چناب نگر

پنجاب، پاکستان کے ضلع چنیوٹ میں ایک شہر

چناب نگر (ربوہ) پاکستان کا ایک شہر ہے، جو ضلع چنیوٹ، صوبہ پنجاب میں چنیوٹ سے قریباً 8 کلومیٹر دور دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ جماعت احمديہ کے دوسرے خلیفہ المسیح، مرزا بشیر الدین محمود احمد، نے 1947ء میں ہندوستان سے نقل مکانی کے بعد 1948ء میں اس شہر کی بنیاد رکھی۔ لفظ ربوہ عربی زبان سے لیا گیا ہے، جس کے معانی اونچی جگہ کے ہیں۔ قریبا 95،000 آبادی والے شہر کی آبادی کا 95 فی صد حصہ جماعت احمديہ کے پیروکاروں سے تعلق رکھتا ہے۔[3] شہر کا رقبہ تقریباً 24 مربع کیلومیٹر ہے۔ ربوہ کے قرب و نواح میں چینوٹ، لالیاں اور احمد نگر واقع ہیں۔

شہر
چناب نگر
ملک پاکستان
صوبہپنجاب
ضلعضلع چنیوٹ
قیام20 ستمبر 1948[1]
قائم ازمرزا بشیر الدین محمود[حوالہ درکار]
رقبہ
 • کل24 کلومیٹر2 (9 میل مربع)
بلندی300 میل (1,000 فٹ)
آبادی (2003[2])
 • کل95،000
 • کثافت2,300/کلومیٹر2 (6,000/میل مربع)
منطقۂ وقتپاکستان معیاری وقت (UTC+5)
 • گرما (گرمائی وقت)پاکستان معیاری وقت (UTC+6)
رمزِ ڈاک35460
ٹیلی فون کوڈ047

تاریخ

کہا جاتا ہے کہ ربوہ وہ جگہ ہے جہاں محمد بن قاسم نے سندھ اور ملتان فتح کرنے کے بعد دریائے چناب کو عبور کر کے چندروٹ کے راجا کے خلاف جنگ کی تھی۔ چندروٹ موجودہ چنیوٹ کا قدیمی نام ہے۔ اس جنگ میں ایک سو کے قریب عرب فوجی مارے گئے۔ چنیوٹ میں شہداء کا قبرستان کے نام سے آج تک ایک قبرستان موجود ہے۔

موجودہ شہر ربوہ کی آبادی سے پہلے یہ جگہ چک ڈھگیاں کہلاتی تھی اور اسے آباد کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو چکی تھیں۔ 1948ء میں جماعت احمديہ کے مرکز کی قادیان، ہندوستان سے نقل مکانی کے بعد اس جگہ 1034 ایکڑ اراضی حکومت پاکستان سے بارہ ہزار روپے کے عوض مستعار لی گئی۔[4] یہ معاہدہ 11 جون 1948ء کو طے پایا۔[5] شہر کا نام ربوہ رکھا گیا کیونکہ قرآن میں اس جگہ کے لیے ربوہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جہاں حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ رہتے تھے۔[6]

ربوہ کی باقاعدہ بنیاد 20 ستمبر 1948ء کو رکھی گئی۔ اس موقع پر پانچ بکروں کی قربانی کی گئی۔ چاروں کونوں پر ایک ایک اور پانچواں شہر علاقہ کے وسط میں۔ اس موقع پر 619 افراد موجود تھے۔[7] وہ جگہ جہاں مرزا بشیر الدین محمود احمد نے پہلی نماز پڑھائی مسجد یادگار کے نام سے محفوظ ہے۔

 
مسجد یادگار جہاں خلیفہ المسیح الثانی نے ربوہ کی زمین پر پہلی نماز پڑھائی

آغاز میں ربوہ کی آبادی خیمہ جات میں شروع کی گئی۔ رفتہ رفتہ ان کی جگہ کچی عمارتوں اور پھر پکی عمارتوں کا قیام عمل میں آیا۔ مرزا بشیر الدین محمد احمد جو اس وقت تک لاہور میں قیام پزیر تھے 19 ستمبر 1949ء میں ربوہ منتقل ہو گئے۔ اس وقت ربوہ کی آبادی قریبا ایک ہزار تھی۔ اسی سال 15 تا 17 اپریل 1949ء ربوہ میں جماعت احمديہ کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں قریبا 17000 افراد شامل ہوئے۔

نام کی تبدیلی

17 نومبر 1998ء کو پنجاب اسمبلی نے یہ تجویز اپنائی کہ ربوہ کا نام تبدیل کر دیا جائے۔ اس پر اسی سال 12 دسمبر کو حکومت پنجاب نے ایک انتظامی فیصلہ کے ذریعہ شہر کا نام نواں قادیان رکھ دیا۔ پھر 14 فروری 1999ء کو دوبارہ انتظامی فیصلہ کے ذریعہ یہ نام بدل کر چناب نگر کر دیا گیا۔ نام کی تبدیلی کے لیے مقامی آبادی یا انتظامیہ سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

جغرافیہ

ربوہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مرکزی حصہ میں دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ اس کے مشرق میں چنیوٹ، شمال مغرب میں قریبا 48 کیلومیٹر پر سرگودھا، جنوب مشرق میں قریبا 46 کیلومیٹر پر فیصل آباد مشہور شہر ہیں۔

شہر ارد گرد کے علاقہ کی نسبت کچھ بلند واقع ہوا ہے اور اسی لیے اس کا نام ربوہ رکھا گیا تھا جس کے معنی اونچی جگہ کے ہیں۔ اس بنا پر شہر عام طور پر دریائے چناب کے سیلاب سے محفوظ رہتا ہے۔ ربوہ کے قریب چھوٹی پہاڑیاں ہیں جو سلسلہ کوہ کرانہ کا حصہ ہیں۔ یہ سلسلہ کوہ سرگودھا سے جھنگ تک ممتد ہے۔

ربوہ کا بنجر علاقہ مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں اب ایک سرسبز و شاداب شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

موسم

آب ہوا معلومات برائے ربوہ
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
اوسط بلند °س (°ف) 19
(66)
22
(72)
27
(81)
33
(91)
39
(102)
39
(102)
35
(95)
35
(95)
34
(93)
32
(90)
27
(81)
21
(70)
0
(32)
اوسط کم °س (°ف) 8
(46)
11
(52)
16
(61)
20
(68)
25
(77)
28
(82)
27
(81)
27
(81)
25
(77)
20
(68)
14
(57)
9
(48)
0
(32)
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) 18
(0.71)
35
(1.38)
24
(0.94)
13
(0.51)
17
(0.67)
48
(1.89)
82
(3.23)
87
(3.43)
43
(1.69)
9
(0.35)
11
(0.43)
12
(0.47)
0
(0)
ماخذ: [8]

ربوہ کا موسم خشک گرم ہے۔ اپریل سے اکتوبر تک گرمی پڑتی ہے جس میں مئی گرم ترین مہینہ ہے۔ درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ موسم گرما ہی میں آندھی بھی آتی ہے اور مون سون بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ چنانچہ جون اور جولائی میں بارش کی مقدار 80 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔ نومبر سے فروری تک موسم سرما رہتا ہے۔ جنوری میں درجہ حرارت نکتہ انجماد تک گر جاتا ہے۔ موسم سرما میں دھند ہوتی ہے جس سے حد نگاہ خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔

محلے

ربوہ کے قدیمی محلے یہ ہیں:

  1. دارالصدر
  2. دارالرحمت
  3. دارالبرکات
  4. دار العلوم
  5. دار النصر
  6. دار الشکر
  7. دار الیمن
  8. باب الابواب

شہر کے پھیلاو کے ساتھ ساتھ ان محلوں میں اضافہ ہوا ہے اور نئے محلہ جات بنائے گئے ہیں۔

  1. بیوت الحمد
  2. نصیر آباد
  3. فیکٹری ایریا
  4. دارالفتوح
  5. طاہر آباد
  6. ناصر آباد
  7. رحمان کالونی

یہ محلہ جات صرف اتنے ہی نہ ہیں بلکہ ان میں سے آگے بھی ہر محلہ کے کئیی کئیی محلہ جات بن چکے ہیں۔

ذرائع آمد و رفت

ربوہ میں سفر کے لیے سائیکل سواری عام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل اور رکشا بھی استعمال ہوتا ہے۔ شہر سے پاکستان بھر میں سفر کے لیے سہولت موجودہے۔ اوردن میں کئیی گاڑیاں سفرکے لیے موجودرہتی ہیں۔ ہوائی سفر کے لیے سرگودھا اور فیصل آباد میں ہوائی اڈے موجود ہیں جبکہ اکثر بین الاقوامی سفروں کے لیے لاہور کا ہوئی اڈا ستعمال ہوتا ہے۔

ربوہ احمد نگر سے کالووال سڑک پر موجود مخدوم انٹرچینج کے ذریعہ قریبا 35کیلومیٹر پر قومی شاہراہ M2 سے منسلک ہے۔ اسی طرح چنیوٹ سے پنڈی بھٹیاں سڑک کے ذریعہ قریبا 43 کیلومیٹر پر M2 سے بھی منسلک ہے۔

مساجد

شہر کی اہم مساجد میں مسجد اقصیٰ شامل ہے جہاں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ اسی طرح مسجد یادگار تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ مسجد اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں بانی ربوہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ربوہ کی سرزمین پر پہلی نماز پڑھائی تھی۔ مسجد مبارک میں احمدی خلفاء 1984 میں خلافت کے لندن منتقل ہونے تک پنجگانہ نمازیں پڑھاتے رہے ہیں۔

 
مسجد اقصیٰ کا ایک منظر

ہسپتال

شہر کا بڑا ہسپتال فضل عمر ہسپتال ربوہ ہے جو شہر کے علاوہ گرد و نواح کے لوگوں کی خدمت کے فرائض بھی سر انجام دیتا ہے۔ 150 بستروں کا یہ ہسپتال اپنی عمارت، بہترین اور جدید ترین سہولیات اور ماہر عملہ کی بدولت مشہور ہے۔ فضل عمر ہسپتال کا بیگم زبیدہ بانی ونگ خواتین کی امراض اور صحت کے لیے مخصوص ہے۔ اسی طرح ہسپتال کا طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ پاکستان میں دل کے امراض کے بہترین اداروں میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔

 
فضل عمر ہسپتال
 
امراض دل کے علاج کے لیے مشہور طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ

طاہر ہومیوپیتھک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علاج بالمثل کے طریق پر بیماریوں کا علاج کرنے کا کام کرتا ہے۔ اور یہاں پر دنیا بھر سے ہر طبقہ فکر کے لوگ علاج اور دوا کے حصول کے لیے آتے ہیں۔ ان تمام مریضان کو مکمل طور پر مفت علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اور بذریعہ فون بھی دوائی منگوائی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ شہر میں متعدد نجی کلینک بھی کام کر رہے ہیں۔

تعلیمی ادارے

ربوہ کے تعلیمی اداروں میں مردوں کے لیے گورنمنٹ تعلیم الاسلام کالج مشہور ہے جو جماعت احمديہ نے جاری کیا تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قومیا لیا گیا۔ اسی طرح خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جاری کردہ جامعہ نصرت کالج بھی قومیا لیا گیا۔ ان کالجوں کے قومیائے جانے کے بعد جماعت احمديہ نے نصرت جہاں اکیڈمی اورکئیی دیگر ادارہ جات قائم ہیں۔

لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کالج از سر نو جاری کر رکھے ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد نجی اسکول اور ہائی اسکول بھی موجود ہیں۔

 
جامعہ احمدیہ ربوہ

مدرستہ الحفظ کے نام سے لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم حفظ کروانے کے لیے دو ادارہ جات بھی کام کر رہے ہیں۔

بہشتی مقبرہ

ربوہ کے مشہور مقامات میں بہشتی مقبرہ نامی قبرستان بھی شامل ہے۔ اس قبرستان میں موصی حضرات کو دفن کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح کی دو مشہور شخصیات ڈاکٹر عبدالسلام جو واحد پاکستانی نوبل انعام یافتہ سائنس دان ہیں اور چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان، پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پہلے مستقل مندوب، یہاں مدفون ہیں۔ اسی طرح جماعت احمديہ کے بانی مرزا غلام احمد کی اہلیہ نصرت جہاں بیگم اور ان کی اولاد اور بہت سے ساتھی بھی یہاں دفن ہیں۔

بازار

ربوہ کے دو اہم بازار یہ ہیں۔

  • گول بازار
  • رحمت بازار

اہم سڑکیں

  • اقصٰی روڑ
  • ساہیوال روڈ
  • کالج روڈ
  • ریلوے روڈ
  • راجیکی روڈ
  • شاہراہ صدر

حوالہ جات

  1. Tareekh e Ahmadiyyat, Volume 11, Page 429,430
  2. Pakistan Population Census Organization آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ statpak.gov.pk (Error: unknown archive URL) (1998)
  3. Simon Ross Valentine: Islam and the Ahmadiyya Jama’at: History, Belief, Practice, Columbia University Press, New York 2008, Page 85
  4. تاریخ احمدیت، جلد 11، صفحہ 410
  5. مرزا سلطان احمد، سلسلہ احمدیہ، جلد 2، صفحہ 236
  6. سورۃ المومنون آیت 50۔51
  7. مرزا سلطان احمد، سلسلہ احمدیہ، جلد 2 صفحہ 242
  8. "Climate chart of Chiniot"۔ My Weather۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2011