1991ء کا ناکام انقلاب عراق

عراق میں 1991ء کی بغاوت جنگ خلیج میں جنگ بندی کے دوران میں شمالی اور جنوبی عراق میں اٹھنے والی مشہور بغاوتوں کا ایک سلسلہ تھا۔یہ ایک غیر منظم بغاوت تھی، جسے اکثر عراقیوں کے ہاں شعبان انتفاضہ اور کردوں کے درمیان میں قومی بغاوت کہا جاتا ہے، جو عراق کے شیعہ اور کرد علاقوں میں اس خیال سے اٹھی کہ صدام حسین کو حکومت سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصور دو سابقہ جنگوں کے نتائج کا نتیجہ تھا: ایران – عراق جنگ اور خلیجی جنگ، یہ دونوں ایک ہی دہائی کے اندر واقع ہوئیں اور معیشت کو تباہ کر دیا۔

عراق میں 1991ء کی بغاوت
1991 uprisings in Iraq
سلسلہ عراق-کرد تنازع، شیعہ سنی تعلقات اور جنگ خلیج (ضد ابہام)

An Iraqi government tank disabled by rebels
تاریخ1 مارچ – 5 اپریل 1991
(لوا خطا ماڈیول:Age میں 521 سطر پر: attempt to concatenate local 'last' (a nil value)۔)
مقامعراق
نتیجہ

عراقی حکومت کی فتح

  • Mass reprisals against the population and the exodus of 1.8 million refugees from the country
  • Continued conflict in عراقی کردستان until اکتوبر 1991 and continued conflict in the rural south until 1994
  • Accelerated destruction of the Tigris-Euphrates marshes by Iraqi government
سرحدی
تبدیلیاں
عراقی کردستان کا قیام، as well as the Iraqi no-fly zones
مُحارِب

 بعثی عراق


مجاہدین خلق

مخالف:


پیشمرگہ:

کمان دار اور رہنما

صدام حسین
(کمانڈر ان چیف)
عزت ابراہیم الدوری
حسین کامل المجید
علی حسن المجید
طہ یاسین
طارق عزیز
قصی صدام حسین
مسعود رجوی

مریم رجوی
محمد الحکیم
(کمانڈر ان چیف)
عبدالعزیز الحکیم
ہادی العامری
فوزی مطلق الراوی
عراقی کردستان کا پرچم مسعود بارزانی
عراقی کردستان کا پرچم جلال طالبانی
طاقت
اندازہ 300,000[2]
Est. 4,500[2]
ایس سی آئی آر آئی: اندازہ 40,000–50,000[2]
کے ڈی پی: اندازہ 15,000–45,000[2]
پی یو کے: اندازہ 4,000–12,000[2]
ہلاکتیں اور نقصانات
اندازہ 5,000 ہلاک یا گرفتار[3] اندازہ 25,000-180,000 ہلاک (زیادہ تر عام شہری)[4][5][6]

ابتدائی دو ہفتوں کے اندر عراق کے بیشتر شہر اور صوبے باغی قوتوں کے ہاتھوں چلے گئے۔ اس بغاوت کے شریک افراد نسلی، مذہبی اور سیاسی وابستگی کا متنوع مرکب تھے، جن میں فوجی، شیعہ عوام، کرد قوم پرست اور بائیں بازو کے گروہ شامل ہیں۔ ابتدائی فتوحات کے بعد انقلاب کو داخلی تقسیم اور متوقع امریکی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ صدام کی سنی اکثریت والی عرب بعث پارٹی کی حکومت نے بغداد کے دار الحکومت پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی اور جلد ہی عراقی ریپبلیکن گارڈ کی سربراہی میں وفادار قوتوں کے ذریعہ کی جانے والی قتل و غارت نے باغیوں کو بڑی حد تک دبا دیا۔

تقریباً ایک ماہ کے مختصر دورانیے میں لاکھوں افراد ہلاک اور تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔ تنازعے کے بعد عراقی حکومت نے دجلہ – فرات کے دوآبے سے آهواری عربوں کی جبری نقل مکانی کو تیز کر دیا۔ خلیجی جنگ کے اتحادیوں نے شمالی اور جنوبی عراق میں نو فلائی زون قائم کیے اور کرد حزب اختلاف نے عراقی کردستان میں کرد خود مختار جمہوریہ کا اعلان کیا۔

آیت اللہ خمینی کے بیانات

ترمیم

ایران کے حکمران آیت الله خمینی مسلسل عراقی عوام کو صدام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے رہے تھے۔ انھوں نے بار ہا کہا تھا کہ:

”عراقی عوام کو بھی ایرانی مسلمانوں کی طرح ظالم اور جابر حکومت کے خلاف قیام کرنا چاہیے۔ صدام ایک ظالم اور جابر حاکم ہے جس نے عراق کے علما کا نا حق خون بہایا ہے۔ اس کے علاوہ صدام نے عراق کے مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم کیے ہیں۔“[7]

ان کے بار بار اکسانے سے کچھ عراقی شیعہ ایران آ گئے اور عسکری تنظیمیں بنائیں۔ اس کے نتیجے میں عراق کے شیعوں کو حکومت کی جانب سے شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا اور ایران عراق جنگ کے آٹھ سالوں میں ان پر ظلم ہوا۔[8]

امریکی ریڈیو کی نشریات

ترمیم

15 فروری 1991 کو امریکا کے صدر، جارج ایچ ڈبلیو بش نے وائس آف امریکا ریڈیو کے ذریعے عراقیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تقریر کی جس میں انھیں صدام حسین کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی دعوت دی۔ [9]

”خونریزی کو روکنے کے لیے ایک اور راستہ بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ عراقی فوج اور عراقی عوام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور آمر صدام حسین کو ایک طرف ہو جانے پر مجبور کریں اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کریں اور امن پسند قوموں کی صف میں دوبارہ شامل ہوں۔“[10]

خلیجی جنگ کے خاتمے کے ایک دن بعد، یکم مارچ کو، بش نے اسی طرح کی ایک اور اپیل کی:

”میرے خیال میں … عراقی عوام کو چاہئیے کہ اس [صدام] کو ہٹا دیں۔ اس سے ان تمام مشکلات کو حل کرنے میں مدد ملے گی جو موجود ہیں اور یقینی طور پر عراق کو امن پسند قوموں کی صفوں میں قبول کرنے میں آسانی ہوگی۔“[11]

خلیجی جنگ بندی پر دستخط ہونے سے چار روز قبل 24 فروری کی شام کو وائس آف فری عراق ریڈیو اسٹیشن نے مبینہ طور پر عراقی عوام کو ایک پیغام نشر کیا جس میں صدام کو اقتدار سے الگ کرنے کو کہا گیا تھا۔ [12] ریڈیو پریہ پیغام صلاح عمر العلی پڑھ رہے تھے جو بعث پارٹی اور بعث انقلابی کمانڈ کونسل کے جلاوطن رہنما تھے۔صلاح نے اپنے پیغام میں عراقیوں پر زور دیا تھا کہ وہ ”عراق کے مجرم جابر“ کو ختم کر دیں اور اس بات پر زور دیا کہ صدام ”جب اسے یقین ہو جائے گا کہ اس انقلاب نے عراق کی ہر گلی، ہر گھر اور ہر کنبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تو میدان جنگ سے فرار ہو جائے گا۔“ [13] انھوں نے کہا:

”وطن کوآمریت کے چنگل سے بچانے کے لیے اٹھیں تاکہ آپ اپنے آپ کومسلسل جنگ و بربادی سے بچانے کے لیے وقف کر سکیں۔ دجلہ و فرات کے معزز فرزندو، آپ کی زندگی کے ان فیصلہ کن لمحوں پر، جبکہ آپ غیر ملکی افواج کے ہاتھوں موت کے خطرے کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں، آپ کے پاس اس وطن کو بچانے اور اس کا دفاع کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ آپ آمر اور اس مجرم ٹولے کو ختم کر دیں۔“ [14]

انقلاب

ترمیم

جنوبی عراق میں بغاوت

ترمیم

بغاوت کا آغاز جنوبی عراق سے ہوا اور عراقی فوج کے مایوس فوجی، حکومت مخالف جماعتوں کے ارکان، خاص طور پر حزب دعوہ اسلامیہ اور مجلس اعلیٰ عراق کے کارکنان نے اس کا آغاز کیا۔ نجف کے مرجع اعلیٰ آیت اللہ خوئی نے ایران عراق جنگ کوحرام قرار دیا تھا جس کی وجہ سے عراقی شیعہ مسلح افواج میں بھرتی نہیں ہوتے تھے اور شیعوں کو جبری طور پر بھرتی کیا جاتا رہا تھا۔ان کے علاوہ دوسرے فوجیوں میں بھی صدام کی حکومت سے ناراضی پائی جاتی تھی اور اس طرح فوج میں صدام کے خلاف بغاوت بھڑک اٹھی۔

اس شورش کا آغاز سب سے پہلے فروری کے آخر میں بصرہ کے جنوب میں واقع ابو الخصیب اور الزبیر کے قصبوں میں ہوا۔ یکم مارچ 1991 کو خلیجی جنگ بندی کے ایک دن بعد کویت میں عراق کی شکست کے بعد وطن واپس لوٹنے والے ایک T-72 ٹینک نے بصرہ کے مرکزی چوک پرنصب صدام حسین کی تصویر پر گولہ داغا اور باقی فوجیوں نے نعرے بلند کیے۔ بصرہ میں بغاوت کی شروعات ایک فوجی افسر محمد ابراہیم ولی نے کی، جس نے شہر میں سرکاری عمارتوں اور جیلوں پر حملہ کرنے کے لیے فوجی گاڑیوں کی ایک نفری جمع کی تھی۔ اسے آبادی کی اکثریت نے حمایت حاصل کی۔ بصرہ میں بغاوت مکمل طور پر بے ساختہ اور غیر منظم تھی۔ [15] اس واقعہ کی خبر اور بش کے ریڈیو پیغامات نے عراقی عوام کو دوسرے شہروں اور قصبوں میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب دی۔ نجف میں شہر کی سب سے بڑی امام علی مسجد کے قریب صدام کے حامی اور مخالف فوجیوں کے مابین جنگ ہوئی۔ باغیوں نے شہر پر قبضہ کیا اور بعث پارٹی کے عہدے دار شہر سے فرار ہو گئے یا مارے گئے۔ قیدیوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا۔ یہ بغاوت چند ہی دنوں میں جنوبی عراق کے سب سے بڑے شیعہ شہروں: عمارہ، دیوانیا، حلہ، کربلا، ، ناصریہ اور سماوہ تک پھیل گئی۔ چھوٹے چھوٹے شہر بھی انقلاب میں شامل ہو چکے تھے۔

ایران میں مقیم بدر بریگیڈ سمیت بہت سے جلاوطن عراقی سرحدوں کو عبور کرکے بغاوت میں شامل ہو گئے۔ پورے خطے میں باغیوں کی صفوں میں سنی، فوج کے ناراض ارکان، عراقی کمیونسٹ پارٹی، صدام مخالف عرب قوم پرستوں آ ملے تھے۔ تمام متنوع انقلابی گروپ، ملیشیا اور جماعتیں حکومت کی تبدیلی کی خواہش میں متحد ہو گئے۔ ان کے پاس کوئی مشترکہ سیاسی یا فوجی پروگرام نہیں تھا، نہ کوئی مربوط قیادت تھی اور نہ ان کے مابین بہت ہی کم ہم آہنگی تھی۔ ولایت فقیہ پر یقین رکھنے والی مجلس اعلیٰ نامی تنظیم نے اپنی کوششیں شیعوں کے مقدس شہروں نجف اور کربلا پر مرکوز کیں اور ان شیعوں کو انقلاب سے الگ کر دیا جو اخوانی شیعیت اور ولایت فقیہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے اخوانی خیالات کا اظہار اور ایران نواز نعرے بازی شروع کر دی، جس کے بعد دعو ہ پارٹی کی جانب سے مجلس اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی لابی کی ان حرکتوں کی وجہ سے امریکا نے عراقی انقلاب کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ [15]

شمالی عراق میں بغاوت

ترمیم

کرد آبادی والے شمالی عراق میں کچھ ہی دیر بعد شورش کی ایک اور لہر شروع ہو گئی۔ جنوب کی بے ساختہ بغاوت کے برعکس، شمال میں بغاوت کا علم کردوں کی دو حریف ملیشیا ؤں اتحاد وطنی کردستانی اور کردستان ڈیموکریٹک پارٹی نے بلند کیا تھا۔ اگرچہ آشوری ڈیموکریٹک موومنٹ 1980 کی دہائی میں زیادہ سرگرم تھا، لیکن اس نے حزب اختلاف کے ہراول دستے کے طور پر کام کیا۔ حکومت نے کرکوک میں ہزاروں آشوریوں کو بے گھر کر دیا، کیونکہ 1991 سے پہلے اس شہر میں 30،000 کے قریب موجود تھے۔ [16] شمال میں حکومت کے حمایتی کرد لشکر جھش نے بھی بغاوت کر دی جس سے انقلاب کو کافی توانائی حاصل ہو گئی۔

شمال ( عراقی کردستان ) میں بغاوت 5 مارچ کو رانیہ شہر میں شروع ہوئی۔ 10 دن کے اندر کرد قوم پرست ( پشمرگہ )، اسلامیت پسند ( اسلامی تحریک کردستان ) اور کردستان کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہزاروں افراد [15] نے شمال کے ہر شہر پر قبضہ کر لیا۔ فوج نے بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیے اور24 ویں ڈویژن نے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ سلیمانیہمیں باغیوں نے سیکرٹ پولیس کے علاقائی ہیڈکوارٹر، ڈائرکٹٹوریٹ آف جنرل سیکیورٹی، کوگھیرے میں لے کر قبضہ کر لیا اور بغیر کسی مقدمے کے کئی سو بعثی عہدے داروں اور سیکیورٹی کے افسروں کو ہلاک کیا۔ انھوں نے تین سال قبل سن 1988 میں ہونے والے آپریشن الانفال سے متعلق بہت ساری سرکاری دستاویزات بھی قبضہ میں لیں جس میں سرکاری فوج نے ہزاروں عراقی کردوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے افراد کو منظم طریقے سے ہلاک کیا تھا۔ان دستاویزات کی بنیاد پر ہیومن رائٹس واچ نے کرد نسل کشی کی تحقیق کی۔ [17]

جنوب میں برعکس، کرد بغاوت کا آغاز مظاہروں میں واضح سیاسی نعروں کے ساتھ ہوا: عراق کے لیے جمہوریت اور کردستان کی خود مختاری۔ موصل کے قبضے کے بعد جلال طلبانی نے دار الحکومت بغداد کی طرف پر امن لانگ مارچ کرنے کی تجویز پیش کی۔ [15]

صدام نوازدستوں کا حملہ

ترمیم

7 مارچ کو بغاوت کو خاموش کرنے کی کوشش میں صدام حسین نے شیعہ اور کرد رہنماؤں کو مرکزی حکومت میں حصہ لینے کی پیش کش کی، لیکن انھوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ [18] عراق کے 18 صوبوں میں سے 14 انقلابیوں کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ تاہم بغداد کے عوام بڑی حد تک غیر فعال رہے، کیوں کہ دعوہ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی اور شام نواز بعث پارٹی کے تمام لوگ دار الحکومت میں زیر زمین تنظیم سازی کرنے میں ناکام رہے تھے۔ [15] صدرسٹی کی وسیع شیعہ کچی آبادی میں محدود سی شورش ہوئی جبکہ باقی بغداد پر سکون رہا۔

 
امریکا کی جانب سے خلیجی جنگکے دوران میں گرایا گیا پمفلٹ

جلد ہی حکومت کے وفادار دوبارہ منظم ہو گئے اور شہروں پر دھاوا بول دیا۔صدام کے قابل اعتماد ریپبلیکن گارڈ کے آدھے ٹینک کویت کی جنگ سے محفوظ فرار میں کامیاب رہے تھے اور گارڈ کے ہیڈ کوارٹر یونٹ بھی اس جنگ میں محفوظ رہے۔ 3 مارچ کے جنگ بندی معاہدے میں عراقی فوج کے جہازوں کے اڑنے پر پابندی عائد تھی، لیکن انھیں ہیلی کاپٹر اڑنے کی اجازت دی گئی تھی کیونکہ زیادہ تر پل تباہ ہو چکے تھے۔ [19] اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل نارمن شوارزکوف نے ایک عراقی جنرل کی ہیلی کاپٹر اڑانے کی درخواست کو قبول کیا، تاکہ کویت سے سرکاری اہلکاروں کو واپس عراق لے جایا جا سکے جو نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی وجہ سے زمینی راستوں سے نہیں جا سکتے تھے۔ تاہم جلد ہی عراقیوں نے بغاوت کو ختم کرنے کے لیے ہیلی کاپٹروں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ [20] اغیوں کے پاس کچھ بھاری ہتھیار اور چند زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل تھے، جو گن شپ ہیلی کاپٹر اور توپ خانے کی اندھا دھند گولہ باری کے سامنے جلد ہی بے دفاع ہو گئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شہروں پردوبارہ قبضہ کرنے کے دوران میں اور قبضہ کرنے کے بعد صدام نواز قوتوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا۔ کئی لوگوں کو سڑکوں، ہسپتالوں اور گھروں میں پھانسی دے دی۔ گھر گھر تلاشی کے دوران میں خاص طور پر نوجوان مردوں کی پکڑ دھکڑاور ذرا سے شک پر گرفتار کرنے یا قتل کرنے؛ اور شہروں سے بھاگنے کی کوشش کرنے والوں پر ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے فائرنگ کرنے جیسے جرائم کیے گئے۔ " [21]

امریکی حکومت کے عراق سروے گروپ کے مطابق، عراقی فوج نے اعصاب کش سارین گیس کے ساتھ ساتھ غیر مہلک سی ایس گیس کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جب کربلا میں باغیوں کے خلاف درجنوں ہیلی کاپٹر میدان میں اتارے گئے اور مارچ 1991 میں نجف اور کربلا کے علاقوں میں تعینات امریکی فوجی افسروں کو بھی مسٹرڈ گیس حملوں کے شواہد ملے۔ [22]

جنوب میں، صدام کی افواج نے مارچ کے آخر تک مزاحمت کو منتشر کرکے سب کو ختم کر دیا۔ 29 مارچ کو ایران نواز مجلس اعلیٰ کے رہنما عبدالعزیز الحکیم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ شیعہ باغی شہروں سے دستبردار ہو گئے اور لڑائی صرف دیہی علاقوں تک ہی محدود ہے۔ [18] ملک کے شمال میں کرد سنیوں کی بغاوت جتنی تیزی سے ابھری تھی اتنی ہی تیزی سے ختم کر دی گئی۔ 29 مارچ کو پیشمرگہ کو کرکوک سے بے دخل کرنے کے بعد سرکاری ٹینک 30 مارچ کو دہوک اور اربیل، یکم اپریل کو زاخو اور 3 اپریل کو باغیوں کے زیر قبضہ آخری اہم شہر سلیمانیہ میں داخل ہو گئے۔ حکومتی دستوں کی پیش قدمی قلادز کے کھنڈر کے قریب واقع ایک تنگ وادی کور میں رک گئی، جہاں مسعود برزانی کی سربراہی میں کردوں نے کامیاب دفاع کیا۔

5 اپریل کو، حکومت نے ”عراق کے تمام شہروں میں بغاوت، تخریب کاری اور فسادات کے مکمل خاتمے“کا اعلان کیا۔ [23] اسی دن، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 688 کی منظوری دی جس میں عراقی حکومت نے کردوں پر ہونے والے جبر کی مذمت کی اور عراق سے اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔ [18]

 
اپریل 1991 میں اہل تشیع کے مرجع اعلیٰ آیت اللہ خوئی کو گرفتار کر کے عراقی ٹیلی ویژن پر صدام کے سامنے پیش کیا گیا۔

مقتولین کی تعداد

ترمیم

ملک بھر میں اموات کی تعداد زیادہ تھی۔ باغیوں نے بعث پارٹی کے متعدد عہدے داروں اور افسروں کو ہلاک کیا۔ اس کے جواب میں صدام نواز دستوں کی جانب سے ٹینکوں، توپ خانوں اور ہیلی کاپٹروں کے استعمال سے ایک لاکھ کے لگ بھگ غیر مسلح شہری ہلاک ہو گئے اور صدام حسین کے احکامات کے تحت جنوب میں موجود متعدد تاریخی اور مذہبی طور پر مقدس مزارات کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ صدام کی سیکیورٹی فورسز شہروں میں داخل ہوتیں تو اکثر خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ انھوں نے اجتماعی ذمہ داری کی پالیسی میں غیر منظم طور پر ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا اور ان کو بے دردی سے ہلاک کر دیا۔ بہت سے مشتبہ افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، عصمت دری کی گئی یا انھیں زندہ جلایا گیا۔ [24]

بہت سے لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ اپریل 2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہزاروں افراد کی اجتماعی قبریں سامنے آئیں عراقی انسانی حقوق کی وزارت نے 2003 سے 2006 کے مابینی 200 اجتماعی قبروں کی نشان دہی کروائی تھی، جن کی اکثریت جنوب میں تھی، جن میں ایک ایسی قبر بھی شامل ہے جس میں دس ہزار افراد دفن ہیں۔

عواقب

ترمیم

مہاجرت کا بحران

ترمیم
 
29 اپریل 1991 ، کرد مہاجرین کے لیے امدادی سامان کے ساتھ UNHCR کے ٹرک

مارچ اور اپریل کے اوائل میں تقریباً بیس لاکھ عراقی، جن میں سے 15 لاکھ کرد تھے، تنازع سے متاثرہ شہروں سے سرحدوں کی طرف فرار ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این سی ایچ آر) نے اندازہ لگایا کہ6 اپریل تک لگ بھگ 750،000 عراقی کرد ایران اور 280،000 ترکی فرار ہو گئے تھے اور 300،000 مزید ترکی کی سرحد پر جمع ہوئے تھے۔ ایران نے پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول رکھی تھیں، جبکہ ترکی نے پہلے اپنی سرحدیں بند کیں اور بین الاقوامی دباؤ اور مہاجرین سے نمٹنے کے لیے مالی مدد کی یقین دہانی کے بعد اس نے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ [25] ایران کو بھی ترکی کے مقابلے میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے بہت کم بین الاقوامی مدد ملی، جس کی بنیادی وجہ امریکا کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات ہیں۔

بہت سے شیعہ شام فرار ہو گئے، جہاں ان میں سے سینکڑوں افراد سیدہ زینب قصبے میں آباد ہوئے۔ [26]

11 اگست 1992 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں، برطانیہ، فرانس اور امریکا نے عراق پر دجلہ اور فرات کے بیچ دوآب میں”منظم فوجی مہم“ چلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ بغداد کے ممکنہ نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 22 اگست 1992 کو صدر بش نے اعلان کیا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 688 مطابق اتحادیوں نے صدام مخالف شہریوں کو حکومت کے حملوں سے بچانے کے لیے جنوب میں دوسرا نو فلائی زون قائم کیا ہے۔

مارچ 1993 میں اقوام متحدہ کی ایک تفتیش نے سینکڑوں عراقیوں کو پھانسی دیے جانے کا انکشاف کیا اور کہا کہ ایک سال تک جنوب میں عراقی فوج کا سلوک سب سے زیادہ ظالمانہ رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ فوج نے طویل فاصلے تک مار کرنے والی توپوں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا اور بڑے پیمانے پر املاک کو تباہ کیا گیا، اس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر پھانسیاں بھی دی گئیں۔ نومبر 1993 میں ایرانی عہدے داروں نے دنیا سے مہاجرین کی مدد کے لیے امداد بھیجنے کی اپیل کی۔ اسی مہینہ میں اقوام متحدہ نے اطلاع دی کہ جنوب میں 40٪ زرعی رقبے کو پانی سے محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عراقی فوج نے ایران کی سرحد کے قریب دیہاتوں میں زہریلی گیس کا استعمال کیا ہے۔ دسمبر 1993 میں امریکی محکمہ خارجہ نے عراق پر جنوب میں اندھا دھند فوجی کارروائیوں کا الزام عائد کیا، جس میں دیہات کو جلانا اور سول آبادی کو جبری طور پر منتقل کرنا بھی شامل ہے۔ [18]

آیت اللہ محمد صادق الصدر کے قتل کے بعد 1999 کے اوائل میں عراق کے شیعہ اکثریتی صوبوں میں مزید بے امنی پیدا ہوئی۔ 1991 کی بغاوت کی طرح 1999 کی بغاوت کو بھی دبا دیا گیا۔

کرد خود مختار ی

ترمیم
 
1991 کی کرد بغاوت کے بعد کردوں کے زیرقبضہ علاقہ

شمال کے دشوار گزار پہاڑی علاقے میں لڑائی اکتوبر تک جاری رہی یہاں تک کہ عراق کے کرد آبادی والے خطے کے کچھ حصوں سے عراقی فوج کے انخلا کے لیے معاہدہ کر لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی عراق کے تین صوبوں میں کردستان کی داخلی خود مختار حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ امریکی فضائیہ نے مارچ 1991 سے شمالی عراق پر نو فلائی زون نافذ کیے رکھا تاکہ شمالی عراق میں گھروں سے فرار ہونے والے کردوں کا دفاع کیا جاسکے۔ امریکی فوج نے 1991 میں متعدد پناہ گزین کیمپ بھی بنائے اور برقرار رکھے۔

یہ تعطل 1994–1997 کی کرد خانہ جنگی کے دوران میں ٹوٹ گیا تھا، جب ایران کے ساتھ پی یو کے کی قربت اتحاد کی وجہ سے کے ڈی پی نے عراقی مدد کی طلب کی تھی اور صدام نے اپنی فوج کو اربیل اور سلیمانیہ کو فتح کرنے کردستان بھیج دیا۔ 1996 میں جنوبی عراق پر میزائل حملوں کے ذریعے امریکا کی مداخلت کے بعد عراقی حکومتی دستے پیچھے ہٹ گئے۔ یکم جنوری 1997 کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے آپریشن پروائیڈ کامفرٹ ختم ہونے کے اگلے دن شمال میں نو فلائی زون کو نافذ کرنے کے لیے آپریشن ناردرن واچ کا آغاز کیا۔

2003 کے بعد

ترمیم

صدام حسین اور اس کے اہم ساتھیوں، جن میں علی حسن المجید (المعروف ”کیمیکل علی“ ) بھی شامل تھا، کے خلاف مقدمہ چلا کر پھانسی کی سزا دی گئی۔[27][28]

امریکی عدم مداخلت پر تنقید

ترمیم
کولن پاول، برینٹ سکوکرافٹ اور رچرڈ ہاس جیسی انتظامیہ کی بنائی گئی مفاد پرستانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے بش نے صدام کو بغاوت کچلنے کیلئے فوجی ہوائی جہاز اڑانے کی اجازت دی۔ جب کہ ہزاروں امریکی فوجی ابھی تک عراقی سرزمین پر موجود تھے اور کچھ مہمات کو قریب سے دیکھ بھی رہے تھے کہ ظالم نے مردوں، خواتین اور بچوں کے خلاف جدید اسلحے کے دہانے کھول دئیے۔

احمد الجلبي 2011[29]

بہت سارے عراقی اور امریکی نقادوں نے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اور ان کی انتظامیہ کوخلیجی جنگ کے اختتام پر عراقی عوام کو انقلاب پر اکسانے اور پھر ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ 1996 میں، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین ، کولن پاول نے اپنی کتاب ”مائی امریکن جرنی“ میں اعتراف کیا کہ اگرچہ بش کی بیان بازی سے ”باغیوں کو حوصلہ ملا “، لیکن ”ہمارا عملی ارادہ بغداد میں اتنی طاقت چھوڑنا تھا کہ زندہ بچ سکے اور ایران کے لیے خطرہ بنا رہے جو امریکا کے ساتھ سخت دشمنی میں مبتلا ہے۔“ اتحادی فوج کے کمانڈر نارمن شوارزکوف جونیئر نے جنگ بندی معاہدے پر افسوس کا اظہار کیا جس کے تحت عراق کو ہیلی کاپٹروں کا استعمال جاری رکھنے کی اجازت دی گئی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انقلاب کی حمایت کرنا ایران کو طاقتور بنا سکتا تھا۔ بش کے قومی سلامتی کے مشیر، برینٹ سکوکرافٹ نے، اے بی سی کو بتایا کہ ”میری خواہش ہے کہ کاش انقلاب شروع نہ ہوتا، ۔۔ ۔ ہم یقینی طور پر فوجی افسروں کی بغاوت کی حمایت کرتے۔ [30]

امریکی تجزیہ کاروں نے 1991 کے انقلاب میں عدم مداخلت کی پالیسی کو 2003 میں عراق پر حملے کے دوران میں عراقی شیعہ آبادی کے اتحادی فوج کا خیر مقدم نہ کرنے کی وجہ بتایا۔ اسی شک کی وجہ سے بغداد کی فتح تک وہ صدام کے خلاف اٹھنے سے گریزاں رہے۔ 2011 میں عراق میں امریکی سفیر جیمز ایف جیفری نے 1991 میں امریکی عدم مداخلت پر عراقی سیاست دانوں اور جنوبی قبائلی رہنماؤں سے باضابطہ طور پر معافی مانگ لی۔ عراقی شیعہ سیاسی جماعت کے ایک اعلیٰ رہنما، عادل عبد المہدی نے تبصرہ کیا:”کم از کم یہ 2003 کے حل سے، جس کا ہم اب سامنا کر رہے ہیں، کہیں بہتر حل ہوتا۔ اس میں عراق کے عوام کا کردار بنیادی ہوتا۔

فلمیں

ترمیم

جنوبی بغاوت پر 1999 میں ڈیوڈ او رسل نے فلم ”تھری کنگز“ اور 2008 میں عباس فاضل نے فلم ”ڈان آف دی ورلڈ “بنائی۔ اس کے علاوہ 1993 میں فرنٹ لائن نے ایک دستاویزی فلم ”صدامز کلنگ فیلڈز بھی بنائی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://www.hrw.org/reports/2003/iraq0303/Kirkuk0303-01.htm
  2. ^ ا ب پ ت ٹ Uppsala conflict data expansion: Non-State Actor Data: Version 3.3 آرکائیو شدہ فروری 21, 2014 بذریعہ وے بیک مشین pp. 146; 217; 218; 502
  3. ENDLESS TORMENT: The 1991 Uprising in Iraq And Its Aftermath۔ Human Rights Watch۔ 1992۔ ISBN:1-56432-069-3۔ 2019-10-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-07-23
  4. "2 Mass Graves in Iraq Unearthed"۔ LA Times۔ 5 جون 2006۔ 2012-01-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-08-12
  5. "'Chemical Ali' on trial for brutal crushing of Shia uprising"۔ The Guardian۔ 22 اگست 2007۔ 2016-12-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-16
  6. "ENDLESS TORMENT, The 1991 Uprising in Iraq And Its Aftermath"۔ Hrw.org۔ 2010-06-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-09-25
  7. "امام خمینی (رح) صدام حسین کو پاگل کیوں کہتے تھے؟"
  8. Cordesman، Anthony H. (2006)۔ Iraqi Security Forces: A Strategy for Success۔ Greenwood Publishing Group۔ ص xviii۔ ISBN:9780275989088۔ Hundreds of thousands of Arab Shi'ites were driven out of [Iraq], and many formed an armed opposition with Iranian support. While most of the remaining Arab Shi'ites remained loyal, their secular and religious leaders were kept under constant surveillance and sometimes imprisoned and killed.
  9. "CRS Report: Iraq's Opposition Movements"۔ Fas.org۔ 2012-11-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  10. "Unfinished War – CNN.com – Transcripts"۔ Transcripts.cnn.com۔ 2001-01-05۔ 4 مئی, 2012 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت)
  11. "Remembering the Kurdish uprising of 1991"۔ BBC News۔ 07-اپریل-2016 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)
  12. Fisk, Robert.
  13. Fisk.
  14. ۔(Robert Fisk, "Great War for Civilisation"، p. 646, (2006
  15. ^ ا ب پ ت ٹ "Why the Uprisings Failed | Middle East Research and Information Project"۔ Merip.org۔ 2018-11-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  16. "Iraq:"۔ www.hrw.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-03-08
  17. United Nations High Commissioner for Refugees۔ "Genocide in Iraq: The Anfal Campaign Against the Kurds – UNHCR"۔ Unhcr.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  18. ^ ا ب پ ت United Nations High Commissioner for Refugees (13 جون 1997)۔ MARP,، IRQ,، 469f38a7c,0.html "Refworld | Chronology for Sunnis in Iraq"۔ UNHCR۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14 {{حوالہ ویب}}: |url= پیرامیٹر کو جانچ لیجیے (معاونت)
  19. "Victory Over Iraq in 1991 Was Swift, but Flawed – NYTimes.com"۔ 2017-08-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-02-14
  20. Zenko، Micah (7 مارچ 2016)۔ "Who Is to Blame for the Doomed Iraqi Uprisings of 1991?"۔ National Interest.org۔ 2016-03-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-03-07
  21. "Iraq"۔ Human Rights Watch۔ 2008-11-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  22. Barry Lando (29 مارچ 2007)۔ "How George H.W. Bush Helped Saddam Hussein Prevent an Iraqi Uprising"۔ Alternet۔ 2013-11-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  23. United Nations High Commissioner for Refugees۔ KWT,467fca591e,0.html "Refworld | Human Rights Watch World Report 1992 – Iraq and Occupied Kuwait"۔ UNHCR۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14 {{حوالہ ویب}}: |url= پیرامیٹر کو جانچ لیجیے (معاونت)[مردہ ربط]
  24. "Justice For Iraq"۔ Mafhoum.com۔ 2017-10-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  25. Entessar, Nader (1992). Kurdish Ethnonationalism (انگریزی میں). Lynn Rienner Publishers. pp. 155. ISBN:978-1-55587-250-2.
  26. "Syria: Inventing a Religious War by Toby Matthiesen | NYRblog | The New York Review of Books"۔ Nybooks.com۔ 2013-06-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  27. "'Chemical Ali' executed in Iraq after Halabja ruling"۔ 25-جنوری-2010 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)
  28. "Saddam buried in village of his birth"۔ 31 دسمبر 2006
  29. "Ahmed Chalabi: The Libyan Uprising—Lessons From Iraq – WSJ.com"۔ Online.wsj.com۔ 28 فروری 2011۔ 2017-07-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-14
  30. Makiya، Kanan (1998)۔ Republic of Fear: The Politics of Modern Iraq, Updated Edition۔ University of California Press۔ ص XX۔ ISBN:978-0-520-92124-5