قیس بن مسہر صیداوی کا نام حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفہ جانے والوں میں ملتا ہے۔ تاریخی مستندات کے بعض واقعات کے مد نظر انھیں کربلا کے شہیدوں میں سے پہلا شہید شمار کیا گیا ہے۔ واقعۂ کربلا میں حضرت مسلم بن عقیل اور حضرت امام حسین ؑکے درمیان نامہ رسانی کی بدولت قیس کا نام قاصد کے عنوان سے یاد رکھا گیا ہے۔ ان کا نام زیارت ناحیہ میں مذکور ہے۔

خاندانی تعارف

ترمیم

قیس بن مسہر کا مکمل نام قیس بن مسہر بن خلید بن جندب بن منقذ بن جسر بن نکرة بن صیداء[1]تھا۔ قبیلۂ قیس بنی صیداء کے نام سے معروف تھے۔ یہ قبیلہ بنی اسد کا ایک حصہ شمار ہوتا ہے[2]۔ اسی وجہ سے منابع میں انھیں بنی اسد میں شمار کیا گیا ہے[3]۔ آپ کے اجداد میں ایک کا نام نکرہ ہونے کی وجہ سے انھیں قیس بن مسہر نکری بھی کہا گیا ہے۔[4]۔

تاریخی روایات میں انھیں شریف، بہادر اور خاندان اہل بیت کا محب کہا گیا ہے۔ شاعر کمیت اسدی نے اسے بنی صیداء کا شیخ کہا ہے۔[5] ۔

نامہ رسانی

ترمیم

واقعۂ کربلا میں اس شخصیت کا اصلی کردار نامہ رسانی کا تھا۔ قیس نے اس واقعہ میں جن خطوط کو پہنچانے کا کام کیا وہ درج ذیل ہیں:

  • مکہ میں کوفیوں کے خطوط کو امام حسین ؑ تک پہنچانا۔[6]
  • حضرت مسلم کے خطوط کوفہ کے سفر میں امام حسین ؑ تک خطوط کا پہنچانا۔
  • حضرت امام حسین ؑ کے جواب کو حضرت مسلم تک پہنچانا۔
  • حضرت مسلم بن عقیل کا ہم سفر ہونا اور مسلم کی طرف سے کوفیوں کی بیعت کی اطلاع کا خط امام تک پہنچانا۔[7]۔
  • حضرت امام حسین ؑ کی ہم سفری اور حاجز کے مقام سے کوفیوں کی طرف خط لے کر جانا۔[8]۔

امام حسین کے کوفیوں کے نام خطوط

ترمیم

عبد اللہ بن سبع ہمدانی اور عبد اللہ بن قیس کے توسط سے کوفیوں کے لکھے ہوئے خطوط حضرت امام حسین کو رمضان کی دس تاریخ کو ملے۔ دو دن کے بعد قیس بن مسہر صیداوی، عبد الرحمان بن عبد اللہ ارحبی اور عمارة بن عبید سلولی کوفیوں کی طرف سے 150 خطوط اور لے کر امام کے پاس پہنچے۔[9]

اس سے پتہ چلتا ہے قیس کوفہ کے رہنے والا تھے اور امام حسین ؑ تک خطوط پہنچانے کے لیے مکہ آئے۔

مسلم کے نام خطوط

ترمیم

قیس تین دن استراحت کرنے کے بعد 15 رمضان کو امام حسین کے حکم پر مسلم بن عقیل کے ہمراہ مکہ سے کوفہ کی طرف نکلے۔[10]مسلم اپنے اہل خانہ کو خداحافظی کہنے کی خاطر پہلے مدینہ آئے۔[11] کوفہ جانے کے راستوں سے واقف دو شخص بھی آن ہمراہ تھے جو راستے میں پیاس کی شدت کی وجہ سے فوت ہو گئے۔[12]

پہلا خط:

حضرت مسلم نے خبیت کے مقام سے امام حسین کو خط لکھا۔ قیس نے امام تک پہنچایا اور جواب لے کر مسلم تک پہنچا۔[13]

سفر کا جاری رہنا:

قیس نے مسلم بن عقیل کے ساتھ سفر جاری رکھا اور عمارة بن عبید سلولی و عبد الرحمن بن عبد اللّہ بن کدن ارحبی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قیس تمام راستے میں مسلم بن عقیل کے ہمراہ تھے یہاں تک کہ مختار کے گھر پہنچ گئے۔[14]

افرادی قوت کے لیے تگ و دو:

قیس کوفہ سے اپنے قبیلے بنی اسد آئے اور لوگوں کو حضرت مسلم کے آنے کی اطلاع دی۔ پس حبیب بن مظاہر اسی قبیلے سے مسلم سے ملاقات کے لیے آئے۔[15]

دوسرا خط:

کوفیوں حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کرنے کے بعد قیس مسلم بن عقیل کا دوسرا خط یہاں سے لے کر امام کی خدمت میں پہنچے۔ اس نامے کو امام تک پہنچانے میں عابس بن ابی شبیب شاکری نے قیس کے ساتھ ہمراہی کی۔[16] بعض ماخذ میں شوذب کا نام دیکھنے کو ملتا ہے۔

انجام کار

ترمیم

آخری نامہ رسانی

ترمیم

حضرت امام حسین قیس کو وادئ حاجز سے کوفہ بھیجا آپ نے اس سفر میں مسلم بن عقیل کو امام کا خط دیا[17] بعض نقل کے مطابق یہ خط کربلا سے کوفہ بھیجا[18] بہر حال یہ خط حضرت مسلم کی شہادت کے بعد بھیجا گیا ۔.[19]

گرفتاری

ترمیم

قیس بن مسہر صیداوی جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر نے انھیں گرفتار کر لیا نیز اس نے قیس کو ابن زیاد کی طرف روانہ کیا[20] تاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی حکم صادر کرے۔البتہ قیس نے گرفتار ہونے سے پہلے امام کا خط پھاڑ دیا تا کہ وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگے ۔[21]

ابن زیاد سے گفتگو

ترمیم

دارالامارہ میں ابن زیاد کے پاس جب قیس کوپیش کیا گیا تو ان کے ما بین یہ گفتگو ہوئی:

ابن زیاد: تو کون ہے؟

قیس: علی اور حسین کے شیعوں میں سے ایک ۔

ابن زیاد: خط کیوں پھاڑ دیا؟

قیس: تا کہ تجھے پتہ نہ چلے کہ اس میں کیا لکھا تھا۔

ابن زیاد: کس کی طرف سے تھا اور کسے لکھا گیا تھا؟

قیس: امام حسین کی طرف سے کوفے کی ایک جماعت کے نام تھا ۔ ان کے نام نہیں جانتا ہوں۔

ابن زیاد آگ بگولہ ہوا اور اسنے کہا:خدا کی قسم!اس وقت تیری جان نہیں چھٹے گی جب تک تو مجھے ان کے نام نہیں بتاتا یا یہ کہ منبر پر جاؤ اور جھوٹے حسین بن علی اور اس کے باپ پر لعنت کرو ورنہ تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔

قیس : اس جماعت کے نام نہیں بتاتا لیکن لعنت کر دیتا ہوں۔ [22]

شہادت

ترمیم

قیس منبر پر گئے اور یوں گویا ہوئے :

میں اس پر خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں۔ پھر کہا:اے لوگو!یہ حسین بن علی ہے جو خدا کی مخلوق میں سے سب سے بہتر ہے اور یہ فاطمہ بنت محمد رسول خدا ہے۔ میں حسین کی جانب سے تمھاری طرف بھیجا گیا ہوں پس تم (اہل کوفہ) اسے جواب دو۔ یہ کہہ کر قیس نے عبید اللہ بن زیاد پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب کے لیے استغفار اور درود بھیجا۔

یہ سننا تھا کہ ابن زیاد نے اسے دار الامارہ سے نیچے گرانے کا حکم دیا۔ انھیں جب گرایا گیا تو ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ابھی سانس باقی تھی کہ عبد الملک بن عمیر لخمی نے ان کا سر تن سے جدا کیا۔ حاضرین نے اس فعل پر اسے عار دلائی تو اس نے کہا میں چاہتا تھا اسے جلد راحت کر دوں۔ ان کے جسد کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔[23] بعض ماخذ میں یہ داستان عبد اللہ بن یقطر کے لیے مذکور ہوئی ہے۔[24]

تاریخ شہادت

ترمیم

قیس بن عبد اللہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف ہے بعض حضرت امام حسین عذیب الہیجانات کے مقام پر تھے کہ ان کی شہادت ہوئی مقتل الحسین (ع)، المقرم، ص192؛ وقعہ الطف، أبو مخنف، ص174.۔ اس لحاظ سے امام کے کربلا میں پہنچنے سے پہلے شہید ہوئے۔ لیکن بعض روایات کے مطابق کربلا سے کوفہ خط لے جاتے ہوئے دو محرم اور عاشورا کے درمیان شہادت ہوئی۔

بہرحال یہ بات قطعی ہے کہ قیس مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد عازمِ کوفہ ہوئے لہذا ان کی شہادت روزِ عرفہ کے بعد ہے۔

امام حسینؑ کا رد عمل

ترمیم

طرماح بن عدی کے ذریعے جب امام حسین کو قیس کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے نمناک آنکھوں سے اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۔احزاب٢٣ ان میں کچھ شہادت کو پہنچ گئے ہیں اور کچھ ان میں سے اس کے منتظر ہیں اور وہ کسی صورت میں (اپنے عقیدے کو) تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔ اور فرمایا :بار الہا!ہمارے اور ان کے لیے بہشت قرار دے نیز ہمارے اور ان کے درمیان رحمت قرار دے اور ثواب مرحمت فرما۔[25]

بعض نے کہا ہے کہ مجمع بن عبد اللہ عائدی نے شہادت قیس کی خبر پہنچائی۔[26]

نامہ رسانی کا اختلاف

ترمیم

بہت سے تاریخی مستندات میں خطوط کی ارسال و ترسیل میں قیس بن مسہر کی جگہ عبد اللہ بن یقطر مذکور ہے۔ لیکن کوفہ بھیجے جانے کا راستہ مختلف ذکر ہوا ہے۔ لیکن باریک بینی سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے نامہ رسانی کے درمیان تفاوت موجود ہے۔[27][28]

امام نے ایک دفعہ عبد اللہ بن یقطر کو ایک راستے سے کوفہ روانہ کیا دوسری مرتبہ ایک دوسرے راستے سے قیس بن مسہر کو روانہ کیا۔ لیکن دونوں قاصد گرفتار ہو گئے اور شہید ہو گئے۔

زیارت ناحیہ

ترمیم

زیارت ناحیہ میں آپ کا نام بھی مذکور ہے :السلام علی قیس بن مسهر الصیداوی

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. أنساب الأشراف، ج11، ص 164؛جمہرةأنساب العرب، متن، ص 195.
  2. تاریخ الیعقوبی، ج1، ص 230.
  3. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج2، ص 24.
  4. تاج العروس، الزبیدی، ج7، ص 559.
  5. نفس المہموم، شیخ عباس قمی، ص 586.
  6. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص 573؛ تاریخ الطبری، ج 6، ص294 ط أولی مصر
  7. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص 573.
  8. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص 573.
  9. مقتل الحسین(ع)، الخوارزمی، ج1، ص 283؛ الإرشاد، المفید، ج2، ص 38؛ موسوعہ التاریخ الإسلامی، الیوسفی الغروی، ج6، ص 111.
  10. الإرشاد، المفید، ج2، ص 39؛ وقعۃ الطف، أبو مخنف، ص 97.
  11. وقعہ الطف، أبو مخنف، ص 96.
  12. تاریخ الطبری، ج5، ص 354.
  13. تاریخ الطبری، ج5، ص 354؛ در کربلا چہ گذشت، ص 112.
  14. وقعہ الطف، أبو مخنف، ص 97؛ در کربلا چہ گذشت، ص 109.
  15. موسوعہ التاریخ الإسلامی، الیوسفی الغروی، ج6، ص 71.
  16. تاریخ الطبری، ج 6 ص210؛ مثیر الأحزان، ابن نما الحلی، ص 32.
  17. وقعہ الطف، أبو مخنف، ص 159؛ نہایة الأرب، النویری، ج20، ص 412.
  18. مقتل الحسین(ع)، الخوارزمی، ج1، ص 335؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص 180.
  19. الطبقات الکبری، خامسۃ1، ص 463؛ موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص 571.
  20. الأخبارالطوال، ص 246؛ نہایة الأرب، النویری، ج20، ص413؛ الطبقات الکبری، خامسہ1، ص463؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص 152.
  21. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص 573.
  22. دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص152.
  23. شیخ مفید، الارشاد،2/71
  24. بلاذری،انساب الاشراف2/169
  25. نفس المہموم، الشیخ عباس القمی، ص586؛ موسوعہ التاریخ الإسلامی، الیوسفی الغروی، ج6، ص124.
  26. در کربلا چہ گذشت، ص240.
  27. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص552.
  28. پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، ص319.
  29. أنساب الأشراف، ج3، ص 167؛ چاپزکار، ج3، ص378؛ موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص553؛ تجارب الأمم، ج2، ص60.
  30. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج1، ص 553.

کتابیات

ترمیم
  • ابن حزم (م 456)، جمہرة أنساب العرب، تحقیق لجنہ من العلماء، بیروت،دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، 1403/1983.
  • ابن نما حلی(841 ق)، مثیر الأحزان، مدرسہ الإمام المہدی عجّل الله تعالی فرجہ الشریف، قم1406 ق.
  • ابومخنف کوفی(158 ق)، وقعۃ الطف، جامعہ مدرسین، قم،1417 ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر(م279)کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،دار الفکر، ط الأولی، 1417/1996ق
  • خوارزمی، موفق بن احمد(568 ق)، مقتل الحسین علیه‌السلام، انوار الہدی، قم، 1423 ق.
  • دینوری، ابوحنیفہ احمد بن داود(م282)الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال،قم، منشورات الرضی، 1368ش.
  • زرکلی، خیر الدین(م1396)الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت،دار العلم للملایین، ط الثامنة، 1989.
  • سید ابن طاوس(664 ق)، لہوف / ترجمہ، مترجم سید ابو الحسن میر ابوطالبی، دلیل ما، قم.
  • شیخ مفید(413ق)، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم، 1413 ق.
  • طبری، ابوجعفر محمدبن جریر(م310)تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،دار التراث، ط الثانیۃ، 1387/1967.
  • قمی، شیخ عباس، نفس المہموم فی مصیبۃ سیدنا الحسین المظلوم، المکتبۃ الحیدریۃ، نجف.
  • قمی،شیخ عباس، مترجم کمره‌ای، در کربلا چه گذشت / ترجمہ نفس المہموم، مسجد جمکران،قم، 1381 ش.
  • لبیب بیضون، موسوعۃ کربلاء، مؤسسہ الاعلمی، بیروت، 1427 ق.
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی(1110 ق)،بحار الأنوار(ط- بیروت،دار إحیاء التراث العربی، بیروت، 1403 ق، دوم.
  • مقرم، عبد الرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام مقرم / ترجمہ، محمد مہدی عزیزالہی کرمانی،،نوید اسلام، قم.
  • نویری(733 ق)نہایة الأرب فی فنون الأدب،دار الکتب و الوثائق القومیہ، قاهره، 1423 ق.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وهب(م292)، تاریخ الیعقوبی، بیروت،دار صادر، بی‌تا.
  • یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعۃ التاریخ الإسلامی، مجمع اندیشہ اسلامی، قم، 1417 ق.