مغل توپ خانہ سلطنت مغلیہ کی مغل فوج کا ایک حصہ تھا جو دشمن فوجوں کو شکست دینے کے لیے پندرہویں صدی میں تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ توپ خانہ توپوں، بارود، محاصرے کی منجنیقوں اور بارودی دستی بم کی شکل میں ہتھیاروں پر مشتمل تھا۔

مغل فوج کے جنگی ہاتھی توپوں کا سامان لادے جانے کے بعد ـ (اٹھارہویں صدی)
پانی پت کی پہلی لڑائی ـ (21 اپریل 1526ء)

ابتدائی تاریخ

ترمیم

وسط ایشیا میں توپ خانے کی مُروَّجہ شکل نہیں تھی اور حتیٰ کہ سولہویں صدی تک منگولی سپاہی چینی ہتھیاروں سے ہی جنگوں میں کام لیا کرتے تھے۔ مغلوں کے ابتدائی تاریخی ماخذوں سے پتا چلتا ہے کہ پہلی بار 1496ء میں تیموری حکمران سلطان حسین مرزا بایقرا نے توپوں کا اِستعمال کیا تھا لیکن اِس کا تاریخ ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔[1]

حکم شاہی

ترمیم

مغل فوج کا توپ خانہ براہِ راست مغل شہنشاہ کے ماتحت ہوتا تھا اور کسی بھی میدانِ جنگ میں مغل شہنشاہ کی ہدایت یا حکم خاص پر ہی توپ خانے کا اِستعمال کیا جاتا تھا۔ ظہیر الدین محمد بابر نے 1526ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں دہلی سلطنت کے آخری حکمران ابراہیم لودھی کی فوج کو توپوں کے ذریعے سے ہی شکست دی تھی۔ جلال الدین اکبر کے عہد میں یورپی انگریزی فوجیوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ وہ توپ خانے کو مقررہ مقام پر چلا سکیں اور راہنمائی لی جا سکے۔[2] [3] مغل فوج کے اکثر کماندار (کمانڈر) بھی توپ خانے کے توپچی تھے۔ توپ خانے کے توپچی بھی مغل فوج کا باقاعدہ حصہ تصور کیے جاتے تھے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے مغل مرہٹہ جنگوں میں توپ خانوں کا کثرت سے استعمال کیا اور علاوہ اَزیں قنوج کے مقام پر اکثریت کو توپیں چلانے کی تربیت بھی دلوائی۔[4] تاہم مغل فوج میں باقاعدہ طور پر توپ خانے کا اِستعمال ہمیں 1526ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں نظر آتا ہے جب سلطنت دہلی کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کوظہیر الدین محمد بابر نے شکست دی۔ اِس جنگ میں ظہیر الدین محمد بابر کے لشکر میں ایک عثمانی کماندار استاد علی قلی بھی موجود تھا جس کی راہنمائی پر مغل فوج کو ترتیب دیا گیا تھا اور اُسی کی راہنمائی پر توپ خانے کو آراستہ کیا گیا تھا۔ ہتھیاروں سے لَیس یہی حکمت عملی ظہیر الدین محمد بابر نے جنگ کنواہہ میں دہرائی اور فتح پائی۔[5][6]

 
سلطنت مغلیہ کے عہدِ زوال میں مغل پیادہ فوج کے سپاہی ـ (1843ء)

عہد اکبری میں توپ خانہ

ترمیم

جلال الدین اکبر نے مغل توپ خانے کو دوبارہ نئی طرز پر ترتیب دیا۔کئی شعبہ جات کو وقت کی ضرورت کے تحت تبدیل کیا گیا اور بعض میں فنی صلاحیتوں کا استعمال بڑھا دیا گیا۔ عسکری قوت کے بڑھ جانے عہدِ اکبری کا توپ خانہ مزید کشادہ ہوتا چلا گیا [2] [7] حتیٰ کہ اورنگزیب عالمگیر کے دَورِ حکومت میں مرہٹہ سلطنت کے خلاف تمام لڑائیوں میں توپ خانے کا اِستعمال دیگر شعبہ جات کے اِستعمال سے زیادہ ہوتا رہا۔ دارا شکوہ نے 1652ء اور 1653ء میں قندھار کی مہم میں توپ خانے کا استعمال صفویوں کے مقابلے پر کیا۔[8][9] اٹھارہویں صدی تک چونکہ مغلیہ سلطنت رُو بہ زوال ہو چکی تھی، اِس لیے کانسی کی توپیں استعمال ہونے لگی تھیں جن میں یورپ کے خام لوہے سے بنے ہتھیار اور توپیں بھی تھیں۔

مغل فوج کے توپ خانہ میں تقریباً ہر قسم کی یعنی چھوٹی بڑی، وزنی اور ہلکی توپیں موجود تھیں۔ کچھ توپیں وزن میں زیادہ بھاری تھیں جنہیں جنگ میں ہاتھیوں پر لادا جاتا تھا اور جو توپیں وزن میں ہلکی ہوتی تھیں، انھیں اونٹوں پر لاد کر میدانِ جنگ میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ متعدد توپوں کے ہلکے اجزاء یا حصوں کو بھی اونٹوں پر لادا جاتا تھا۔ اکبر نامہ میں ہمیں مغلوں کی بنائی ہوئی 14 فٹ لمبائی کی ایک توپ کا ذِکر ملتا ہے جسے دنیا کی طویل ترین توپ کہا جا سکتا ہے۔1527ء میں جنگ کنواہہ کے موقع پر تزک بابری کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس جنگ میں توپ کا گولہ 225 سے 315 پونڈ کے درمیان تھا اور اِس جنگ میں محاصرے کے دوران توپ 540 پونڈ کا گولہ قلعہ کی دیوار پر پھینکتی رہی تھی۔ اِن توپوں میں شیر دہن، غازی خان اور فتح لشکر جیسی توپوں کے نام ملتے ہیں۔ وزنی توپیں بھی مغل توپ خانے کا حصہ ہوا کرتی تھیں جو متعدد مقامات پر باغیوں کے خلاف محاذ آرائی میں اِستعمال کی جاتی تھیں۔ ہاتھی (جسے لشکر میں گجنال اور ہتھنال بھی کہا جاتا تھا) پر توپ کے دو حصے لاد دیے جاتے اور ہاتھی کے ساتھ دو سپاہی مشعل بردار چلتے تھے۔ اونٹوں پر لادی جانے والی ہلکی توپیں زنبورق کہلاتی تھیں۔ ہلکے ہتھیار گھوڑوں اور بیلوں پر لاد کر پہنچائے جاتے تھے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Adle C, Habib I, Baipakov KM, eds. (2004). History of Civilizations of Central Asia: Development in Contrast : from the Sixteenth to the Mid-Nineteenth Century. United Nations Educational. pp. 474–475. ISBN 978-9231038761.
  2. ^ ا ب Gommans JJL. (2002). Mughal Warfare: Indian Frontiers and Highroads to Empire 1500-1700. Routledge. ISBN 978-0415239899.
  3. Gommans JJL. (2002). Mughal Warfare: Indian Frontiers and Highroads to Empire 1500-1700. Routledge. ISBN 978-0415239899.
  4. Chaurasia RS. (2011). History of Modern India: 1707 A.D. to 2000 A.D. Atlantic Publishers. p. 7. ISBN 978-8126900855.
  5. Archer CI, Ferris JR, Herwig HH, Travers THE (2002). World History of Warfare. University of Nebraska Press. pp. 182–195. ISBN 978-0803244238.
  6. Archer CI, Ferris JR, Herwig HH, Travers THE (2002). World History of Warfare. University of Nebraska Press. pp. 182–195. ISBN 978-0803244238.
  7. Richard JF. (1996). The Mughal Empire. Cambridge University Press. pp. 288–289. ISBN 978-0521566032.
  8. Richard JF. (1996). The Mughal Empire. Cambridge University Press. pp. 288–289. ISBN 978-0521566032.
  9. Chandra S. (2000). Medieval India: From Sultanat to the Mughals, Volume 2 (Revised ed.). Har-Anand. p. 228. ISBN 978-81-241-1066-9.