ایڈورڈ سنوڈن (Edward Joseph Snowden) امریکی ادارے قومی سلامتی کارندگی میں ٹھیکے پر ملازم تھا۔ وجہ شہرت سیٹی پھونکا ہے جب اس نے امریکی خفیہ برقی نگہداری اور جاسوسی پروگرامنگ بنام پرزم نگہداری پروگرامنگ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔[4]

ایڈورڑ سنوڈن
(انگریزی میں: Edward Snowden ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (انگریزی میں: Edward Joseph Snowden ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 21 جون 1983ء
شہرِ الزبتھ,

شمالی کرولینا,

ریاستہائے متحدہ امریکا
رہائش ہوائی. نامعلوم
قومیت امریکی
استعمال ہاتھ بایاں [1]  ویکی ڈیٹا پر (P552) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن فری یونیورسٹی آف برلن   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہ مرگی   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی یونیورسٹی آف لیورپول   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ منتظم نظامی
مادری زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی [2]،  فرانسیسی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت بوز ایلن ہملٹن
وجہ شہرت پرزم سیٹی پھونکا
اعزازات
سیم ایڈمز ایوارڈ (2013)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نامزدگیاں
دستخط
 
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

2003ء میں امریکی فوج میں بھرتی ہوا مگر دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھا۔ پھر قومی سلامتی کارندگی میں محافظ بھرتی ہوا۔

2013ء میں سنوڈن نے گارجین کے اخبار نویس گلن گرینوالڈ کو پیغام بھیجا کہ اس کے پاس امریکی جاسوسی کے بارے میں مواد ہے مگر وہ صرف پی جی پی کے ذریعہ انکرپشن طریقہ سے برقی رابط قائم کرنا چاہتا ہے۔ گرینوالڈ اس ٹیکنالوجی سے نابلد تھا، چنانچہ گرینوالڈ کی جہالت کی وجہ سے رابطہ میں بہت تاخیر ہوئی۔ تنگ آ کر سنوڈن نے مواد صحافی لارا پوئیڑس کو بھیجا جو اس ٹیکنالوجی سے واقف تھی۔ پوئیٹرس کے ذریعہ مواد گرینوالڈ کو ملا۔[5] سنوڈن نے واشنگٹن پوسٹ کو بھی مواد پہنچایا۔ پرزم بارے 41 صفحات پر مشتمل مواد ان کے حوالے کیا۔ دونوں اخباروں نے امریکی سرکار سے رابطہ کیا اور ابتداً صرف دو تین صفحات شائع کرنے کی جراءت کر سکے۔[6] بھانڈا پھوٹنے کے بعد سنوڈن ہوائی سے ہانگ کانگ چلا گیا جہاں اس نے گریندوالڈ سے ملاقات کی۔ امریکی حکام نے سنوڈن پر جاسوسی کی فردِ جرم عائد کرتے ہوئے اس کا گزرنامہ منسوخ کر دیا۔ تاہم سنوڈن ہانگ کانگ سے ماسکو فرار ہو گیا، جہاں اس نے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں داغ دیں۔ امریکا نے تمام ممالک کو ڈرا دھمکا کر فرار کے فضائی راستے بند کر دیے۔ سنوڈن نے روس میں عارضی پناہ کی درخواست کی جس پر امریکی حکومت نے روس کو بذریعہ خط یقین دلایا کہ سنوڈن کو وطن واپسی پر نہ ہی اذیت دی جائے گی اور نہ ہی سزائے موت، اس لیے پناہ کی درخواست مسترد کی جاوے۔[7] تاہم روسی صدر پیوٹن نے بیان میں کہا کہ روس کبھی کسی کو دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرتا اور نہ کسی نے کسی کو کبھی روس کے حوالے کیا ہے۔ بالآخر روس نے جولائی 2013ء میں ایک سال کی عارضی پناہ دے دی اور سنوڈن ماسکو ہوائی اڈا سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

14 جون 2013ء کو وائرڈ نے پی جی پی کا استعمال کرتے ہوئے ایک انکرپٹڈ پیغام سنوڈن کے نام شائع کیا۔[8]


I don't want to live in a society that does these sort of things … I do not want to live in a world where everything I do and say is recorded. That is not something I am willing to support or live under.

—Edward Snowden، speaking to The Guardian in June 2013[4]

عتاب

ترمیم
  • سنوڈن کے زیر استعمال آن لائن برقی خدمت کے مالک نے سرکاری خفیہ حکمنامہ ملنے کے بعد اپنی خدمت ہی بند کر دی مگر پھر بھی زیر عتاب آنے کی توقع۔[9]
  • گلن گرین‌والڈ کے ہم جنس شریک کو ہوائی اڈا پر روک کر برطانوی سرکار نے دہشت گردی قانون کی آڑ میں ہراساں کیا۔[10]
  • اوبامہ نے روسی دورے کے دوران صدر پیوٹن سے ملنے سے انکار کر دیا۔
  • گارجین اخبار کے دفتر میں داخل ہو کر حساس ادارے کے ارکان نے وہ کمپیوٹر تباہ کر دیا جس پر سنوڈن کا دیا مواد محفوظ تھا۔[11]

پیغام

ترمیم

کرسمس 2013ء پر اسنوڈن نے برطانوی دورنما پر اپنے پیغام میں کہا کہ امریکی اور برطانوی جاسوسی ایک عالمی خطرہ ہے اور یہ اورویلی دنیا کے نقشہ سے بھی گھناونا ہے۔[12] سنوڈن نے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ جیت چکا ہے۔

اغوا کی کوشش

ترمیم

بولیویا کے صدر Evo Morales سرکاری دورے کے بعد روس سے واپس اپنے ملک جا رہے تھے۔ ان کا ہوائی جہاز ویانا میں زبردستی اتروا لیا گیا کیونکہ یہ شک ہو گیا تھا کہ اس طیارے میں اسنوڈن بھی سفر کر رہا ہے۔ تاہم جب تلاشی لینے پر اسنوڈن نہیں ملا تو صدر کو اپنا سفر جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔[13]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. مصنف: ایڈورڈ سنوڈن — عنوان : Permanent Record
  2. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/269738595
  3. تاریخ اشاعت: 25 جنوری 2017 — http://archive.is/0SVWZ — اخذ شدہ بتاریخ: 29 جنوری 2017 — سے آرکائیو اصل — اقتباس: N'oubliez pas que j'ai vécu dans une ville francophone pendant des années. [Genève]
  4. ^ ا ب Glenn Greenwald; Ewen MacAskill (9 June 2013)۔ "Edward Snowden: the whistleblower behind revelations of NSA surveillance"۔ دی گارڈین۔ ہانگ کانگ: Guardian Media Group۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2013  Cite uses deprecated parameter |coauthors= (معاونت)
  5. "How Laura Poitras Helped Snowden Spill His Secrets"۔ نیویارک ٹائمز۔ 13 اگست 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. "Snowden Censored by Craven Media"۔ کرپٹوم۔ 10 جون 2013ء۔ 14 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. "US to Russia: We won't seek death penalty for Snowden"۔ آج کا روس۔ 26 جولائی 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. Kevin Poulsen (14 جنوری 2013ء)۔ "Our Top-Secret Message to NSA Whistleblower Edward Snowden"۔ wired.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. "Snowden's email provider may face court rap after closing service"۔ دی رجسٹر۔ 19 اگست 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  10. "Glenn Greenwald's partner detained at Heathrow airport for nine hours"۔ گارجین۔ 18 اگست 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  11. "U.K. gov't thought, naively and stupidly, destroying hard drives would prevent NSA leaks"۔ زی-ڈی-نیٹ۔ 20 اگست 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  12. "Edward Snowden warns over global threat to privacy during Channel 4's Alternative Christmas Message"۔ انڈپنڈنٹ۔ 24 دسمبر 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  13. Bolivia accuses Europe of 'kidnapping' Bolivian president