پاکستان عوامی تحریک
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قائم کردہ سیاسی جماعت، جس نے 1990ء اور 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔
رہنما | طاہر القادری |
---|---|
صدر | قاضی زاہد محمود |
نائب صدر | راجا زاہد محمود |
سیکٹری جنرل | خرم نواز گنڈاپور |
تاسیس | مئی 1989 |
صدر دفتر | لاہور، پاکستان |
نظریات | سیاست اسلامیہ، Islamic democracy، اسلامی اشتراکیت |
سیاسی حیثیت | Centrism Fiscal: Centre-left Social: Centre-right |
ویب سائٹ | |
http://www.pat.com.pk |
یوم تاسیس
ترمیمپاکستان عوامی تحریک کے بانی قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے 25 مئی 1989ء کو موچی دروازہ لاہور میں منعقدہ جلسے کے دوران میں اس کے قیام کا اعلان کیا۔[1]
منشور
ترمیمپاکستان عوامی تحریک نے “عوام سب سے پہلے” کے نام سے 186 صفحات پر مشتمل تفصیلی منشور پیش کیا، جس کی سات ترجیحات مقرر کی گئیں:
- تعلیم
- معیشت
- غربت
- صحت
- انصاف
- امن و امان
- ٹیکنالوجی
علاوہ ازیں ملک کے 32 شعبوں کو فعال بنانے کے لیے اس کا عملی حل پیش کیا گیا۔[2]
انتخابات 1990ء
ترمیمقیام کے اگلے ہی سال 1990ء کے قومی انتخابات میں ملک بھر سے اپنے نمائندے کھڑے کیے۔ ان انتخابات میں تحریک کو کوئی سیٹ تو نہیں ملی تاہم قومی سطح پر پیغام پہنچنے کا آغاز ہو گیا۔
انتخابات 1993ء
ترمیم1993ء کے انتخابات سے قبل پاکستان عوامی تحریک کی قیادت نے سیاسی و دینی جماعتوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کی تاکہ قوم کو ایک متبادل قیادت میسر آ سکے۔ ساری قوتیں ان دیکھی قوتوں کے قائم کردہ اتحادیوں میں بٹ گئی۔ اس کے بعد پاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل نے یہ فیصلہ کیا کہ ملک میں رائج انتخابی سیاست سے انقلاب کی منزل کو نہیں پہنچا جا سکتا، لہٰذا انتخابی سیاست سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے غریب عوام میں شعور بیدارکیا جائے، جو سرمایہ داریت اور جاگیرداریت کے خول میں قید ہیں۔
پاکستان عوامی اتحاد
ترمیمپاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے دوسرے دور حکومت (1997ء تا 1999ء) میں اپنے سیاسی مخالفین کا راستہ ہر طرف سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف تاریخی سیاسی مقدمات قائم کیے گئے اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے امیر المومنین بننے کے لیے راستے ہموار ہونے لگے، جس کا عملی مظہر بعد ازاں 28 اگست 1998ء کو شریعت بل کے اعلان کے ساتھ واضح ہونے لگا۔ شہید جمہوریت بینظیر بھٹو نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انتقامی رویئے سے بچنے کے لیے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی صدارت میں 17 جماعتوں پر ایک وسیع اتحاد بنام پاکستان عوامی اتحاد بنایا۔ ابتدائی طور پر یہ اتحاد محض ”گو نواز گو“ کے ایجنڈے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا مگر بعد ازاں 18 مارچ 1998ء کو اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے 14 نکاتی ”اسلامک سوشل آرڈر“ جاری کیا گیا۔[3] تاہم یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا اور 1999ء میں ختم ہو گیا۔
انتخابات 2002ء
ترمیم2002ء کے عام انتخابات میں پاکستان عوامی تحریک نے دوسری بار انتخابی سیاست میں حصہ لیا۔ صرف بانی قائد ڈاکٹر طاہرالقادری لاہور کے حلقے NA-127 سے نشست جیت سکے۔ پاکستان عوامی تحریک نے انتخابی ٹکٹ اپنے غریب و متوسط طبقے پر مشتمل کارکنان کو اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر تقسیم کیے تھے، جو پاکستانی سیاست کے ضروری تقاضے (دھن، دھونس اور دھاندلی) پورے نہ کرنے کی بنا پر کامیاب نہ ہو سکے۔
قومی اسمبلی سے استعفا
ترمیم15 اکتوبر 2004ء کو ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے صدر پرویز مشرف کے آرمی چیف اور صدر پاکستان کے عہدے بیک وقت اپنے پاس رکھنے کے خلاف احتجاجاً بحیثیت رکن قومی اسمبلی استعفا دے دیا، جو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا استعفی تھا۔ ان کا 85 صفحات پر مشتمل یہ استعفی ایک قومی دستاویزکے طور پر قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جو پس پردہ سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ استعفی کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری تنظیمات اور کارکنان کو ”عوامی بیداری شعور“ کا ٹارگٹ دے کر خود تحقیق و تالیف کے لیے بیرون ملک منتقل ہو گئے۔
انتخابات 2008ء
ترمیمپاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل نے 2008ء کے عام انتخابات کو دھاندلی قبل از انتخاب قرار دے کر اس سے لاتعلقی و علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
عوامی مارچ
ترمیمانتخابی نظام میں اصلاحات کروانے کے لیے 13 جنوری 2013ء کو عوامی مارچ کے نام سے لاہور سے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد تک ایک احتجاجی لانگ مارچ کیا گیا۔ انتخابی نظام میں اصلاحات اور آئندہ انتخابات قانونی و آئینی تقاضوں کے مطابق کروانے کی تحریری یقین دہانی کے ساتھ 17 جنوری کو اختتام پزیر ہوا۔[4]
انتخابات 2013ء
ترمیمانتخابی نظام میں اصلاحات اور آئندہ انتخابات قانونی و آئینی تقاضوں کے مطابق منعقد کروانے کی تحریری یقین دہانی کے باوجود حکومت اس تحریری معاہدے سے مکر گئی۔ 2013ء کے عام انتخاب ایک ایسے الیکشن کمیشن کے تحت منعقد ہو رہے تھے، جس کی تشکیل خلاف آئین ہوئی تھی۔ چنانچہ پاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل نے 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔
2013ء کے انتخابات کے بعد جیتنے اور ہارنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے بیک زبان کہا کہ ”ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے“۔ عمران خان نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران میں بھی یہ جملہ بولا۔[5]
انقلاب مارچ
ترمیمسانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء کو انصاف دلانے اور آئین کی شق 218، 62 اور 63 کے خلاف بننے والی حکومت سے نجات کے لیے 14 اگست 2014ء کو انقلاب مارچ کے نام سے لاہور سے اسلام آباد تک ایک احتجاجی لانگ مارچ کیا گیا، جو 70 دن جاری رہا۔ اس دوران میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مداخلت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران میں شہید ہونے والوں کو انصاف دلانے کے لیے وزیر اعظم پاکستان میں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔[6] انقلاب مارچ 21 اکتوبر کو اختتام پزیر ہوا۔
انتخابات 2018ء
ترمیمان انتخابات کا بائکاٹ کیا۔
انتخابات 2024ء
ترمیمفروری میں ہونے والے عام انتخابات میں ملک بھر سے اپنے نمائندے کھڑے کیے۔