مالوہ
مالوہ، (Malwa) وسطی شمالی ہندوستان کا ایک قدرتی خطہ ہے جو ایک آتش فشانی سطح مرتفع پر واقع ہے۔ ارضیاتی طور پر مالوہ سے مراد وندھیہ سلسلہ کوہ کی آتش فشانی سطح مرتفع ہے۔ سیاسی اور انتظامی طور تاریخی خطہ مالوہ مغربی مدھیہ پردیش کے اضلاع اور جنوب مشرقی راجستھان کے حصوں پرر مشتمل ہے۔
ਮਾਲਵਾ | |
---|---|
قدرتی خطہ (سابق انتظامی تقسیم) | |
مہو، مالوہ میں موجود فوجی چھاؤنی کی ایک تصویر | |
1823 میں مالوہ کا رقبہ | |
ملک | بھارت |
رقبہ | |
• کل | 81,767 کلومیٹر2 (31,570 میل مربع) |
بلندی[1] | 500 میل (1,600 فٹ) |
آبادی (2001) | |
• کل | 18,889,000 |
• کثافت | 230/کلومیٹر2 (600/میل مربع) |
زبانیں | |
• اہم زبانیں | مالوی، ہندی |
• شرح پیدائش | 31.6 (2001) |
• شرح اموات | 31.6 (2001) |
• کمسن شرح اموات | 93.8 (2001) |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+05:30) |
سب سے بڑا شہر | اندور |
مالوہ، ہندوستان کا درمیان میں ایک پر فضا کوہستانی علاقہ جہاں بڑے بڑے راجا، مہاراجا اور شہنشاہوں نے حکمرانی کی۔
حدود اربعہ
ترمیمہندو ماخذو ں میں مالوہ کا اطلاق شمال و جنوب میں کوہ بندھیا چل سے لے کر چتوڑا اور مکندرا پہاڑوں تک ہے، جب کے مشرق و مغرب میں بھوپال سے دو حد{داہود} تک ہے، اس کی تایید مالوہ کی قدرتی حدود سے بھی ہوتی ہے؛ چنانچہ ان حدود کے اندر پہاڑوں کی نوعیت یکساں ہے اور کسی جگہ بھی اس علاقہ کی بلندی اور حالت ظاہری میں فرق نہیں آیا ہے، شاہان دہلی اپنی سہولت ور رواج کے بموجب زیادہ تر صوبوں کا تعین کر دیتے تھے، ان کی وسیع عملداری صوبوں میں تقسیم تھی جن کا حاکم اعلیٰ صوبہ دار یا نائب بادشاہ ہوتا تھا اور اس کے زیر حکومت کل علاقہ کو صوبہ کہتے تھے ؛ لہذا صوبہ ایک سیاسی نام تھا نہ کہ جغرافیائی [2]اس لیے مالوہ خاص اس سطح مرتفع کو کہ سکتے ہیں جو عموما کشادہ اور نہایت زرخیز ہے ؛ البتہ اس میں جگہ بہ جگہ مخروطی اور چوڑی چوٹیوں کی پہاڑیاں اور پست قامت پہاڑیوں کے سلسلہ ہیں اور اس کو متعدد دریا اور چھوٹی چھوٹی ندیا سیراب کرتی ہیں[3]
مالوہ اور اسلام
ترمیممحمد بن قاسم کے حملہ{93ھ م 612ء} کے بعد جنید بن عبد الرحمن المری والی سندھ نے حبیب ابن مرہ کی سالاری میں ایک دستہ مالوہ کی طرف بھیجا جو مشہور تاریخی شہر بکر ماجیت کی دار الحکومت اذین {اجین} تک پہنچا اور صلح و فتح کے بعد یہ قافلہ یہاں سے واپس ہو گیا۔[4]
حبیب ابن مرہ کے بعد صوبہ مالوہ میں مسلمان سیاحوں میں سب سے پہلے مشہورعالم سیاح و مورخ علامہ مسعودی کی آمد کا ثبوت ملتا ہے، جس وقت علامہ مسعودی مالوہ میں فروکش ہوئے وہ زمانہ راجا بلہرا {306ھ م 917ء} حاکم مالوہ کا تھا[5]
مسعودی کی سیاحتِ ہند کے کچھ عرصہ بعد چالیس مرادن حق اور عاشقان خدا کا ایک قافلہ ملک مالوہ کے تاریخی شہر دھار کی گھاٹیوں میں رات میں اترا صبح سویرے جب غلغلہ اذان بلند ہوا تو باشندگان شہر پر یہ صدا بجلی بن کر گری جس کے نتیجہ میں وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور اسلام کے ان سچے عاشقوں کو شہید کر دیا۔
مسعودی کے تقریباً 125 سال بعد 441ھ میں سرتاج ابدالاں حضرت عبد اللہ چنگال راجا بھوج کی راجدھانی دھارا نگرمیں جلوہ افروز ہوئے اور اس خطے کو ایمانی شعاعوں سے منور فرمایا۔[6]
پھر سلطان سما بوم مصری افواج قاہرہ کے ساتھ زبردست لشکر لے کر مالوہ آئے، اس وقت راجا رام دیو مانڈو کا راج تھا، باہمی سخت مقابلہ ہوا اس معرکہ جنگ میں بالآخر راجا کو شکست فاش ہوئی، مانڈو پر سید سلطان بوم مصری کا قبضہ ہوا اور ستر برس تک اس پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔
پھر چوہان خاندان بر سر اقتدار آیا، مالو دیو چوہان کے دور میں سلطان غزنوی نے مغرب سے آکر مالوہ فتح کیا اور انھوں نے بھی ستر سال حکومت کی، ان کے مرنے کے بعد ان کے لڑکے علاوالدین کی کم سنی و نابالغی کی وجہ سے ان کا وزیر دحرم راج نے مختار کل بن کر زمام اقتدار ہاتھ میں لے لی، جب علاوالدین بالغ ہوا تو کشمکش کا آغاز ہوا 20 سال کی حکمرانی کے بعد دھرم راج لڑائی میں مارا گیا اور سلطان علاو الدین تخت نشین ہوا، 20 سال حکومت کے بعد جب اس نے رحلت کی تو اس کا لڑکا سلطان کمال الدین مسند نشین مالوہ ہوا، 12 سال حکمرانی کے بعد سلطان کمال الدین جیت مل چوہان کے ہاتھوں قتل ہوا اور جیت مل راجا بن گیا۔
پھر راجا بیر سین کے دور حکومت میں ایک افغان مالوہ آیا اور س نے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملاکر راجا کو شکار گاہ میں ختم کیا اور جلال الدین لقب اختیار کرکے 22 سال تک مالوہ پر داد حکمرانی دی، اس کے بعد اس کا لڑکا سلطان عالم شاہ تخت نشین مالوہ ہوا، راجا بیر سین نے اپنے لڑکے کی شادی راجا کامرو کے یہاں کی تھی جس نے کھڑک سین کو اپنا ولیعہد بنایا تھا، راجا کامرو کے بعد کھڑک سین نے مالوہ پر چڑھائی کی اور سلطان اعظم شاہ کو قتل کرکے اپنا کھویاہوا ملک پھر سے حاصل کر لیا۔
{8} راجا مکت سنگھ کے زمانہ میں دکن سے بہادر شاہ نامی ایک شخص حملہ آور ہوا، سکت سنگھ اس جنگ میں مارا گیا اور بہادر شاہ مذکور خود مختار بن بیٹھا، چند ماہ حکومت کرنے اور طاقت فراہم کرنے کے بعد اس نے دہلی پر دھاوا بول دیا، اس وقت سلطان شہاب الدین غوری نے بہادر شاہ کو گرفتار کیا اور مالوہ پر اپنا قبضہ جما لیا، یہ واقعہ رائے پتھورا کی شکست کے بعد کا ہے[7]۔
شاہان مالوہ
ترمیمسن 624 ء میں راجا بھوج (اول) کی آزاد حکومت
سن 700 ء میں وکرم آدتیہ کی آزاد اور دہلی سلطنت کے ماتحت حکمرانی
سن 712 ء میں عبد الرحمان المروئی کی دہلی سلطنت کے ماتحت حکمرانی
سن 712 اور 916 کے درمیان میں راجا رام دیو مال دیو چوہان، شیخ سلطان غزنوی کئی آزاد حکومتیں
اسی دور میں راجا دھرم راج کی حکومت دہلی سلطنت کے تحت
اور سلطان کمال الدین کی آزاد حکومت
اسی دور میں چیت مل چوہان کی دہلی سلطنت کے ماتحت حکمرانی
اور راجا ویر سین کی آزاد حکومت
اور سلطان عالم شاہ حکومت دہلی سلطنت کے ماتحت حکمرانی
اور راجا کھڈک سین حکومت دہلی سلطنت کے ماتحت حکمرانی
درمیان میں راجا سکت سین حکومت کی آزاد حکومت
اورسلطان بہادر شاہ کی آزاد حکومت
اور آخر میں سلطان شہاب الدین کی دہلی سلطنت کے ماتحت حکمرانی
917 ء میں راجا بلہارا کی آزاد حکومت
1010 ء میں راجا بھوج (دوم ) کی آزاد حکومت
1055 ء میں راجا سومیشور ( اول) راجا دیو پال کی حکومت جو کلیان کا حکمراں تھا
1233 ء میں سلطان التمش کی دہلی سلطنت کی حکمرانی
1265 ء میں غیاث الدین بلبن کی دہلی کی حکمرانی
1280 ء میں راجابھوج (سوم) کی آزاد حکومت
1305 ء میں راجا گوہلک دیو کی آزاد حکومت
1305 ء میں انیل ملک ملتانی کی حکومت دہلی سلطنت کے ماتحت
1390 ء میں صوبیدار دلاور خاں کی حکمرانی دہلی سلطنت کے ماتحت
1401 ء میں صوبیدار دلاور خاں کی خود مختار حکمرانی
1406 ء میں سلطان ہوشنگ شاہ غوری کی دہلی سلطنت کے ماتحت حکمرانی
1435 ء میں سلطان محمد شاہ غوری کی دہلی سلطنت کی حکمرانی
1436 ء میں سلطان محمود خلجی کی دہلی سلطنت کی حکمرانی
1469 ء میں سلطان غیاث الدین کی دہلی سلطنت کی حکمرانی
1500 ء میں سلطان نصرا لدین خلجی کی دہلی سلطنت کی حکمرانی
1511 ء میں سلطان محمود خلجی کی دہلی سلطنت کی حکمرانی
1531 ء میں سلطان بہادر شاہ گجراتی کی دہلی سلطنت کی حکمرانی
1542 ء میں شجاعت خاں کی حکمرانی شیر شاہ سوری سلطنت کے ماتحت
1555 ء میں سلطان ملک بایزید عرف باز بہادر کی آخری حکمرانی دہلی سلطنت کے ماتحت
مالوہ پر خلجی، ممالیک، تغلق اور مغلوں کی حکمرانی
ترمیم1305 ء میں ہی سلطان علاؤ الدین خلجی کے سپہ سالار عین الملک ملتانی نے مالوہ پرحملہ کر کے بلا مقابلہ جیت حاصل کرلی۔ راجا مہلک مانڈو قلعہ میں مارا گیا اور مالوہ پھر سے دہلی سلطنت کے ماتحت ہو گیا۔علاؤ الدین خلجی نے مالوہ فتح کرنے کے بعد مالوہ میں اپنے صوبیدار تعینات کر دیے۔ اپنے سپہ سالار ملک کافور کو دھارمیں تعینات کر کے حکمرانی قائم کرلی۔ اس کے بعد مالوہ میں مغل حکومت پھیلتی گئی۔ شہنشاہ تغلق نے دھار میں لال پتھر کا قلعہ بنوایا۔ دھار شہر کے چاروں جانب دیواروں (فصیل) تعمیر کرائی۔ دہلی کے دولت آباد میں راجدھانی قائم کرنے کے دوران میں دھار کے قلعہ میں اپنا خزانہ جمع رکھا
شہنشاہ فیروز تغلق کے دور میں ملک نظام دھار کا صوبیدار مقرر ہوا، اس کے دور میں دہلی سلطنت کمزور ہونے لگی۔ غیاث الدین بلبن کے 1365ء-1387ء اور محمد بن فیروز شاہ تغلق کے دور 1389ء-1394ء تک مالوہ دہلی سلطنت کے ماتحت رہا۔ 1390 ء میں دلاور خان غوری کو دھار کا صوبیدار مقرر کیا۔ اس وقت مالوہ کی راجدھانی دھارتھی۔ 30 جنوری 1394 ء کو شہنشاہ تغلق کی موت ہو گئی تو چھوٹا بیٹا محمود شاہ 23 مارچ 1394 ء کو بر سر اقتدار ہوا۔ اس دوران میں بھارت پرتیمور نے حملہ کر کے 18 ڈسمبر 1398 ء کو سلطان محمود کو شکست دے کر برخاست کر دیا۔ سلطان محمود فرار ہوکر دھار آگیا۔ جہاں دلاور خاں غوری نے پناہ دی۔ 1401 ء تک برخاست سلطان محمود دھار میں رہتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد سلطان محمود دھار سے چلا گیا۔ 1401 ء میں دلاور خان غوری نے دھار پرخود مختار حکومت قائم کر کے عمیدہ شاہ نام سے 1406 ء تک حاکم رہ کر دہلی سلطنت سے آزاد رہا۔ 1562 ء میں مغلوں کے حملے کے بعد مالوہ دوبارہ دہلی سلطنت کا صوبہ بن گیا جو مغلیہ سلطنت کے برخاست ہوجانے پر مراٹھوں کے قبضہ میں چلاگیا اور مراٹھوں کا اقتدار قائم ہوجانے پر مالوہ مختلف صوبوں میں تقسیم ہو گیا[8]۔
طرز حکومت
ترمیممالوہ ایک مدت تک دہلی سلطنت کا ایک صوبہ تھا اس لیے خود مختاری کے دور میں بھی یہاں کا طرز حکومت دہلی کی طرح تھا، مالوہ کا سلطان بھی مطلق العنان ہوا کرتا تھا، اپنی مشاورت کے لیے امرا٫ و وزرا کا تقرر کرتا، جو امور سلطنت میں اس کے معاون ہوتے، جن درباروں میں رعایا کو بھی آنے کی اجازت ہوتی انھیں "دربارعام" یا "مجلس عام "کہا جاتااور ایسے ہی درباروں میں ولیعہد کا اعلان ہوتا تھا، نیز سفارتی معاملات بھی ان ہی درباروں میں طے ہوتے تھے، جنگ و صلح جیسے اہم امور کے لیے جو دربار منعقد ہوتا اسے "دربار خاص"کہتے، اورجن درباروں میں صرف بادشاہ کے ذاتی امور انجام پاتے انھیں "محفل انس " کہا جاتا، سلطنت کے امور وزیر انجام دیتا جسے "عارض ممالک" کہاجاتا، مذہبی امور کا انتظام "شیخ الاسلام" کے ہاتھ میں ہوتے اور عدلیہ "قاضی " کے حوالہ تھا جس میں وہ آزاد تھا، سب کا مختار اعلیٰ سلطان ہوا کرتا، سلطان کے ذاتی عملہ میں حاجب، دبیر، دولت دار، اسیرآخور{اصطبل} میر شکار وغیرہ ہوتے تھے، اس کے علاوہ ایک ذاتی حرم بھی ہوتا، امرائے سلطنت کے پانچ سو سے بیس ہزاری تک منصب ہوتے تھے، سلطنت کے امور میں علما٫ و مشائخ کا بڑا مقام تھا، سلطان ہوشنگ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے مشورہ پر سلطنت انجام دیتا تھا، آپ کے خطوط "مکتوبات اشرفیہ" کے نام سے مشہور ہیں، اس کے بعد سلطان محمود خلجی بھی حضرت کے مکتوبات کے مطابق سلطنت انجام دیتا رہا اور سلطان غیاث الدین بھی اسی پر عمل کرتا رہا، سلطان ناصر الدین خلجی کی اپنے لڑکے محمود کو وصیت آپ ہی کے خطوط کے مطابق تھی[9]۔
مالوہ کا موسم، آب و ہوا اور پیداوار
ترمیممالوہ میں موسم نہ صرف خوشگوار رہتا ہے بلکہ مقیاس الحرارۃ کا چڑھاو اتار غیر معمولی طور پر باکل خفیف ہوتاہے، البتہ سال کے آخر دو مہینوں میں اچانک موسمی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور ہندوستان کے دیگر مقامات کی طرح اس صوبہ میں بھی موسم باراں کے بعد دو ماہ کے دوران میں تپ ولرزہ کی شکایت پیداہو جاتی ہے، لیکن جو حضرات ہندوستان کے نشیبی اور زیادہ گرم مقامات میں عرصہ دراز تک قیام کرنے کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں، ان کے لیے مالوہ کی آب و ہوا نہایت خوشگوار اور صح بخش ہے، مغربی ہندوستان کی طرح یہاں بھی برسات، جاڑا اور گرمی تین موسم ہوتے ہیں، جون، جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینوں میں یہاں پر بارش عام طور پر ہلکی اور باققاعدہ ہوتی ہے اور معمولا بارش کا اوسط تقریباً 50 انچ رہتا ہے، اگرچہ برسات ختم ہونے بعد ہی سے صبح کے وقت زیادۃ خنکی ہونے لگتی ہے، لیکن دسمبر کے آخر تک موسم زیادہ سرد نہیں ہوتا ہے اور جنوری کے مہینہ اور فروری کے ایک حصہ تک سردی پڑتی رہتی ہے، گرمی کے موسم میں تمام ہندوستان کے شمال اور مغرب کی طرف سے نہایت گرم ہوا چلتی ہے س، لیکن اس صوبہ میں گرمی معمولی ہوتی ہے اور صرف چند روز تک پڑتی ہے، گرمی میں دن کے وقت مقیاس الحرارہ یہاں پر 98 درجہ سے اونچا نہیں ہوتا، لیکن مالوہ کی راتیں موسم گرما میں بالعموم سرد اور خوش گوار ہوتی ہیں[10]
ابن بطوطہ لکھتا ہے : دھار میں گیہوں کی فصل خوب ہوتی ہے اور وہاں کے پان بڑے خوشبودار، خوش ذائقہ ہوتے ہیں اور دہلی تک بھیجے جاتے ہیں، خربوذوں کو بھی ذکر کیا ہے[11]
ابو الفضل لکھتا ہے: مالوہ میں خریف اور ربیع دونوں فصلیں خوب پکتی ہیں، یہاں پر گیہوں افیون، گنا، دھان، مٹر، کپاس، جوار، باجرہ، چنا، مونگ، اڑد، السی، تلی اور نیل کی کاشت ہوتی ہے، آم خربوذہ اور انگور خوب پکتے ہیں[12]
جہانگیر لکھتاہے: یہاں بارش کا موسم برا خوش گوار ہوتا ہے اور رات میں لحاف اوڑھنا پڑتا ہے، آم کے بارے میں لکھتا ہے کہ : بڑے خوش ذائقہ، رس دار اور بَیر ریشے کے ہوتے ہیں[13]
مالوہ کے خاص شہر، قصبے اور دار السلطنت
ترمیماجین، اندور، دھار، رتلام، نولی یا بڑھ نگر، کچروڈ{ کھاچرود} ادنیل، منڈیسر، جاور، بام پورہ، مناسا، آگر، شجاعلپور، آشٹہ، شاہجہاں پور {شاجاپور}، دیواس، ڈگ، تال، منڈاول، ماہد پور، سارنگ پور، بھوپال، دوحد{داہود}، مانڈو شادی آباد۔
گذشتہ ادوار میں اجین، دھار، مانڈو اور سارنگپور مختلف اوقات میں مالوہ کے پایہ تخت رہے[14]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Average elevation of the Malawa Plateau
- ↑ تاریخ وسط ہند از سر جان میلکم: 2/1
- ↑ تاریخ وسط ہند
- ↑ فتوح البلدان: 425/1
- ↑ مروج الذہب للمسعودی
- ↑ تاریخ مالوہ:294-296
- ↑ سیر المتأخرین: 30-35، ہندوستان اسلام کے سایہ میں:224-227
- ↑ تاریخ مالوہ: 294-296
- ↑ مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی
- ↑ تاریخ وسط ہند
- ↑ رحلۃ ابن بطوطہ
- ↑ آئین اکبری/اکبر نامہ
- ↑ تزک جہانگیری
- ↑ تاریخ وسط ہند