سید علی شاہ

المعروف مولوی سید علی شاہ(ولادت 1870ء—وفات 1944ء) ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادنخان کے گاؤں پننوال کے ایک مبلغ تھے جنھوں نے انیسویں صدی عیسوی کے اواخ
(مولوی سید علی شاہ سے رجوع مکرر)

سید علی شاہ ،(English: Syed Ali Shah) المعروف مولوی سید علی شاہ(ولادت 1870ء—وفات 1944ء) ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادنخان کے گاؤں پننوال کے ایک مبلغ تھے جنھوں نے انیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے بیسویں صدی عیسوی کے وسط تک خطے میں اصولی تشیع کی ترویج کے لیے کام کیا۔ سید علی شاہ کے اجداد اگرچہ محبت اہل بیتؑ کی دولت سے مالا مال تھے تاہم فقہ حنفی کے پیروکار تھے اور بعض افراد قادری شطاری سلسلے میں بیعت تھے۔اگرچہ خطہ پنڈدادنخان میں تشیع کی باقاعدہ تاریخ مرتب نہیں کی گئی تاہم غیر مطبوعہ تاریخی حوالوں کے مطابق 1895ء تک ضلع جہلم کے افراد اصولی تشیع سے متعارف نہ تھے۔ پنڈدادنخان کی معروف شخصیت اور بانی پاکستان قائداعظم کے ساتھی راجہ غضنفر علی خان کے والد راجا سیف علی خان ایام عزا میں مجلس عزا کا اہتمام کرتے تھے تاہم یہ عزاداری رواجا تھی۔ اسی طرح روہتاس میں بھی اہل سنت تعزیہ داری کرتے تھے۔[1]مولوی سید علی شاہ نے پننوال سمیت متعدد دیہاتوں میں تبلیغ اور علمی مناظرے کیے جس کے سبب خطے کے بااثر افراد نے مکتب اہل بیت کو اختیار کرنا شروع کیا۔

سید علی شاہ
سید علی شاہ کا ایک نایاب عکس

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1870ء
تاریخ وفات 1944ء
والد سید زمان شاہ
عملی زندگی
وجہ شہرت تبلیغ دین

ابتدائی حالات اور خاندانی پس منظر

ترمیم

سید علی شاہ کا تعلق علاقے کے ایک متمول خانوادے سے تھا جو اپنی روحانیت اور معاشرتی مقام کے سبب علاقے بھر میں معروف تھا۔ اس خانوادے کے بزرگ سید قیام الدین اپنے بیٹے سید محمود شاہ اور پوتے عطاء اللہ شاہ کے ہمراہ ایران کے شمالی علاقے مازندران سے ہجرت کر کے برصغیر پاک و ہند تشریف لائے۔ اسی نسبت سے یہ خانوادہ مازندرانی کہلاتا ہے۔ قدیم دستاویزات اور علی پور سیداں کے لینڈ ریکارڈ میں بھی مازندرانی کی نسبت درج ہے۔ سید علی شاہ 1870 عیسوی میں سید زمان شاہ کے گھر متولد ہوئے۔[2] آپ کی والدہ کا تعلق علی پور سیداں سے تھا۔سید زمان شاہ علاقے بھر میں اپنے زہد و تقوی اور سیادت کے سبب احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ مولوی سید علی شاہ کے دادا سید مخدوم شاہ ایک روحانی شخصیت ہونے کے علاوہ خطے کے ایک متمول زمیندار بھی تھے جنہیں رنجیت سنگھ کے زمانے میں پننوال میں جاگیر عطا کی گئی۔ سید مخدوم شاہ ملتان میں راجا مولراج کے دربار میں ملازم تھے۔ رنجیت سنگھ کے ملتان پر قبضے کے بعد سید مخدوم شاہ اپنے علاقے میں واپس آگئے۔ سید مخدوم شاہ نے انگریزوں کے خلاف چیلیاں موجیاں کے محاذ پر 1849ء میں لڑی جانے والی جنگ میں حصہ لیا اور زخمی ہوئے انہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سید مخدوم شاہ کو شہادت نصیب ہوئی۔[3]سید مخدوم شاہ کے پڑدادا سید فیض اللہ شاہ پننوال میں اس خاندان کے موسس ہیں۔

شجرہ نسب

ترمیم

سید علی شاہ بن زمان شاہ بن مخدوم شاہ بن محمد شاہ بن قطب شاہ بن فیض اللہ شاہ بن شاکر شاہ بن جعفر شاہ بن یوسف شاہ بن عبد الملک شاہ بن نعمت اللہ شاہ بن سید عطا اللہ شاہ بن محمود شاہ بن قیام الدین بن محمد بن حمید بن قاسم بن سید علی بن نوح بن یونس بن اسحاق بن عالم بن جعفر بن ۔۔۔الی۔۔۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام [4]

فائل:Shajra Raje shah.jpg
قلمی شجرہ راجے شاہ پر موجود تکمیل کی تاریخ 1280 ہجری بمطابق 1863عیسوی نمایاں ہے
 
1154 ہجری کی اس دستاویز میں علی پور سادات گاؤں نیز سید زین العابدین کے قادری سلسلے ہونے کا قدیم ثبوت موجود ہے

اصولی تشیع کی جانب رجحان

ترمیم

سید علی شاہ بچپن میں ہی اپنے ننھیال یعنی علی پور سیداں چلے گئے جہاں انھوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول بھیرہ سے پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ ننھیال میں آپ کی دوستی سید بہادر شاہ اور گلاب شاہ (قلعے والے) سے ہوئی جو تشیع کی جانب مائل تھے، سید علی شاہ دوستوں کی باتوں سے متاثر ہوئے اور مکتب اہل بیت ؑ کی جانب مائل ہوئے۔ سید علی شاہ چونکہ خوش الحان تھے لہذا انھوں نے ذکر سید الشھداء کا آغاز کیا۔ ننھیال چونکہ حنفی المسلک تھے لہذا انھوں نے سید علی شاہ کو واپس گھر بھیج دیا۔ سید علی شاہ نے تبلیغ مکتب کا سلسلہ چوری چھپے جاری رکھا جس کی اطلاع علاقے کے اہل سنت علما نے سید زمان شاہ کو دی جس پر سید علی شاہ کو ڈانٹ ڈپٹ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک روحانی مکاشفہ کے سبب سید زمان شاہ نے سید علی شاہ کو عزاداری سید شہداء کے انعقاد کی نہ فقط اجازت دی بلکہ اپنی بیٹھک میں اس کا انعقاد کیا اور عوام کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔[2]

حصول علم دین کے لیے سفر

ترمیم

سید علی شاہ علاقے میں اہل سنت علما اور عوام کی جانب سے طرح طرح کے سوالات کے سبب حصول علم دین کی جانب متوجہ ہوئے۔ آپ نے ضلع گرداسپور کے موضع بٹالہ کے عالم دین سید زین العابدین بٹالوی(م 1324ھ)[5] کی درسگاہ کا رخ کیا۔ جہاں آپ نے صرف ، نحو ، منطق، تفسیر قرآن اور حدیث کے ساتھ ساتھ فن مناظرہ سیکھا۔ اسی طرح فن ذاکری کے لیے موضع چھینیاں تحصیل بھکر کے ذاکر سید علی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے۔[2][6] سید علی شاہ نے مولانا سید حشمت علی خیر اللہ پوری (م1935ء) سے فقہ میں دسترس حاصل کی۔[7] علامہ حشمت علی خیر اللہ پوری اجتہاد کے مرتبۂ پر فائز تھے آپ نے عراق میں محقق اردکانی، مرزا عبدالوھاب مازندرانی، محقق شھرستانی اور علامہ سید محمد حسین سے کسب فیض کیا۔[8] عبد المجید سالک نے علامہ اقبال کے تذکرہ "ذکراقبال" میں علامہ اقبال کے علامہ شیخ عبدالعلی ہروی کے بعد علامہ حشمت علی سے کچھ فلسفیانہ اور کلامی مسائل (زمان و مکان اور مسئلۂ امامت وغیرہ) میں استفادہ کرنے کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:

"فلسفے میں درخور وافی رکھتے تھے اور زمان و مکان پر ایک کتاب بھی لکھی تھی"۔[9]

علمی خدمات اور ورثہ

ترمیم

سید علی شاہ حصول علم کے بعد خطے میں واپس آئے اور اپنی ہی بیٹھک میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا، اسی طرح علاقے بھر میں اپنے خاندانی اثر و رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے تبلیغ مکتب اہل بیت کا آغاز کیا۔ آپ کی تبلیغ کے سبب ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادنخان کے دیہاتوں منجملہ پننوال، کوٹلی پیراں، سیداں والا، سگھر پور، عبد اللہ پور، ڈھوک سندران ، باغانوالہ، روال، ساووال، ڈھڈی پھپرہ، ہرن پور، کریالہ ، چک مجاہد، آڑہ، لہڑی پنجگرائیں، چک دانیال، چک جانی، چک شادی، مکھیالہ، گوڑھا میں با اثر شخصیات نے مکتب تشیع اختیار کیا۔سید علی شاہ کی جانب سے خطے میں لگایا گیا تشیع کا پودا اب ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔سید علی شاہ نے اپنی بیٹھک میں درس قرآن کا جو سلسلہ شروع کیا اس میں موضع پننوال اور قرب و جوار کے دیہاتوں سے بچوں جوانوں اور ادھیڑ عمر طلبہ کی ایک کثیر تعداد شرکت کرتی تھی۔ خواتین کے لیے درس قرآن کا سلسلہ سید علی شاہ کے گھر میں شروع ہوا جو بعد میں ان کے خاندان کی خواتین نے جاری و ساری رکھا۔ اس سلسلے سے سینکڑوں خواتین و حضرات فیض یاب ہوئے۔اب بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔

سید علی شاہ مجالس عزا بغیر کسی حق زحمت کے پڑھا کرتے تھے بلکہ روایت کے مطابق سید علی شاہ نیاز کا انتظام خود کرکے جایا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کے ہمراہ دور دراز کے علاقوں میں پیدل سفر کرکے جاتے اور مجلس سید الشہداء کا اہتمام کرتے۔ سید علی شاہ کا اپنے وقت کے علما سے بھی رابطہ تھا ان کے لاہور میں مقیم مرجع سید ابو القاسم رضوی لاہوری کو لکھے گئے خطوط آج بھی ان کے خانوادے کے پاس محفوظ ہیں۔ اسی طرح آپ نے ایک کتاب خانہ بھی تشکیل دیا جس میں دستیاب کتب کو جمع کیا گیا تاہم سید علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کا یہ علمی خزانہ محفوظ نہ رہ سکا اور چند کتابیں ہی دستیاب ہو سکیں۔ ان کتب میں کتب تاریخ ، تفاسیر، کتب مناظرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سید علی شاہ کی اپنی تصانیف اور اثرات محفوظ نہیں کیے جاسکے یا تاحال سامنے نہیں آئے۔ آپ کا ایک اور علمی ورثہ ان کے باعمل شاگرد تھے جو علاقے بھر میں اپنی قرآن کریم سے محبت، دین اہل بیتؑ سے اخلاص اور احترام سادات کے لیے معروف تھے۔

مولوی سید علی شاہ کی تبلیغ نیز اپنی تحقیق سے ساووال کے عالم دین خدا بخش چوہان نے مذہب اہلبیت قبول کیا اور انہی کے کہنے پر اپنے فرزند مولانا محمد شریف کو علم دین کے حصول کے لیے خوشاب بعدہ مدرسۃ الواعظین لکھنو بھیجا جہاں مولانا محمد شریف نے صدر الافاضل کی سند حاصل کی۔[10][11]مولانا محمد شریف سید مرتضی صدر الافاضل کے ہم جماعت تھے۔[11] علاقے میں عزاداری سید الشہداء کے حوالے سے ہونے والے مختلف پروگرام بھی سید علی شاہ کی کوششوں کے ہی مرہون منت ہیں۔ مولوی سید علی شاہ کی علمی و تبلیغی خدمات پر مزید تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے۔

اساتذہ اورہم عصر علما و مبلغین

ترمیم

اساتذہ

ترمیم

ہم عصر علمائے کرام و مبلغین

ترمیم

اگرچہ مولوی سید علی شاہ کے زمانے میں کئی ایک نامی گرامی علما موجود تھے تاہم تشیع کے فروغ میں خطہ جہلم کی درج ذیل شخصیات کا کردار اہم ہے۔

دیگر ہم عصر علما

ترمیم

برصغیر میں اگرچہ ہر دور میں علما اور صاحبان فضل پیدا ہوتے رہے ذیل میں ہم مولوی سید علی شاہ کے زمانے کے چند ایک اہم علما کا تذکرہ کرتے ہیں جن کے حالات زندگی درج کیا جانا نہایت اہم ہے۔ اس فہرست میں اہلسنت اور شیعہ علما دونوں شامل ہیں۔ان علما کی ولادت اور وفات کا زمانہ مولوی سید علی شاہ کا ہی زمانہ ہے۔ان علما کی تفصیل کتاب تذکرہ علمائے امامیہ اور دیگر منابع میں موجود ہے۔

رحلت

ترمیم

سید علی شاہ کا انتقال اپریل 1944 عیسوی میں ہوا اور آپ اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔[2]

خانوادہ

ترمیم

سید علی شاہ کی شادی چک سیدہ بالا کے سید بہادر شاہ کی دختر حاجاں بی بی سے ہوئی جو انتہائی نیک اور شب زندہ دار خاتون تھیں۔ آپ کی سادہ زیستی ،ایثار اور عبادت گزاری کی مثالیں معروف ہیں۔سید علی شاہ کی تبلیغی سرگرمیوں میں بے بے( وہ نام جس سے سید علی شاہ کے شاگرد اس خاتون کو بلاتے تھے)کا کردار فراموش کرنا ممکن نہیں۔ برے معاشی حالات میں بھی اس خاتون نے صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا بلکہ اس صورت میں بھی راہ خدا میں خرچ کرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ اس خاتون سے دو فرزند سید تصدق حسین اور سید عباس علی شاہ نیز دو دختران متولد ہوئیں۔ یہ دونوں فرزند صاحب بیاض شعرا تھے تاہم ان کا کلام تاحال شائع نہیں ہوا۔ سید تصدق حسین ضلع جہلم کے پہلے رجسٹرڈ حکیم تھے۔ اسی طرح عباس علی شاہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ مولوی سید علی شاہ کے پوتوں اور نواسوں میں بھی کئی اہل علم و فضل گذرے۔سید علی شاہ کے نواسے سید نجم الحسن ’’اقبال آل محمدؐکے دربار میں‘‘ تالیف کی۔ اسی طرح کتاب انوار المجالس کا ترجمہ کیا۔ دوسرے نواسے سید محمد حسنین نے آیت اللہ سید محسن الحکیم کے درس خارج میں کچھ عرصہ گزارا۔ مولوی سید علی شاہ کے پوتے سید مظہر الحسن جو علم جفر کے ماہر تھے نے طب، جفر اور منقبت و سلام کے حوالے سے کتب تحریر کیں۔ اب بھی اس خانوادے میں علم و عمل کا قافلہ رواں دواں ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. عاشق حسین۔ قلمی نسخہ گلدستہ تقویہ۔ صفحہ: 47 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث عاشق حسین۔ قلمی نسخہ گلدستہ تقویہ۔ صفحہ: 58–59 
  3. عاشق حسین۔ خطی نسخہ گلدستہ تقویہ۔ صفحہ: 55 
  4. راجے شاہ (۱۲۸۰ھجری)۔ شجرہ مازندرانیان خطی 
  5. ^ ا ب پ ت حسین عارف نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد۔ صفحہ: ۱۲۳ 
  6. حسین عارف نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد۔ صفحہ: ۱۲۳ 
  7. حسین عارف نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد۔ صفحہ: 123–124 
  8. عارف حسین نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان۔ صفحہ: ۹۰ 
  9. عبد المجید سالک (۲۰۱۸ء)۔ ذکر اقبال۔ جہلم ، پاکستان: جہلم بک کارنر۔ صفحہ: ۱۱۴ 
  10. مرتضی حسین فاضل۔ مطلع الانوار۔ صفحہ: ۴۴۶ 
  11. ^ ا ب عارف حسین نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان۔ صفحہ: ۳۴۲ 
  12. عارف حسین نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان۔ صفحہ: ۲۳۳