کل ہند خواتین کانفرنس
کل ہند خواتین کانفرنس (انگریزی: All India Women's Conference) دہلی میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ مارگریٹ کزنز نے اس تنظیم کو 1927ء میں خواتین اور بچوں کی تعلییمی اصلاح کے لیے قائم کیا تھا۔ بعد میں خواتین کے مسائل پر بھی توجہ دی گئی اور تعلیم کے ساتھ خواتین کے سماجی مسائل بھی اس تنظیم کے منصوبوں میں شامل ہو گیا۔ یہ تنظیم بھارت میں خواتین کی قدیم ترین تنظیموں میں سے ایک ہے اور اس کی شاخیں ملک بھر میں موجود ہیں۔
تاریخ
ترمیمکل ہند خواتین کانفرنس (AIWC) 1927ء میں پونے میں قائم کی گئی اور اس کا مقصد خواتین اور بچوں کی تعلیمی اور سماجی اصلاحات کے جدوجہد کرنا تھا۔[1][2][3] مارگریٹ کزنز جو اس تنظیم کی بانی ہیں، 1925ء سے ہی اس تنظیم کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ دیگر خواتین اور دوستوں اور خواتین کی تنظیموں اور گروہوں کو اس سلسلہ میں خطوط لکھا کرتی تھیں اور انھیں خواتین کے تعلیمی مسائل پے گفتگو کرنے کے لیے مدعو کیا کرتی تھیں۔ [4] اس سلسلہ کا پہلا اجلاس پونے کے ساوتری بائی پھلے پونہ یونیورسٹی کے فرگوسن کالج ہال میں منعقد ہوا جس میں کم و بیش 2000 شرکا تھے۔[4] مشارکین میں زیادہ مشاہدین کی تھی مگر کچھ خواتین ایسی بھی تھیں جنہیں مارگریٹ نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا اور وہی تنظیم کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوئیں۔[5] ان میں ایک نام ]]امرت کور]] کا تھا جو تنظیم کی بنیاد گزاروں میں سے ہیں۔[6] تنظیم کی اولین سکریٹریوں میں کملا دیوی چٹوپادھیائے کا نام آتا ہے۔[7] 1928ء میں تنظیم نے لیڈی اروین کالج آف ڈومیسٹک سائنس کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔[4] اسی سال تنظیم نے محسوس کیا کہ فرسودہ اور دقیانوسی روایات کو ختم کیے بغیر خواتین کی تعلیم کی اصلاح کرنا مشکل ہے۔[8] انھوں نے بچوں کی شادی کے بل کی رپورٹ پر نظر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور کم سنی کی شادی کو روکنے کے لیے سیاسی چارہ جوئی بھی شروع کردی۔[9]
ان سب کے علاوہ طلاق، وراثت اور رائے دہندگی پر بھی انھوں نے خوب کام کیا۔[10] تنظیم نے 1941ء میں روشنی مجلہ نکالنا شروع کیاجو ہندی زبان اور انگریزی زبان میں شائع ہوتا تھا۔[11][12] انھوں نے بھارتی پارلیمان میں خواتین کو رائے دہندگی کے حق کے لیے لابی کرنا شروع کی۔[13][14] دیہی علاقوں میں طبی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے 1946ء میں اسکیپو کمیٹی بنائی گئی۔[11] تحریک آزادی ہند کے موقع کئی اہم ارکان نے قومی نظریہ کو اپناتے ہوئے تحریک میں شرکت کی اور تنظیم کو الوداع کہ دیا۔[4] 1948ء میں تنظیم نے ان تمام ارکان کو برخواست کر دیا جن کا کسی نا کسی طرح اشتمالیت سے کوئی تعلق تھا۔[15]
سرگرمیاں اور انعقادات
ترمیمتنظیم کا بنیادی مقصد تعلیم نسواں کو فروغ دینا تھا اور آج تک تنظیم اس پر قائم ہے۔ 1996ء میں تنظیم نے اسکول ترک کرنے والوں اور بالغ خواتین کے لیے خواندگی اور کرافٹ کی ٹریننگ کے لیے شدت سے غیر رسمی تحریک شروع کردی۔[16][17] تنظیم نے دیہی علاقوں میں کئی اسکیمیں شروع کیں۔[10]
اہم ارکان
ترمیمیہ فہرست سابق صدور تنظیم کی ہے:[18]
- مہارانی چمنابائی گائکواڈ 1927ء
- سلطان کیخسرو جہاں، بیگم بھوپال 1928ء
- دواگر رانی1929ء
- سروجنی نائیڈو 1930ء
- ڈاکٹر۔ موتھو لکشمی ریڈی 1931ء
- سارلا روئے 1932ء
- لیڈی ودیا گوری نیل کنٹھ 1933ء
- لیڈی عبد القادر 1934ء
- ہیلا رستم جی فریدون جی 1935ء
- مہارانی سیتو 1936
- مارگریٹ E. کزنز 1937
- امرت کور 1938
- رانی لکشمی بائی رجواڑے 1939
- شریفہ حامد علی 1940–41
- رامیشوری نہرو 1942
- وجیا لکشمی پنڈت 1943
- کملا دیوی چٹوپادھیائے 1944–45
- ہنسا مہتا 1946
- دھنونتی راما راو 1947
- اناسویا بائی کالے 1948
- ارملا مہتا 1949–50
- ہانا سین 1951–52
- رینوکا رےy 1953–54
- لکشمی این۔ مینن 1955–58
- رکشا سران 1959–60
- متھن جمشید لام 1961–62
- معصومہ بیگم 1963–64
- ایم ایس ایچ جھبوالا 1965–68
- بی تارابائی 1969–70
- لکشمی راگورمایا 1971–79
- سروجنی ورداپن 1981–85
- اشوکا گپتا 1986–90
- شوبانا راناڈے 1991–95
- کنتی پول 1996–98
- کلاونتی ترپاٹھی 1999–2001
- اپرنا باسو 2002–2004
- منورما باوا 2005–2007
- گومتی نائر 2008–2010
- بینا جین 2011–2013
- وینا کوہلی 2014–2016
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "All India Women's Conference"۔ Women's International Network News۔ 23 (1)۔ Winter 1997۔ صفحہ: 56۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – EBSCOhost سے
- ↑ Usha Nair۔ "AIWC at a Glance: The First Twenty-Five Years 1927–1952" (PDF)۔ AIWC۔ 17 اپریل 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018
- ↑ "All-India Women's Conference"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ 5 فروری 1938۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – Newspapers.com سے
- ^ ا ب پ ت Radha Kumar (1997)۔ The History of Doing: An Illustrated Account of Movements for Women's Rights and Feminism in India 1800–1990 (بزبان انگریزی)۔ New Delhi: Zubaan۔ صفحہ: 68–69۔ ISBN 9788185107769
- ↑ Forbes 1996, p. 79.
- ↑ Sanchari Pal (2018-03-05)۔ "The Princess Who Built AIIMS: Remembering India's First Health Minister, Amrit Kaur"۔ The Better India (بزبان انگریزی)۔ 17 اپریل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018
- ↑ Vaidehi (2017-10-26)۔ "A voice for women"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018
- ↑ Forbes 1996, p. 80.
- ↑ Mieke Aerts (2015)۔ Gender and Activism: Women's Voices in Political Debate (بزبان انگریزی)۔ Amsterdam: Uitgeverij Verloren۔ صفحہ: 40۔ ISBN 9789087045579
- ^ ا ب Sharmila Lodhia۔ "All India Women's Conference | Description, History, & Work"۔ Encyclopedia Britannica (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018
- ^ ا ب Forbes 1996, p. 82.
- ↑ AIWC 1953, p. 12.
- ↑ Pamela Bone (9 فروری 1990)۔ "Choosing Life Over Death"۔ The Age (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – Newspapers.com سے
- ↑ M.L. Maffett (14 مارچ 1940)۔ "Modern Women"۔ The Springville Herald (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – Newspapers.com سے
- ↑ Gail Omvedt (1975)۔ "Rural Origins of Women's Liberation in India"۔ Social Scientist۔ 4 (4/5): 45۔ JSTOR 3516120۔ doi:10.2307/3516120
- ↑ "Project Details"۔ Asha for Education (بزبان انگریزی)۔ 3 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018
- ↑ Nilanjana Ghosh Choudhury (22 فروری 2005)۔ "Hope Afloat for Special Tots – Making That Vital Difference"۔ The Telegraph۔ 23 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018
- ↑ "Past Presidents"۔ AIWC: All India Women's Conference۔ 19 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2014
مصادر
ترمیم- AIWC (1953)۔ The All-India Women's Conference: Silver Jubilee Session۔ New Delhi: The کل ہند خواتین کانفرنس
- Geraldine Forbes (1996)۔ Women in Modern India۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ ISBN 9780521268127