معاہدہ عمر
اس صفحے میں موجود سرخ روابط اردو کے بجائے دیگر مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاًً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہیں، ان زبانوں سے اردو میں ترجمہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کریں۔ |
معاہدہ ِعمر (جو میثاقِ عمر، پیمانِ عمر یا قوانینِ عمر ; عربی: شروط عمر یا عهد عمر یا عقد عمر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) مسلمانوں اور شام، میسوپوٹامیا[1]اور یروشلم[2] کے مسیحیوں کے درمیان میں ایک معاہدہ ہے جس نے بعد میں اسلامی فقہ میں مذہبی حیثیت حاصل کی۔ ساخت اور شِقوں کے حوالے سے معاہدے کے کئی ترجمے اور تشاریح ہیں۔[3] جبکہ معاہدہ روایتی طور پر الراشد خلیفہ عمر ابن خطاب،[4] سے منسوب ہے، جبکہ کچھ فقہا اور مستشرقین نے اس انتساب پر شک بھی کیا ہے [3] اور اسے نویں صدی کے مجتہدین یا اموی خلیفہ عمر الثانی کے ساتھ منسوب کیا ہے۔ اس معاہدے کو ایلیا کے لوگوں کی جانب حفاظت کی ضمانتِ عمر (یعنی اردو : عہد عمر، عربی: العهدة العمرية) کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے۔
یہ معاہدہ عام طور پر غیر مسلموں, ذمیوں کے حقوق اور پابندیوں پر مشتمل ہے۔ پابند کرنے سے غیر مسلموں کے افراد، خاندان، مال اور املاک کے امان کی ذمہ داری لی جاتی ہے۔ دیگر حقوق اور شرائط و تصریحات بھی لاگو ہو سکتی ہیں۔ ابن تیمیہ کے مطابق جنھوں نے خود بھی اس معاہدہ کو فقہی اعتبار سے صحیح گردانا ہے، ذمیکو معاہدہ ِعمر سے خود کو آزاد کرنے کا حق حاصل ہے اور مسلمانوں کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے "اگر وہ مسلمان ریاستی فوج میں بھرتی ہو اور دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ میں لڑے۔"[5]
بنیاد اور استناد
ترمیمابو منشر کے مطابق، اس دستاویز کی تاریخی بنیاد مسلمان فاتحین اور الجزیرہ یا دمشق کے مسیحیوں کے درمیان ہوئے ایک معاہدے پر ہو سکتی ہے جسے بعد میں ذمیوں کے لیے دوسری جگہوں پر بھی توسیع دی گئی۔[1] وہ مزید لکھتے ہیں کہ، نام نہاد 'معاہدہ عمر' میں مقرر کردہ شرائط خلافت کے نظریہ سوچ اور طرز فکر کے لیے نامناسب ہیں، اس دستاویز کی (متنی) خامیاں اس تنازع کی تائید کرتی ہیں کہ اس دستاویز کا موجد عمر نہیں تھا۔"[6] بعض مغربی مورخین کی رائے ہے کہ یہ دستاویز ضمانت حضرت عمر پر مبنی تھا، جو عمر ابن خطاب اور یروشلم کے پیر مہتمم (مئیر) سوفرونیئس کے درمیان میں ایک معاہدہ تھا اور فتح القدس کے بعد خلافت راشدہ کی جانب سے 637ء طے ہوا،[2] جبکہ دوسروں کا اعتقاد ہے کہ یہ دستاویز یا تو 9صدی مجتہدین یا پھر اموی خلیفہ دوم عمر بن عبد العزیز کے دور کی تصنیف تھی، جس میں بعد میں دیگر دفعات شامل کی گئیں۔ دوسرے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ دستاویز ہو سکتا ہے شروع میں فوری طور پر فاتحانہ ماحول میں لکھا گیا ہو اور بعد کے مورخین نے اسے اسلوب دیا ہو ۔[1]
مغربی دانشمندوں کی اس معاہدے کے استناد کے بارے میں رائے مختلف رہی ہے۔ انور م۔ ایمن کے مطابق معاہدے کی سند اور صداقت کے حوالے سے "ثانوی ادب میں شدید بحث رہی ہے"، مغربی دانشوروں کا اختلاف رہا کہ آیا یہ معاہدہ حضرت عمر کے دورانِ حکومت وقوع پزیر ہوا یا یہ تصنیف بعد از عمر جوڑ دیا گیا۔ جنھوں نے مشہور ابتدائی توسیع کی قیادت کی اور ذمیوں کے لیے بہترین و منظم معاہدہ لاگو کیا"[7] ا۔ س۔ ٹریٹن ایک ایسے دانشور ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ جعلسازی پر مبنی ہے" کیونکہ بعد کے مسلمان فاتحین نے اس کی شرائط کو غیر مسلم رعایا کیساتھ اپنے بعد کے معاہدوں پر لاگو نہیں کیا اگر معاہدہ اس وقت موجود ہوتا تو وہ ضرور اپنے معاہدوں میں اس کی شرائط شامل کرتے۔ دوسری جانب ایک اور دانشور دانیال ک۔ ڈینیٹ کا خیال ہے کہ "یہ معاہدہ اس وقت کے طے پائے گئے باقی معاہدہ سے مختلف نہ تھا اور یہ معقول طور پر وہی معاہدہ ہے جو سرگزشت ِ الطبری میں محفوظ ہے اور اصل معاہدے کا ایک مستند نسخہ ہے۔" مؤرخ ابراہیم پ۔ بلاخ لکھتے ہیں کہ "عمر ایک روادار حکمران تھا اور امکان نہیں کہ اس نے غیر مسلموں پر ذلت آمیز شرائط عائد کیے ہوں یا ان کی مذہبی اور سماجی آزادی کی خلاف ورزی کی ہو۔ اس کا نام غلط طور پر موجودہ امتناعی معاہدہ عمر کیساتھ منسلک کر دیا گیا ہے ۔"[8]
تھامس ڈبلیو آرنلڈ کے مطابق، یہ معاہدہ حضرت عمر کی غیر مذہب رعایا کیساتھ رحمدلی اور انصاف کے ساتھ "مطابقت اور ہم آہنگی"رکھتا ہے. [9][10]
مواد
ترمیمنکات:[1][2][11][12][13][14][صفحہ درکار]
- مسلمان حکمران ایسے مسیحیوں کو تحفظ فراہم کریگا جو اس معاہدہ کی پاسداری کریں گے۔
- نیا گرجا، عبادت گاہ ، خانقاہ یا راہبی کوٹھڑی تعمیر کرنے پر پابندی ہوگی چنانچہ نئے کنیسہ کی تعمیر پر بھی پابندی لگی، اگرچہ نئے کلیسا اسلامی فتح کے بعد بھی تعمیر ہوتے رہے، مثلا ً یروشلم اور رام اللہ میں تعمیر ہوئے. نئی تعمیر پر پابندی کا یہ قانون یہودیوں کے لیے نیا نہیں تھا، بازنطینی دور میں بھی یہ لاگو رہا ہے تاہم یہ مسیحیوں کے لیے نیا ضرور تھا.
- تباہ حال گرجا کی غیر مسلم علاقوں میں یا مسلم محّلوں میں، دن یا رات میں تعمیر نو پر پابندی،
- گرجا گھروں پر صلیب آویزاں کرنے پر پابندی.
- مسلمانوں کو گرجا گھروں میں بچاؤ کے لیے پناہ لینے کی اجازت.
- عبادت کی منادی کے لیے گھنٹہ اور ناقوس کی آواز کو دھیما رکھنا کی پابندی.
- یہودیوں اور مسیحیوں پر عبادت کے دوران میں آواز نیچی رکھنے کی پابندی.
- غیر مسلم کے بچوں کو قران پڑھنے سے روکنے پر پابندی.
- سرعام شاہراہ و بازار میں نمود ِِ مذہب، مذہبی کتب، شعائر پر امتناع.
- کھجور کا اتوار اور ایسٹر جیسے تمام جلوس نکالنے پر پابندی.
- جنازے خاموشی سے گزارنے کی پابندی.
- غیر مسلموں کو مسلمانوں کے قریب دفنانے کی ممانعت.
- مسلمانوں کے محلوں کے قریب سور پالنے کی ممانعت.
- مسیحیوں پر مسلمانوں کو شراب بیچنے پر پابندی.
- مسیحیوں کو مسلمانوں کیخلاف جاسوسکو تحفظ یا پناہ دینے کی ممانعت.
- مسلمانوں کے بارے جھوٹ بولنے کی ممانعت.
- ذمیوں کا مسلمانوں کی جانب وجوبِ اظہار ِِادب، اگر مسلمان بیٹھنا چاہے تو غیر مسلم مسلمان کے لیے اپنی نشست خالی کرے.
- مسلمانوں کا مذہب بدلنے کے لیے انھیں تبلیغ کرنے کی ممانعت.
- غیر مسلم کی خواہش کے مطابق اسے قبول ِِ اسلام سے روکنے کی ممانعت.
- غیر مسلم کی ہیئت مسلمانوں سے مختلف ہونے کی پابندی: انھیں قلنسوہ ( گنبد نما بدوی ٹوپی)، بدوی پگڑی (عمامہ)، مسلمانوں جیسے جوتے اور کمربند پہننے پر پابندی، انھیں سنت نبوی کے مطابق پہلوی جانب بال کنگھی کرنے کی ممانعت بلکہ ان پر سامنے سے کاٹنا لازم تھا اور یہ کے غیر مسلم مسلمانوں کی بول چال اور کنیت اختیار کرنے میں مشابہت کرنے پر پابندی.
- غیر مسلم پر یہ لازمیت کہ اپنے پیشانی کے بالوں کو کترے رکھیں اور دائما ایک جیسا لباس زیب تن کریں اور کمر پر زنار باندھے رکھے، مسیحی پر ملزوم کہ وہ نیلا، یہود پیلا، زرتشتی کالا اور سامری لال عمامہ یا زنار باندھے.
- غیر مسلموں پر پابندی کہ وہ مسلمانوں کی طرز پر جانوروں پر سواری کریں یا ان پر کاٹھی چڑھائیں.
- غیر مسلموں پرمسلمانوں کے اعزازی القاب و خطابات اختیار کرنے پر ممانعت.
- عربی نقوش غیر مسلموں کی مہروں پر کندہ کاری کی ممانعت.
- کسی بھی قسم کا اسلحہ کا مالک ہونے کی ممانعت.
- غیر مسلم کی مسلمان مسافر کو تین دن مہمان نوازی کی پابندی.
- غیر مسلم پر مسلمان غلام کی خریداری پر پابندی.
- غیر مسلم پر مسلمان کی ملکیت میں رهنے والے غلام کے خریداری پر پابندی.
- پابندی کہ غیر مسلم مسلمانوں کو ملازم رکھیں ان کی رہنمائی یا انپہ حکومت کریں.
- اگر غیر مسلم کسی مسلمان کو زدوکوب کرے تو مسلمان حکمران پر ذمی کی ذمہ داری ختم ہوجاتی.
- غیر مسلموں کی عبادت اور رہائش گاہیں مسلمانوں کی باترتیبِ تعلق عمارات سے نیچی رہتیں.
ملاحظہ کریں
ترمیمحواشی
ترمیم- ^ ا ب پ ت Roggema 2009.
- ^ ا ب پ Meri 2005.
- ^ ا ب پ Abu-Munshar 2007.
- ↑ Thomas & Roggema 2009.
- ↑ Michael Ipgrave (2009)۔ Justice and Rights: Christian and Muslim Perspectives۔ Georgetown University Press۔ صفحہ: 58۔ ISBN 1-58901-722-6
- ↑ Maher Abu-Munshar, Islamic Jerusalem And Its Christians: A History of Tolerance And Tensions، pp. 79-80.
- ↑ Anver M. Emon (2012)۔ Religious Pluralism and Islamic Law: Dhimmis and Others in the Empire of Law۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 71۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2015
- ↑ Abraham P. Bloch, One a Day: An Anthology of Jewish Historical Anniversaries for Every Day of the Year، p. 314. آئی ایس بی این 0881251089۔
- ↑ Thomas Walker Arnold (1913)۔ Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith (PDF)۔ Constable & Robinson Ltd۔ صفحہ: 73۔
It is in harmony with the same spirit of kindly consideration for his subjects of another faith, that 'Umar is recorded to have allowed an allowance of money and food to be made to some christian lepers, apparently out of the public funds.;
(https://dl.wdl.org/17553/service/17553.pdf]) - ↑ Thomas Walker Arnold (1913)۔ Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith۔ Constable & Robinson Ltd۔ صفحہ: 57۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2018۔
A later generation attributed to 'Umar a number of restrictive regulations which hampered the Christians in the free exercise of their religion, but De Goeje and Caetani have proved without doubt that they are the invention of a later age;
(online) - ↑ al Turtushi, Siraj al Muluk, Cairo 1872, pp 229-230.
- ↑ The Caliphs And Their Non Muslim Subjects، A. S. TRITTON MUSLIM UNIVERSITY, ALIGARH, HUMPHREY MILFORD, OXFORD UNIVERSITY PRESS, 1930, p.5
- ↑ Medieval Sourcebook: Pact of Umar, 7th Century? The Status of Non-Muslims Under Muslim Rule آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ legacy.fordham.edu (Error: unknown archive URL) Paul Halsall Jan 1996
- ↑ The Jews of Iran in the nineteenth century [electronic resource] : aspects of history, community, and culture / by David Yeroushalmi. Leiden ; Boston : Brill, 2009.
بیرونی روابط
ترمیم- معاہدے کا عربی متن جو فرانسیسی میں ترجمہ کیا گیا، تبصرہ اور ترجمہ از احمد آولدلی (2٠12)