ڈاکٹر مبشر حسنپاکستان کے ممتاز دانشور ،سائنس دان، سول انجینئیر، استاد، سیاست دان، محقق، مبصر، صحافی، تجزیہ نگار تھے۔ وہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ اور مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بھی تھے۔

مبشر حسن
وزیر خزانہ
مدت منصب
24 دسمبر 1971 – 22 اکتوبر 1974
صدر ذوالفقار علی بھٹو
مظفر علی خان قزلباش
رانا محمد حنیف خان
معلومات شخصیت
پیدائش 22 جنوری 1922ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پانی پت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 14 مارچ 2020ء (98 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان (1947–2020)[2]
برطانوی ہند (1922–1947)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تعليم پی ایچ ڈی
مادر علمی جامعہ پنجاب
آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سول انجیئنر ،  سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

مبشر حسن 22 جنوری 1922 کو پانی پت، ہریانہ، پنجاب، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور سول انجینئری میں گریجویشن کی ڈگری پائی ۔ 1950 میں وہ امریکا چلے گئے اور آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی،امریکا (Iowa State University)سے سول انجینئری میں ماسٹر کیا۔ اور اس کے بعد پی ایچ ڈی کی غرض سے ایک مقالہ بعنوان (fundamental problems and their solution on Hydraulic engineering, a sub-discipline of civil engineering) مکمل کر کے پیش کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ مغربی پاکستان واپس آنے کے بعد لاہور میں انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں بحیثیت استاد سول انجینئری کے شعبہ سے وابستہ ہوئے۔ تدریس ان کا زندگی بھر کا شوق رہا ہے ۔

سیاسی زندگی کاآغاز

1965 میں پاک بھارت جنگ نے ڈاکٹر مبشر حسن کی فکری نہج کو ایک نئی راہ دی اور 1967 میں ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ انھوں نے ایک سیاسی منشور بعنوان "A Declaration of Unity of People"شائع کروایا۔ جو مشرقی پاکستان میں ٹیکنو ڈیموکریٹک سوشلزم کی حمایت میں لکھا گیا تھا۔ اس دوران میں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں انجینئیرنگ فزکس پر لیکچر دے رہے تھے ۔ ڈاکٹر مبشر حسن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر 1967 میں ڈاکٹر مبشر حسن ہی کے گھر پر ہونے والے ایک تاسیسی کنونشن میں ذو الفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔[3]

وزارتِ خزانہ میں تقرری

سائنس اور سیاست میں گہرے علم اور مشاہدے کے باعث ڈاکٹر مبشر حسن بہت جلد ذو الفقار علی بھٹو کے نزدیک ترین اور معتمد ترین مشیر مقرر ہوئے۔1971 کی جنگ کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن(24 دسمبر، 1971ء تا 22 اکتوبر، 1974ء) پاکستان کے دسویں وزیر خزانہ رہے ہیں۔ بھٹو کی پہلی کابینہ میں بحیثیت وزیر خزانہ انھوں نے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے ریکارڈ رقوم مختص کیں۔[4]

وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے قیام میں خدمات

1972 میں بحیثیت وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت تشکیل دینے میں ذوالفقارعلی بھٹو کی بہت معاونت کی۔1972 میں ہی انھوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت پاکستان میں ایٹمی منصوبے کے سلسلے میں عملی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ذوالفقارعلی بھٹو کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر مبشر نے اس سلسلے میں اہم اجلاس اور میٹنگز میں فعال کردار ادا کیا۔ 1974 میں ملک معراج خالد کی معطلی کے فیصلے نے ان کو کچھ حد تک سیاسی صورت حال سے مایوس کیا اور وہ1974 وزارتِ خزانہ سے مستغفی ہو گئے تاہم وہ ذو الفقار علی بھٹو کے سیاسی نصب العین سے متفق اور وفادار رہے ۔

1974 میں انھیں ذو الفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم سیکریٹیریٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے امور کا مشیر مقرر کیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے وزارتِ سائنس میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے اہم اور مثالی کردار ادا کیا۔ اور کہوٹہ پراجیکٹ کو مختلف پہلوؤں سے مننظم و مرتب کیا۔1976 میں پاکستان نیشنل الائنس کی سیاسی قیادت سے مذاکرات کی ناکام کوششوں کے نتیجے میں 1977 میں ملٹری پولیس نے ڈاکٹر مبشر حسن کی گرفتاری کا حکم دیا۔ انھیں اڈیالہ جیل میں ذو الفقار علی بھٹو کے ساتھ رکھا گیا۔ جہاں وہ ذو الفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی سات سال تک قید رہے۔1984 میں رہائی پانے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن نے انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی، لاہور میں شعبہِ انجینئری کے استاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں ۔

1988 میں بے نظیر بھٹو نے انھیں وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کی پیش کش کی جسے انھوں نے بعض سیاسی اختلافات کے باعث رد کر دیا۔ بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی (مرتضی بھٹو گروپ)کا جب آغاز ہوا تو ڈاکٹر مبشر حسن بھی اس سے وابستہ ہوئے ۔

صحافتی زندگی

اگرچہ ڈاکٹر مبشر حسن نے بحیثیت سیاست دان عملی طور پرسیاسی امور میں شرکت سے ریٹائر منٹ اختیار کر لی تاہم تشکیلِ معاشرہ کے لیے اپنا قلمی جہاد جاری رکھا اور بہت سے آرٹیکلز اپنے شعبہ انجینئری کے لیے رقم کیے۔ انھوں نے ملک کے معاشی مسائل سے متعلق بھی بہت کچھ لکھا۔ ان کے آرٹیکلز انگریزی جریدہ دی نیوز انٹرنیشنل میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے ہیں ۔[5] وہ روزنامہ دنیا میں بھی باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔[6]

ممبر شپ

  1. ممبر پاکستان اٹامک سائنٹسٹ فاؤنڈیشن(PASF)
  2. ممبر پاکستان سول انجینئیر سوسائٹی

وفات

ڈاکٹر مبشر حسن 14 مارچ 2020ء کو لاہور میں بعمر 98 برس رحلت فرما گئے،

تصانیف

اشاعت کتاب کا نام
2012 شاہراہِ انقلاب ( جلد اول و دوم ), جمہوری پبلیکیشنز لاہور
2016 رزمِ زندگی جمہوری پبلیکیشنز لاہور [7]
سن اشاعت نام کتاب
1954 On the general education of an engineer
1967 A Declaration of Unity of People
1976 Pakistan's illiterate leaders
1977 United front for people's democracy
1986 National unity: what is to be done?، Mubashir Hasan, I. A. Rahman, A. H. Kardar
1989 An Enquiry into the Bhutto Yean, Dr. Mubashir Hassan
2000 The Mirage of Power, Dr. Mubashir Hassan, PhD Jumhoori Publication
2001 Birds of the Indus, Mubashir Hasan, Tom J. Roberts

حوالہ جات

  1. Founding PPP member Mubashir Hasan passes away in Lahore: family sources
  2. BnF catalogue général — اخذ شدہ بتاریخ: 26 مارچ 2017 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — ناشر: فرانس کا قومی کتب خانہ
  3. ’سوہنا منڈا‘ بھی رخصت ہوا - BBC News اردو
  4. Account Suspended[مردہ ربط]
  5. "آرکائیو کاپی"۔ 02 نومبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2017 
  6. Urdu Columns | Roznama Dunya
  7. Jumhoori Publications – Dr. Mubashir Hasan