محمد برہان الدین سنبھلی
اس مضمون میں کئی امور غور طلب ہیں۔ براہِ مہربانی اسے حل کرنے میں ہماری مدد کریں یا ان امور پر گفتگو کے لیے تبادلہ خیال صفحہاستعمال کریں۔ (ان پیامی اور انتظامی سانچوں کو کب اور کیسے نکالا جائے)
(جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے)
|
مولانا محمد برہان الدین سنبھلی (1938-2020ء) ہندوستان کے مایۂ ناز حنفی فقیہ، عالم دین اور متعدد اہم کتابوں کے مصنف، ، و کئی دینی و علمی اداروں اور اکیڈمیوں کے رکن تاسیسی تھے۔ مولانا کی ولادت 5 فروری 1938ء (4 ذی الحجہ 1356ء) کو سنبھل ضلع مراد آباد میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم سنبھل کے مدارس میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم دار العلوم دیوبند میں حاصل کی۔ بعد ازاں مدرسہ عالیہ فتح پوری میں کئی سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد 1970ء میں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی دعوت پر دار العلوم ندوۃ العلماء تشریف لائے اور تا وفات وہیں تفسیر و حدیث اور فقہ کی تدریس سے منسلک رہے۔
محمد برہان الدین سنبھلی | |
---|---|
محمد برہان الدین | |
معلومات شخصیت | |
قومیت | بھارت |
مذہب | اسلام |
فرقہ | سنی حنفی |
اولاد | محمد نعمان الدین ندوی |
خاندان | سنبھلی خاندان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند |
شعبۂ عمل | تدریس و قضاء و تصنیف |
وجۂ شہرت | تفسیر و فقہ حنفی |
مؤثر | حسین احمد مدنی |
درستی - ترمیم |
ابتدائی تعلیم و تربیت
ترمیممولانا کے والد قاری حمید الدین ممتاز عالم دین اور دار العلوم دیوبند کے فاضل نیز انور شاہ کشمیری کے شاگردوں میں تھے، فن تجوید اور قراءت میں مہارت حاصل تھی۔ مولانا سنبھلی کی ولادت 5 فروری 1938ء (مطابق 4/ذی الحجہ 1356ھ) سنبھل ضلع مراد آباد میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم (اردو، فارسی، حفظ قرآن مجید، تجوید و قراءت) اپنے والد سے اور ابتدائی عربی و متوسط تک کی تعلیم سنبھل کے ہی متعدد مدارس میں حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا جہاں 1957ء (1377ھ) میں فراغت حاصل کی۔ دار العلوم دیوبند میں مولانا کے معروف اساتذہ میں
- حسین احمد مدنی،
- سید فخر الدین احمد،
- محمد ابراہیم بلیاوی،
- محمد طیب قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔
تدریس و دیگر ذمہ داریاں
ترمیمدار العلوم دیوبند سے تکمیل کے بعد مدرسہ عالیہ فتح پوری میں تقریباً بارہ سال تدریس سے وابستہ رہے، بعد ازاں 1970ء (1390ھ) مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی کی دعوت پر دار العلوم ندوۃ العلماء تشریف لائے اور تا وفات ندوہ سے وابستہ رہے۔ اس دوران دار العلوم ندوۃ العلماء میں تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ متعدد اہم ذمہ داریوں پر بھ فائز رہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء میں مولانا نے تفسیرو اصول تفسیر، حدیث و فقہ کی کتب عالیہ کی تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ دار العلوم ندوۃ العلماء میں شعبہ تفسیر کے صدر، حدیث و فقہ کے استاد اعلی، مرکزی دار القضاء اترپردیش کے قاضی کونسل کے صدر، مجلس تحقیقات شرعیہ ندوہ کے ناظم بھی تھے۔ دار العلوم دیوبند کی نصاب کمیٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کی بعض کمیٹیوں کے رکن، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاسیسی رکن، دینی تعلیمی کونسل اترپردیش کے رکن، المجمع الفقہی کے نائب صدر، ادارۃ المباحث الفقہیہ وغیرہ کے بھی رکن تھے۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک مثلاً سعودی عرب، الجزائر، سعودیہ، امریکا، الجزائر، برطانیہ، ملیشیا اور جنوبی افریقہ کے علمی و دینی اجتماعات اور سیمیناروں میں شرکت کی۔
تصانیف
ترمیممحمد برہان الدین سنبھلی نے سو سے زیادہ تحقیقی مقالات کے علاوہ بہت سی کتابیں بھی لکھیں جو زیادہ تر فقہی اور مسائل حاضرہ کے شرعی سے متعلق ہیں۔ ان کی چند مشہور تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
اردو میں
ترمیم- چند اہم دینی مباحث
- جدید طبی مسائل
- موجودہ زمانے کے مسائل کا شرعی حل
- بینک انشورنس اور سرکاری قرضے
- یونیفارم سول کوڈ اور عورت کے حقوق
- معاشرتی مسائل
- رؤیت ہلال کا مسئلہ
- جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ شرعی احکام کی روشنی میں
- اصلاح معاشرہ
- نفقۂ مطلقہ
- موجودہ دور میں کار نبوت انجام دینے والے
- مسلمانوں کی پریشانیوں کے حقیقی اسباب اور علاج
- دو آب دار
- چند اہم کتب تفسیر اور قرآن کریم کے ترجمے
- خواتین کے لیے اسلام کے تحفے
عربی میں
ترمیم- قضايا فقهية معاصرة
- التوأم المتلاصق نكاحه، وجنايته وإرثه[1]
تلامذہ
ترمیممفتی صاحب نے 60سال سے زائد عرصہ تک تدریس و افتا کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس دوران ہزاروں افراد نے ان سے استفادہ کیا اور رہنمائی حاصل کی۔ ان کے چند مشہور تلامذہ میں چند اہم مندرجہ ذیل ہیں:
اولاد
ترمیممولانا کی اولاد میں محمد نعمان الدین معروف عربی مضمون نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے مشہور ہیں۔
تصوف
ترمیممولانا سنبھلی کو معروف شیخ طریقت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی سے اجازت و خلافت تھی۔
ایوارڈ
ترمیمسنہ 2008ء میں مولانا کو عربی میں صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی ملا۔[2]
وفات
ترمیمایک طویل علالت کے بعد بروز جمعہ (21 جمادی الاول 1441ء) 17 جنوری 2020ء عصر کے وقت لکھنؤ میں وفات پائی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ کتاب - التوأم المتلاصق نكاحه، وجنايته وإرثه
- ↑ President Award اخذ کردہ بتاریخ 17/جنوری 2020ء