لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس (16 اگست 1888ء19 مئی 1935ء)، جنہیں پیشہ ورانہ طور پر ٹی۔ای لارنس (T. E. Lawrence) کے طور پر جانا جاتا تھا، برطانوی افواج کے ایک معروف افسر تھے جنہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں عرب علاقوں میں بغاوت کو منظم کرنے کے باعث عالمی شہرت ملی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔
یہ خبیث دراصل انگلستان کے ایک زمیندار تھامس چیپمین (Thomas Chapman) اور اس کی نوکرانی سارہ جونر (Sarah Junner) کی ناجائز اولاد تھا۔ اس نوکرانی کی ماں خود بھی لارنس نامی ایک انگریزی امیر کی ناجائز بیٹی تھی، اس لیے خود کو سارہ "لارنس" کہلاتی تھی۔ جب یہ چیپمین سے حاملہ ہوئی تو اسے اپنی حقیقی بیوی بچوں کو آئرلینڈ میں چھوڑ چھاڑ کر خود انگلستان چلنے کو کہا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور نئے ملک میں جاکر دونوں نے خود کو مسٹر اور مسز لارنس کہلوانا شروع کر دیا مگر حقیقی شادی کبھی نہیں کی۔[16] ان کے ہاں لارنس آف عربیہ سمیت 5 دوہرے حرامی بچے پیدا ہوئے۔
اسلامی خلافت کے خاتمے کے لیے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات جگا کر انھیں ترکوں کے خلاف متحد کرنے کے باعث انھیں لارنس آف عربیہ (Lawrence of Arabia) بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ خطاب 1962ء میں لارنس آف عربیہ کے نام سے جاری ہونے والی فلم کے باعث عالمی شہرت اختیار کر گیا۔

تھامس لارنس
(انگریزی میں: Thomas Edward Lawrence ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 16 اگست 1888ء[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تریمادوج[8]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 مئی 1935ء (47 سال)[1][2][3][4][9][5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بووینگٹن کیمپ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات ٹریفک حادثہ  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سینٹ نکولس چرچ[10]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات حادثاتی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت متحدہ
متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ (–12 اپریل 1927)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
اے ڈبلیو لارنس[11]  ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جیزس کالج، اوکسفرڈ (1907–1910)
میگڈالن کالج (1910–)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم تاریخ  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر انسانیات،  ماہر آثاریات،  آپ بیتی نگار،  مصنف[12]،  فوجی افسر،  منظر نویس،  مترجم،  جاسوس،  سفارت کار،  پائلٹ،  فوجی افسر[12]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فرانسیسی،  انگریزی[13][14]،  عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ اوکسفرڈ  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
شاخ برطانوی فوج،  شاہی فضائیہ  ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ لیفٹینٹ کرنل[15]
کرنل  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں پہلی جنگ عظیم،  عرب بغاوت،  محاصرہ مدینہ،  معرکہ عقبہ،  معرکہ مجدو،  معرکہ دمشق  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 لیجن آف آنر
 سی بی  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لارنس جدہ کے شمالی علاقہ رابغ (موجودہ سعودی عرب) میں 1917ء

1915 ء کے آخری عشرے میں جب ترک مجاہدوں نے انگریز حملہ آوروں کو ناکوں چنے چبوائے اور مارچ 1916ء کو دریائے دجلہ کے کنارے ترک کرنل خلیل پاشا نے برطانیہ کی دس ہزار سپاہ کو عبرتناک شکست دی، تو انگریزوں کو یہ احساس ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کا میدان جنگ میں مقابلہ نہیں کرسکتے ۔لارڈ کرزن نے ہوگرتھ کے ذریعے " تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے مشن پر عمل کرنے کی ہدایت کی، لارنس نے عربی لباس بھی پہننا شروع کیا وہ عربی زبان اچھی خاصی جانتا تھا لہٰذا لارنس آف عربیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ستمبر 1911ء میں اس نے بصرہ کے ہوٹل میں جاسوسی کا ادارہ قائم کیا اور دو عرب نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ ایک جاسوس یہودی لڑکی بھی اس کی ہمراہ تھی جس نے اس کی بڑی مدد کی۔ اس کا نام Gertrude Bell تھا اور دراصل وہ برطانیہ کے سب سے معزز غیر عیسائی (یہودی) افسر Sir Hugh Bell کی بیٹی اور مشہور لبرل سیاست دان Sir Lowthian Bell کی پوتی تھی۔ اس نے عربی نوجوانوں پر دام حسن ڈال کر ترکوں کی بیخ کنی شروع کردی۔ انگریزوں نے لارنس کو ہدایت کی کہ وہ برلن سے بغداد جانے والی ریلوے لائن سے متعلق اطلاعات لندن پہنچائے اور ایسے افراد کا انتخاب کرے جو ضمیر فروش ہونے کے ساتھ ساتھ بااثر بھی ہوں۔ ان دنوں عراقی ریلوے لائن دریائے فرات تک پہنچ چکی تھی اور دریا پر پل باندھا جار ہا تھا۔ اس پل کے قریب لارنس نے آثار قدیمہ کے نگران اعلیٰ کا روپ دھار کر کھدائی شروع کروا دی، آثار قدیمہ کی کھدائی محض بہانہ تھی اصل مقصد برلن بغداد، ریلوے لائن کی جاسوسی تھا۔ یہاں سے وہ ہر روز خبریں لکھ کر لندن روانہ کرتا رہتا۔ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اس نے مزید غداروں اور ضمیر فروشوں کی تلاش شروع کی۔ کافی تگ و دو کے بعد اس نے ترک پارلیمنٹ کے رکن سلیمان فائزی کا انتخاب کیا اور خطیر رقم کا لالچ دیکر اس کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی۔ فائزی نے بڑی حقارت سے اس کی پیشکش ٹھکرا دی اور دھکے مار کر لارنس کو نکال دیا۔ لارنس بڑا عقلمند اور جہان دیدہ تھا۔ اس نے سلیمان فائزی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور کافی غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا کہ برطانیہ کے لیے قابل اعتماد آلہ کار اور اپنے ڈھب کا غدار اس کو پڑھے لکھے، دولت مند اور سیاسی لوگوں میں سے نہیں مل سکتا اس لیے مذہب کی آڑ لینا شروع کی۔ وہ بصرہ کی مسجد میں گیا اور مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ عربی لباس پہن کر عرب صحرا نشینوں میں گھل مل گیا۔ لارنس نے بدوؤں میں دو لاکھ پونڈ ہر ماہ تقسیم کرنا شروع کردیے اس نے " پونڈ" پانی کی طرح بہا کر عربوں کو اپنا مداح بنا لیا۔ وہ اس کو اپنا محسن اور مربی سمجھنے لگے اور ان کی مدد سے لارنس نے گورنر مکہ حسین ہاشمی تک رسائی حاصل کر لی اور اپنی چرب زبانی اور مکارانہ چالوں سے حسین ہاشمی کو گمراہ کرنے میں زیادہ دقت پیش نہ آئی۔ پاسبان حرم کو شیشے میں اتارنے کے بعد لارنس نے اپنی پوری توجہ حسین ہاشمی کے بیٹوں عبد اللہ، علی، فیصل اور زید پر مرکوز کی۔ ان کو باور کرایا کہ سيد زاده ہو کر دوسروں کی ماتحتی میں زندگی گزارنا ذلت آمیز ہے۔ ابتدا میں تو چاروں نے لارنس کی بات پر زیادہ توجہ نہ دی مگر اپنے باپ کے پیہم اصرار پر اور لارنس کی چکنی چپڑی باتوں کے باعث ان کے دلوں میں آہستہ آہستہ ترکوں کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی اور پھر ایک دن انھوں نے اپنے مکان کی کھڑکی سے ترکوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ اس طرح ترکوں کے خلاف عربوں کی بغاوت کا آغاز کروا کر لارنس بڑا خوش ہوا اور لندن اطلاع دی کہ کھیل شروع ہو گیا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11911458q — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/T-E-Lawrence — بنام: T.E. Lawrence — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  3. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w68s4tz7 — بنام: T. E. Lawrence — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/1430 — بنام: T.E. Lawrence — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. ^ ا ب پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p32510.htm#i325091 — بنام: Lt.-Col. Thomas Edward Lawrence — مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی
  6. ^ ا ب بنام: Thomas Edward Lawrence — Pontificia Università della Santa Croce ID: https://catalogo.pusc.it/cgi-bin/koha/opac-authoritiesdetail.pl?marc=1&authid=45742
  7. GeneaStar person ID: https://www.geneastar.org/genealogie/?refcelebrite=lawrencet — بنام: T. E. Lawrence
  8. Lawrence rarity sells for £18,000 — شائع شدہ از: 19 فروری 2001
  9. https://brockhaus.de/ecs/julex/article/lawrence-t-e-thomas-edward — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  10. http://www.stnicholasmoreton.org.uk/about/4579459938 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 فروری 2019
  11. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.biodiversitylibrary.org/item/135884#page/191 — عنوان : Arnold Walter Lawrence — جلد: 85 — صفحہ: 181-182
  12. https://cs.isabart.org/person/94934 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  13. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11911458q — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  14. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/10897507
  15. مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی
  16. Benson-Gyles, Dick (2016). The Boy in the Mask: The Hidden World of Lawrence of Arabia. The Lilliput Press