مائیکل مدھو سودن دت

ہندوستانی شاعر

مائیکل مدھو سودن دت ((بنگالی: মাইকেল মধুসূদন দত্ত)‏) ‏(25 جنوری 1824ء – 29 جون 1873ء) انیسویں صدی کے مشہور و معروف بنگالی شاعر اور ڈراما نگار تھے۔ وہ بنگالی ڈراما کے پہل کار سمجھے جاتے ہیں۔[1] ان کی مشہور تصنیف میگھ ناد بدھ کاویا ایک المیہ رزمیہ داستان ہے، جس میں نو بند ہیں۔ یہ رزمیہ اپنے اسلوب اور مواد دونوں حیثیت سے بنگالی ادب میں استثنائی درجہ رکھتا ہے۔ نیز انھوں نے غزل، رومانی اور المناک شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔

مائیکل مدھو سودن دت
مقامی نامমাইকেল মধুসূদন দত্ত
پیدائش25 جنوری 1824(1824-01-25)
ساگورداری، جیسور ضلع، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی ہند (موجودہ بنگلہ دیش)
وفات29 جون 1873(1873-60-29) (عمر  49 سال)
کولکاتا، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی ہند
آخری آرام گاہلوور سرکیولر روڈ سیمیٹری
پیشہمصنف
قومیتبرطانوی ہندوستانی
اصنافشاعر، ڈراما نویس
موضوعادب
ادبی تحریکبنگالی نشاۃ ثانیہ
شریک حیاتریبیکا تھامپسن مک ٹیوش (ش۔ 1848–1873)
ساتھیایمیا ہینریٹا صوفی وائٹ (ساتھی 1855؟–1873)
اولاد
  • مک ٹیوش دت
  • ہینریٹا الزبتھ سرمسٹا (1859 – 15 فروری 1879)
  • فریڈرک مائیکل ملٹن (23 جولائی 1861 – 11 جون 1875)
  • البرٹ نپولین (1869 – 22 اگست 1909)
رشتہ دار
  • راج ناراین دت (باپ)
  • جانبی دوی (ماں)

مدھو سودن دت کا شمار عموماً بنگالی ادب کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے، انھیں بابائے بنگالی سانیٹ کہا گیا ہے۔ نیز جسے امتراکشر چند (نظم معرا) کہتے ہیں وہ اس کے موجد ہیں۔ تاہم کا ان کا پہلا پیار شاعری ہی تھا جس میں انھوں نے تمثیل نگار کی حیثیت سے اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔ نیز مدھو سودن بنگالی زبان میں انگریزی اسلوب میں ڈراما نگاری کرنے والے پہلے شخص ہیں، اس اسلوب میں ڈراموں کو دو حصوں ناٹک اور مناظر میں منقسم کیا جاتا ہے۔ نیز وہ بنگالی زبان میں طنزیہ ڈراموں کے بھی موجد ہیں۔[2]

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

مدھو سودن غیر منقسم بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) کے ضلع جیسور کے کیشاب پور ذیلی ضلع میں واقع ساگورداری گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام راج ناراین دت تھا جو صدر دیوانی عدالت[3] میں وکیل تھے اور ان کی والدہ کا نام جھانبی دیوی تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز شیخ پورا گاؤں کی ایک قدیم مسجد سے ہوا جہاں وہ فارسی سیکھنے جایا کرتے تھے۔

مدھو سودن استثنائی صلاحیت کے حامل تھے۔ بچپن ہی سے ان کے اساتذہ نے ان کے اندر موجود ادبی اظہار کی صلاحیت کا اندازہ لگا لیا تھا۔ وہ غیر معمولی تخیل کے مالک تھے۔ گھر میں اور بعد ازاں کلکتہ میں انگریزی تعلیم اور یورپی ادب کے مطالعے نے ان کے ذوق، عادات و اطوار اور ذہن کو خاصا متاثر کیا تھا اور وہ اس کی ہمسری کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

مدھو سودن کی شخصیت پر ابتدائی تاثر ہندو کالج، کلکتہ میں ان کے استاد ڈیوڈ لیسٹر رچرڈسن کا تھا۔ وہ شاعر تھا، اس نے مدھو سودن کے اندر انگریزی خصوصاً بائرن کی شاعری سے محبت پیدا کی۔

وفات

ترمیم

مدھو سودن نے 29 جون 1873ء کو کلکتہ جنرل ہاسپٹل میں وفات پائی۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Charles E. Buckland (1999)۔ Dictionary of Indian Biography۔ Cosmo Publication۔ ص 128–۔ ISBN:978-81-7020-897-6۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-01
  2. "Michael Madhusudan Dutta"۔ Calcuttaweb۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-01[self-published source]
  3. Moreno، H. W. B. (1923)۔ "Michael Madhu Sudhan Dutt & His Anglo-Indian Wives"۔ Journal of the Calcutta Historical Society۔ ج 26 شمارہ Bengal Past And Present – بذریعہ Digital Library of India[مردہ ربط]
  4. Paranjape، Makarand R. (2012)۔ Making India: Colonialism, National Culture, and the Afterlife of Indian English Authority۔ Springer۔ ص 76–78۔ ISBN:9789400746602 – بذریعہ گوگل بکس

بیرونی روابط

ترمیم