مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا

(مشرقی آرتھوڈوکس سے رجوع مکرر)

راسخ الاعتقاد کلیسیا، (انگریزی: Eastern Orthodox Church) کا دوسرا نام "مشرقی راسخُ الا عتقاد کلیسیا" بھی ہے۔ دنیا میں کیتھولک کے بعد یہ مسیحیت کی دوسری بڑی کلیسیا ہے۔ بنیادی طور پر بیلاروس، بلغاریہ، قبرص، جارجیا، یونان، مقدونیہ، مالدووا، مونٹی نیگرو، رومانیہ، روس، سربیا اور یوکرائن کے ممالک میں اس کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 30 کروڑ لوگ "راسخُ الا عتقاد کلیسیا" سے منسلک ہیں۔[1]

پہلے یہ فرقہ کاتھولک کلیسیا کے تابع تھا، پھر عالم قسطنطنیہ میخائیل کارولاریوس کے عہد 1054ء میں اس سے جدا ہوا۔ اس کلیسیا کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے ماننے والے یہ یقین رکھتے ہیں کہ روح القدس صرف خدا باپ سے پیدا ہوئے اور خدا بیٹے سے پیدا نہیں ہوئے۔ راسخ الاعتقاد کلیسیاؤں کا کوئی رئیس نہیں ہوتا (جیسے کاتھولک کلیسیا میں پوپ ہوتا ہے) بلکہ ہر ایک کلیسیا دوسرے سے علاحدہ شمار کی جاتی ہے اگرچہ عقیدہ میں سب متفق ہیں۔

رومی کاتھولک اور راسخ الاعتقاد دونوں ہی اتحاد کی پہلی ساتھ مجالس (Ecumenical Councils) کے فیصلوں سے یوں تو پوری طرح متفق ہیں مگر راسخ الاعتقاد کلیسیا ہر جگہ پوپ کا اثر قبول نہیں کرتا اور اس بنیادی اختلاف نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔ مشرق کے ان ملکوں میں جن لوگوں نے رومی کاتھولک عقیدہ مان لیا ہے اور راسخ الاعتقاد مسیحیوں میں اور کوئی فرق نہیں سوائے پوپ کے مسئلہ کے اور یوں بھی راسخ الاعتقاد اپنے آپ کو کاتھولک کہتے ہیں اور کاتھولک اپنے آپ کو راسخ الاعتقاد۔ شروع میں قسطنطنیہ میں جو مذہبی رسوم رائج تھے وہ تیرہویں صدی عیسوی تک اس علاقہ کی تمام کلیسیاؤں میں رائج رہے اور انھیں باز نطینی رسوم کہا گیا۔ انجیل مقدس عبرانی زبان میں تھی اور مذہبی رسومات میں اسی زبان کا استعمال ہوا لیکن دھیرے دھیرے حالات کے مطابق تبدیلی آتی گئی اور جب مغربی تسلط سے ہٹ کر مشرق میں راسخ الاعتقاد کلیسیا کا قیام عمل میں آیا تو ابتدا میں تمام مذہبی رسوم یونانی زبان میں ادا کی جانے لگیں۔ بعد میں مذہبی معاملات کے تعلق سے عربی اور دوسری زبانوں کا بھی استعمال ہونے لگا۔

جب قسطنطنیہ میں بطریق کا عہدہ قائم ہوا تو پاپائے روم کے بعد اسے سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی اور اس کے تحت مشرق قریب اور بلقان کا علاقہ تھا۔ جسٹینین یکم جب بازنطینی حکومت کا شہنشاہ بنا تو کلیسیا اس کے زمانہ میں پوری طرح حکومت کے زیر اثر آ گئی۔ عثمانی ترکوں کی حکومت کے زمانہ میں کلیسیا حکومت کے تسلط سے نکلی لیکن قسطنطنیہ کو وہ اثر حاصل نہ ہو سکا جو کاتھولک سربراہ پوپ کو حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بطریق کی مخالفت کے باوجود پہلے روس میں اور پھر یونان اور بلقان میں الگ الگ خود مختار کلیسیائیں قائم ہو گئیں جن کا اپنا الگ نظم و ضبط اور سلسلہ تھا۔ ان کا روحانی سربراہ یقیناً پاپائے روم تھا لیکن وہ اس کے مسلط سے آزاد تھے۔

نگار خانہ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Greek Orthodox Archdiocese of America (2016)۔ "The Greek Orthodox Archdiocese of America"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2016۔ The Orthodox Church today, numbering over 250 million worldwide, is a communion of self governing Churches, each administratively independent of the other, but united by a common faith and spirituality.