلیق کی علمی ‘عرفانی ‘وجدانی سطح بہت بلند ہے اور سماجی ‘ سیاسی‘سائنسی شعور بالیدہ ۔ فکریات کی سطح ُپر جہاں انھوں نے بہت سے نئے تجربے کیے ہیں یا پرانے تجربوں کی ’تقلیب ‘کی ہے ‘وہیں لفظیات کی سطح پر بھی وہ ایک نئے آب و رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں لسانی جبر کا وجود نہیں ہے۔ ہر وہ لفظ جو ان کے احساس کی ترسیل کر دے خواہ اس کا تعلق کسی زبان ‘ مذہب‘ملک سے ہو اس کا استعمال سے حذر نہیں کرتے‘ یہی لسانی اور فکری جمہوریت فریاد آزر کا فکری شناس نامہ ہے۔ ان کی شاعری میں وہ جمہوری آوازیں ہیں جو جلجا میش‘ سقراط‘ سرمد‘ اور منصور کے ’ حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انھوں نے سیاسی ‘سماجی ‘سفاکیت‘آمریت‘ مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ فرقہ واریتفسطائیت کے خلاف بھی انھوں نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے:

بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوں میں مگر ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہو گیا ٭ ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا انسانیت بھی مذہبی خانہ میں بٹ گئی ٭ بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ ٭ کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے لہو میں ڈوبی ہوئی مری آستین لگے

ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میں وہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔

فریاد آزر کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا اظہار ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفراد یت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعوربھی ہے‘ ژرف نگاہی اور باطنی روشنی(Inner Light)بھی جو آج کی تخلیق میں کم نظر آتی ہے۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروں کو انھوں نے اپنی شاعری میں سمولیا ﴿3﴾

ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ایسے نقوش مرتسم کردئے ہیں جو سماج اورسیاست کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیںگے اور انھیں منزل مراد تک پہنچادیںگے۔

فریاد آزر کا تہذیبی ‘سماجی ‘ سیاسی‘شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں ان کے تخلیقی نظام سے مربوط ارو منسلک ہیں۔ اس کا ئی اسکر یپر کلچر کے اس عہد میں چھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے: ٭ دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید ٭ مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل میںگلو بل گانوں سے اکتا گیاہوں ٭ ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے ٭ اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا ٭ اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے ٭ سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے ٭

تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر نے انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فنکار اپنی ذ مہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انھیں’احساس ِزیاں‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی ‘ سماجی‘ اقدار کے تحفظ کا خیال کہاں سے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے باخبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ۔ اس لیے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچید گیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے وہ گل و بلبل کی داستاں‘یا فسانہئ شب ہائے دراز‘پر یقین نہیں رکھتے بلکہ آج کی سفاک جاںگسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں اور اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے’۔ طوافِ کوچہئ جاناں‘کی بجائے’ غم دوراں‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔ س فریاد آزر کی شاعری میں یہی ’’ غم دوراں‘ عذاب جاں‘ آشوب عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق‘معروضیت اور فنی ‘فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے ۔

سبز آدمی کی تلاش اور آزر ؔ کا جہانِ غزل

پروفیسر مولا بخش

شعبۂ اردو،علی گڑھ د مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں، پھر گود میں، پھر سفر در سفر دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آ گیا کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے اسی زمیں سے ہم لخت لخت اگنے لگے یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مگر مسدود کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر مذکورہ بالا اشعار فریاد آزر کے شعری مجموعے’خزاں میرا موسم‘اور’قسطوں میں گزرتی زندگی سے ‘ماخوذ ہیں جو آج دنیا میں ہر سو پھیلی ایک قوم مسلمان کی ازل سے اب تک کی سیاسی،سماجی،تہذیبی،ثقافتی اور مذہبی تشخص کی کہانی کہہ رہے ہیں۔ کربلا کی خوں ریزی،شہر کوفہ کی مکاری اور ان پر کڑی نگاہوں کے پہرے انھیں اکثر فرات اور اپنے پیاس کی شدت سے یاد دلاتے رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد کے شعرا اور بالخصوص 80کے بعد کے اردو شعرا کے یہاں اقلیتی مخاطبے کا وفوراسی پس منظر میں سمجھاجاسکتاہے۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر جانے سے انکاری مسلمانوں کو یہاں کے ایک طبقہ نے اسی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا، جس نگاہ سے وہ پاکستانی مسلمانوں کو دیکھاکرتا ہے۔ لہٰذا یہاں کے مسلمانوں کو خود کے اقلیت میں ہونے کااحساس شدت اختیار کرتاچلاگیا۔ سیاسی،سماجی،تہذیبی اور ثقافتی نیز اقتصادی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی طبقے میں بھی ا حساس کمتری پیدا ہو گئی اور اس طبقے کے فکشن اور شاعری حتیٰ کہ غزل میں بھی اقلیت و اکثریت جیسے جوڑ ے دار ضدین میں تبدیل ہو گئے۔ ادب کی ایک بڑی تحریک ترقی پسندی اور مارکسی آئیڈیولوجی کی ہزار دہائیاں دینے کے بعد بھی ہندوستان میں غیر مذہبی ذات پات سے عاری لبرل معاشرہ قائم نہ ہو سکا اور تیزی سے ہندوستانی سیاست نے علیحدگی پسندی، ذات پات کی سیاست اور مذہبی جنون کو فروغ دیا۔ سیاست کے لیے اس ملک کی بڑی اقلیت مسلمان ووٹ بینک سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہو سکے اور بدلتے وقت کے ساتھ مسلمانوں میں احساس کمتری کے ساتھ احساس محرومی دن دونی رات چوگنی بڑھتی چلی گئی۔ بقول آزر: کچھ بھی کہہ دیتا ہے وہ گذرے دنوں کے نام پر آج ماضی کا بھی سینہ چاک ہونا چاہیے مدتوں سے مرا ہوا ہوں میں مجھ کو پھر ایک بار زندہ کر ایسا لگتا ہے کہ فریاد آزر نے اپنی شاعری کو اقلیت کتھا میں تبدیل کر دیاہے۔ پہلے شعرمیں ’وہ‘بتانے کی ضرورت نہیں کہ اکثریتی جبر ہے۔ اقلیت کے اندر پل رہے غم و غصہ اور خوف کی نفسیات اس شعر میں ماضی کا سینہ چاک کرنے جیسے فقرے سے ہی ظاہرہوجاتاہے۔ ماضی اس شعر میں کسی خاص فرقے کے لیے رقیب کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک خاص قوم کے پیچھے مصائب کے بھوت پڑ گئے ہیں۔ اس کی وجہ آزر کے نزدیک یہ ہے کہ: ہمارا حال ماضی کا پتہ دیتا نہیں یکسر 235 ہماری عظمت رفتہ پہ کس کو اعتبارآئے جدیدیت کے رجحان کے تحت تنہائی اور ذات کے کرب نیز زندگی کی بے معنویت جیسے منفی قدریں شعر و ادب میں1960تا1975قارئین کو جس حد تک بھی اپنے دردکا درماں معلوم ہو ئی اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ وجودیت کے فلسفے پر گہری نگاہ رکھتے تھے(جیسا کہ مغرب کے قارئین نے اسے اپنے مسائل کی رو سے اسے اپنے ذہن کا حصہ بنایاتھا)اس نوع کے ادب سے ان کی تھوڑی سی دلچسپی ہندوستانی سیاست کے زیر اثر(اس طبقے میں جو اردو جانتا تھا)ان میں سیاسی طور پر یتیم قوم ہونے کے شدید احساس نے پیدا کی تھی۔گویا جدیدیت اقلیتی احساس کمتری جیسے مرض کا علاج نہیں تھی بلکہ یہ فقط ان کے زخموں کو سہلانے کا کام کر رہی تھی۔ بعد کے ادوار میں یعنی80کے بعد اردو شعر و ادب میں ہندوستانی سیاست کی پیدا کردہ اقلیتی و اکثریتی مخاطبے کے اظہارنے شعر و ادب میں مرکزیت حاصل کر لی۔ ذات پات کی سیاست، علیحدگی پسندی کی تحریکوں کے شور،عام آدمی کی بے روزگاری،اپنے عقیدے اور اپنی ثقافت کے تحفظ کے جذبے کا فروغ اور ان جیسے اور بھی مسائل جیسے ماحولیاتی آلودگی،زبان کی سیاست وغیرہ جیسے مسائل80کے بعد کے شعر و ادب کی فکر مندی قرار پائے۔ ردو غزل نے بھی اپنی شعریات کی شرطوں پر نئے مضامین اور سابقہ جملہ غزلیہ اسالیب کو اپنائے ہوئے غزل کی زبان کو حتی الامکان اپنے عہد کے روزمرہ کے قریب کیا۔ اس عہد کی غزل کے اختصاص کو متعین کرنے میں کچھ جدیدیت کے شعرا کے ساتھ ساتھ جن شعرا نے اس دور کے بعد مابعد جدید غزل کی منفرد آواز کو وقار بخشا ان میں فرحت احساس،منظور ہاشمی،اسعد بدایونی،عنبر بہرائچی،منور رانا،انیس انصاری،اظہر عنایتی،عبد الاحد ساز،شارق عدیل،مہتاب حیدر نقوی،راشد انور راشد،شین کاف نظام،کرشن کمار طور،سلیم انصاری،شاہد کلیم،پروین کمار اشک،عشرت ظفر،عین طابش،جمال اویسی،خالد محمود،شہپر رسول،عذرا پروین،طارق نعیم،راشد طراز،ملک زادہ جاوید،شہباز ندیم ضیائی،عالم خورشید،خال عبادی،کوثر مظہری،مشتاق صدف،اقبال اشہر، خورشید اکبر،رئیس الدین رئیس،رسول ساقی،ابراہیم اشکاور بھی کچھ شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں فریاد آزرنے خود کو منفرد رنگ کی شاعری پیش کرنے میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ فریاد آزر نے ماقبل شاعر اقبال کے مخاطبے کو ہم عصر سیاق اور اپنی طرح کی زبان میں پیش کیا ہے یعنی اپنے مذہب،قوم اور اپنی ثقافت کی زبوں حالی کا ماتم کرنے کی بجائے اس پر غور کرنے کی طرف قاری کی توجہ مبذول کی ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں اقلیتی مخاطبہ نہیں ہے۔ آزرنے اقلیتی مخاطبہ اورمسلمانوں کی پسماندگی اور عالمی سطح پر ان پر اور ان کے خلاف کی جانے والی سیاست پر آنسو بہانے کی بجائے ان میں حوصلہ پیدا کیا ہے اور ان مسائل کا تجزیہ کیا ہے ہاں اقبال وہاں یاد آتے ہیں جہاں جہاں آزر نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی واپسی کی تمنا کی ہے لیکن اس احساس کے ساتھ کہ : کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب 235 یوں ہی بس یادوں کی چادر تانتا کوئی نہیں وہ شخص آج بھی ماضی سے ایسا الجھا ہے 235 کہ اس کے پاؤں ہیں جنت میں، سر جہنم میں یعنی ماضی سے لگاتار رشتہ بنائے رکھنے کا رجحان آزر اور ان کے معاصرین میں اکثر و بیشتر نظر آتاہے اور یہیں پر اقبال کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ فریاد آزر نے اپنی شاعری میں کوڈ کے طور پر کربلا اور اس کے متعلقات صحرا وغیرہ کا وافر مقدار میں استعمال کیا ہے اور یہ بھی کہ ماضی کی شاندار روایتوں کو یاد کرنے اور یاد دلانے کا ایک فنی حربہ ثابت ہواہے۔ اس کے علاوہ فریاد آزر کی غزلوں میں عشقیہ رموز اور اس کی تخلیقی و تہذیبی رنگ کی پیش کش کا فنی انداز و اسلوب بھی نظر آتاہے لیکن فریاد آزر کی شاعری کی سب سے بڑی فکر مندی سبز آدمی کی تلاش ہے جو بیک وقت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی حکومت ،ان کی زندگی،مذہبی اسلوب،انسانیت پسندی کی معراج اور انسانیت نوازی کے اس سنہرے دور کے آدمی کی واپسی کاساختیہ معلوم ہوتاہے۔ ساتھ ہی سبز آدمی کی اس تلاش کے عقب میں وہ سوچ بھی فنی طریقے سے بلند ہوتی ہے جسے ہم سبز انقلاب(Green Revolution)کہتے ہیں۔ آزرکے غزلیہ متن کا ایک بڑا حصہ ماحولیاتی آلودگی سے دنیا کیونکر بربادی کے دہانے پر ہے اس نوع کی فکر مندی اور انتباہ پر مبنی ہے۔ آزر کے اب تک تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’خزاں میرا موسم‘(1996)دوسرا مجموعہ’قسطوں میں گزرتی زندگی‘(2005)تیسرا مجموعہ’کچھ دن گلوبل گاؤں میں‘(2009)اپنے عنوان سے ہی مقصدی شاعری یا مسائل پر مبنی شاعری کا پتہ دیتاہے۔’خزاں میرا موسم‘ کا میرافسانہ مسلمان قوم ہے جس پر خزاں یعنی زوال کا عرصہ صدیوں سے طاری ہے۔ مجموعے کا عنوان اسی امر کا کنایہ معلوم ہوتاہے۔ دوسرا مجموعہ ہندوستان ہی کیاپوری دنیا میں تجارت کے لیے قرض ،تعلیم کے لیے قرض،گھرخریدنے اور بنانے کے لیے قرض حتیٰ کہ موٹر خریدنے اور ٹی وی اور فریج کے لیے بھی قرض لینے پر مجبور آج کا آدمی اور نئے ساہوکاروں کی چکی میں پستا ہوا عام آدمی کے المناک انجام کا کوڈ معلوم ہوتاہے۔ تیسرا مجموعہ ’کچھ دن گلوبل گاؤں‘ میں جو ان کے دو سابقہ مجموعوں کا انتخاب ہے،شاعر کی اپنی ہی شاعری کی قرات کی ایک صورت معلوم ہوتاہے۔ یعنی یہ سیدھے گلوبلائزیشن پر طنز ہے مگر اس ایقان کے ساتھ عام آدمی اس سلوگن سے کچھ ہی دنوں کے لیے متاثر ہوا ہے۔ مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل 235 میں گلوبل گاؤں سے اکتا گیا ہوں ذکر یہ کیاجا رہاتھا کہ ان کی شاعری میں سبز آدمی کی اساطیر کا ایک سیاق بلکہ زیادہ تر سیاق’مرد مومن‘یا اسلام کا پسندیدہ رنگ سبز ہے جو شانتی اور امن کی علامت ہے۔ اگر ہم سبز آدمی سے متعلق مباحث کی اساطیر کا مطالعہ کیاجائے تو یہ منکشف ہوتا ہے کہ وہ آدمی جس کی تصیور پیڑ کے پتوں کی ہے ئت میں بنائی گئی ہو۔ اب ذرا اس خیال سے ملتی جلتی ایک صورت آزر کے مندرجہ ذیل شعر میں ملاحظہ فرمائیں: خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت 235 کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اگنے لگے شعر ی کردار ماحول دوست ہے۔ سوکھے درخت کو بوڑھا شجر کہا ہے۔ یہ بوڑھا شجراپنی ہی شاخوں پہ کچھ پتے اگتے دیکھ کو خوش ہے لیکن برگ کو نیک بخت قرار دینے سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسی طرح ہمارے معاشرے کے بزرگ جب اپنے نو نہالوں میں اچھے گن دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتاہے۔ شعر پڑھتے ہی آدمی کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جس کی تصویر پیڑ کے پتوں کی ہے ئت میں بنائی گئی ہو۔ اشارہ اس جانب ہے کہ فطرت اور انسان دوہے ہی نہیں۔ راشٹریہ سہارا اخبار کے ایک کالم’’مسلمانوں کا عالمی منظرنامہ‘‘میں واشنگٹن کے مسلمانوں کے حوالے سے سہارا گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے ایک دلچسپ معلومات فراہم کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ’’14سوسال پہلے قرآن کریم میں کائنات کے ہر راز کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ ماحولیات کی تباہی ایک خطرناک عمل ہے ان نظریات کے تناظر میں زمین کے تحفظ اور اسلام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اس طرح واشنگٹن میں اسلام کے سائنسی نظریات اور انسانیت کی خدمات کے تحت اس کا ایک بلاگhttp:/Dc Green Muslims blogspot.comپر دستیاب ہے۔ اسی طرحDc Green Muslims اس بات کو سمجھتا ہے کہ زمین پر آلودگی کے ان اثرات کا معاملہ اسلام کے لیے کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔‘‘(روزنامہ راشٹریہ سہارا،نئی دہلی،30مئی،2014،ص:10مسلمانوں کا عالمی منظر نامہ،سید فیصل علی) دراصل اسلام کا علامتی نشان’سبز‘ہے جو امن اور شادابی ا ورتروتازگی کی طرف اشارے کرتا ہے جس کا ایک سیاق ماحولیات کے تحفظ میں اس سبز رنگ یعنی ہریالی کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے۔ فریاد آزر اور اس عہد کے بیشتر شعرا ماحولیات کے تحفظ کا شعور اور ماحول دوست مزاج کی تشکیل پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ فریاد آزر کے متن میں یہ فکر مندی شدت کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے جس کا ایک اہم سیاق اساطیر یعنی انسان کا آرکی ٹائپی شعور ہے۔ ان کے معاصرین نے اسے اپنے متن کا بنیادی ساختیہ نہیں بنایاہے جبکہ فریاد آزر نے لفظ سبز کاتواتر کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے نیز اس کی اساطیری اور لاشعوری جہتوں کے اظہار کے ذریعے اپنے متن کو معنی آفریں بنایاہے۔ آئیے پہلے خالص ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں کائنات پر خطرات کے بادل کیونکر منڈلا رہے ہیں اس سے متعلق ایک شاعر فریاد آزر کے انتباہ کا فنی اظہار ملاحظہ فرمائیں: درخت اس نے سبھی کاٹ تو دیے لیکن 235 مرے بدن پہ ابھی میرے سر کا سایہ ہے ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے 235 سطح اوزان کو فضلات سے آزادی دے وقت سے پہلے نہ آجائے قیامت آزر 235 ’’گرین ہاؤس‘‘کو بخارات سے آزادی دے سبز لمحات سے جب ہوگی ملاقات اس کی 235 خود پہ روئے گا بہت عہد مزائیلوں کا اے زمیں تری کشش کیوں اس قدر کم ہو گئی ہے 235 دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں میں آسمان پہ پہنچا مگر ستانے لگی 235 مرے وجود سے لپٹی زمین کی خوشبو بار گناہ سے زمیں جس وقت تھک گئی 235 پھر دیکھنا کہ شمس کی جانب لڑھک گئی زمین کانپنے لگتی ہے ٹھنڈ سے تو فلک 235 سنہری دھوپ کی چادر اتار دیتا ہے مذکورہ بالااشعار کے خط کشیدہ الفاظ و تراکیب پر غورکرنا لازمی ہے۔ سطح اوزون،گرین ہاؤس،سبز ہاتھ،زمین،سبز لمحات،زمین کی خوشبو،سنہری دھوپ وغیرہ یہ کسی امر کا استعارہ نہیں، سفاک حقیقتیں ہیں۔ البتہ سبز لمحات،سبز ہاتھ،زمین کی خوشبووغیرہ کو گہرے ماحولیاتی کوڈیا نشان ضرور بنایا گیاہے۔ ان اشعار میں فطرت کا لذت آمیز بیان ہے ہی نہیں جیسے کہ بادل محبوب کی زلفیں ہوں،ندی کی لہریں محبوب کی بلکھاہٹ ہو،یہاں فطرت بجائے خود شاعری کا معروض ہے۔ راوی کا ماحولیات سے عشق اور اس کے تحفظ کی فکر مندی اس پر دھیان دینے اور فطرت میں مضمرتحیر اور زندگی کے سر بستہ رازوں سے آگہی حاصل کرنے کے احساس نے ہی ان اشعار کو خلق کیاہے۔ یہاں ایک فطرت دوست یا ماحول دوست کردار سامنے آتاہے۔ شعر نمبر1،2،3،4،5اور8کو ممکن ہے ادبیت کی تلاش کرنے والے نقاد شعریت سے خارج قرار دیں لیکن اسے پڑھتے وقت جس قسم کا لمحۂ فکر ہمارے اندر پیدا ہوتاہے وہی اس شعر کو ہمارے ذہن سے چپکا دیتاہے اور یہی ان اشعار کے ہونے کا جواز ہے۔ یہ اشعار ہمیں ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے سد باب کے لیے چلائی جا رہی تحریکوں سے جوڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ سید فیصل علی کے مضمون اور واشنگٹن کے Green Muslimsسے بھی ۔’سبز لمحات‘ اور’ سبز ہاتھ‘ استعاراتی جہت سے زیادہ اساطیری اور لاشعوری آرکی ٹائپی جہت رکھنے والے مرکبات معلوم ہوتے ہیں۔ سبز پری اور گلفام کی اساطیر اگر ذہن میں ہے تو آپ بڑی آسانی سے فن کار آزر کے شعر میں زمانے کے بدلنے کے احساس کے ساتھ اساطیر کیونکر معاصر ذہن سے جھانکتی ہے، اس وقت جب ہمعصر صورت حال کی سنگینی اور پیچیدگی کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ایسی گھڑی میں اساطیر ہمارے مسائل کے حل کی طرف ہمارے ذہن کو لے جاتی ہے۔ آج ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ زمین رہے گی یا نہیں،اس کی کوئی گارنٹی اب نہیں دی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماحول دوستی کی تشکیل پر شعروادب میں آج توجہ زیادہ دی جا رہی ہے۔ پہلے شعر میں اساطیر کی دیوی جن سے گلفام عموماً سیاست نہیں آنے کی وجہ سے ہار جاتے تھے، کی یا ددلاتے ہوئے آج کے دیوؤں کی طرف توجہ مبذول کی گئی ہے۔ آج کے دیو آلودگی،نیوکلیر بم،کل کارخانے اور خلا میں ہونے والے ریسرچ کوقرار دیاجاسکتاہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ گلفام کو یا سبز پری کو پریشان کرنے والے دیو آج کے ان دیوؤں کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے شعر میں گلفام اور سبز پری دونوں اساطیری کردار استعمال کیے گئے ہیں۔ اس شعر کا متکلم ماحول دوستی ہے جس نے گلفام کی قسمت چرالی ہے۔ یہ دراصل صحت اور خوش حالی کا کنایہ ہے۔ سبز پری اسے ہی مل سکتی ہے جو گلفام یعنی ماحول دوست ہو۔ سبز پری دراصل متکلم کو’بن‘میں ملے گی۔ کیا خوب رعایت ہے۔ بن بھی سبز ہی ہوتاہے گویا سارا بن سبز پری ہے۔ یعنی سبز پری اور بن دراصل سبز انقلاب کا منبع ہیں۔ اشارہ یہ ہے کہ اگر سبز پری یعنی ایک خوش حال انسانی زندگی مطلوب ہے تو اس کے لیے سبز انقلاب یعنی بن کے وجود اور اس کے تحفظ پر ہمیں زور دینا ہوگا۔ یہ شعر مقصدی شاعری کا کامیاب نمونہ ہے جس میں تخلیقی نشان پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے لیکن اس کا انتہائی اکہرا اظہار بھی آزر نے کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے 235 مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی کوئی قاری یہ سوال کر سکتاہے کہ سبز پری یا لفظ سبز کا ماحولیات سے کیا تعلق ہے؟کیونکہ اس رنگ کا Ripening life پختہ زندگی اور زرخیزی سے تعلق ہے۔ اس رنگ کو ارتقا کے نئے اسلوب اور فوقی فطری یعنی دوسری دنیا کا کوڈ بھی سمجھا جاتاہے مزید برآں اسے حقیقی دنیا کی توسیع کی علامت بھی قرار دیاگیاہے۔ آئیے اب آزر کے یہاں اس نوع کے چند اشعار پر ایک بار پھر نگاہ ڈالیں: نئی رتوں نے ہوا کی رو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی 235 کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے 235 سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس 235 روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا ہوائے شفقت چھری بھی والد سے چھین لیتی 235 پہ سبز موسم کے ایک بیٹے کی ضد عجب تھی ’سبز لمحات‘سے مراد اسلام کی وہ امن پسند صدیاں ہو سکتی جس نے عورت،پیڑ،بوڑھا اور بچوں کے لیے انوکھی انسانیت پسند آئیڈیولوجی کو جنم دیاتھا۔’سبز ہاتھ‘انھیں کرداروں کا کوڈ معلوم ہوتاہے جنھوں نے اس آئیڈیولوجی کے نفاذ میں حصہ لیا حتیٰ کہ اپنے ملک او حکومت کے جھنڈے پر سبز رنگ کو ہی جگہ دی اور ایسی صحرائی ثقافت کی تشکیل ہوئی جہاں فطرت دوستی کو مرکز میں رکھاگیاتھا۔ آزر کے یہاں زمین یعنی دھرتی\'GIA\'ْؒ سے متعلق اشعار میں بھی یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس زمین پرپھر اسی طرح ہریالی چھائے گی جس طرح کہ جنگلوں میں ہوتاہے۔ زمین کی کشش کے ختم ہونے کے ملال کے ساتھ زمین کی خوشبو یعنی اس سے انسان کے لاشعور ی رشتے کی طرف توجہ منعطف کر کے زمین کے تحفظ کے جذبے کو ابھارا گیاہے۔ فریاد آزر کے یہاں ماحول دوستی اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے اور بھی اہم اور قابل غور اشعار ان کے شعری مجموعوں میں آپ کو ملیں گے طوالت کے خوف سے کچھ ہی اشعار پر یہاں گفتگو کی گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ان کے یہاں وافر مقدار میں سبز لفظ کا استعمال کیاگیاہے۔ مغرب میںLady Raglanنے سبز آدمی کی اصطلاح 1939میں استعمال کی تھی۔ سبز آدمی کے بال اور داڑھی پتے نما ہوتی ہے۔ کبھی سر پوری طرح پتوں سے ڈھکا ہوتاہے اسی طرح فنتاسیوں میں سبز آدمی کچھ اسی طرح کے حلیے میں نظر آتے ہیں۔ ہندوستان کے جین مندروں میں اس نوع کی تصویریں کھدائی کے بعد ملی ہیں حتیٰ کہ عراق میں بھی جن کے لباس اور گہنے حتیٰ کہ سر پر نباتات ہی نباتات دیکھے جا سکتے ہیں۔ Tom Cheethan(جو اسلامی تصوف کابڑا اسکالر تسلیم کیاجاتا ہے )نے’خضر کو‘سبز آدمی قرار دیاہے۔ کچھ لوگ ابن عربی کو سبزآدمی کا تصور دینے والا پہلا اسکالر مانتے ہیں۔ ہندوستانی اساطیر میں سبز آدمی کو شیو کی لیلا قرار دیا گیاہے۔ فریاد آزر نے بھی لاشعوری طور پر شیو کے نیلے کنٹھ کا بار بار ذکر کیا ہے: سبھی کو زہر اپنے حصے کا پڑا پینا 235 نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا زہر کا رنگ اس کے بھی ہو جاتا حیرت سے سفید 235 گر کبھی نیلا سراپا میرا شنکر دیکھتا سبز آدمی جسے شیو کی لیلا بھی قراردیاگیاہے آزر نے شیواور اس کے زہر کے حوالے سے کئی اشعار کہے ہیں جس کا سیاق آج کی مصموم فضا ہے جس میں ہر نوع کا زہر گھل چکا ہے اور اس آلودگی کو ہر دور میں شیو ہی ختم کر سکتاہے یعنی سبز کو برقرار رکھنے کے لیے شیو کو زہر پی کرنیلا ہونا پڑتا ہے: ہزاروں اب رہا لشکر سجا رہے ہیں تو کیا 235 ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے یہ قیامت کی علامت ہے یا کوئی انقلاب 235 سبز پیڑوں کے ہرے پتے بھی نیلے ہو گئے گذشتہ دور کی بوباس لے کے آئی تھی 235 میں رات سبز ہوا سے لپٹ کے روتا رہا تمام سبز بدن پیڑ بھاگ جائیں گے 235 یہاں جو شہر کے لوگوں کو میں بلا لوں گا وہ سبز ہاتھوں میں لے کر کتاب اترے گا 235 اب اس زمیں پہ حسیں انقلاب اترے گا سر سبز موسموں میں ہی مانند برگ خشک 235 اندھی ہوا کی شہہ پہ بکھرنا پڑا مجھے دی گئی لا منظری کی سبز آنکھوں کو سزا 235 ان پر موتی رولنے کا جرم عائد ہو گیا فریادآزر نے جنگل کے امیج کو بار بار قاری کے ذہن میں لانے کی کوشش کی ہے اور استعارے کی شکل میں نہیں خالصتاً ماحولیات کے منبع کے طو پر اسے پیش کیا ہے کیونکہ جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہی دراصل صحیح معنوں میں سبز آدمی(Green Man)تھے اور عورتیں سبز پری یا عورت اس لحاظ سے سبز، خوشی،ارتقا اور شگفتگی و شادابی کا کوڈ رہا ہے: حسین شہر کا منظر اسے بلاتا رہا 235 مگر وہ شخص ہرے جنگلوں میں کھویا رہا آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت 235 بے گناہی کی سزا پاتے ہیں پورے معصوم الغرض سبز لفظ کا استعمال جن اشعار میں آزر نے کیاہے ان میں ایک ایسا راوی یا کردار نظر آتاہے جس کے اپنے کچھ تعصبات ہیں یا تحفظات ہیں۔ یہ اقلیتی طبقے کا ایک انقلابی ذہن یا احتجاج پر آمادہ ذہن ہے جس نے سبز لفظ کو عموماً اسلامی روایات یا اسلام کے اصولوں کا کوڈ بنایا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا اشعار میں سبز صدیاں،سبز موسم،ہوائے سبز،سبز ہوا،یہ ساری اردو تراکیب اسلام کے شاندار ماحول دوست انسانیت پسند اصولوں یا آئیڈیولوجی کا کوڈ بن جاتے ہیں۔ انھیں اپنی شاعری میں بروئے کار لانے کی ایک وجہ آزر کے نزدیک یہ ہو سکتی ہے کہ شعری کردار سبز پسند یعنی انقلاب کا متلاشی ہے اور اسلام کی آئیڈیولوجی اسے سبز انقلاب کے اہم حوالے کے روپ میں نظر آتی ہے۔ اس بہانے ان کی غزلیہ شاعری میں اسلام کی عصری معنیوت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً خزاں میرا موسم جو ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے کے مذکورہ بالا اشعار میں ابرہہ کے لشکر کا ذکر،’ ہوائے سبز ‘جو ابابیل ہونے والی ہے کا مژدہ سنانا دراصل ماضی کی اسی شاندار روایت کی واپسی کا سیاق سامنے لاتاہے۔ آزر کے نزدیک سبز پیڑوں کے پتوں کے پیلے ہونے کا مطلب ہے قیامت کے آنے کا اشارہ۔ یعنی قیامت نام ہے ماحولیات کی آلودگی کا۔’خزاں میرا موسم‘ کے تیسرے شعر میں سبز ہوا سے لپٹ کے رونے کا ذکر اور آخری شعر میں شہروں کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ قرار دینا یعنی شہر کے لوگ جیسے ہی کہیں کسی گاؤں میں پہنچتے ہیں سبز بدن پیڑ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ کہنے کی یہ سعی کی گئی ہے کہ شہروں کی تشکیل ہی نے ماحولیاتی آلودگی کو جنم دیاہے کیونکہ ترقی کے نام پر ہم جنگلوں کو کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح’ قسطوں میں گزرتی زندگی‘ سے ماخوذ اشعار کے پہلے شعر میں کس نوع کے انقلاب کے آنے کا مژدہ سنایا گیا ہے؟ترقی پسند لوگ لال انقلاب کی دہائی دیتے تھے آج کے شاعر کے نزدیک اس سے زیادہ ضروری سبز انقلاب قرار پایا ہے۔ دوسرے شعر میں ماحولیاتی پیکروں کو انسان کی اپنی زندگی کی ٹوٹ پھوٹ کا استعارہ بنایاگیاہے۔ آخری شعر میں آج کے انسانوں کی محرومی کی وجہ بنجرپن ہے جن کی آنکھیں حسین منظروں کے لیے ترس رہی ہیں۔ سبز لفظ پری سے وابستہ رہاہے۔ سبز پری کا عالمی ادب میں بالخصوص اسکاٹ لینڈ کے ادب میں پری کو کنائے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان رہا ہے۔ ہمارے یہاں اندر سبھا میں سبز پری(نسوانی کردار)اور گلفام کا کردار ملتاہے۔ فریاد آزر نے بھی سبز پری کو کنائے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ فریاد آزر نے اسلام کی ایک ایسی خوبی کو اپنے شعری جہان کے ذریعے ہمارے ذہن کا حصہ بنایا ہے جو فی زمانہ دنیا کے ہر ملک اور ہر انسان کی فکر مندی بن گئی ہے یعنی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے لیے سبز انقلاب لانے کا جتن کرنا آج کے ہر بیدار مغز انسان کے لیے عبادت کا درجہ اختیار کر گیاہے۔ اسلام کی بہت سی خوبیاں ہیں مگر فریاد آزرنے اپنی شاعری میں اسلام کی اس انوکھی خوبی کو سامنے لاکر اسے غزل کی شاعری میں جس خوبی سے شعری صدادقت کا حصہ بنایا ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اسلام سبز رنگ کو یونہی پسند نہیں کرتا اس کے عقب میں ماحولیات کے تحفظ کا ایجنڈاکارفرماہے۔ فریاد آزرکی شاعری کا یہ لفظ جو اساطیری استعاریت کی صورت میں ایک اہم ساختیہ بن گیاہے ہماری شعری روایت کا حصہ رہاہے اوراس شعری روایت کا حصہ ہے جس کا راست تعلق اردو سے ہے۔ میرا اشارہ فارسی شاعری کی جانب ہے۔ خسرو کی غزل سے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں: ازیں ہر دو نکو تر رنگ سبز است 235 کہ زیب اختراں ز اورنگ سبز است (ان دونوں سے بہتر سبز رنگ ہے( آگے گندمی سیاہ رنگ کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ جس سے تاروں کی زینت ہے وہ آسمان بھی سبز ہوتاہے) برنگ سبز رحمت، ہا سرشت است 235 کہ رنگ سبز پوشان بہشت است (سبز رنگ میں رحمتیں گوندھ دی گئی ہیں دیکھ لو کہ جنتی لوگوں کا لباس سبز ہوتاہے) (ظ انصاری،خسرو کا ذہنی سفر،انجمن ترقی اردو ہند،پہلا ایڈیشن(1977)انتخاب کلام مع ترجمہ:مولانا حسن عباس فطرت شاعر پونہ)،ص:17) فریاد آزرنے اپنی شاعری میں سبز رنگ کی معنویت کو مزید آشکار کرنے کے لیے زندگی کے دوسرے رنگوں کو بھی پیش کیاہے۔ نیلا رنگ جو زہر نگل جانے کے بعد نمودار ہوتاہے کے ساتھ ساتھ انھوں نے سنہرے رنگ کا ذکر اپنے شعروں میں ا س کے اپنے اساطیری سیاق میں کیاہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں: کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا 235 سب سفر میں ہیں، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے سنہرے شہر کی تعلیم تھی بہت دلچسپ235کہ بے حسی بھی وہاں شامل نصاب رہی سنہرے نازوں میں پل رہی ہیں بہک نہ جائیں 235 ذرا حنا خواہشوں کی بھی دیکھ بھال رکھنا جب ملا تبدیلئ تاریخ کا موقع اسے 235 نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا جب چاند تارے جگنو سبھی نور کھو چکے 235 مانند آفتاب ابھرنا پڑا مجھے رفاقتوں کا سنہرا جمال دینا تھا 235 ہمارے عہد کو ماضی سا حال دینا تھا میں زندگی کا سنہرا نصاب لاؤں گا 235 تمھارے چہرے سے اچھی کتاب لاؤں گا لفظ’سنہرا ‘کااستعمال سبز ہی کی طرح تواتر کے ساتھ فریاد آزر نے اپنی غزلوں میں مختلف سیاق و سباق میں کیاہے۔ سورج کی اساطیر اور آریائی تصور کے مطابق سورج کے بال سنہرے ہوتے ہیں۔ سنہرا لفظ کا تعلق سونا سے بھی ہے۔ صبح کی سنہری کرنیں رات کی قربانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ رات صبح کی بہن ہے جسے سنہرے زیور پہننے کا شوق ہے۔ دراصل سوریہ رات یعنی اپنی ماں کا سینہ چاک کر کے یعنی اندھیرے کو کاٹ کر دنیا کوروشن کرتاہے۔ ان سنہری کرنوں کے ساتھ سورج دراصل سحر کی تلاش میں صدیوں سے بھٹک رہا ہے اور اس طرح دنیا کو خوش حالی اور سنہری صبحیں عطاکرتا چلاجا رہاہے۔ دراصل سنہرے رنگ میں پیلے کا ہونا زندگی کی علامت ہے۔ اگر اس موقع پر رابرٹ فراسٹ کی مندرجہ ذیل لائنیں بھی ذہن میں رہیں تو آزر کے یہاں مستعمل لفظ ’سنہرے‘اور’سبز‘کے فنی معنیاتی تعلق تک رسائی حاصل کرنے میں اور آسانی ہو جائے گی۔ رابرٹ فراسٹ کو سنیے: \'\'Nature\'s first green is gold, Her hardest hue to hold Her early leafs a flower; But only so and hour; Nothing gold can stay (Robbert Frost) فراسٹ نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ سنہرے اور سبز کے وصال کو فطرت کا پہلا سبز قرار دیاہے۔ اس کی پہلی پتی کو پھول کہا ہے۔ یعنی فطرت کی پہلی سنہری روشنی کی تمنا کر رہاہے جس کی وجہ سے سبز کی زندگی ہے۔ اس تناطر میں یہاں آزر کے کم از کم ایک شعر پر نگاہ ڈالنا ضروری معلوم ہوتاہے: کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا 235 سب سفر میں ہیں، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ بالا سنہرے لفظ کی توضیح و تشریح اور سورج کی اساطیر اس شعر کا آر کی ٹائپی نقش ہے جس کا ذکر ابھی کیاگیاہے۔ سورج سحر کی تلاش میں نا معلوم زمانوں سے سفر میں ہے۔ رات نا معلوم زمانوں سے سورج کو اپنے گربھ میں رکھتی آئی ہے اور سفر میں ہے۔ ستارے ،چاند اور خود سحر بھی۔ کیا خوب مصرع ہے،’سب سفر میں ہیں کسی کا ہم سفر کوئی نہیں ہے‘۔ سحرآتی ہے تو رات چلی جاتی ہے،شام آتی ہے تو دن چھپ جاتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شعر میں اس المیہ کو سامنے لاکر شعری کردار نے کیا کہنا چاہاہے۔ شاید یہ کہ اشارہ ایک ایسی شاندار قوم اور اس کے کارواں کا پوری دنیا میں پھیلنا ہے جس کی پہچان اجتماعیت تھی۔ یعنی آج کے مسلمان جو نماز جمعہ، با جماعت نمازوں،عیدین اور نہ جانے ایسے کتنے ہی موقعوں پر وہ ایک ایسی جماعت کی صورت میں نظر آتے ہیں جن میں احساس اجتماعیت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ دم توڑ چکاہے۔ معنی کا ایک اور قرینہ اس شعر سے سامنے آتاہے جو عصر حاضر کے انسانوں میں اپنی ذات کے خول میں بند ہو جانے جیسی منفی قدر کی نشان دہی کرتاہے۔ اجتماعی زندگی کا یعنی مل جل کر رہنے کا صدیوں پرانا انسانی وصف آج کے صارفی سماج میں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کی صورت میں بکھر گیا ہے۔ رنگ سبز اور ماحولیاتی تحفظ آج کی اتنی اہم بحث بن چکی ہے کہ تنقید کا ایک نیا اسکول سبز تنقید(Green Criticism)وجود میں آگئی ہے۔ اردو میں اس حوالے سے راست طور پر پہلا متن فریاد آزر نے ہی خلق کیاہے۔ علاوہ ازیں لفظ’خلا‘بھی ان کی شاعری میں بار بار استعمال ہوا ہے جس سے نہ کہ ماحولیات بلکہ ہم عصر زندگی کے تضادات،خطرناکیوں کی نشان دہی میں مدد ملی ہے:# کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی 235 مگر وہ ملتا ہے مجھ سے خلا کے لہجے میں# میں تھک چکا ہوں اور آخری صدا میری 235 انھیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے# عجب جستجو ہے خلاؤں میں بھی زندگی ڈھونڈتا پھر رہا ہوں 235 سمندر کی لہروں پہ میں نقش دریا دلی ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں# حصار کائنات سے نکل کے ڈھونڈتے تجھے 235 مگر خلا سے آگے کوئی راستہ نہیں ملا (خزاں میرا موسم)# تخیلات میں پھر تاج و تخت اگنے لگے 235 زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اگنے لگے# خلاؤں میں کبھی پھرتا ہوں آزر 235 کبھی میں چاند پر دیکھا گیا ہوں# خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے 235 پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے (قسطوں میں گزرتی زندگی) ’خلا‘کا استعمال بطور ماحولیاتی فکر مندی خزاں میرا موسم کے شعر نمبر(2)(3)میں ہوا ہے او ر یہ تو اب واضح ہو چکا ہے کہ آج کاانسان بارودکی ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے اور آخری سانسیں گن رہاہے۔ تباہی کے بعد وہ خلا میں آواز کی صورت محفوظ رہ جائے گا یہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ انسان کی خواہشیں لا محتتم ہیں۔ زمین تا خلا وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ تیسرے شعر میں طنز ہے اور وہ یہ کہ انسان کی یہ کون سی تحقیق ہے کہ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پاتا کہ بعض اشیا کی تحقیق اسے بجائے فائدے کے نقصان پہنچائے گی اس خیال کو شعر کے دوسرے مصرعے میں سمندر کی لہروں پہ نقش دریا دلی ڈھونڈھنے جیسے واقعے سے واضح کیاگیاہے۔ یہاں دریادلی اور لہروں میں مناسبت قابل داد ہے۔ قسطوں میں گزرتی زندگی کے شعر(1)میں انسان کی ہوسناکی اور خواہش بے جا کا مضمون قلم بند ہوا ہے دوسرے شعر میں بھی انسان کی لگاتار کوششوں اور فطرت کو مسخر کرنے کا سیاق ابھارا گیا ہے اور تیسرے شعر میں بھی انسان کی اسی ہوسناکی اور بے جاترقی اور اس نام پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ اب تو خلا کو آلودہ کرنے میں سائنس دانوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ یہاں ٹھہر کر ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ آزر نے فطرت کے ایک وسیع و عریض منظر’صحرا‘کو اپنی شاعری کا اہم ساختیہ بنایاہے۔ صحرا کی خوبی یہ ہے کہ اس پر ثقافت کی کائی بہت جلد نہیں جمتی۔ یہ زمانوں تک رہنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ماحولیاتی مفکرین اسے خالص فطرت کے ذیل میں رکھتے ہیں لیکن آج یہ بھی گلوبل وارمنگ سے اثر انداز ہو چکاہے۔ ایسا فکشن جس میں زندگی کے گہرے رازوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہو یا ایسی شاعری جس میں تقدیر کے المیے کو پیش کیا گیا ہو صحراوہاں اظہار کا ایک گہرا ساختہ بن جاتاہے۔ دنیا کے نبی،اوتار عبادت کے لیے صحرا میں گئے اور انھیں زندگی کے راز سر بستہ سے آگہی حاصل ہوئی۔ اس امر کا احساس اقبال کو بھی تھا جب انھوں نے کہا تھا کہ ’’ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی 235 یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی اقبال کے اس شعر کا مطلب اتنا ہی ہے کہ صحرا ئی انسان ہی فطرت کے مقاصد کی سمجھ رکھتے ہیں۔ اس لفظ کا ایک سیاق اسلام اور اس کے ذریعے دنیا میں قائم ہونے والی ثقافت سے متعلق تلازمہ بھی ہے: اب تو وحشت بھی بدلنے لگی منزل اپنی 235 شہر کی اور بڑھے آتے ہیں صحراؤں کے لوگ صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر 235 تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یوں ہی آنسو رواں 235 نام ان کو دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات (قسطوں میں گزرتی زندگی) پہلے شعر میں وحشت اور صحرا ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ ما بعد جدید غزل میں شہر اور دیہات کا تقابل اظہر من الشمس ہے۔ ما بعد جدید غزل کا راوی شہر سے نفریں اور گاؤں کے ختم ہونے پر حد درجہ فکر مند نظر آتاہے۔ اس امر کا ذکر اوپر کیاگیاہے کہ کیونکر اب صحرا بھی اپنی فطرت بدلنے لگا ہے۔ اس بات کی طرف فنی طریقے سے فریاد آزر نے بھی اشارہ کیاہے۔ دوسرے اور تیسرے شعر میں ماضی کے لوٹ آنے کی طرف صحرا کے حوالے سے ایقان کا اظہار کیاگیاہے۔ ہم اگر فریاد آزر کا غزلیہ متن پڑھیں اور اب تک کی گفتگو کو دھیان میں رکھیں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فریاد آزر نے ما قبل بیانیہ یعنی اساطیر کی رد تشکیل کا متن بنانے میں اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ دلچسپی لی ہے۔ ان کے زیادہ تر اساطیر اسلامی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے اس اساطیر کے ذریعے حال کے تضادات کو پرانے اور نئے کے فرق کو واضح کیاہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں: نوح ؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور 235 خواہشوں کا ایک بحر بیکراں جلتا ہوا ذرا سی دیر میں دیوار قہقہہ آزرؔ 235 فصیل گریہ میں تبدیل ہونے والی ہے کوئی ہابیل صفت شخص نہ بچنے پائے 235 یہ ہے اعلان مرے شہر کے قابیلوں کا عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی 235 بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا اپنا زمین پھراسی مرکز پہ جلد آ جائے 235 ندائے کن میں سنوں ابتدا کے لہجے میں پرندے لوہے کے اب کنکری گرانے لگے 235 عذاب ہم پہ ہے کیوں اب رہا کے لہجے میں کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی235آج سیتا کی خاطر جنک بک گئی کس نے دل میں آگ لگائی 235 کون آیا لنکا کے اندر طوفان نوح اور نوح کے ذریعے بنائی گئی کشتی کا قصہ کسے معلوم نہیں۔ حددرجہ گہرا شعر ہے۔ طوفان نوح میں نوح کی کشتی رواں دواں ہے۔ اس میں تب دنیا کے جانداروں کے ہر جوڑے سنبھال کر رکھے گئے تھے۔ آج کی دنیا ہی طوفان نوح بن گئی ہے اور کشتی میں خواہشوں کا طوفان لہریں لے رہاہے۔ اشارہ انسان کی بے لگام خواہشوں کی طرف کیاگیاہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر دنیا تباہی کے دہانے پر ہے لیکن اس بار نہ نوح کی امت سبک کشتی میں ہے اور نہ امت کی فکر کرنے والے نوح۔ اسی طرح دوسرے شعر میں دیوار قہقہہ کی اساطیر کے سہارے زندگی میں اچانک ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ تیسرے شعر میں ہابیل جسے قابیل نے مار دیاتھا اور جسے دفن کرنے کا طریقہ فطرت (کوا)نے سکھایا تھا دراصل قابیل کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس نے ہابیل کا قتل کیاہے۔ آج کا قابیل سب کچھ جانتے ہوئے نہ کہ اپنے بھائیوں کو مار رہاہے بلکہ وہ ہابیل صفت کوئی انسان اس دھرتی پر نہ رہے اس فکر میں بھی مبتلا ہے۔ اسی طرح سے ندائے کن ،بدن کے نیزے، لوہے کی کنکری کا گرانا،سویمبر،سیتا ،جنک اور آخری شعر جس کا سیاق اردو غزل کا اہم ایجنڈا عشق ہے اس ناقابل بیان اور ناقابل تفہیم جذبے کی تصویر کشی کے لیے جس طرح سے اساطیر کو آرکی ٹائیپی پیکر میں بدلا گیا ہے اس کی داد جتنی دی جائے کم ہے۔ اس شعر میں غزل کا روایتی رنگ سر چڑھ کر بولتا نظر آتاہے۔ تجاہل عارفانہ نے کہ’کون آیا لنکا کے اندر235اور کس نے دل میں آگ لگائی‘کمال کا شعری اظہار ہے۔ لنکا کو دل کہنا جدت کی عمدہ مثال ہے۔ دراصل دل لنکا ہے نہیں کیونکہ لنکا تو راون کی نگری ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ لنکا کی یاد آگئی ہے کیونکہ محبوب جیسے ہی دل میں آیا ایسی آگ لگی کہ دنیا ہی بدل گئی۔ ویسی ہی آگ جیسی ہنومان نے لنکا میں سیتا کی خاطر لگائی تھی۔ اس شعر پر جتنی بھی گفتگو کی جائے کم ہے۔ آئیے فریاد آزرکے کچھ ایسے اشعار پر نظر ڈالیں جن کی تعداد قابل ذکر ہے اور جن میں معنی آفرینی اور تہ داری کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہے یا جسے قاری اپنے اپنے طور پر مختلف النوع انداز سے معنی اخذ کرنے میں خود کو لطف محسوس کرتاہے۔ ایسے اشعار اور ان کے مضامین ہر نوع کے ہیں۔ آئیے کچھ عشق کے تہذیبی و تخلیقی رنگ میں ڈوبے اشعار اور کچھ غم زمانہ کو سمجھنے اور سمجھانے والے گہرے اشعار پر ایک نگاہ ڈالیں : ہزار چاہا کوئی اور صنف اپناؤں 235 میں شاعری کو غزل سے جدا نہ کر پایا اپنے ہی معنی کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے235مستند کتنے بھی ہوں اب معتبر کوئی نہیں ہے مجاز کا سنہرا حسن چھا گیا نگاہ پر 235 کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہو گیا یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مسدود 235 کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر ہوا وجود مٹا دے گی ایک لمحے میں 235 یہ کس نے پھوس کے گھر میں دیا جلایا ہے تنفس اک مسلسل خود کشی کا نام ہے شاید 235 میں جتنا جیتا ہوں اتنی نفی محسوس ہوتی ہے یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ 235 یاد آیا نہیں د روازہ کھلا کس سے تھا کچھ تو پانی کی لکیروں پہ لکھا ہے، کیا ہے؟235زندگی آگ ہے مٹی ہے، ہوا ہے، کیا ہے؟ چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا 235 رکے تو پانو سے آگے نکل گئی صدیاں وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے 235 مجھے اک بار پھر سونا پڑے گا پہلے شعر پر نظریاتی بحث گھنٹوں چھڑ سکتی ہے کہ کیوں ہزار کوششوں کے بعد ایک شاعر یا ایک قاری غزل ہی پسند کرتاہے۔ دوسرا شعر ساختیاتی اور پس ساختیاتی تناظر میں لفظ و معنی کی تھیوری کی طولانی بحث کا متقاضی ہے۔ شاعر کو علم ہے کہ کسی لفظ کے اس کے اپنے معنی ہوتے ہی نہیں کیونکہ ہر لفظ کے معنی ایک لفظ ہے۔ تیسرا شعر وجود اور شہود کی صدیوں پرانی بحث کو نئے طریقے سے قاری کے ذہن میں لایاگیاہے۔ وجود اور شہود کا فرق تبھی تک ہے جب تک سالک وجود کی منزلوں میں یعنی مجاز کے سنہرے حسن کے اثر میں ہوتاہے۔ جیسے ہی سالک مسلوک سے جا ملتاہے جلوۂ شہود ختم ہوجاتاہے۔ یعنی بندے اور خدا کا فرق اعتباری ہے حقیقی نہیں۔ چوتھا شعر پڑھتے ہی ذوق کی یاد آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے235مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘لیکن آزر نے اس شعر میں ایک ایسے کردار کو پیش کیاہے جس کا تجربہ یہ ہے کہ دنیا ایک ایسا قید خانہ ہے جس میں انسان چاہے نہ چاہے رہنا ہی پڑتاہے۔ کائنات سے بچنے کے لیے کسی پانچویں سمت کی تلاش بے سود ہے۔ کہا یہ ہے کہ دنیا سے نفرت اس سے بھاگنے کی کوشش بے سود ہے۔ ہر حال میں دنیا کرنی پڑتی ہے۔ آٹھویں شعر کو پڑھ کر بیک وقت غالب اور فانی یاد آتے ہیں۔ فانی کے نزدیک زندگی دیوانے کا خواب ہے،آزر کے نزدیک زندگی کے بارے میں اگر کچھ کسی نے بیان دیاہے یا لکھا ہے کہ زندگی کیاہے تو افسوس کہ اس نے کاغذ کت بجائے یہ باتیں پانی پر لکھی ہیں۔ غور کیجئے کہ بھلا پانی پر تحریر کی گئی کسی حقیقت کو بھلا کون پڑھ سکتاہے۔ دوسرے مصرعے میں سوال کی تکرار زندگی کی بے معنویت کی طرف نہیں ہمیں زندگی کی گہرائیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ چھٹے شعر میں تنفس کو یعنی آتی جاتی سانسوں کو خودکشی کا نام دینا بلیغ استعارہ ہے۔ کیونکہ زندگی کی ہر سانس ہمیں موت کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان ہر لمحہ نفی کے غار میں لڑھکتا ہوا خود کو محسوس کرتاہے۔ ساتویں شعر کو پڑھ کر علی بابا اور مرجینا کی اساطیری کہانی کی یاد آتی ہے۔ جسے اس شعر میں گوندھ کر پیش کیاگیاہے۔ یہ ایک عجیب و غریب شعر ہے جس کی تعبیر کی کوشش کسی ایک طور پر ممکن نہیں۔ شعر میں لفظ دروازہ آیاہے۔ کہانی میں یہ خزانے کا دروازہ تھا جسے کھولنے کے لیے ہر شخص کو کھل جا سم سم کہنا پڑتا تھا۔ کہانی کے کردار کو اس لفظ کے بھول جانے کی وجہ سے کیا کیا پریشانیاں ہوئیں تھیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس اساطیری کہانی کی رد تشکیل کرتے ہوئے شاید یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم دنیا میں آتے ہیں اور یہاں کے طرح طرح کے عیش و آرام میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم وہ ایک لفظ بھول جاتے ہیں۔ وہ لفظ دراصل دنیا کا بنانے والا ہو سکتاہے ،انسان کا ضمیر ہو سکتاہے،انسان کی انسانیت ہو سکتی ہے۔ یہ اور اس طرح کی اور بھی امور اس شعر کے حوالے سے قارئین سامنے لا سکتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے آخری شعرپر اپنی گفتگو ختم کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ جس میں وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے کے ’وہ‘کو ڈی کوڈ کرنا ضروری ہے اور’ مجھے ایک بار پھر سونا پڑے گا‘میں فعل’سونا‘کو سونا پر غور کرنا ازحد ضروری ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ غزل کا بنیادی ایجنڈاعشق و محبت اور احترام آدمی اور روحانی ہم رشتگی ہے۔’وہ‘ واحد غائب کون ہے؟ظاہر سی بات ہے کہ محبوب ہے۔ چونکہ ہجر کی راتوں میں محبوب سے ملنے کا وسیلہ خواب ہوتاہے لیکن کبھی کبھی اس خواب کی وجہ سے انسان جاگ بھی جاتاہے۔ یعنی ہجر کا مارا عاشق حقیقت کی بجائے خواب میں ہی جینا زیادہ پسند کرتاہے۔’مجھے ایک بار پھر سونا پڑے‘مصرعے کے ذریعے یہی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غزل کی اشاریت اور رمزیت اور اس میں کچھ کھو جانے اور کچھ پالینے کا انداز اشعار میں لطیف ایمائیت پیدا کر دیتی ہے۔ شعر میں معنی کے اور بھی قرینے ڈھونڈے جا سکتے ہیں اور یہی زندہ اور تہ دار اشعار کی پہچان ہوتی ہے۔ اخیر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ فریاد آزرنے اپنی شاعری میں رنگوں کے استعارے کے ذریعے ہم عصر زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیاہے۔ اساطیری استعاریت کے ذریعے ماضی اور حالی کی کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی ہے۔ ان کے عشقیہ رنگ کی شاعری میں زمینی اور مقامی رنگ کو نمایاں مقام عطا کیاگیاہے۔ معاصر ثقافتی صورت حال اور عام آدمی کا شہر میں کیسا برا حال ہو گیاہے اس دکھ کو زبان دینے کی کوشش کی گئی ہے اور فطری انسان کی معصومیت کی تلاش کے جذبے نے فی زمانہ ماحولیاتی آلودگی کو انھیں ہم عصرزندگی کا سب سے بڑا خطرہ تصور کرنے پر مجبور کر دیاہے۔ ان کی غزلیہ شاعری میں بارود کی ڈھیر پر بیٹھی اس دنیا کے تحفظ کے لیے شانتی اور امن کے پجاری یعنی ایک ایسی سبز آدمی کی تلاش پر حد درجہ زور دیاگیاہے۔ اردو میں مقصدی شاعری کرنے والے شعرا ہمیشہ ناقدین کے نشانے پر رہے ہیں۔ آزر کی شاعری کی ایک اہم موتیف اپنے مذہب اور قوم کی زبوں حالی کا تجزیہ ہے۔ اس لحاظ سے آزر کی شاعری بھی مقصدی شاعری کے خانے میں چلی جاتی ہے لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فی زمانہ جس نوع کی شاعری ہو رہی ہے اس میں فریاد آزر ایک اہم غزل گو شاعر کی حیثیت سے 80کے بعد کی غزلیہ شاعری میں ناقابل فراموش شاعر کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام بن چکے ہیں۔