لیث قریشی

اردو زبان کے شاعر

لیث قریشی (پیدائش:4 مئی 1922ء - 29 اپریل 2011ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے غزل اور نعت کے نامور شاعر تھے۔ ان کے چار شعری مجموعے اور طوقِ حیات کے نام سے خودنوشت شائع ہو چکی ہے۔

لیث قریشی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: ابو اللیث قریشی ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 4 مئی 1922ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
غازی آباد ضلع، بھارت ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 اپریل 2011ء (89 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت ریزرو بینک آف انڈیا ،  نیشنل بینک آف پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

لیث قریشی 4 مئی 1922ء کو موضع بھوجاپور، ضلع غازی آباد، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام ابو اللیث قریشی تھا مگر لیث قریشی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔[1] آبائی وطن اعظم گڑھ تھا۔ والد کا نام مولوی ابو الحسن تھا، جو جید عالم تھے۔لیث نے گاؤں کے دینی مدرسے اور پرائمری اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ساتویں جماعت تک شبلی ہائی اسکول اعظم گڑھ میں زیر تعلیم رہے۔ اس کے بعد آسام کے ضلع ڈبرو گڑھ تلس کیا کے سنئی رام ڈونگر مل ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔پھر دس سال تک تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے دو سال تک کانپور کی دو مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرنے کے بعد سی او ڈی میں ملازمت اختیار کی۔ 1945ء میں ریزرو بینک آف انڈیا کے کلکتہ دفتر میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے کلرک بھرتی ہو گئے۔ اکتوبر 1949ء میں مشرقی پاکستان پہنچے اور ڈھاکہ میں سکونت اختیار کر لی۔ ڈھاکہ میں انھیں نیشنل بینک آف پاکستان میں ملازمت مل گئی۔ تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ڈھاکہ یونیورسٹی سے 1951ء میں آئی کام اور پھر 1953ء میں بی اے پاس کیا۔ فروری 1954ء میں ان کا تبادلہ ڈھاکہ سے کراچی ہو گیا۔نیشنل بنک آف پاکستان میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سینئر وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے۔دس سال اس عہدے پر رہ کر 12 مارچ 1985ء کو ریٹائر ہو ئے۔

1943ء میں انھیں شعر و سخن کا ذوق پیدا ہو۔ 1946ء میں ان کا کلام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپنے لگا۔لیث قرشی نے 1989ء کے بعد مستقل نعت گوئی کی طرف توجہ دی۔حج اور کئی بار زیارتِ حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔ ان کے چار شعری مجموعے لمس گریزاں (مجموعۂ غزل، 1976ء)، عکسِ لرزاں (مجموعۂ نظم و غزل، 1983ء)، تاباں تاباں (مجموعۂ نعت، 1991ء) اور شعلۂ رقصاں (مجموعۂ نظم و غزل، 1996ء) شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خودنوشت طوقِ حیات کے نام شائع ہو چکی ہے۔ لیث قریشی 29 اپریل 2011ء میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔[2][3]

نمونۂ کلام

ترمیم

نعت رسولِ مقبول

وہ جس نے اِک نیا اسلوب بخشا ذہنِ دل کو وہ جس نے اِک حیاتِ جاوداں دی بزمِ امکاں کو
فضائے جہل کو جس نے ضیائے علم و حکمت دیوہ جس نے عام فرمایا جہاں میں نورِ عرفاں کو
علم بردارِ تہذیب و تمدن نے بہر صورتسنوارا ہر جہت سے وقت کی زلفِ پرشاں کو
جو تھے گمراہ بالآخر وہ راہِ راست پر آئےبحکمِ ایزدی دانا بنایا جس نے ناداں کو
نہ ہوتی گر نگاہِ لطف اس کی ڈوب ہی جاتیبغیر لمس ہی اُس نے اُبھارا نبضِ دوراں کو
کلامِ حق سنایا اہلِ مکہ کو بایں صورتبلند آہنگ سے منبر بنایا کوہِ فاراں کو
سلام ایسے رسولِ محترم پر کیوں نہ بھیجیں ہمہے جس کے دم سے لیث اب تک، بلند اسلام کا پرچم[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت'، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، 2016ء، ص 463
  2. "لیث قریشیہ"۔ ریختہ فاؤنڈیشن، بھارت۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اگست 2021 
  3. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، 2016ء، ص 464-465
  4. لیث قریشی، تاباں تاباں، القمر پبلی کیشنز، کراچی، ص 66