ہاتھی
ہاتھی دور: Pliocene–Recent | |
---|---|
Female African bush elephant
| |
جماعت بندی | |
مملکت: | جانور |
جماعت: | ممالیہ |
الرتبة العليا: | Afrotheria |
طبقہ: | خرطوم دار |
خاندان: | فیلخن Gray, 1821 |
خريطة إنتشار الكائن |
|
| |
درستی - ترمیم |
ہاتھی جنگلی حیات میں جسیم اور طاقتور ترین ممالیہ جانور سمجھا جاتاہے۔[1] ہاتھی کی عام طور پر تین اقسام ہیں، افریقی بش ہاتھی، افریقی جنگلی ہاتھی (جسے عام طور پر افریقی ہاتھی بھی کہا جاتا ہے) اور ایشیائی ہاتھی، جسے انڈین ہاتھی بھی کہا جاتا ہے، جبکہ اس کی بقیہ اقسام برفیلے زمانے میں تقریباً 10،000 دس ہزار سال پہلے معدوم ہو چکی ہیں۔ جسام (Mammoths) اس کی معروف و معتبر مثال ہیں۔
ہاتھی کے عمومی حمل کی میعاد 22 مہینے ہوتی ہے، جو کسی بھی زمینی جانور کے مقابلے میں طویل ترین میعادِ حمل ہے۔ پیدائش کے وقت ایک ہاتھی کے بچے کا عمومی وزن 120 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ ایک ہاتھی کی طبعی زندگی عموماً 70 سال تک ہوتی ہے، جبکہ کچھ ہاتھی اس سے زیادہ عرصے تک بھی زندہ رہتے ہیں۔ دنیا کا طویل العمر ہاتھی انگولا میں 1956ء میں دیکھا گیا تھا۔ ہاتھی وہ واحد جانور ہے جو چھلانگ نہیں لگا سکتا۔
ہاتھی خشکی کے سب سے بڑے جانور ہیں۔ آج کل ان کی تین اقسام ملتی ہیں: افریقی جھاڑیوں والا ہاتھی، افریقی جنگلی ہاتھی اور ایشیائی ہاتھی۔ اس کی ناپید اقسام میمتھ اور ماستوڈون کہلاتی ہیں۔ ان کی لمبی سونڈ، چوڑے کان، ستون نما ٹانگیں اور سخت مگر حساس بھوری کھال ہوتی ہے۔ سونڈ لٹکی ہوتی ہے جس کی مدد سے پانی اور خوراک کو منہ تک لانا اور مختلف چیزیں پکڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔ بیرونی دانت کاٹنے والے دانتوں کی تبدیل شدہ شکل ہے اور ہتھیار اور آلے کے طور پر کام کرتے ہیں اور کھدائی اور چیزوں کو حرکت دینے میں مدد دیتے ہیں۔ افریقی ہاتھی کے کان زیادہ بڑے اور پشت مقعر ہوتی ہے جبکہ ایشیائی ہاتھیوں کے کان نسبتاً چھوٹے اور پشت ہموار یا مقعر ہوتی ہے۔
ہاتھی صحارا کے زیریں علاقے، جنوبی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور مختلف اقسام کے ماحول کے عادی ہیں۔ سبھی ہاتھی نباتات کھاتے ہیں اور قابل رسائی پانی کے قریب رہتے ہیں۔ ماحول پر اثر کے حوالے سے ان کو کی سٹون یا اہم ترین انواع میں گردانا جاتا ہے۔ ہاتھی مخلوط معاشرے میں رہتے ہیں اور مختلف خاندان ایک دوسرے سے رابطے استوار کرتے ہیں۔ مادائیں اپنے خاندانی گروہ میں رہتی ہیں جن میں ایک مادہ اور اس کے بچے یا کئی رشتہ دار ہتھنیاں اور ان کے بچے ہوتے ہیں۔ گروہ کی رہنما ہمیشہ مادہ ہوتی ہے جو عموماً سب سے معمر ہتھنی ہوتی ہے۔
بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نر گروہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور تنہا یا دوسرے نروں کے ساتھ رہنے لگتے ہیں۔ بالغ نر ہاتھی صرف افزائش نسل کی خاطر خاندانی گروہوں کے قریب آتے ہیں۔ اس دوران ان میں نر جنسی ہارمون بڑھ جاتے ہیں اور اس کیفیت کو مست کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت کے دوران انھیں دیگر نروں سے لڑائی کرنے اور افزائش نسل میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ خاندانی گروہوں میں بچوں کو مرکزی اہمیت دی جاتی ہے اور بچے 3 سال تک ماں پر انحصار کرتے ہیں۔ آزاد حالت میں ہاتھی کی عمر 70 سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ان کا باہمی رابطہ چھونے، دیکھنے، سونگھنے اور آواز کے ذریعے ہوتا ہے اور ہاتھی انفراساؤنڈ اور سائزمک ذریعوں سے طویل فاصلوں تک ایک دوسرے رابطہ استوار کر سکتے ہیں۔ ہاتھی کی ذہانت کو پرائیمیٹس اور سیٹیشیئن کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ انھیں اپنی ذات کا ادراک ہوتا ہے اور مرنے والے اور مرے ہوئے ساتھیوں کے تئیں جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
افریقی جھاڑیوں والے ہاتھی اور ایشیائی ہاتھی معدومیت کے خطرے سے دوچار شمار ہوتے ہیں جبکہ افریقی ہاتھی کو معدومیت کے شدید خطرے کا دوچار گردانا جاتا ہے۔ ہاتھیوں کو سب سے خطرہ ہاتھی دانت کے شکار کی وجہ سے ہے۔ دیگر خطرات میں ان کے مسکن کی تباہی اور مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپیں ہیں۔ ایشیا میں ہاتھی سے کام لیا جاتا ہے۔ ماضی میں ہاتھی جنگوں میں بھی استعمال ہوتے رہے ہیں اور چڑیا گھروں اور سرکس میں بھی ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ انسانی ثقافت اور فنونِ لطیفہ، روایتی داستانوں، مذہب اور ادب وغیرہ میں انھیں اہم مقام حاصل ہے۔
ارتقا
ترمیمہاتھی کے خاندان کے 180 سے زیادہ ارکان اب ناپید ہیں۔ پلیئوسین دور کے اختتام پر اس خاندان کے دو افریقی ارکان پیدا ہو چکے تھے۔ ای او سین دور میں پیدا ہونے والے ارکان نہ صرف جسامت میں چھوٹے بلکہ کسی حد تک جل تھیلے بھی تھے۔ بعد ازاں دیگر جنرا پیدا ہوئے جو جنگل میں رہنے کے شائق تھے۔
ہاتھیوں کی ارتقا کا اہم مرحلہ افریقہ اور عرب کا یوریشیا سے ٹکراؤ تھا جو مائیوسین دور کے اوائل میں واقع ہوا۔ یہ دور آج سے 8ء1 سے 9ء1 کروڑ سال قبل واقع ہوا اور اس سے ہاتھیوں کو افریقہ سے نکل کر یوریشیا اور بعد ازاں 6ء1 سے 5ء1 کروڑ سال قبل شمالی امریکہ تک بیرنگ زمینی پل کے ذریعے پہنچ گئے۔
ہاتھیوں اور ان کے اجداد کے دانتوں کی ساخت فرق ہے اور ہاتھیوں کے دانت اس طرح بنے ہیں کہ وہ گھاس بہتر طریقے سے کھا سکتے ہیں۔
پلیئسٹوسین دور کے اوائل میں سونڈ والے جنرا میں ہاتھیوں کے خاندان کے علاوہ سبھی ارکان امریکا کے باہر ختم ہو گئے اور جو باقی بچے، وہ امریکا میں بھی جنوبی امریکا کو منتقل ہو گئے۔ یہ ہجرت آج سے 15 لاکھ سال قبل ہوئی اور میمتھ شمالی امریکا منتقل ہو گئے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان جانوروں کی جسامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان کے اعضا کی طوالت بڑھتی گئی اور پیر چوڑے ہوتے گئے جبکہ سر بڑے اور گردن مختصر ہونے لگی۔ سونڈ اتنی بڑھی کہ اب زمین تک پہنچنے لگی۔ کاٹنے والے اور نوکیلے دانت کم ہوئے اور چبانے والے مولر اور پری مولر کی ساخت بدل گئی۔ کاٹنے والے دانت اپنی شکل بدل کر ہاتھی دانت بنے۔ بعض جزائر پر سونڈ نما جانوروں کی جسامت تیزی سے گھٹنے لگی اور ان کی جسامت ایک میٹر تک رہ گئی۔
زندہ انواع
جسمانی ساخت
ترمیمہاتھی خشکی کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اس کے جسم میں 326 تا 351 ہڈیاں ہوتی ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے سختی سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس میں لچک بہت کم ہوتی ہے۔ افریقی ہاتھیوں میں پسلیوں کے 21 جوڑے ہوتے ہیں جبکہ ایشیائی ہاتھیوں میں یہ تعداد 19 یا 20 جوڑے ہوتی ہے۔ اس کی کھوپڑی میں ہوا بھرے خانے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وزن میں کمی ہونے کے علاوہ مضبوطی بڑھتی ہے۔ کھوپڑی کی ہڈی کو کاٹا جائے تو اس میں شہد کے چھتے کی مانند خانے سے دکھائی دیتے ہیں۔ نچلے جبڑے زیادہ بھاری ہوتے ہیں۔ تالو بالخصوص بڑا ہوتا ہے اور اس میں پورے سر کو سنبھالنے والے پٹھوں کی جگہ ہوتی ہے۔ کھوپڑی بہت زیادہ دباؤ برداشت کر سکتی ہے چاہے وہ لڑائی کے دوران لگنے والے دھکے ہوں یا ہاتھی دانت کا استعمال ہو۔ دماغ کے اردگرد محرابیں سی ہوتی ہیں جو اسے محفوظ رکھتی ہیں۔ سر کی جسامت کی وجہ سے گردن نسبتاً چھوٹی ہوتی ہے تاکہ بہتر طور پر سہار سکے۔ ہاتھی اپنا جسمانی درجہ حرارت 36 درجے کے آس پاس رکھتے ہیں۔ سرد موسم میں 2ء35 درجے اور خشک گرم موسم میں زیادہ سے زیادہ 38 درجے تک جا سکتا ہے۔
کان اور آنکھیں
ترمیمہاتھی کے کان درمیان میں 1 تا 2 ملی میٹر موٹے ہوتے ہیں جبکہ نچلا سرا جسم کے قریب سب سے موٹا ہوتا ہے تاکہ اسے بہتر سہارا ملے۔ کانوں میں عروقِ شعریہ ہوتی ہیں۔ گرم خون ان رگوں سے گزرتا ہے اور اضافی گرمی کان کی جلد سے ماحول کو خارج ہو جاتی ہے۔ کان کو آگے پیچھے ہلانے سے یہ عمل مزید تیز ہو جاتا ہے۔ بڑے رقبے کی وجہ سے کانوں میں رگوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ مقدار میں حرارت خارج ہو سکتی ہے۔ افریقی جھاڑیوں والے ہاتھی گرم ترین مقامات پر رہتے ہیں اور ان کے کان بھی سب سے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کی سماعت کم تعدد والی آواز سننے کے لیے بنی ہے اور 1 کلو ہرٹز کی آوازیں سب سے بہتر سن سکتے ہیں۔
ہاتھیوں کی آنکھوں میں آنسو والا سوراخ نہیں ہوتا اور آنکھ کو نم رکھنے کی خاطر ایک غدود ہوتا ہے۔ آنکھ کے قرنیے کے بچاؤ کے لیے شفاف جھلی ہوتی ہے۔ آنکھوں کی ساخت اور ان میں محدود حرکت کی گنجائش کی وجہ سے ہاتھی کی بصارت اتنی اچھی نہیں ہوتی۔ ہاتھی کو کم روشنی میں تیز روشنی کی نسبت بہتر دکھائی دیتا ہے۔
سونڈ
ترمیمہاتھی کی لٹکی ہوئی سونڈ اس کے بالائی ہونٹ اور ناک سے مل کر بنتی ہے جو حمل کے ابتدائی مراحل میں مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔ سونڈ میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ پٹھے ہوتے ہیں اور چربی نہ ہونے کے برابر۔ اس میں ہڈی بھی نہیں ہوتی۔
جوڑے دار پٹھوں کی دو اہم اقسام ہیں: بیرونی اور اندرونی۔ بیرونی پٹھے سامنے والے، عقبی، پہلوئی جبکہ اندرونی پٹھوں کی بھی دو اقسام ہیں۔ سونڈ کے پٹھے کھوپڑی میں ہڈی دار سوراخ سے جڑے ہوتے ہیں۔ نتھنوں کے سرے پر کرکری ہڈی ہوتی ہے۔ سونڈ کے دونوں جانب نیچے تک دو اعصابی رگیں جاتی ہیں۔
سونڈ کے پٹھے ایک دوسرے ساتھ مل کر اور ایک دوسرے کے مخالف بھی حرکت کر سکتے ہیں۔ ان حرکات سے موڑنا، گھمانا، پھیلانا اور سکیڑنا وغیرہ جیسے کام آسانی ہو جاتے ہیں۔ سونڈ کے سرے سے پکڑی ہوئی چیز کو ہاتھی سونڈ موڑ کر اپنے منہ تک لا سکتا ہے۔ سونڈ کو مختلف مقامات سے موڑ کر جوڑ نما حرکت پیدا کی جا سکتی ہے۔ سونڈ کا سرا انسانی ہاتھ کی مانند کام کرتا ہے۔ سونڈ کے سامنے والے پٹھے عقبی پٹھوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور جب ہاتھی سونڈ کو اندر کی طرف موڑ کر کوئی چیز پکڑ لے تو اس کی گرفت کافی مضبوط ہوتی ہے۔ افریقی ہاتھی کی سونڈ کے سرے پر انگلی نما دو ابھار ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ چھوٹی موٹی چیزیں بھی پکڑ سکتا ہے۔ ایشائی ہاتھی میں صرف ایک ابھار ہوتا ہے۔ ایشیائی ہاتھی کی سونڈ میں حرکت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔
سونڈ کی حرکات سے ہاتھی کو کھانے اور دوسرے ہاتھیوں سے لڑائی میں آسانی ہوتی ہے۔ سونڈ سے ہاتھی 350 کلو تک وزن اٹھا سکتا ہے اور دوسری جانب سونڈ اتنی حساس ہوتی ہے کہ وہ مونگ پھلی کا چھلکا بھی آسانی سے توڑ سکتا ہے اور مونگ پھلی خراب نہیں ہوتی۔ سونڈ کی مدد سے ہاتھی سات میٹر اونچی چیز تک پہنچ سکتا ہے اور اس کی مدد سے مٹی اور ریت کھود کر پانی نکال سکتا ہے۔ ہاتھی جسمانی صفائی کے لیے بھی سونڈ استعمال کرتا ہے۔ کچھ ہاتھی سونڈ سے چیز کو پکڑتے وقت سونڈ بائیں طرف موڑتے ہیں تو کچھ کو دائیں جانب موڑنا پسند ہوتا ہے۔ ہاتھی اپنے نتھنے 30 فیصد تک پھیلا سکتا ہے جس سے ہوا کی گزرگاہ 64 فیصد بڑھ جاتی ہے اور ہاتھی انسانی چھینک سے 30 گنا زیادہ رفتار سے ہوا خارج کر سکتا ہے جو 150 میٹر فی سیکنڈ بنتی ہے۔ سونڈ سے ہاتھی پانی کو اپنے جسم پر پھینک سکتے ہیں۔ ایشیائی ہاتھی کی سونڈ میں 5ء8 لیٹر پانی آتا ہے۔ سونڈ کی مدد سے ہاتھی اپنے جسم پر گھاس یا مٹی بھی پھینک سکتا ہے۔ پانی میں تیرتے ہوئے ہاتھی سونڈ سطح سے بلند رکھ کر سانس لے سکتا ہے۔
سونڈ حسی عضو کا کام بھی دیتا ہے۔ ہاتھی کی سونگھنے کی حس بلڈ ہاؤنڈ سے چار گنا زیادہ ہے۔ سونڈ پر مونچھ نما بال ہوتے ہیں جو الگ الگ حرکت نہیں کر سکتے۔
سونڈ کو نقصان پہنچے تو ہاتھی کی بقا کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ کئی ہاتھی کٹی ہوئی سونڈ کے ساتھ بھی دیکھے گئے ہیں۔ سونڈ سے محروم ایک ہاتھی دیکھا گیا جو پچھلا پیر ہوا میں اٹھا کر اگلے پیروں پر جھک کر ہونٹوں سے گھاس کھاتا تھا۔ بعض افریقی ہاتھیوں میں سونڈ عضو معطل دیکھی گئی ہے۔ ایسا سیسے کی وجہ سے ہوتا ہے جو پٹھوں اور اعصاب کو تباہ کر دیتا ہے۔
دانت
ترمیمعام طور پر ہاتھی کے 26 دانت ہوتے ہیں۔ کاٹنے والے دانت ہی ہاتھی دانت کہلاتے ہیں۔ 12 پری مولر ہوتے ہیں جو گرتے اور اگتے رہتے ہیں جبکہ 12 مولر ہوتے ہیں۔ عام ممالیہ جانوروں کے دانت جبڑے سے نکلتے ہیں جبکہ ہاتھی کے دانت جبڑے کے سرے سے شروع ہوتے اور حرکت کرتے ہوئے آگے کو بڑھتے ہیں۔ 2 سے 3 سال عمر کے ہاتھی کے پہلے چبانے والے دانت گرتے ہیں۔ اس کے بعد 4 سے 6 سال، 9 سے 15 اور پھر 18 سے 28 سال کی عمر میں اور آخری مرتبہ دانت 40 سال کی عمر کے بعد گرتے ہیں۔ اس کے بعد ہاتھی کے دانت اس کی باقی عمر تک کام دیتے ہیں۔ افریقی اور ایشیائی ہاتھیوں کے دانتوں کی ساخت کچھ فرق ہوتی ہے۔
ہاتھی دانت
ترمیمبالائی جبڑے کے کاٹنے والے دوسرے دانت ہاتھی دانت بنتے ہیں۔ یہ 6 ماہ سے 1 سال عمر کے ہاتھی کے دودھ کے دانت گرنے پر نکلتے ہیں اور ان کے بڑھنے کی رفتار 7 انچ سالانہ تک ہوتی ہے۔ شروع میں ہاتھی دانت نرم ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ سخت ہوتے جاتے ہیں۔ ہاتھی دانت کا زیادہ تر حصہ باہر ہوتا ہے۔ ہاتھی دانت کا ایک تہائی حصہ نرم گودے پر مشتمل ہوتا ہے اور عصبی رگیں اس سے بھی زیادہ لمبائی تک ہو سکتی ہیں۔ اس وجہ سے ہاتھی دانت کو نکالا جائے تو ہاتھی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر یہ دانت نکالنے کے بعد سرد اور نم جگہ نہ رکھے جائیں تو ان میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ ہاتھی دانت سے کھدائی، چھال اتارنے، چیزوں کو حرکت دینے اور لڑائی وغیرہ میں ہاتھی استعمال کرتے ہیں۔
انسان کی مانند ہاتھی بھی دائیں یا بائیں ہاتھی دانت کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ استعمال ہونے والا دانت غالب کہلاتا ہے اور زیادہ گھستا، کم لمبا اور نسبتاً گول سرے والا ہوتا ہے۔ افریقی ہاتھیوں میں نر اور مادہ دونوں کے ہاتھی دانت ہوتے ہیں اور ان کی لمبائی بھی ایک جیسی ہوتی ہے جو 3 میٹر تک ہو سکتی ہے۔ تاہم نر کے دانت زیادہ بھاری ہوتے ہیں۔ ایشیائی ہاتھی میں نر کے دانت ہوتے ہیں۔ ایشیائی ہتھنی کے ہاتھی دانت بہت چھوٹے یا بالکل ہی نہیں ہوتے۔ سری لنکا میں ہاتھی دانت کے بغیر ہاتھی ہوتے ہیں۔ نر ایشیائی ہاتھی کے دانت افریقی ہاتھی کے برابر لمبے مگر اتنے موٹے نہیں ہوتے۔ سب سے بڑا ایشیائی ہاتھی دانت 302 سینٹی میٹر لمبا اور 39 کلو وزنی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ افریقہ اور ایشیا میں بڑے دانتوں والے ہاتھیوں کے شکار کی وجہ سے فطری چناؤ کے سبب چھوٹے دانتوں یا بنا دانتوں والے ہاتھی زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
کھال
ترمیمہاتھی کی جلد کافی مضبوط ہوتی ہے اور پشت اور سر کے کچھ حصوں پر اس کی موٹائی ایک انچ ہوتی ہے۔ منہ اور مقعد کے گرد اور کان کے اندر کی جانب کھال کافی پتلی ہوتی ہے۔ ہاتھی کا رنگ سرمئی ہوتا ہے مگر افریقی ہاتھی بھورا یا سرخی مائل بھی دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس رنگ کی مٹی میں لوٹتا ہے۔ ایشیائی ہاتھی میں بالخصوص پر رنگ سے محروم حصے ہو سکتے ہیں۔ بچوں پر بھورے یا سرخی مائل بال ہو سکتے ہیں اور بچوں کے سر اور پشت پر کافی بال ہوتے ہیں۔ جوں جوں ہاتھی جوان ہوتا ہے تو بالوں کا رنگ گہرا اور تعداد گھٹتی جاتی ہے۔ دم کے سرے، سر اور جنسی اعضا کے پاس پھر بھی بال باقی رہ جاتے ہیں۔ عمومی طور پر افریقی ہاتھی کی نسبت ایشیائی ہاتھی کے جسم پر زیادہ بال ہوتے ہیں۔ گرم ماحول میں ان بالوں سے ہاتھی کو جسمانی درجہ حرارت کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
سخت ہونے کے باوجود ہاتھی کی کھال کافی حساس ہوتی ہے اور نمی برقرار رکھنے، دھوپ سے محفوظ رکھنے اور حشرات کے کاٹنے سے بچاؤ کے لیے اسے کیچڑ کی ضرورت رہتی ہے۔ نہانے کے بعد ہاتھی اپنی سونڈ سے جسم پر باریک مٹی یا گرد پھینکتا ہے جس سے حفاظتی تہ کھال پر چڑھ جاتی ہے۔ ہاتھی کے وزن کے اعتبار سے کھال کا رقبہ کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ جلد کے ذریعے حرارت کا اخراج کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے کہ یہ تناسب انسان کی نسبت کئی گنا کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہاتھی اپنے پیر اٹھا کر تلوے ٹھنڈے کرتے ہیں۔ ہاتھی کی انگلیوں کے درمیان پسینے والے غدود ہوتے ہیں مگر جلد سے بھی پانی کا اخراج ہوتا رہتا ہے۔ کھال میں بنی سلوٹیں بھی اس ضمن میں کچھ مدد دیتی ہیں۔
ٹانگیں، نقل و حمل اور انداز
ترمیمدیگر جانوروں کی نسبت ہاتھی کی ٹانگیں جسم سے زیادہ عمودی ہوتی ہیں۔ ہاتھی کی لمبی ہڈیوں کی ساخت بھی فرق ہوتی ہے اور خون بننے کام کرنے کے علاوہ ان کی مضبوطی بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگلی اور پچھلی ٹانگیں یکساں وزن اٹھا سکتی ہیں مگر اگلی ٹانگیں تقریباً 60 فیصد جبکہ پچھلی ٹانگیں 40 فیصد وزن اٹھاتی ہیں۔ ٹانگوں کے مقام ایسے ہیں کہ ہاتھی طویل وقت کھڑا رہ سکتا ہے اور تھکتا نہیں۔ ہاتھی کے گول پیروں کے تلے موٹے گدے نما ہوتے ہیں تاکہ اس کا وزن سہار سکیں۔ اگلے اور پچھلے پیروں پر پانچ تک ناخن ہوتے ہیں۔
ہاتھی آگے اور پیچھے کی سمت چل سکتا ہے مگر دوڑنے یا جست لگانے کے قابل نہیں۔ زمین پر ہاتھی چلتا ہے۔ اس کی تیز چال سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے دوڑ رہا ہو۔ چلتے ہوئے ہاتھی کی ٹانگیں پنڈولم کی طرح کام کرتی ہیں اور کندھے اور کولہے اوپر نیچے ہوتے ہیں۔ ہاتھی کی چال کے دوران بیک وقت چاروں پیر ہوا میں بلند نہیں ہو سکتے مگر ہاتھی چلتے ہوئے اپنی رفتار بڑھا ضرور سکتا ہے۔ تیز چلتا ہوا ہاتھی دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی رفتار 25 کلومیٹر فی گھنٹہ یا 16 میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔ دیگر چوپائے اس رفتار سے دوڑتے ہیں۔ ہاتھی کے تلوے میں بنے گدے نہ صرف اس کا وزن سہارتے ہیں بلکہ اتنے بھاری جانور کے چلنے کی آواز کو بھی چھپاتے ہیں۔ ہاتھی ماہر تیراک ہوتے ہیں اور ڈوبے بغیر 6 گھنٹے تک تیر سکتے ہیں۔ ہاتھی 2 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار سے تیر سکتے ہیں اور بنا رکے 48 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔
اندرونی نظام
ترمیمہاتھی کا دماغ ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ کلو وزنی ہوتا ہے جبکہ انسان کا دماغ 6ء1 کلو وزنی ہوتا ہے۔ ہاتھی کا دماغ خشکی کے تمام جانوروں سے بڑا ہے۔ اتنا بڑا ہونے کے باوجود تناسب کے اعتبار سے ہاتھی کا دماغ انسانی دماغ سے کہیں چھوٹا ہے۔ پیدائش کے وقت ہاتھی کے بچے کے دماغ کا وزن بالغ ہاتھی کی نسبت 30 سے 40 فیصد ہوتا ہے۔ ہاتھی کا گلا بھی تمام جانوروں سے بڑا ہوتا ہے اور آواز پیدا کرنے والے عضلات بہت بڑے، لمبے اور موٹے ہوتے ہیں۔ ان کے گلے میں پانی محفوظ رکھنے کے لیے خانہ سا بنا ہوتا ہے۔ ہاتھی اپنی سونڈ سے یہ پانی نکال سکتا ہے۔
ہاتھی کے دل کا وزن 12 سے 21 کلو تک ہوتا ہے۔ اس کے سرے پر دو ابھار ہوتے ہیں جو ممالیہ میں عام نہیں۔ جب ہاتھی آرام سے کھڑا ہو تو اس کا دل ایک منٹ میں 28 مرتبہ دھڑکتا ہے۔ جب ہاتھی لیٹ جائے تو دل کی دھڑکن تیز ہو کر 35 دھڑکن فی منٹ ہو جاتی ہے۔ خون کی رگیں موٹی اور چوڑی ہوتی ہیں اور دباؤ برداشت کر سکتی ہیں۔ ہاتھی کے پھیپھڑے ڈایافرام سے جڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پسلیوں کی حرکت سے سانس پر زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ سینے کے جوف میں عضلات کی ساخت اس نوعیت کی ہے کہ جب ہاتھی پانی میں ہو تو سونڈ پانی سے باہر نکال کر بھی سانس لے سکتا ہے۔ ہاتھی سونڈ سے سانس لیتے ہیں مگر منہ سے بھی سانس لے سکتے ہیں۔ ان کی بڑی آنت میں تخمیری نظام ہوتا ہے۔ چھوٹی اور بڑی آنت کی کل لمبائی 35 میٹر بنتی ہے۔ ہاتھی اپنی خوراک کا نصف سے بھی کم حصہ ہضم کرتا ہے حالانکہ اس عمل پر اسے پورا دن لگ جاتا ہے۔
جنسی اعضا
ترمیمنر ہاتھی کے خصیےاس کے گردوں کے قریب واقع ہوتے ہیں۔ عضو تناسل کی لمبائی ایک میٹر تک اور 6 انچ تک موٹائی ہوتی ہے۔ تناؤ کی حالت میں عضو تناسل کی شکل انگریزی کے حرف S سے مماثل ہوتی ہے اور پیشاب وغیرہ کے اخراج کے لیے Y نما سوراخ ہوتا ہے۔ہتھنی کے بظر کی لمبائی 16 انچ تک ہوتی ہے۔ اندام نہانی دیگر سبزی خوروں سے زیادہ نیچے ہوتی ہے اور دم کے نیچے ہونے کی بجائے پچھلی ٹانگوں کے وسط میں ہوتی ہے۔ ہتھنی کے حمل کا جائزہ لینا مشکل ہوتا ہے کہ ہتھنی کا پیٹ بہت بڑا ہوتا ہے۔ ہتھنی کے تھن اس کی اگلی ٹانگوں کے پاس ہوتے ہیں۔ ہاتھی کی کنپٹی کے قریب دو غدود ہوتے ہیں جن سے بہنے والے مادے سے ہاتھی کی مست کیفیت کا علم ہوتا ہے۔ مادہ میں بھی یہ غدود پائے جاتے ہیں۔
نیچرل ہسٹری
ترمیمہاتھی سبزی خور جانور ہیں اور پتے، ٹہنیاں، پھل، چھال، گھاس اور جڑیں اس کی خوراک کا حصہ ہیں۔ افریقی ہاتھی کی خوراک ٹہنیاں اور پتے ہوتی ہے جبکہ ایشیائی ہاتھی کو گھاس زیادہ پسند ہے۔ ہاتھی کو ہر روز لگ بھگ 300 کلو خوراک اور 40 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ ہاتھی عموماً پانی کے قریب ملتے ہیں۔ ہاتھی علی الصبح، سہ پہر اور رات کو پیٹ بھرتے ہیں۔ دوپہر کا گرم وقت ہاتھی عموماً درختوں تلے کھڑے ہو کر اونگھتے ہوئے گزارتے ہیں۔ ہاتھی رات کو لیٹ کر 3 سے 4 گھنٹے سوتا ہے۔ نر ہوں یا بچوں والے گروہ، عموماً ایک دن میں 20 کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ طے نہیں کرتے اگرچہ ایک مرتبہ نمبیبیا کے اٹوشیا علاقے کے ہاتھی 180 کلومیٹر کا فاصلہ بھی طے کر چکے ہیں۔ بدلتے ماحول کے ساتھ ہاتھی موسمی ہجرت بھی کرتے ہیں۔ شمالی بوٹسوانا میں جب اگست کے اواخر میں پانی کے تالاب خشک ہو جائیں تو ہاتھی 325 کلومیٹر طے کر کے دریائے چوبے کو جاتے ہیں۔
اپنی بڑی جسامت کی وجہ ہاتھی ماحول پر بڑا اثر ڈالتے ہیں اور اس وجہ سے انھیں کی سٹون یا بنیادی نوع گردانا جاتا ہے۔ ہاتھی درختوں اور جھاڑیوں وغیرہ کو اکھاڑتے رہتے ہیں اور اس وجہ سے سوانا کے علاقے گھاس کے میدان بن سکتے ہیں۔ چھوٹے سبزی خور جانور بھی ہاتھی کے گرائے ہوئے درختوں سے پیٹ بھرتے ہیں۔ خشک موسم میں جب ہاتھی پانی کی خاطر گڑھے کھودتے ہیں تو یہ گڑھے دیگر جانوروں کو بھی پانی فراہم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جب ہاتھی کسی جگہ پانی پینے جاتے ہیں تو ان کا رقبہ بڑھا دیتے ہیں۔ ہاتھی بیجوں کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ افریقی جنگلاتی ہاتھی نہ صرف بڑی مقدار میں بیج کھاتے ہیں بلکہ انھیں بڑے فاصلے تک پھیلاتے بھی ہیں۔ ہاتھی کا نظام انہضام ان بیجوں کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ بعض اوقات ان کے اگنے کے عمل کو بہتر بھی بناتا ہے۔ ایشیائی جنگلات میں بڑے بیج ہاتھی اور گینڈے جیسے دیو قامت سبزی خور کی مدد سے پھیلتے ہیں۔ ملایا کا چھوٹا ٹیپر بھی یہ کام نہیں کر سکتا۔ ہاتھی کی کھائی ہوئی زیادہ تر خوراک ہضم ہوئے بغیر خارج ہو جاتی ہے، سو دیگر جانور بشمول گبریلے ہاتھی کے فضلے سے پیٹ بھرتے ہیں۔ ہاتھی بسا اوقات ماحول پر منفی اثر بھی ڈالتے ہیں۔ یوگنڈا کے مرچیسن فالز نیشنل پارک میں ہاتھیوں کی وجہ سے کئی چھوٹے پرندوں کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ یہ پرندے درختوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ہاتھیوں کے وزن سے مٹی دبتی ہے اور کٹاؤ کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔
ہاتھی مداخلت نہ کرنے والے دیگر سبزی خوروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہ سکتے ہیں۔ ہاتھیوں اور گینڈوں کے درمیان جھگڑے دیکھے گئے ہیں۔ بالغ ہاتھی کی جسامت اسے تقریباً سبھی حملہ آور جانوروں سے بچاتی ہے۔ ہاتھی کے بچوں پر ببر شیر، لگڑبگڑ اور جنگلی کتے افریقہ میں جبکہ ایشیا میں شیر حملہ کر سکتے ہیں۔ بوٹسوانا میں ساوتی کے ببر شیر ہاتھیوں کے بچوں اور کم عمر ہاتھیوں پر حملہ کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ نادر واقعات میں ایشیائی ہاتھی شیروں کا شکار بنے ہیں۔ دیگر ممالیہ جانوروں کی نسبت ہاتھیوں پر بڑی تعداد میں طیفیلے ملتے ہیں جن کی اکثریت پیٹ کے کیڑے ہوتے ہیں۔
سماجی درجہ بندی
ترمیمہاتھی مل جل کر رہنے والے جانور ہیں۔ افریقی جھاڑیوں والے ہاتھیوں کے ہاں بہت پیچیدہ سماجی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ ہتھنیاں اپنی پوری زندگی ایک قریبی خاندانی گروہ میں گزارتی ہیں۔ ان کی رہنمائی سب سے معمر ہتھنی کرتی ہے۔ اپنی موت تک ہتھنی رہنمائی جاری رکھتی ہے یا جب تک اس کی توانائی جواب نہ دے جائے۔ چڑیا گھر میں ہاتھیوں کے خاندان کی سربراہ ہتھنی مر جائے تو باقی گروہ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ سربراہ کے مرنے پر اس کی دوسری بہن سربراہ بن جاتی ہے۔ اگر وہ گروہ میں نہ ہو تو جو بھی سب سے عمر رسیدہ ہتھنی ہوگی، وہی سربراہ بنے گی۔ کم عمر سربراہ ہتھنیاں گروہ کی بقا کو لاحق خطرات پر معمر ہتھنیوں جتنی توجہ نہیں دیتیں۔ اگر مقامی خوراک وغیرہ ختم ہونے لگیں تو بڑا خاندانی گروہ مختلف حصوں میں بھی بٹ جاتا ہے۔
کینیا کے امبوسیلی نیشنل پارک میں ماداوں کے گروہ میں دس تک رکن ہوتے ہیں جن میں چار بالغ ہتھنیاں اور باقی ان کے بچے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات دو گروہ مل کر ایک بڑا گروہ تشکیل دے لیتے ہیں۔ خشک موسم میں ہاتھیوں کے گروہ جمع ہو کر بڑے قبیلے بناتے ہیں۔ اس طرح نو تک گروہ جمع ہو کر ایک بڑا گروہ بناتے ہیں مگر ان کے درمیان زیادہ گہرا تعلق نہیں پیدا ہو پاتا۔ ان کے اکٹھے ہونے کا مقصد محض خشک سالی میں اپنی بقا یقینی بنانا ہے۔
ایشیائی ہتھنیاں سماجی تعلقات میں زیادہ فراغ دل ہیں۔ سری لنکا میں ہتھنیاں بچوں کی پرورش اور ان کو دودھ پلانے کے لیے بھی گروہ بناتی ہیں۔ جنوبی بھارت میں ان کے گروہوں کی کئی اقسام ہوتے ہیں۔ خاندانی گروہ میں دو مادائیں اور ان کے بچے ہوتے ہیں۔ دو سے زیادہ ہتھنیاں اور ان کے بچے گروہ میں ہوں تو انھیں مشترکہ خاندان کہا جاتا ہے۔ مالے میں ہتھنیوں کے گروہ اور بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ افریقی جنگلاتی ہتھنیوں کے گروہ میں ایک مادہ اور ایک سے تین تک بچے ہوتے ہیں۔ یہ گروہ ایک دوسرے سے جنگل میں کھلے علاقوں میں ملتے ہیں۔
بالغ نر ہاتھی اپنی زندگی الگ گزرتے ہیں۔ نر ہاتھی دوسرے نروں کے ساتھ مل کر اپنے گروہ بناتے ہیں جو ضروری نہیں کہ ایک ہی خاندان کے ارکان ہوں۔ جب نر ہاتھی اپنے خاندان سے الگ ہوتا ہے تو وہ یا تو اکیلا رہنے لگتا ہے یا پھر دوسرے نروں کے ساتھ مل جاتا ہے۔ گھنے جنگل والا ہاتھی اکیلا رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہاتھی چاہے اکیلا رہے یا گروہ کی شکل میں، ان میں منظم ترتیب پائی جاتی ہے۔ عمر، جسامت اور جنسی حالت ان کی سماجی حیثیت طے کرتے ہیں۔ جب تک نر ہاتھی جنسی ملاپ پر تیار نہ ہوں، کافی سماجی جانور ہوتے ہیں۔ بڑے نر ان گروہوں کی سربراہی کرتے ہیں جن کی موجودگی سے دیگر اراکین قابو میں رہتے ہیں۔ نروں کے بڑے گروہ میں 150 تک بھی ہاتھی ہو سکتے ہیں۔ نر اور مادہ صرف افزائش نسل کے لیے قریب آتے ہیں۔
جنسی رویہ
ترمیممست
ترمیمنر ہاتھی جب 15 سال کے ہوتے ہیں تو ان پر پہلی مرتبہ مست کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ 25 سال کی عمر تک یہ کیفیت اتنی شدید نہیں ہوتی۔ بعض علاقوں میں یہ عمر فرق بھی ہو سکتی ہے۔ جب ہاتھی مست ہو تو اس کی کنپٹیوں کے قریب غدود سے بدبودار مواد خارج ہوتا ہے جو گالوں پر بہتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کیفیت میں ہاتھی چلتے ہوئے سر اٹھاتا اور ہلاتا ہے، کان بے ترتیب ہلتے ہیں، اپنی دانتوں سے زمین کھودتا ہے، درختوں پر خراشیں ڈالتا ہے اور پیشاب کرتا ہے۔ مست کا دورانیہ ہر ہاتھی میں مختلف ہوتا ہے جو کئی دنوں سے لے کر کئی مہینوں تک ہو سکتا ہے۔
مست کیفیت میں ہاتھی انتہائی مشتعل ہو جاتا ہے۔ ان کی جسامت ان کے اشتعال سے متناسب ہوتی ہے۔ مست اور عام ہاتھی کے درمیان جب مقابلہ ہو تو جسامت میں چھوٹا ہونے کے باوجود بھی اکثر مست ہاتھی جیت جاتا ہے۔ جب زیادہ بڑے درجے والا مست ہاتھی آئے تو چھوٹا ہاتھی مست کیفیت سے نکل سکتا ہے۔ ایک جیسے درجے کے دو مست ہاتھی ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے۔ مست کیفیت میں لڑائی زیادہ تر ایک دوسرے کا پیچھا کرنے اور دھمکیوں تک محدود رہتی ہے اور بہت کم اصل لڑائی ہوتی ہے۔
ملاپ
ترمیمہاتھی ایک سے زیادہ ماداؤں سے ملاپ کرتے ہیں جو عموماً برسات میں ہوتا ہے۔ ملاپ کے لیے تیار ہتھنی اپنے پیشاب اور اندام نہانی کی رطوبتوں میں ہارمون کے اخراج سے اپنی کیفیت کا اظہار کرتی ہے۔ نر ہاتھی ایسی ماداؤں کا پیچھا کر کے ان کے پیشاب کا جائزہ لیتا ہے اور پیشاپ کی کچھ مقدار اپنے منہ میں تالو پر لگا کر ہارمون کی مقدار جانچتا ہے۔ ہتھنی اس کیفیت میں 14 سے 16 ہفتے رہتی ہے۔ 45 سے 50 سال کی ہتھنی میں بارآوری کا امکان کم ہونے لگتا ہے۔
نر ہاتھی ملاپ کے لیے تیار ماداؤں کی رکھوالی کرتے ہیں اور ان کا پیچھا کرنے کے علاوہ دوسرے نروں کو دور رکھتے ہیں۔ زیادہ تر یہ رکھوالی مست ہاتھی کرتے ہیں اور مادائیں زیادہ عمر والے مست ہاتھیوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ مست کی کیفیت سے ہتھنیوں کو ہاتھی کی جسمانی حالت پتہ چلتی ہے کہ زخمی یا کمزور ہاتھی عام انداز سے مست نہیں ہوتے۔ نوجوان ماداؤں کے لیے بڑی عمر کے مست ہاتھی کی قربت پریشانی کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے اس کی بڑی رشتہ دار ہتھنیاں اس کے قریب رہتی ہیں۔ ملاپ کے دوران نر اپنی سونڈ مادہ کی پشت پر رکھ دیتا ہے۔ ہاتھی کا عضو تناسل اتنا لچکدار ہوتا ہے کہ کولہوں کو ہلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سوار ہونے سے قبل ہاتھی کا عضو تناسل مڑ کر اوپر اٹھ جاتا ہے۔ جنسی فعل عموماً 45 سیکنڈ میں تمام ہو جاتا ہے اور اخراج کے لیے نر کو دھکے دینے یا رکنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
دونوں جنسوں میں ہم جنس پرست رویہ بھی عام دیکھا گیا ہے۔ عام جنسی ملاپ کی طرح ہم جنسی کے دوران بھی ہاتھی یا ہتھنی دوسرے پر سوار ہوتے ہیں۔ اس طرح کے دوستانہ مقابلے بڑی اور چھوٹی عمر کے ہاتھیوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں۔ ہتھنیوں میں بھی ہم جنسیت کا رویہ دیکھا گیا مگر ایسا صرف قید میں ہوتا ہے جس میں دو مادائیں اپنی سونڈوں سے ایک دوسرے کی مشت زنی کرتی ہیں۔
پیدائش اور نشو و نما
ترمیمہتھنی کا زمانہ حمل ڈیڑھ سے دو سال تک ہوتا ہے اور ہتھنی اگلے چار سال کوئی بچہ جنم نہیں دیتی۔ اتنے طویل دورانیہ کے حمل میں بچے کی سونڈ اور دماغ کو بننے کا موقع ملتا ہے۔ عموماً بچے بارشوں کے موسم میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بچہ پیدا ہونا عام بات ہے مگر کبھی کبھار دو بچے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
پیدائش کے وقت بچے کا قد 33 انچ ہوتا ہے اور 120 وزنی ہوتے ہیں۔ پیدائش کے کچھ دیر بعد ہی بچے کھڑے ہونے اور ماں کے ساتھ چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ نئے بچے کو پورے گروہ کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ سبھی بالغ اور بچے نوزائیدہ کے گرد جمع ہو کر اسے دیکھتے اور سونڈوں سے سہلاتے ہیں۔ پہلے چند روز تک ماں کسی کو بچے قریب ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ کچھ خاندانی گروہوں میں ماں کے علاوہ دیگر ہتھنیاں بھی بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ایسا 2 سے 12 سال کی عمر کے دوران ہوتا ہے۔
پہلے چند روز نوزائیدہ کی چال ہموار نہیں ہوتی اور لڑکھڑاتا ہے اور ماں اس کو سہارا دیتی ہے۔ بچے کی بصارت اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوتی اور وہ لمس، شامہ اور سماعت پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ بچے کو سونڈ پر قابو نہیں ہوتا اور سونڈ لہراتی رہتی ہے اور بعض اوقات بچہ اپنی ہی سونڈ سے ٹھوکر کھا کر گر جاتا ہے۔ دوسرے ہفتے سے بچہ زیادہ آسانی سے چلنا شروع ہو جاتا ہے اور سونڈ پر بھی کچھ قابو پانے لگتا ہے۔ دوسرے مہینے سے بچہ سونڈ سے چیزیں پکڑنے کے قابل ہو جاتا ہے مگر سونڈ سے پانی نہیں پی سکتا۔ سو اسے جھک کر منہ سے پانی پینا پڑتا ہے۔ بچہ اپنی ماں پر پوری طرح انحصار کرتا ہے اور اس کے قریب رہتا ہے۔ پہلے تین ماہ بچہ اپنی ماں کے دودھ پر گزارا کرتا ہے جس کے بعد وہ سبزہ کھانے کے قابل ہو جاتا ہے اور سونڈ سے پانی بھی پینے لگتا ہے۔ اس دوران اسے اپنے ہونٹوں اور ٹانگوں کی حرکات پر بھی قابو ہونے لگتا ہے۔ نو ماہ کی عمر تک منہ، سونڈ اور پیروں کی حرکات پر بچے کو پوری طرح قابو ہو جاتا ہے۔ ایک سال سے کم عمر کا بچہ ہر گھنٹے میں دو سے چار منٹ دودھ پیتا ہے۔ ایک سال کے بعد بچہ خود سے کھانے، پینے اور اپنی دیکھ بھال کے قابل ہو جاتا ہے۔ دو سال کی عمر تک پھر بھی بچے کو ماں کا دودھ اور تحفظ درکار رہتا ہے۔ دو سال کے بعد بھی ماں کا دودھ پینا بچے کی نشو و نما، صحت اور بارآوری میں مدد دے سکتا ہے۔
کھیلنے کی نیت سے نر بچے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جبکہ مادائیں ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہیں۔ مادائیں 9 سال جبکہ نر 14 سے 15 سال کی عمر میں جا کر بالغ ہوتے ہیں۔ ہاتھیوں کی عمر کافی طویل ہوتی ہے اور 60 سے 70 سال تک زندہ رہتے ہیں۔ لِن وانگ نامی نر ہاتھی قید میں 86 سال زندہ رہا۔
رابطہ
ترمیمہاتھی مختلف طریقوں سے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہاتھی جب ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کے منہ، کنپٹیوں اور جنسی اعضا کو چھو کر خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس طرح انھیں مختلف کیمیائی علامات ملتی ہیں۔ بڑے ہاتھی چھوٹوں کو قابو میں رکھنے کے لیے سونڈ، لاتیں اور دھکے دیتے ہیں۔ ماں اور بچے کے درمیان لمس کی بہت اہمیت ہے۔ چلتے ہوئے ہاتھی بچوں کو سونڈ، پیروں اور دم سے چھوتے رہتے ہیں۔ بچہ جب آرام کرنا چاہے تو اپنی ماں کی اگلی ٹانگوں سے اپنا جسم رگڑتا ہے۔ جب دودھ پینا ہو تو ماں کی ٹانگ یا تھن کو چھوتا ہے۔
زیادہ تر بصری رد عمل دشمن صورت حال میں ہوتا ہے۔ سر بلند کر کے اور کان پھیلا کر ہاتھی زیادہ خطرناک دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنا سر گھمانے اور کان ہلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اپنے جسم پر مٹی اور گھاس وغیرہ بھی پھینکتے ہیں۔ یہ محض دکھاوا ہوتا ہے۔ جوش کی حالت میں ہاتھی اپنا سر اٹھانے، کان پھیلانے کے علاوہ سونڈ بھی لہراتے ہیں۔ کمزور ہاتھی اپنے سر اور سونڈ کو جھکانے کے علاوہ کانوں کو جسم کے ساتھ چپکا لیتے ہیں جبکہ لڑائی پر آمادہ ہاتھی کے کان الٹے 8 کی شکل میں ہوتے ہیں۔
ہاتھی کئی طرح کی آواز نکال سکتے ہیں جن میں سے کچھ آوازیں سونڈ سے نکلتی ہیں جو قریب اور دور تک پیغام پہنچانے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان میں چنگھاڑنا، زور سے آواز دینا، غرانا، دھاڑنا، بھونکنا، چھینکنا اور ہلکی گرج نما آوازیں شامل ہیں۔ ہاتھی انفراسانک آواز (ایسی آواز جو انسان کو سنائی نہیں دیتی) بھی نکال سکتے ہیں جن کا تعدد 14 سے 24 ہرٹز ہوتا ہے اور یہ آوازیں 10 سے 15 سیکنڈ تک جاری رہ سکتی ہیں۔ افریقی ہاتھی 15 سے 35 ہرٹز تک کی آواز نکال سکتے ہیں جو شاید دس کلومیٹر دور سے بھی دوسرے ہاتھی سن لیتے ہوں۔ ہاتھی زمین کے اندر آواز کی لہروں کی منتقلی سے بھی گفتگو کرتے ہیں۔ جب ہاتھی پیر زمین پر مارے یا حملے کی اداکاری کرے تو اس سے پیدا ہونے والی سائزمک لہریں 32 کلومیٹر دور تک جا سکتی ہیں۔ ہلکی گرج والی سائزمک لہریں 16 کلومیٹر دور تک جا سکتی ہیں۔
ذہانت اور شعور
ترمیمہاتھی ذہین ترین جانوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ آئینے میں اپنا عکس پہچان سکتے ہیں جو شعور کی علامت سمجھی جاتی ہے اور کئی اقسام کے بندروں اور ڈولفن میں بھی یہ علامت پائی گئی ہے۔ ایک ایشیائی ہتھنی پر کی گئی تحقیق کے مطابق وہ بصری اور کسی حد تک سمعی علامات کو بھی سمجھ لیتی تھی اور ایک سال بعد بھی جب سمعی علامات کو آزمایا گیا تو ہتھنی کو یاد تھیں۔ ہاتھی ایسے جانوروں میں شامل ہے جو اوزار استعمال کرنا جانتے ہیں۔ ایشیائی ہاتھی کو درخت کی ٹہنی کو اس طرح بناتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ اس سے مکھیاں مارنے میں اسے آسانی ہو۔ اوزار بنانے کی ہاتھی کی صلاحیت چمپانزی سے کمتر درجے کی ہے۔ عام خیال ہے کہ ہاتھی کی یاداشت بہت اچھی ہوتی ہے۔ ہاتھی بہت بڑے علاقے پر رہتے اور حرکت کرتے ہیں اور انھیں ان کے ذہنی نقشے بنانے کی عادت ہوتی ہے۔ اسی طرح کئی ہاتھیوں کو معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کہاں ہوں گے۔
سائنس دان اس بات پر متفق نہیں کہ ہاتھی جذبات رکھتے ہیں۔ زندہ ہاتھی مردہ ہاتھی کی ہدیاں دیکھیں تو ان کی طرف توجہ کرتے ہیں چاہے وہ ان کے رشتہ دار نہ بھی ہوں۔ چمپانزی اور ڈولفن کی طرح ہاتھی بھی اپنے زخمی یا مرتے ہوئے ساتھی کے لیے ہمدردی دکھاتے ہیں۔
تحفظ
ترمیمحالیہ صورت حال
ترمیمفطرت کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارے کی فہرست میں افریقی جھاڑیوں والا ہاتھی اور افریقی جنگلاتی ہاتھی 2021 میں انتہائی خطرے کا شکار قرار دیے گئے ہیں۔ 1979 میں افریقہ میں ہاتھیوں کی آبادی کا اندازہ تیرہ لاکھ سے تیس لاکھ کے درمیان تھا۔ دس سال بعد یہ تعداد 6،09،000 رہ گئی جن میں سے 2،77،000 ہاتھی وسطی افریقہ، 1،10،000 مشرقی افریقہ، 2،0،4،000 جنوبی افریقہ اور 19،000 مغربی افریقہ میں تھے۔ برساتی جنگلات میں ہاتھیوں کی تعداد توقع سے کہیں کم ہے جو 2،14،000 ہاتھی بنتی ہے۔ 1977 سے 1989 کے درمیان مشرقی افریقہ میں ہاتھیوں کی آبادی میں لگ بھگ 74 فیصد کمی ہوئی۔ 1987 کے بعد ہاتھیوں کی تعداد میں کمی کی رفتار تیز ہوئی ہے اور کیمرون سے صومالیہ تک سوانا کے جنگلی ہاتھیوں کی تعداد 80 فیصد کم ہوئی۔ افریقی جنگلاتی ہاتھی کی کل تعداد میں 43 فیصد کمی ہوئی۔ جنوبی افریقہ میں صورت حال غیریقینی ہے کہ زیمبیا، موزمبیق اور انگولا میں آبادی کم ہوئی تو بوٹسوانا اور زمبابوے میں یہ تعداد مستحکم ہے۔ 2016 میں افریقی ہاتھیوں کی کل تعداد کا اندازہ 4،15،000 تھا۔
افریقی ہاتھی جس ملک میں بھی ہوں، انھیں کسی نہ کسی قسم کا قانونی تحفظ ملا ہوتا ہے۔ ایک دہائی کے دوران ان کی بقا کے لیے کی گئی کامیاب کاوشوں سے ان کی تعداد کئی علاقوں میں بڑھی ہے تو کئی جگہ ان کی تعداد میں 70 فیصد تک کمی بھی دیکھی گئی ہے۔ 2008 میں ان کی تعداد کو قابو میں رکھنے کے لیے ان کو پھندوں میں پھانسنے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے طریقے اپنائے گئے۔ 1980 کی دہائی کے اواخر سے ان کے قتل عام پر پابندی ہے۔ 1989 میں بین الاقوامی معاہدے کے تحت ہاتھیوں کی ہر قسم کی تجارت پر پابندی ہے۔ 1997 میں بوٹسوانا، نمیبیا اور زمبابوے اور 2000 میں جنوبی افریقہ میں ہاتھیوں کی تجارت کی محدود اجازت دی گئی۔ کئی ممالک میں ہاتھیوں کے قانونی شکار یا ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت ہے مگر بوٹسوانا، کیمرون، گبون، موزمبیق، نمیبیا، جنوبی افریقہ، تنزانیہ، زیمبیا اور زمبابوے میں ٹرافی ہنٹنگ والے ہاتھی دانتوں کی برآمد پر کوٹہ مقرر ہے۔
2020 میں آئی یو سی این نے ایشیائی ہاتھی کی نسل کو معدومیت کے خطرے کا شکار قرار دیا ہے کہ "تین نسلوں کے دوران" ان کی تعداد میں نصف رہ گئی ہے۔کبھی ایشیائی ہاتھی مغرب سے مشرق اور جنوب میں سماٹرا اور جاوا تک ملتے تھے مگر اب زیادہ تر جگہیں خالی ہو چکی ہیں۔ جہاں ایشیائی ہاتھی پائے جاتے ہیں، وہاں بھی ان کی آبادی محض ٹکڑوں کی شکل میں موجود ہے۔ ایشیائی ہاتھی کی تعداد کا اندازہ ہے کہ 40،000 سے 50،000 ہاتھی رہ گئی ہے۔ 60 فیصد سے زیادہ ایشیائی ہاتھی بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ ایشیائی ہاتھیوں کی آبادی لگ بھگ ہر جگہ ہی کم ہو رہی ہے مگر سری لنکا میں ہاتھیوں کی تعداد بڑھی ہے جبکہ مغربی گھاٹ (بھارت) میں ان کی تعداد مستحکم ہے۔
خطرات
ترمیمہاتھی دانت کی خاطر ہاتھیوں کا ناجائز شکار ہوتا ہے اور اس کے گوشت اور کھال کی بھی کافی مانگ ہے۔ ماضی میں مختلف ثقافتوں میں ہاتھی دانت سے سجاوٹ اور دیگر نوعیت کی تیار ہوتی تھیں اور ان کی قدر سونے کے مساوی ہوتی تھی۔ 20ویں صدی کے اواخر تک افریقی ہاتھیوں کی تعداد میں ہونے والی کمی کی سب سے بڑی وجہ ہاتھی دانت کی تجارت تھی۔ امریکہ میں جون 1989 میں ہاتھی دانت سے بنی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی اور دیگر شمالی امریکی ممالک، مغربی یورپ اور جاپان نے بھی ایسی پابندیاں عائد کرنا شرعو کر دیں۔ اس دوران کینیا نے اپنے ہاں محفوظ تمام تر ہاتھی دانت ضائع کر دیے۔ بین الاقوامی طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر باندی 1990 میں عائد ہوئی۔ بھارت اور چین میں اس پابندی کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا کہ ان ممالک میں ہاتھی دانت سے بنائی جانے والی اشیا مقامی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ زمبابوے، بوٹسوانا، نمیبیا، زیمبیا اور ملاوی سے ایسے ہاتھی دانت کی برآمد کی اجازت رہی جو سرکاری اجازت سے مارے گئے ہوں یا فطری موت مرے ہوں۔
کچھ افریقی ممالک میں ہاتھیوں کی تعداد اس پابندی کی وجہ سے بہتر ہوئی۔ فروری 2012 میں چاڈ کے چور شکاریوں نے کیمرون کے بوبا نجیدا نیشنل پارک میں 650 ہاتھی مارے۔ ہاتھی دانت کی تجارت پر پابندی کے بعد یہ ہاتھیوں کا بدترین قتل عام تھا۔ ایشیائی ہاتھیوں کو ہاتھی دانت کی تجارت سے اتنا خطرہ نہیں کہ ایشیائی ہتھنیوں میں ہاتھی دانت نہیں پائے جاتے۔ چین نے اعلان کیا کہ مئی 2015 تک وہ مقامی طور پر ہاتھی دانت کی مقامی صنعت پر پابندی عائد کر دے گا اور ستمبر 2015 میں امریکا کے ساتھ مل کر چین نے اعلان کیا کہ وہ ہاتھی دانت کی درآمد اور برآمد پر لگ بھگ مکمل پابندی عائد کر دیں گے تاکہ ہاتھی کی بقا کو خطرے کو کم کیا جا سکے۔
ہاتھیوں کی بقا کو لاحق دیگر خطرات میں ان کے مسکن کی تباہی اور آبادی کا ٹکڑوں میں بٹ جانا ہے۔ ایشیائی ہاتھی جن علاقوں میں رہتے ہیں، وہاں انسانی آبادی انتہائی گنجان ہے اور انسان کی زراعت کی وجہ سے ہاتھی محض جنگلاتی ٹکڑوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ ہاتھی فصلوں کو کچلتے اور کھاتے ہیں جس کی وجہ سے انسانوں اور ہاتھیوں کی لڑائی شروع ہو تی ہے اور ان لڑائیوں میں سینکڑوں انسانی اور ہاتھیوں کی ہلاکتیں درج ہوئی ہیں۔ ان لڑائیوں کو کم کرنے کی خاطر مختلف تجاویز دی گئی ہیں جیسا کہ ہاتھیوں کی محفوظ گزرگاہیں بنانا وغیرہ۔ مختلف دفاعی حربوں کے ساتھ مرچوں کا سپرے کافی کارگر ثابت ہوا ہے جبکہ برقی جنگلے اور شہد کی مکھیاں بھی کسی حد تک کارگر رہتی ہیں۔
انسان سے تعلق
ترمیمکام کرنے والے ہاتھ
ترمیم4،000 سال قبل وادئ سندھ کی تہذیب سے ایشیائی ہاتھی کو کام کے لیے سدھایا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ حالیہ دور تک پھیلا ہے۔ 2000 میں ایشیا میں 13،000 سے 16،500 تک ایشیائی ہاتھی کام کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔ عموماً دس سے بیس سال عمر کے جنگلی ہاتھیوں کو پکڑ کر ان کو آسانی سے سدھایا جا سکتا ہے اور یہ ہاتھی زیادہ عرصہ کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ماضی میں انھیں پھندوں اور پنجروں سے پکڑا جاتا تھا مگر 1950 کی دہائی سے نشہ آور ادویات بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ ایشیائی ہاتھی نہ صرف انسانوں بلکہ سامان کی منتقلی کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں اور مذہبی تقریبات میں بھی ان کی شمولیت اہم ہوتی ہے۔ دشوار مقامات پر ہاتھی کی طاقت، یاداشت اور نفاست انھیں عام مشینوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہاتھی 30 سے زیادہ احکامات سیکھ سکتے ہیں۔ مست ہاتھیوں سے کام لینا مشکل ہوتا ہے اور اس کیفیت کے دوران انھیں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔
جنگیں
ترمیمماضی میں ہاتھی کو جنگوں میں بھی استعمال کیا جاتا تھا اور ہمیں 1500 ق م کی سنسکرت تحاریر میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں جنوب مشرقی ایشیا سے مغرب میں فارس تک ہاتھیوں کا جنگوں میں استعمال ہوتا آیا ہے۔
چڑیا گھر اور سرکس
ترمیمہاتھی دنیا بھر کے چڑیا گھروں اور سرکس کا نمایاں حصہ رہے ہیں۔ سرکس میں انھیں مختلف کرتب سکھائے جاتے ہیں۔ قید میں ہاتھی کی افزائش نسل کافی مشکل ہوتی ہے۔ سرکس میں ہاتھیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بہت تنازعات رہے ہیں۔ برنم اینڈ بیلی سرکس کے سربراہ نے تسلیم کیا کہ ہاتھیوں کی تربیت کے دوران ان کے کانو ں کے پیچھے، تھوڑی کے نیچے اور ٹانگوں پر دھاتی نوکدار چیزوں سے ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ ان آلات کو آنکس بھی کہتے ہیں۔ مئی 2016 میں اس سرکس نے ہاتھیوں کے کرتب بند کر دیے۔ چڑیا گھر میں دیگر جانوروں کی مانند ہاتھیوں کو رکھا جانا کئی حوالوں سے متنازع رہا ہے۔ یورپی چڑیاگھروں کے ہاتھیوں کے بارے ایک تحقیق کہتی ہے کہ ان کی عمر جنگلی ہاتھیوں کی نسبت 17 سال تک کم ہوتی ہے جبکہ دوسری تحقیق کے مطابق چڑیاگھر کے ہاتھی عام ہاتھی جتنا ہی جیتے ہیں۔
==حملے ==
ہاتھی انسان کے خلاف حملے کر کے تباہی پھیلا سکتا ہے۔ افریقہ میں دیکھا گیا ہے کہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ہونے والے قتل عام کے بعد نوعمر ہاتھیوں نے انسانی بستیوں میں جا کر تباہی پھیلائی تھی۔ اس وقت ان حملوں کو انتقام سمجھا گیا۔ بھارت میں نر ہاتھی کئی مرتبہ رات کو بستی میں آ کر گھروں کو تباہ کرتے اور انسانوں کو مارتے ہیں۔ 2000 سے 2004 کے دوران جھاڑکھنڈ میں 300 جبکہ 2000 سے 2006 کے دوران آسام میں 239 انسان ہاتھیوں کا نشانہ بنے۔ 2019 سے 2022 کے دوران 1،500 انسان ہاتھیوں نے ہلاک کیے اور اس وجہ سے 300 ہاتھیوں کو بھی شکار کیا گیا۔ کچھ مقامی کہتے ہیں کہ ان حملوں کے دوران ہاتھی نشے میں تھے مگر سرکاری حکام اس بات کو نہیں مانتے۔ دسمبر 2002 میں ہاتھیوں کے گروہ نے ایک بھارتی دیہات پر حملہ کر کے 6 افراد مار ڈالے اور مقامی آبادی نے پھر 200 ہاتھی انتقاماً مار دیے۔
ثقافتی اہمیت
ترمیمعالمی ثقافتوں میں ہاتھیوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔ حجری دور سے ہمیں ان کی تصاویر ملتی ہیں۔ افریقہ میں صحارا اور جنوبی افریقی علاقوں میں پتھر پر بنی تصاویر میں ہاتھی دکھائی دیتے ہیں۔ ہندو اور بدھ مت مندروں میں ہاتھیوں کی تصاویر عام ملتی ہیں۔ ہاتھی ایسا جانور ہے جس نے اسے نہ دیکھا ہو، وہ اس کی تصویر آسانی سے نہیں بنا سکتا۔ قدیم رومن ہاتھی پالتے تھے سو ان کی بنائی ہوئی تصاویر قرونِ وسطیٰ کے یورپیوں سے بہت بہتر ہیں کہ یورپیوں نے محض سنی سنائی اور تصوراتی طور پر ہاتھیوں کی تصاویر بنائیں جو حقیقت سے بہت فرق تھیں۔ 15ویں صدی میں جب یورپیوں نے مقید ہاتھی دیکھنے شروع کیے تو حقیقت سے قریب تر تصاویر بنانے لگے۔ لیونارڈو ڈا ونچی نے بھی ایسا ہی کیا۔
مذہبی اعتبار سے بھی ہاتھی کو اہمیت رہی ہے۔ وسطی افریقہ کے مبوتی قبائل مانتے ہیں کہ ان کے اجداد کی روحیں ہاتھیوں میں رہتی ہیں۔ کئی افریقی معاشروں میں مانا جاتا تھا کہ ان کے سردار مرنے کے بعد ہاتھی بن جائیں گے۔ 10ویں صدی میں موجودہ دور کے نائجیریا کے قبائلی اپنے سردار کو دفن کرتے ہوئے اس کے پیروں کے نیچے ہاتھی دانت رکھتے تھے۔
افریقہ میں ہاتھیوں کی اہمیت علامتی ہے جبکہ ایشیا میں انھیں مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ سماٹرا میں ہاتھی کو آسمانی بجلی سے جوڑا جاتا ہے۔ ہندو مت میں سب ہاتھیوں کے باپ کو آسمانی بجلی اور قوس قزح کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ بعض ہندو روایتوں میں ہاتھی کے سر والے دیوتا گنیش کو شیو، وشنو اور برہما کے مساوی مانا جاتا ہے۔ تاجر اور مصنفین مانتے ہیں کہ گنیش سے ان کی خواہشات پوری ہوتی ہیں اور وہ ان سے ان کی مادی خوشیاں چھین بھی سکتا ہے۔ بدھ مت میں مانا جاتا ہے کہ سفید ہاتھی انسانی شکل میں مہاتما بدھ بن کر پیدا ہوا۔
مغربی ثقافت میں ہاتھی، زرافہ اور دریائی گھوڑے کو کافی دلچسپ مانا جاتا ہے کہ ان سے مماثل جانور یورپ میں نہیں پائے جاتے۔ ہاتھیوں کو بچوں کی کہانیوں میں تصویری اور تحریری شکل میں پیش کیا جاتا رہا ہے جہاں ہاتھی کو مثالی انسانی خواص کا حامل دکھایا جاتا ہے۔
ہاتھی کی جسامت اور انفرادیت کی وجہ سے اس کا کئی طرح سے حوالہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر "سفید ہاتھی" بیکار اور ان چاہی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ "کمرے میں ہاتھی" کا مطلب ایسی چیز جسے ہر کوئی نظر انداز تو کر دے مگر اس پر آخر توجہ دینی ہی پڑے۔ اسی طرح اندھوں کا ہاتھی کو ٹٹول کر اس کی شکل جاننا بھی ایک کہاوت ہے۔
ایک نر ہاتھی کا وزن تقریباً 12،000 بارہ ہزار کلوگرام،[2] اگلے شانے کی اونچائی تقریباً 4.2 میٹر یا 13.8 فٹ، افریقی ہاتھی کے مقابلے میں ایک میٹر یا 3 سے 4 فٹ زیادہ لمبا،[3] ہوتا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "افریقی ہاتھی"۔ نیشنل جیوگرافک۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2008
- ↑ "افریقی ہاتھیوں کے بارے میں پوچھے گئے عمومی سوال"۔ جنوب افریقی قومی پارک۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2008
- ↑ "جنگلی حیات:ہاتھی"۔ سان ڈیاگوچڑیا گھر۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2008