معیقیب بن ابی فاطمہ دوسی

(معیقیب بن ابی فاطمہ سے رجوع مکرر)

معیقیب بن ابی فاطمہ دوسی مہاجرین کاتبین وحی صحابہ میں سے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کیا دوسری ہجرت حبشہ میں ہجرت کی غزوہ خیبر کے موقع پر مدینہ ہجرت کی پھر بیعت رضوان اور دوسرے تمام غزوات میں شریک تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے آخری زمانہ میں سن 35ھ میں وفات پائی ۔

معيقيب بن ابی فاطمہ دوسی
(عربی میں: معيقيب بن أبي فاطمة الدوسي الأزدي)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 660ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خیبر   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ترمیم

معیقیب نام، نسبی تعلق قبیلہ ازد سے تھا اور بنی عبد شمس کے حلیف تھے۔ آپ سعید بن العاص کے آزاد کردہ غلام تھے۔ [2]

اسلام و ہجرت

ترمیم

حضرت معیقیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے اور ہجرت ثانیہ میں ہجرت کرکے حبشہ گئے،وہاں سے غزوہ خیبر کے زمانہ میں مدینہ آئے۔ [3]

غزوات

ترمیم

مدینہ آنے کے بعد تمام لڑائیوں میں شریک ہوتے رہے، بعض روایتوں سے غزوہ بدر اور بیعتِ رضوان اور بعد کے سارے غزوات میں شریک ہوئے،اس اعتبار سے وہ غزوہ خیبر سے بھی پہلے مدینہ آچکے تھے؛لیکن صحیح روایت یہی ہے کہ خیبر کے بعد مدینہ آئے اور غزوہ بدر اور غزوہ خیبر میں شریک نہیں ہوئے تھے،ابن سعد نے بھی ان کو صحابہ کرام کے اسی زمرہ میں لکھا ہے،جو قدیم الاسلام تو تھے؛لیکن بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ [4]

دور خلافت راشدہ

ترمیم

آنحضرت کی زندگی میں خاتم رسالت انھی کے پاس رہتی تھی، آنحضرت کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ خاتم بردار کی حیثیت سے ان کا خاص لحاظ کرتے تھے؛ شیخین نے آپ کو بیت المال کا نگراں مقرر فرمایا تھا۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان سے بہت محبت تھی،ان کو جذام کی شکایت ہو گئی تھی، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علاج میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا،جہاں جہاں مشہور اطبا کا پتہ چلتا تھا بلا کر علاج کراتے تھے؛لیکن کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا،آخر میں دو یمنی طبیبوں سے علاج کرایا،جس سے مرض توزائل نہیں ہوا، البتہ آئندہ بڑہنے کا خطرہ باقی نہ رہا، عموماً لوگ جذامی آدمی کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں؛لیکن حضرت عمرؓ ان کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے اور فرماتے کہ یہ طرز عمل تمھارے ساتھ مخصوص ہے۔[5] [6]

کاتب وحی

ترمیم

آپ کو دربارِ رسالت مآب میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، عمر بن شبہ اور جہشیاری نے اس کی صراحت کی ہے اور جہشیاری نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کے لیے مالِ غنیمت کی فہرست لکھ دیا کرتے تھے، مسعودی، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے بھی یہ بات لکھی ہے۔ [7]

عہدِ عثمانی اور وفات

ترمیم

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی وہی طرز عمل رہا اورغالباً خاتم برداری کا قدیم منصب بھی انھی کے سپرد تھا؛کیونکہ آنحضرت کی انگوٹھی انھی کے ہاتھ سے بیر معونہ میں گری تھی، اسی عہد کے آخر میں وفات پائی۔[8]

اولاد

ترمیم

آپ کی اولادوں میں صرف محمد بن معیقیبؓ کا پتہ چلتا ہے،انھوں نے آپ سے روایت بھی کی ہے۔ [9]

علمی حالت

ترمیم

علمی حیثیت سے کوئی ممتاز شخصیت نہ تھی؛ تاہم نوشت وخواند میں پوری مہارت رکھتے تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ نے جب اپنی املاک وقف کی تو اس وقف نامہ کی کتابت انھی نے کی تھی،[10] احادیث نبوی کے خوشہ چین بھی تھے؛چنانچہ ان کی متعدد مرویات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، ان میں دو متفق علیہ ہیں اور ایک میں امام مسلم منفرد ہیں۔ [11] [12]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام —  : اشاعت 15 — جلد: 7 — صفحہ: 274 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR
  2. ابن عبد البر الاستيعاب في معرفة الأصحاب، تحقيق: علي محمد البجاوي (ط. 1)، بيروت: دار الجيل للطبع والنشر والتوزيع، ج. 4، ص. عبر المكتبة الشاملة
  3. محمد بن سعد البغدادي ، الطبقات الكبرى، تحقيق: محمد عبد القادر عطا (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 4، ص. 88،
  4. ابن الأثير الجزري ، أسد الغابة في معرفة الصحابة، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 5، ص. 231،
  5. ابن سعد،جزو4،ق1:87
  6. ابن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، تحقيق: علي محمد معوض، عادل أحمد عبد الموجود (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 6، ص. 153،
  7. نقوش رسول نمبر جلد7 صفحہ187
  8. اسد الغابہ:4/403
  9. (تہذیب التہذیب :1/254)
  10. (ابوداؤد:2/9)
  11. (تہذیب الکمال:397)
  12. محمد بن سعد البغدادي ، الطبقات الكبرى، تحقيق: محمد عبد القادر عطا (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 4، ص. 87