قسطنطنیہ کے محاصروں کی فہرست


بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے ہیں۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے مسیحیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔

قدیم باز نطینی سلطنت کے تمام ایشیائی ممالک پر عثمانی قابض ہو گئے تھے، لہٰذا یورپ میں بھی صرف قسطنطنیہ اور اس کے مضافات اس میں شامل ہونا باقی تھے، سلطنت عثمانیہ، قسطنطنیہ کی فتح کے بغیر ادھوری تھی, ایک اُربان (Urban) نامی توپ خانے کا ماہر تھا بھاگ کر سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں چلا آیا، اس نے سلطان کو ایک بہترین توپ بنا کر دی، جس کے سنگی گولوں کا قطر ڈھائی فٹ تھا،[1] 26 ربیع الاول 857ھ بہ مطابق 6 اپریل 1453 ء کو زبردست محاصرہ کے آغاز کر دیا گیا مسلسل انتھک محنت اور جان فشانی کے بعد 29 مئی 1453 ء 20 جمادی الاول کو بلاخر قسطنطنیہ فتحیاب ہوا۔

قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔

ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔

1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔

شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گذر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔

ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔

تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:

بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت

(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)

قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دار الحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔

چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔

آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔

عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔

عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔

اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔

اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیر سلیمان بن عبد الملک نے بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔

شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دار الحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔

سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔

اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔

سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔ سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دار الخلافہ اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔

سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہور معمار سنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔

یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔ یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔ 29 مئی 1453 کو جمعرات کا دن تھا۔

مسلمانوں کے محاصرے

ترمیم
  • مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔
  • دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو مسیحی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔ محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔
  • عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کیے جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔
  • دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔
  • 1453ء میں شہر کا آخری محاصرہ سلطان محمد فاتح نے کیا جس میں مسلمانوں نے محیر العقل کارنامہ انجام دیتے ہوئے شہر کو فتح کر لیا۔

فہرست

ترمیم
تاریخ حملہ آور دفاع کرنے والے فورسز کا استعمال نتیجہ[A] حوالہ جات
510 ق م ہخامنشی سلطنت بازنطیوم بحری اور زمینی کامیاب [2][3][4]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
478 ق م Delian League ہخامنشی سلطنت بحری کامیاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[5]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
408 ق م کلاسیکی ایتھنز بازنطیوم, میگارا, بوتیہ بحری اور زمینی کامیاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[6][7]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
340–339 ق م مقدونیہ (قدیم مملکت) بازنطیوم, کلاسیکی ایتھنز بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[8]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[9]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
278–277 ق م Galatians بازنطیوم زمینی اٹھا لیا گیا لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[10]
251 ق م سلوقی سلطنت بازنطیوم, Heraclea Pontica,
سلطنت بطلیموس
بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
73–72 ق م Pontus بازنطیوم بحری اور زمینی ناکام [B]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[11]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
193–194 سیپتیموس سویروس پیشینیوس نیجر بحری اور زمینی کامیاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
313 ماکسیمینوس دوم لیچینیوس زمینی کامیاب [12][13]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[14]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
324 قسطنطین اعظم لیچینیوس بحری اور زمینی کامیاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
378 گوتھس لوگ رومی سلطنت زمینی ناکام [15][16][17]
626 Pannonian Avars, ساسانی سلطنت بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[18]
654 خلافت راشدہ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام [19][20]
669 بنو امیہ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام [21][22][23][24]
674–678 بنو امیہ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[25]
715 تھیودوسیوس سوم, بازنطینی سلطنت Anastasios II, بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی کامیاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[26]
717–718 بنو امیہ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
813 سلطنت بلغاریہ اول بازنطینی سلطنت زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
821–822 Thomas the Slav مائیکل دوم بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
860 Rus' Khaganate بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام [C]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
907 کیویائی روس بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
913 سلطنت بلغاریہ اول بازنطینی سلطنت زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
921 سلطنت بلغاریہ اول بازنطینی سلطنت زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
923 سلطنت بلغاریہ اول بازنطینی سلطنت زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
941 کیویائی روس بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1047 Leo Tornikios قسطنطین نہم مونوماخوس زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1203 چوتھی صلیبی جنگ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی اٹھا لیا گیا لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[27]
1204 چوتھی صلیبی جنگ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی کامیاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[28][29]
1235–1236 سلطنت نیقیہ, سلطنت بلغاریہ دوم لاطینی سلطنت, Duchy of the Archipelago بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1260 سلطنت نیقیہ لاطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام [30]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1376 آندرونیکوس چہارم پالایولوگوس, سلطنت عثمانیہ, جمہوریہ جینوا جان پیجم پالایولوگوس زمینی کامیاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1391 سلطنت عثمانیہ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[31][32]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1394–1402 سلطنت عثمانیہ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[33][34]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1411 موسی چلبی بازنطینی سلطنت زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[35][36][37]
1422 سلطنت عثمانیہ بازنطینی سلطنت زمینی ناکام لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[38]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
1453 سلطنت عثمانیہ بازنطینی سلطنت بحری اور زمینی کامیاب [39][40][41][42]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ( بہ حوالہ ، سلطنت عثمانیہ جلد اول ص 99)
  2. Herodotos (2012)۔ Tarih۔ Müntekim Ökmen, çev. (8 اشاعت)۔ İstanbul: Türkiye İş Bankası Kültür Yayınları۔ ص 392۔ ISBN:978-975-458-721-0
  3. Vasilev, Miroslav Ivanov (2015). The Policy of Darius and Xerxes towards Thrace and Macedonia (انگریزی میں). Lahey: Brill. p. 86. DOI:10.1163/9789004282155. ISBN:978-90-04-28214-8.
  4. Kuban، Doğan (1993)۔ "Bizantion"۔ Dünden Bugüne İstanbul Ansiklopedisi۔ İstanbul: Tarih Vakfı Yayınları۔ ج 2۔ ص 258–260
  5. Harris, Jonathan (2017). Constantinople: Capital of Byzantium (انگریزی میں) (2 ed.). Londra: Bloomsbury Publishing. p. 26. DOI:10.1111/j.1540-6563.2009.00246_52.x. ISBN:978-1-4742-5465-6. S2CID:144417364.
  6. Arslan، Murat (2011)، "Alkibiades'in Khalkhedon ve Byzantion Kuşatması: Nedenleri ve Sonuçları"، بہ Şahin، Hamdi؛ Konyar، Erkan؛ Engin، Gürkan (مدیران)، Özsait Armağanı: Mehmet ve Nesrin Özsait Onuruna Sunulan Makaleler، Antalya: Suna-İnan Kıraç Akdeniz Medeniyetleri Araştırma Enstitüsü، ص 9–22، ISBN:978-605-4018-09-3
  7. Grote, George (2001). A History of Greece: From the Time of Solon to 403 B.C. (انگریزی میں). Londra: Routledge. p. 884. ISBN:0-415-22369-5.
  8. Sevin، Veli (2016)۔ Anadolu'nun Tarihi Coğrafyası I (4 اشاعت)۔ Ankara: Türk Tarih Kurumu Yayınları۔ ص 24۔ ISBN:978-975-16-0984-7
  9. Tekin، Oğuz (2001)۔ Byzas'tan I. Constantinus'a Kadar Eskiçağ'da İstanbul (2 اشاعت)۔ İstanbul: Eskiçağ Bilimleri Enstitüsü Yayınları۔ ص 33۔ ISBN:978-975-7938-04-0
  10. Arslan، Murat (جنوری–فروری 2014)۔ "Galatların Byzantion Kuşatması"۔ Aktüel Arkeoloji۔ İstanbul: Arkeoloji ve Sanat Yayınları شمارہ 37: 68–75۔ ISSN:1307-5756
  11. Grillo, Luca (2015). Cicero's De Provinciis Consularibus Oratio (انگریزی میں). Londra: Oxford University Press. p. 116. ISBN:978-0-19-022459-2.
  12. Sextus Aurelius Victor (1994). Aurelius Victor: De Caesaribus (انگریزی میں). H. W. Bird, çev. Liverpool: Liverpool University Press. p. 188. DOI:10.3828/978-0-85323-218-6. ISBN:978-0-85323-218-6.
  13. Gibbon، Edward (1988)۔ Roma İmparatorluğu'nun Gerileyiş ve Çöküş Tarihi۔ Asım Baltacıgil, çev.۔ İstanbul: Bilim, Felsefe, Sanat Yayınları۔ ج I۔ ص 444
  14. "İstanbul"۔ Meydan Larousse۔ İstanbul: Sabah۔ ج 10۔ 1992۔ ص 77
  15. Alexander Van Millingen (31 اکتوبر 2010)۔ Byzantine Constantinople: The Walls of the City and Adjoining Historical Sites۔ Cambridge University Press۔ ص 40–۔ ISBN:978-1-108-01456-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-19
  16. Stephen Turnbull (21 اگست 2012)۔ The Walls of Constantinople AD 324-1453۔ Osprey Publishing۔ ص 5–۔ ISBN:978-1-78200-224-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-19[مردہ ربط]
  17. Jane Penrose (2005)۔ Rome and Her Enemies: An Empire Created and Destroyed by War۔ Osprey Publishing۔ ص 269–۔ ISBN:978-1-84176-932-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-19[مردہ ربط]
  18. Reazaei، Iman S. (ستمبر 2016)۔ "V.-VII. Yüzyıllarda Bizans-Sâsânî İlişkileri"۔ İraniyat Dergisi۔ Ankara: İranoloji Derneği Yayınları شمارہ 1: 18–31
  19. O'Sullivan، Shaun (1 جنوری 2004)۔ "Sebeos' account of an Arab attack on Constantinople in 654"۔ Byzantine and Modern Greek Studies۔ ج 28 شمارہ 1: 67–88۔ DOI:10.1179/byz.2004.28.1.67۔ ISSN:0307-0131۔ S2CID:161590308
  20. Hoyland, Robert G. (1 جنوری 2014). In God's Path: The Arab Conquests and the Creation of an Islamic Empire (انگریزی میں). Oxford University Press. p. 107. ISBN:978-0-19-991636-8.
  21. Jankowiak, Marek (2013), "The first Arab siege of Constantinople", In Zuckerman, Constantin (ed.), Travaux et Mémoires Tome XVII - Constructing the Seventh Century (انگریزی میں), Paris: Association des Amis du Centre d’Histoire et Civilisation de Byzance, pp. 237–320, ISBN:978-2-916716-45-9
  22. Apak، Adem (جولائی 2009)۔ "Emevîler Döneminde Anadolu'da Arap-Bizans Mücadelesi"۔ Uludağ Üniversitesi İlahiyat Fakültesi Dergisi۔ Bursa: Uludağ Üniversitesi İlahiyat Fakültesi۔ ج 18 شمارہ 2: 104۔ ISSN:1301-3394
  23. Unan، Fahri (14 ستمبر 2009)۔ "Müslümanlar ve İstanbul"۔ hacettepe.edu.tr۔ مورخہ 2017-08-25 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-08-26
  24. Uçar، Şahin (1990)۔ Anadolu'da İslâm-Bizans Mücadelesi۔ İstanbul: İşaret Yayınları۔ ص 82
  25. Hitti، Philip K. (1989)۔ Siyâsî ve Kültürel İslam Tarihi۔ Salih Tuğ, çev.۔ İstanbul: Boğaziçi Yayınları۔ ج II۔ ص 320
  26. Sumner, Graham V. (1976). "Philippicus, Anastasius II and Theodosius III". Greek, Roman, and Byzantine Studies (انگریزی میں). Durham, North Carolina: Duke University Department of Classical Studies. 17 (3): 287–294. ISSN:2159-3159. OCLC:6415521.
  27. Demirkent، Işın (1997)۔ Haçlı Seferleri۔ İstanbul: Dünya Yayıncılık۔ ص 172۔ ISBN:975-7632-54-6
  28. Robert de Clari (1994)۔ İstanbul'un Zaptı (1204)۔ Beynun Akyavaş, çev.۔ Ankara: Türk Tarih Kurumu Yayınları۔ ص VI
  29. Ayönü، Yusuf (جولائی 2015)۔ "IV. Haçlı Seferi'nin Ardından Batı Anadolu'da Mücadele Eden İki Rakip: İstanbul Latin Krallığı ve İznik İmparatorluğu"۔ Cihannüma: Tarih ve Coğrafya Araştırmaları Dergisi۔ İzmir: İzmir Katip Çelebi Üniversitesi Sosyal ve Beşeri Bilimler Fakültesi۔ ج 1 شمارہ 1: 13۔ DOI:10.30517/cihannuma.283488۔ ISSN:2149-0678
  30. Georgios Akrapolites (2008)۔ Vekayinâme۔ Bilge Umar, çev.۔ İstanbul: Arkeoloji ve Sanat Yayınları۔ ص 162۔ ISBN:978-605-396-093-5
  31. Eroğlu، Haldun (2004)۔ "Osmanlıların 1453 Öncesi İstanbul Kuşatmaları"۔ Tarih Araştırmaları Dergisi۔ Ankara: Ankara Üniversitesi Dil ve Tarih Coğrafya Fakültesi۔ ج 22 شمارہ 35: 89–101۔ DOI:10.1501/Tarar_0000000188۔ ISSN:1015-1826
  32. Demirkent، Işın (2001)۔ "İstanbul"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Türkiye Diyanet Vakfı Yayınları۔ ج 23۔ ص 205–212
  33. Taeschner، Franz (1990)۔ "1453 Yılına Kadar Osmanlı Türkleri"۔ Tarih İncelemeleri Dergisi۔ Necmi Ülker, çev.۔ İzmir: Ege Üniversitesi Edebiyat Fakültesi Tarih Bölümü۔ ج 5 شمارہ 1: 296۔ ISSN:0257-4152
  34. Cezar، Mustafa (2010)۔ Mufassal Osmanlı Tarihi۔ Ankara: Türk Tarih Kurumu Yayınları۔ ج I۔ ص 233۔ ISBN:978-975-16-2322-5
  35. Başar، Fahameddin (2006)۔ "Mûsâ Çelebi"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Türkiye Diyanet Vakfı Yayınları۔ ج 31۔ ص 216–217۔ ISBN:975-389-427-9
  36. Tekirdağ، Şehabeddin (1979)۔ "Mûsâ Çelebî"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Millî Eğitim Bakanlığı Devlet Kitapları Müdürlüğü۔ ج 8۔ ص 661–666
  37. İnalcık، Halil (1979)۔ "Murad II"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Millî Eğitim Bakanlığı Devlet Kitapları Müdürlüğü۔ ج 8۔ ص 600
  38. Yeorgios Francis (1992)۔ Şehir Düştü۔ Kriton Dinçmen, çev.۔ İstanbul: İletişim Yayınları۔ ص 98۔ ISBN:975-470-283-7
  39. Barbaro، Nicolò (2007)۔ Konstantiniye'den İstanbul'a۔ Muharrem Tan, çev.۔ İstanbul: Moralite Yayınları۔ ص 183۔ ISBN:978-975-6397-96-1
  40. Âşık Paşazâde (2003)۔ Osmanoğulları'nın Tarihi۔ Kemal Yavuz; M. A. Yekta Saraç, çev.۔ İstanbul: Koç Kültür Sanat Tanıtım۔ ص 222۔ ISBN:975296043X
  41. Ak، Mahmut؛ Başar، Fahameddin (2010)۔ İstanbul'un Fetih Günlüğü (2 اشاعت)۔ İstanbul: Çamlıca Basım Yayın۔ ص 47۔ ISBN:978-9944-905-96-1