سید فخر الدین احمد (1889ء-1972ء) ایک بھارتی سنی عالم و فقیہ تھے، جنھوں نے جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی کے صدر مدرس اور جمعیت علمائے ہند کے چھٹے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ دار العلوم دیوبند کے استاذِ حدیث تھے۔

مولانا

سید فخر الدین احمد
جمعیت علمائے ہند کے چھٹے صدر
برسر منصب
دسمبر 1959ء - 5 اپریل 1972ء
پیشرواحمد سعید دہلوی
جانشینسید اسعد مدنی
لقبفخر المحدثین
ذاتی
پیدائش1889ء
وفات5 اپریل 1972(1972-40-05) (عمر  82–83 سال)
مذہباسلام
دور حکومتبرطانوی ہند/بھارت
فرقہسنی
فقہی مسلکحنفی
تحریکدیوبندی
بنیادی دلچسپیحدیث
قابل ذکر کامالقول الفصیح، ایضاح البخاری
مرتبہ

سوانح ترمیم

فخر الدین احمد نے اپنی والدہ سے قرآن کی اور خاندان کے بزرگوں سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آٹھ سال کی عمر میں انھوں نے صرف و نحو پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے ماجد علی جونپوری سے تعلیم حاصل کی اور پھر انھیں کے ہم راہ دہلی چلے گئے اور دہلی کے مدارس میں علوم عقلیہ کی کتابیں پڑھیں تھیں۔[1] 1908ء میں انھوں نے دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور محمود حسن دیوبندی کی ہدایت کے مطابق؛ ایک سال کی بجائے دو سال میں دورۂ حدیث (آخری درجہ) کی تعلیم حاصل کی۔[2]

انھوں نے پہلے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمت انجام دی اور بعد میں شوال 1339ھ کو جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی چلے گئے، جہاں انھوں نے 48 سال خدمات انجام دیں۔ وہ مدرسہ شاہی کے صدر مدرس تھے اور وہاں صحیح البخاری اور سنن ابی داؤد پڑھاتے تھے۔[3][4] 1377 اور 1383 ہجری کے درمیان 1161 طلبہ نے ان سے "صحیح البخاری" کی تعلیم حاصل کی۔[5] 1957ء میں وہ حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد؛ دار العلوم دیوبند میں شیخ الحدیث تھے۔[2]

حسین احمد مدنی کی صدارتِ جمعیت کے دوران؛ سید فخر الدین احمد نے دو مرتبہ جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[2] بعد میں دسمبر 1959ء میں احمد سعید دہلوی کی وفات کے بعد؛ انھیں جمعیت کا صدر منتخب کیا گیا۔[6]

5 اپریل 1972ء (20 صفر 1392ھ) کو 82 یا 83 سال کی عمر میں سید فخر الدین احمد کا انتقال ہوا۔ ان کی نمازِ جنازہ؛ مراد آباد میں محمد طیب قاسمی نے پڑھائی۔[2][5]

تصانیف ترمیم

  • القول الفصیح [7]
  • ایضاح البخاری [8]
  • آمین با الجہر صحیح بخاری کے پیش کردہ دلائل کی روشنی میں[9]

حوالہ جات ترمیم

  1. "دار العلوم" (جولائی 1979ء): 11-12 
  2. ^ ا ب پ ت سید محبوب رضوی۔ تاریخ دار العلوم دیوبند۔ 2 (1994ء ایڈیشن)۔ دار العلوم دیوبند: ادارۂ اہتمام۔ صفحہ: 106 
  3. مفتی مسعود عزیزی ندوی۔ تذکرۂ محمد میاں دیوبندی۔ صفحہ: 40-41 
  4. نظام الدین اسیر ادروی (نومبر 2009)۔ داستان ِ ناتمام۔ کتب خانہ حسینیہ، دیوبند۔ صفحہ: 72-73 
  5. ^ ا ب محمد طیب قاسمی۔ مدیر: حافظ محمد اکبر شاہ بخاری۔ دار العلوم دیوبند کی 50 مثالی شخصیات (جولائی 1999 ایڈیشن)۔ مکتبہ فیض القرآن، دیوبند۔ صفحہ: 167 
  6. سلمان منصورپوری (2014)۔ تحریک آزادی ہند میں مسلم علما اور عوام کا کردار۔ دیوبند: دینی کتاب گھر۔ صفحہ: 198 
  7. "القول الفصیح"۔ Basooir.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولا‎ئی 2019 [مردہ ربط]
  8. "مولانا ریاست علی کا انتقال دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کے ایک باب کا خاتمہ"۔ BaseeratOnline.com۔ 21 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولا‎ئی 2019 
  9. آمین با الجہر صحیح بخاری کے پیش کردہ دلائل کی روشنی میںMain (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولا‎ئی 2019