محمد صدیق قادری
حافظ الملت محمد صدیق القادری خانقاہ قادریہ بھرچونڈی شریف (سندھ) کے موسس اوّل ہیں۔
محمد صدیق قادری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1816ء |
تاریخ وفات | سنہ 1891ء (74–75 سال) |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | غلام محمد دین پوری |
پیشہ | مصنف |
درستی - ترمیم |
نسب
ترمیممحمد صدیق قادری کا خاندان عرب سے کیچ مکران کے راستے سندھ میں داخل ہوا اور بھرچونڈی شریف سے شمال کی جانب دو تین میل کے فاصلے پر اس زمانے کی شاہی سڑک کے کنارے آباد ہو گیا جس کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ ان کے خاندان کے بڑوں نے سمہ قوم میں شادی کی جس کی وجہ سے ان کا تعلق سمہ قوم سے بھی قائم ہو گیا جبکہ والد کی طرف سے ان کا خاندان قریش سے ہے[1]
ولادت
ترمیممحمد صدیق قادری 10 جمادی الثانی 1234ھ/ 20 جنوری 1819ء میں پیدا ہوئے۔ ایک روایت جو شیخ ثالث عبد ا لرحمان کی ہے 1234ھ ہے ان کے والد کا نام میاں ملوک تھا جو زمیندار تھے۔
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی اور حفظ قران کے لیے سوئی شریف سیّد محمد حسن جیلانی کے مدرسہ میں تشریف لے گئے۔ یہاں آپ ایک منفرد طالب علم کی حیثیت سے علم حاصل کرتے رہے آپ کے قطب زمانہ ہونے کی پیش گوئی بھی زمانہ طالب علمی میں ہو چکی تھی۔ حفظ قرآن کے بعد آپ اپنے شیخ مکرم کی خدمت میں روحانی تعلیم و تربیت کے لیے حاضر ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ نقشبندیہ کے تمام ذکر و اذکار و اعمال میں پوری لگن اور محنت سے اتمام و کمال حاصل کیا۔ خانقاہ عالیہ سوئی شریف کے زمانے میں آپ نے جہاد پتن منارہ میں ایک قابل فخر سپہ سالار کی خدمات انجام دیں۔
سلسلہ بیعت
ترمیمسلسلہ قادریہ نقشبندیہ راشدیہ پیر جو گوٹھ (خیر پور میرس) کے مورث اعلٰی سید محمد راشد شاہ المعروف روزےدھنی کے نامور خلیفہ سید محمد حسن شاہ جیلانی بانی خانقاہ سوئی شریف ضلع سکھر کے ممتاز خلیفہ سے بیعت و خلافت حاصل کی۔
لقب
ترمیمامام آزادی و حُرّیت، حافظ الملت،قطب زمانہ،مرد درویش، جنید وقت اور سید العارفین ہیں۔
بھرچونڈی شریف
ترمیمحافظ الملت نے 1258ھ میں درگاہ عالیہ بھر چونڈی شریف کی بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے مر جع خلائق بن گئی۔ آپ نے نہ صرف حفظ قرآن کی نعمت عظمیٰ مخلوق کو عطا کی،بلکہ قرآن و حدیث اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم سے بھی لو گوں کو روشناس کرایا۔ اور یہ خانقاہ آج 200 سے زائد دینی مدارس کی نمائندگی و سرپرستی کر رہی ہے۔ خانقاہ کے ساتھ وسیع و عریض لائبریری اور تحریر و تحقیق کے حافظ الملت اکیڈمی کا قیام۔ ایمبولینس سروس جدید کمپیوٹر لیب آ پ کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حافظ الملتؒ سے اخذِ فیض کرنے والے مردان حرّیت کی شاندار جماعت ہے ان میں محسن اسلامیان سندھ حافظ محمد عبد اللہ ‘ خلیفہ عبد ا لغفار خان گڑھی ،سیّد تاج محمود امروٹی شیخ المشائخ خلیفہ غلام محمددین پوری ‘ ملامحمد حسن کابلی ‘ خلیفہ دل مراد بلوچستانی اور امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ایسے نابغۂ روزگار افراد شامل ہیں جو اپنی ذات میں ایک ادارہ اور حافظ الملت کے صحیح جانشین ثابت ہوئے۔
لنگر خانہ کاقیام
ترمیممسجد کی تعمیر کے بعدحافظ الملت نے ایک منفرد لنگر خانہ قائم کیا جس کی حیثیت منفرد و جدا گانہ ہے اس لنگر پر تمام آنے والوں کو کھانا مہیا کرتا اس کے ساتھ یہ ایک بیت المال کی حیثیت رکھتا جہاں تمام آمدنی جمع ہوتی جس کی صورت حال کچھ اس طرح تھی کہ تمام حاضر باش فقراء اشتراک محنت کے اصول پر اپنی ساری کمائی اس میں جمع کر ادیتے اور اس میں سے سب ضرورتمندوں کو حسب ضرورت نقد جنس غلہ اور کپڑے وغیرہ کی صورت میں امداد دی جاتی ۔ آپ خود ساری عمر غیر شادی شدہ رہے درویشی اور سادگی آپ کا طرہ امتیاز تھی فقراء کے ساتھ مل کر کھانا درویشوں کے ساتھ رہنا اور اٹھنا بیٹھنا آپ کی امتیازی خصوصیات تھی۔
مدرسہ کا قیام
ترمیماس کے ساتھ آپ نے تعلیم القرآن کا مدرسہ قائم کیا جہاں سینکڑوں طلبہ صبح و شام قرآن مجید کی تعلیم میں مصروف رہتے،
ہم عصر
ترمیماس دور میں مجدّدِ دین و ملت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی حیات تھے خانقاہ بھرچونڈی سے وابستہ حافظ محمد صدیق قادری کے تربیت یافتہ مولانا عبیداللہ سندھی،مولانا تاج محمد امروٹی اور محمد امین خاں کھوسو جیسے حریت پسند میدانِ عمل میں نکلے اور کا رہائے نمایاں انجام دیے۔
تحریک پاکستان
ترمیمعموما مدارس و خانقاہوں کے لوگ ان تحاریک کا حصہ نہیں بنتے لیکن حافظ الملت نے شمالی مغربی ہندوستان میں تحریک آزادی میں وہ کردار ادا کیا کہ برصغیر میں ان کی کاوشوں کا ذکر رہتی دنیا تک یاد رکھا جائیگا۔ خانقاہ بھرچونڈی وہ منفرد خانقاہ تھی جہاں سے پوری شد و مد کے ساتھ انگریزی استعمار کے خلاف مجاہدین کا لشکر تیار ہوا۔ مولانا عبید اللہ سندھی سید تاج محمود امروٹی] خلیفہ غلام محمد دین پوری اسی خانقاہ کے پروردہ تھے جنھوں نے انگریز کے خلاف مضبوط اور نتیجہ خیز کاوشیں کیں ۔
ملفوظات
ترمیمحافظ الملت نے تخلیقی اور تصنیفی میدان میں ایسے شاہ پارے تخلیق کیے جن کے مطالعہ سے انسان کے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ آپ کے ملفوظات کا فارسی زبان سے اردو ترجمہ ’’جامِ عرفان‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔
خلفاء
ترمیمتین لاکھ سے زیادہ مرید اورکئی بزرگ خلافت و اجازت سے نوازے گئے:
- حافظ محمد عبد اللہ
- عبد الغفار خان گڑھ شریف
- ابو الخیر کوئٹہ
- عمر جان نقشبندی چشمہ والے
- خلیفہ عبد العزیز (کالاباغ)
- عبد الرحمن (کابل)
- شمس الدین احمد پوری
- پیر حافظ عبد الرحمن
- پیر عبد الرحیم
- سید تاج محمد امروٹی
- غلام محمد دین پوری
- عبید اللہ سندھی
- مفتی عبد الکریم ہزاروی
- مفتی سراج احمد مکھن بیلوی
- سردار احمد قادری
- سید مغفور القادری
وفات
ترمیمآپ 74 برس کی عمر میں 10 جمادی الثانی 1308ھ بمطابق 1890ء کو وفات پا گئے۔ اور بھرچونڈی شریف ضلع ڈہرکی (سندھ ) میں مدفون ہیں۔[2][3]