خواجہ نور محمد مہاروی (پیدائش: 2 اپریل 1730، وفات: 3 اگست 1791) سلسلہ چشتیہ کے ایک صوفی بزرگ تھے جو چشتیاں، پنجاب، مغلیہ سلطنت (اب پاکستان) میں سرگرم تھے۔

نور محمد مہاروی
معلومات شخصیت
پیدائش 1730
چشتیاں، بہاولنگر، پنجاب، مغل سلطنت
تاریخ وفات سنہ 1791ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت صوفی

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

مہاروی مغل سلطنت میں چشتیاں کے قریب چوٹالہ گاؤں میں 1730 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کھرل پنوار راجپوت قبیلے سے تھا۔[1][2] انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز 4 سال کی عمر میں چشتیاں کے قریب واقع مسعود مہر کی نگرانی میں چھوٹے سے گاؤں مہارشریف میں کیا۔ اس کے بعد موضع ببلانہ کے شیخ احمد کھوکھر ابتدائی درسیات پڑھیں۔ بعد ازاں انہوں نے ڈیرہ غازی خان، لاہور، دہلی اور پاکپتن میں تعلیم حاصل کی۔[3]

نور محمد نے فروری 1752ء کو مولانا فخرالدین سے بیعت کی جس کی وجہ سے وہ چشتی سلسلہ کی "فخری شاخ" کا رکن بنے۔[4] اسی سال وہ مولانا فخرالدین کے ساتھ پاکپتن پہنچے جہاں ان کی تعلیم کا اختتام ہوا۔ فخرالدین نے پھر مہاروی کو مہار شریف واپس آنے اور عوام کو تبلیغ کرنے کی ہدایت کی۔[5]

مہاروی کو ابتدا میں "بُھبَل" کا نام دیا گیا تھا لیکن بعد میں ان کے استاد مولانا فخر الدین نے اسے "نور محمد" میں تبدیل کر دیا۔[6]

تعلیمات

ترمیم

مہاروی بہاولپور کے علاقے میں، خاص طور پر بہاولپور کے حکمران بہاول خان عباسی دوم کے ان سے وابستہ ہونے کے بعد بہت مشہور ہوئے ۔ مشہور صوفی شاعر خواجہ غلام فرید نے بھی نور محمد کو اپنا روحانی رہنما مانتے ہوئے ان کی دوستی کے بارے میں ایک نظم لکھی۔

مہاروی کی تعلیمات نے پنجاب اور سندھ میں بہت سے مقامی قبائل کے اسلام قبول کرنے پر اثر ڈالا۔

مہاروی کے 40 سے زیادہ شاگرد تھے جن میں سلیمان تونسوی بھی شامل تھے۔

خاندان

ترمیم

نور محمد مہاروی  کے والد کا نام ہندال تھا۔[7] ان کا شجرہ نسب اس طرح ہے؛ نور محمد ( بھُبَل) بن ہندال بن تاتار بن فتح محمد۔[8] ان کی والدہ کا نام عاقل خاتون تھا۔[9]

مہاروی کے تین بیٹے (نور الصمد، نور احمد اور نور حسن) اور دو بیٹیاں تھیں۔[10]

روحانی تربیت

ترمیم

روحانی فیض پانے کے لیے ڈیرہ غازی خاں لاہور اور پھر دہلی تشریف لے گئے اور یہاں پر فخر الدین دہلوی کے مرید ہوئے جو نظام الدین اولیا ؒاور بابا فرید شکر گنجؒ پاکپتن والوں کے مرید تھے۔ اس وجہ سے آپ پاکپتن شریف سے بے حد عقیدت رکھتے تھے اور اس طرح آپ کا سلسلہ معین الدین چشتی اجمیریؒ سے جا ملتا ہے۔ آپ اکثر جمعة المبارک کے لیے پاکپتن تشریف لے جاتے۔ طبیعت کی ناسازی اور ضعف العمری کی وجہ سے آپ کو شکر گنجؒ کی طرف سے بشارت ہوئی کہ پرانی چشتیاں میں میرے پوتے بابا تاج سرور مدفون ہیں وہاں پر جمعة المبارک کی ادائیگی کیا کرو۔ بعد ازاں آپ نے اس درگاہ مبارکہ پر باقاعدہ حاضری دینا شروع کی اور باقی زندگی یہیں گزار دی۔ سلیمان تونسوی علوم باطنی کے لیے نور محمد مہاروی چشتیاں کے دست مبارک پر بیعت کی)۔ ہندوستان، پاکستان اور میں سینکڑوں مشائخ آپ کو اپنا روحانی مورث تسلیم کرتے ہیں۔

وصال

ترمیم

روحانی پیشوا نور محمد مہاروی کا وصال3 ذی الحج 1205ھ میں ہوا جن کا مزار چشتیاں شریف میں ہے۔[11][12]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ہوریس آرتھر روز (1911)۔ آ گلاسری آف ٹرائبز اینڈ کاسٹس آف پنجاب اینڈ نارتھ-ویسٹ فرنٹیئر پراونس، والیم 2۔ لاہور: سول اینڈ ملٹری گزٹ پریس۔ صفحہ: 173 
  2. ہوریس آرتھر روز (1919)۔ آ گلاسری آف ٹرائبز اینڈ کاسٹس آف پنجاب اینڈ نارتھ-ویسٹ فرنٹیئر پراونس والیم 1۔ پنجاب: سپرنٹنڈنٹ گورنمنٹ پرنٹنگ۔ صفحہ: 536 
  3. اختر راہی (۱۹۷۰)۔ تذکرہ علمائے پنجاب، جلد دوم۔ لاہور: مقبول الرحمان، مکتبہ رحمانیہ۔ صفحہ: ۸۰۳ 
  4. اختر راہی (۱۹۷۰)۔ تذکرہ علمائے پنجاب، جلد دوم۔ لاہور: مکتبہ رحمانیہ۔ صفحہ: ۸۰۴ 
  5. اختر راہی (۱۹۷۰)۔ تذکرہ علمائے پنجاب، جلد دوم۔ لاہور: مکتبہ رحمانیہ۔ صفحہ: ۸۰۴ 
  6. مفتی محمد اقبال کھرل (2008)۔ خواجہ نور محمد مہاروی؛ حالات و واقعات۔ لاہور: اکبر بک سیلر۔ صفحہ: 25 
  7. مفتی محمد اقبال کھرل (2008)۔ خواجہ نور محمد مہاروی؛ حالات و واقعات۔ لاہور: اکبر بک سیلر۔ صفحہ: 25 
  8. اختر راہی (۱۹۷۰)۔ تذکرہ علمائے پنجاب، جلد دوم۔ لاہور: مقبول الرحمان، مکتبہ رحمانیہ۔ صفحہ: ۸۰۳ 
  9. مفتی محمد اقبال کھرل (2008)۔ خواجہ نور محمد مہاروی؛ حالات و واقعات۔ لاہور: اکبر بک سیلر۔ صفحہ: 25 
  10. اختر راہی (1970)۔ تذکرہ علمائے پنجاب، جلد دوم۔ لاہور: مکتبہ رحمانیہ۔ صفحہ: 805 
  11. تذکرہ اولیاء پاکستان جلد اول عالم فقری صفحہ 306تا 321 شبیر برادرزلاہور
  12. گلشن ابرار مصنف خواجہ امام بخش مہاروی علیہ رحمہ
  1. https://sialsharif.org/golden-chain.html