جھیل بیکال جنوبی سائبیریا، روس میں واقع دنیا کی سب سے گہری اور میٹھے پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ 12,500 مربع میل کے رقبے پر پھیلی اس جھیل کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 1637 میٹر (5,369 فٹ) ہے۔ یہ 336 چھوٹے بڑے دریاؤں سے فیضیاب ہوتی ہے اور دنیا کے کل میٹھے پانی کے 20 فیصد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جبکہ روس کے کل میٹھے پانی کا 90 فیصد اس جھیل میں ہے۔

جھیل بیکال
Lake Baikal
محل وقوعسائبیریا، روس
جغرافیائی متناسق53°30′N 108°0′E / 53.500°N 108.000°E / 53.500; 108.000
قسم جھیلContinental rift lake
بنیادی اضافہSelenge, Barguzin, Upper Angara
بنیادی کمیAngara
Catchment area560,000 کلومیٹر2 (6.027789833×1012 فٹ مربع)
نکاسی طاس ممالکروس اور منگولیا
زیادہ سے زیادہ. لمبائی636 کلومیٹر (2,087,000 فٹ)
زیادہ سے زیادہ. چوڑائی79 کلومیٹر (259,000 فٹ)
رقبہ سطح31,722 کلومیٹر2 (3.4145×1011 فٹ مربع)[1]
اوسط گہرائی744.4 میٹر (2,442 فٹ)[1]
زیادہ سے زیادہ. گہرائی1,642 میٹر (5,387 فٹ)[1]
پانی کا حجم23,615.39 کلومیٹر3 (5,700 cu mi)[1]
Residence time330 years[2]
ساحل کی لمبائی12,100 کلومیٹر (6,889,760 فٹ)
سطح بلندی455.5 میٹر (1,494 فٹ)
منجمدجنوری–مئی
جزائر27 (اولخون جزیرہ)
آبادیاںایرکتسک
قسم:قدرتی
معیار اصول:vii, viii, ix, x
نامزد:1996 (بائیسواں اجلاس)
رقم حوالہ:754
ریاستی فریق:روس
علاقہ:ایشیا
1 Shore length is not a well-defined measure.
جھیل بیکال کا ایک حسین جزیرہ

جھیل بیکال کی زیادہ سے زیادہ لمبائی 636 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 80 کلومیٹر ہے۔ اس کا سطحی رقبہ 31,494 مربع کلومیٹر (12,159 میل) ہے۔ جھیل کی اوسط گہرائی 758 میٹر (2,487 فٹ) ہے۔ اس کے پانی کے حجم کا اندازہ 23,600 مکعب کلومیٹر لگایا گیا ہے۔

اس حسین جھیل کو سائبیریا کی نیلی آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ اس جھیل میں کل 22 جزیرے ہیں جن میں سے جزیرہ اولخون دنیا کی کسی بھی جھیل میں واقع دوسرا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ (سب سے بڑا جزیرہ جھیل ہرون کا جزیرہ مینیٹولن ہے)۔

جھیل بیکال زمین میں واقع گہرے شق سے بنی جھیل ہے جو روس میں واقع ہے۔ یہ جھیل جنوبی سائبیریا میں ایرکتسک اور جمہوریہ بوریاتیا کے درمیان واقع ہے۔ اس کا رقبہ 31،722 مربع کلومیٹر بنتا ہے جو بیلجئیم سے تھوڑا سا زیادہ ہے۔ رقبے کے اعتبار سے بیکال دنیا کی 7ویں بڑی جھیل ہے۔ تاہم سب سے گہری جھیل ہونے کی وجہ سے اس میں پانی کی مقدار 23،615 مکعب کلومیٹر بنتی ہے جو دنیا میں میٹھے پانی کا 22 سے 23 فیصد ہے۔ عظیم امریکی جھیلیں ملا کر بھی مقدار کے اعتبار سے بیکال سے چھوٹی ہیں۔ اسے دنیا کی قدیم ترین جھیل بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اڑھائی سے تین کروڑ سال پرانی ہے اور اس کا پانی دنیا کے صاف ترین پانیوں میں سے ایک ہے۔

جغرافیہ اور ہائیڈروگرافی

جھیل بیکال شق وادی سے بنی ہے جہاں زمین کی سطح یا قشرِ ارض آہستہ آہستہ الگ ہو رہی ہے۔ 636 کلومیٹر طویل اور 79 کلومیٹر چوڑی جھیل بیکال ایشیا میں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑی جھیل ہے اور یہ رقبہ 31،722 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ اسے دنیا کی گہری ترین جھیل بھی مانا جاتا ہے کہ اس کی گہرائی 1،642 میٹر ہے۔ جھیل کی تہ سطح سمندر سے 1،186 میٹر نیچے ہے مگر اس کے نیچے 7 کلومیٹر موٹی تلچھٹ یا گاد کی تہ ہے جس کی وجہ سے شق کا پیندہ سطح سمندر سے 8 تا 11 کلومیٹر نیچے ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے یہ شق ابھی کم عمر اور متحرک ہے اور ہر سال 2 سینٹی میٹر پھیلتی ہے۔ اس کا فالٹ زون بھی متحرک ہے اور گرم چشمے اور ہر چند سال بعد بڑے زلزلے بھی آتے ہیں۔ جھیل کے تین طاس ہیں: شمالی، وسطی اور جنوبی جن کی گہرائیاں بالترتیب 900 میٹر، 1،600 میٹر اور 1،400 میٹر ہیں۔ جھیل کا پانی انگارا کو جاتا ہے جو دریائے ینیسی کی معاون شاخ ہے۔

جھیل بیکال کی عمر اڑھائی سے تین کروڑ سال ہے جو ارضیاتی اعتبار سے اسے قدیم ترین جھیل بناتی ہے۔ اس کی تلچھٹ یا گاد پر برفانی تہ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اسی وجہ سے روسی، امریکی اور جاپانی مہمات نے 1990 کی دہائی میں یہاں کھدائیاں کیں اور 67 لاکھ سال پر محیط موسمی تغیرات کے بارے تفصیلی معلومات ملیں۔

مستقبل قریب میں مزید گہری کھدائیوں سے زیادہ معلومات ملنے کی توقع ہے۔ جھیل بیکال خشکی سے گھری جھیل ہے۔ اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں۔ شمال میں بیکال پہاڑ، شمال مشرقی سمت برگوزن سلسلہ کوہ ہے اور پرائیمورسکی سلسلہ مغربی جانب پھیلا ہے۔ ٹیگا اور پہاڑ نیشنل پارک ہیں۔ جھیل میں کل 27 جزیرے ہیں اور سب سے بڑا اولخون ہے جو 72 کلومیٹر لمبا اور دنیا میں کسی جھیل کا تیسرا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ جھیل میں 330 دریا گرتے ہیں۔ جھیل سے نکلنے والے دریاؤں میں سیلینگا، برگوزن، بالائی انگارا، تُرکا، سرما اور سنیژنیا اہم ترین ہیں۔ یہ سب دریا واحد منبع انگارا سے نکلتے ہیں۔

پانی کی خصوصیات

ترمیم

جھیل بیکال دنیا کی صاف ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ سردیوں میں 30 سے 40 میٹر تک کی گہرائی تک پانی میں صاف دیکھا جا سکتا ہے مگر گرمیوں یہ حد کم ہو کر 5 تا 8 میٹر رہ جاتی ہے۔ بیکال میں گہرائی تک آکسیجن کی بہتات ہے جو اسے جھیل ٹانکانیکا اور بحیرہ اسود سے ممتاز کرتی ہے۔

جھیل بیکال میں پانی کا درجہ حرارت اس کے محل وقوع، گہرائی اور سال کے وقت پر منحصر ہوتا ہے۔ سرما اور بہار میں جنوری تا مئی یا جون 4 سے 5 ماہ تک سطح جمی رہتی ہے۔ اوسطاً جھیل پر برف کی تہ نصف میٹر سے 4ء1 میٹر تک موٹی ہوتی ہے مگر بعض جگہوں پر دو میٹر تک بھی ہو جاتی ہے۔ پانی کا درجہ حرارت گہرائی کے ساتھ بڑھتا ہے اور جب سطح پر برف ہو تو اس کے نیچے والا پانی صفر درجے کے قریب جبکہ 200 تا 250 میٹر کی گہرائی پر پانی کا درجہ حرارت 5ء3 سے 8ء3 ڈگری تک رہتا ہے۔ جب سطح پر جمی برف ٹوٹ جائے تو دھوپ سے پانی بتدریج گرم ہوتا ہے اور مئی جون میں بالائی 300 میٹر پانی کا درجہ حرارت ایک جیسا 4 ڈگری ہو جاتا ہے۔ دھوپ سے سطح کا پانی مزید گرم ہوتا ہوا اگست میں 16 درجے تک پہنچ جاتا ہے جبکہ کم گہرے جنوبی علاقوں میں 20 سے 24 درجے بھی دیکھا گیا ہے۔ اس دوران گہرائی کے ساتھ پانی کا درجہ حرارت کم ہوتا جاتا ہے۔ خزاں کے اوائل میں سطح کا درجہ حرارت گرنے لگتا ہے اور اکتوبر تا نومبر بالائی 300 میٹر کا درجہ حرارت یکساں 4 درجے ہو جاتا ہے۔ 300 میٹر سے لے کر گہرائی تک پانی کا درجہ حرارت 1ء3 تا 4ء3 درجے تک مستقل رہتا ہے۔

پچھلے 50 برسوں میں سطح کا درجہ حرارت ڈیڑھ درجہ بڑھا ہے جس کی وجہ سے جھیل پر برف کی تہ جمنے کا دورانیہ کم ہو گیا ہے۔ بعض جگہوں پر آتش فشانی سوراخوں کے گرد پانی کا درجہ حرارت 50 درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ سوراخ زیادہ تر گہرے پانی میں مگر چند ایک کم گہرائی میں بھی ہیں۔ جھیل کے عظیم رقبے کی وجہ سے مجموعی طور پر جھیل پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جھیل پر طوفانی موسم عام بات ہے جو گرمیوں اور خزاں میں آتے ہیں اور 5ء4 میٹر اونچی لہریں عام دیکھی جاتی ہیں۔

حیوانات اور نباتات

ترمیم

جھیل بیکال میں حیات کا خزانہ موجود ہے۔ موجودہ معلومات کے مطابق جھیل میں 1،000 سے زیادہ نباتات اور 2،500 سے زیادہ جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں مگر اندازہ ہے کہ حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔ 80 فیصد سے زیادہ جانور یہاں کے مقامی ہیں۔

نباتات

ترمیم

جھیل کے پانیوں میں نباتات کی بہت سی انواع ملتی ہیں جن میں اپنی کے اندر اگی اور پانی کنارے اگی نباتات بھی شامل ہیں۔ کئی اقسام کی نباتات ایسی بھی ہیں جو مقامی نہیں مگر متعارف ہونے کے بعد مقامی انواع کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ جھیل میں زیرِ آب 85 انواع کے پودے پائے جاتے ہیں۔

حیوانات
ترمیم
پستانیے
ترمیم

بیکال کی سیل یعنی نیرپا جھیل کی مقامی سیل ہے۔

جھیل کے اردگرد کے ماحول میں بہت سارے دیگر پستانیے رہتے ہیں جن میں یوریشین بھورا ریچھ، یوریشین بھیڑیا، سرخ لومڑی، سیبل، قاقم (نیولے کی ایک قسم)، موز، ایلک، رینڈیئر، سائبیرین ہرن کی ایک قسم، سائیبیرین آہوئے ختن، جنگلی سور، سرخ گلہری، عام گلہری، پہاڑی خرگوش، مارموت اور قطبی چوہا یعنی لیمنگ شامل ہیں۔ کافی عرصہ قبل یہاں یورپی بائسن بھی پائے جاتے تھے۔

پرندے
ترمیم

جھیل اور اس کے آس پاس 236 انواع کے پرندے موجود ہیں جن میں سے 29 آبی ہیں۔ جھیل بیکال سے منسوب کئی پرندے مشرقی ایشیا بھر میں عام ملتے ہیں۔

مچھلیاں
ترمیم

جھیل میں 65 کے قریب انواع کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن میں نصف سے زیادہ جھیل کی مقامی ہیں۔ یہ مچھلیاں پکڑ کر دھوئیں میں پکا کر جھیل کے اردگرد بازاروں میں بیچی جاتی ہیں۔

غیر فقاریے
ترمیم

جھیل میں غیر فقاریہ جانوروں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک Epischura baikalensis محض اس جھیل میں ہی پایا جاتا ہے اور یہاں کے زُوپلانکٹن کی غالب نوع ہے جو کل زندہ جانداروں کے 80 سے 90 فیصد حجم بناتا ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ جانور ہر سال 1،000 مکعب کلومیٹر پانی صاف کرتے ہیں یعنی پوری جھیل کا پانی ہر 23 سال میں ایک بار صاف ہوتا ہے۔

غیر فقاریہ جانوروں میں سب سے اہم ایمفی پاڈ اور اوسٹراکوڈ حشرات، میٹھے پانی کے گھونگھے اور کئی اقسام کے کیڑے شامل ہیں۔

جھیل بیکال میں 60 اقسام کی پانی کی جوئیں بھی پائی جاتی ہیں۔

2006 تک کی تحقیقات کے مطابق جھیل بیکال میں میٹھے پانی کے 150 اقسام کے گھونگھے پائے جاتے ہیں جن میں سے 117 مقامی ہیں اور 20 سے 30 میٹر کی گہرائی پر ملتے ہیں مگر اس سے کم گہرائی پر بھی مل سکتے ہیں۔ 30 اقسام ایسی ہیں جو 100 میٹر سے زیادہ گہرائی پر ملتی ہیں جہاں سورج کی روشنی بمشکل پہچنتی ہے۔ 10 اقسام ایسی ہیں جو اس سے زیادہ گہرائی میں رہتی ہیں۔ جھیل بیکال کے زیادہ تر گھونگھوں کے خول پتلے اور چھوٹے ہوتے ہیں۔ سیپیوں کی 30 سے بھی کم اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان کی زیادہ تر اقسام کم گہرے پانی میں اور چند اقسام گہرے پانی میں ملتی ہیں۔

آبی کیڑوں کی 200 اقسام دیکھی جا چکی ہیں جن میں سے 160 سے زیادہ مقامی ہیں۔ ان میں 30 اقسام کی جونکیں بھی شامل ہیں۔ گول کیڑوں کی کئی سو اقسام پائی جاتی ہیں مگر ان کی اکثریت کے بارے سائنسی معلومات کا فقدان ہے۔

140 سے زائد اقسام کے چپٹے کیڑے بھی یہاں پائے جاتے ہیں جن کی اکثریت تہ میں رہتی ہے۔ زیادہ تر چپٹے کیڑے شکاری ہیں اور کئی کے رنگ بہت شوخ ہیں۔ کم گہرے پانی میں پائے جانے والے چپٹے کیڑوں کی لمبائی 2 سینٹی میٹر جبکہ گہرے پانی میں رہنے والے چپٹے کیڑے 30 میٹر طویل ہو سکتے ہیں۔

اسفنج کی 18 اقسام ابھی تک اس جھیل میں دریافت ہو چکی ہیں جن میں سے 15 مقامی ہیں اور یہاں 34 لاکھ سال قبل نمودار ہوئیں۔

تاریخ

ترمیم

بیکال کا علاقہ جیسے بیکالیا بھی کہا جاتا ہے، میں طویل عرصے سے انسانی رہائش موجود ہے۔ جھیل کے شمال مغرب میں 160 کلومیٹر دور مالٹا نامی گاؤں کے قریب سے نوجوان مرد کا ایک قدیم ڈھانچہ ملا جسے MA-1 یا مالٹا بوائے کا نام دیا گیا۔ اندازہ ہے کہ یہ لڑکا 24،000 سال قدیم انسانی آبادی سے متعلق تھا۔

جھیل کنارے شمالی سمت شیونگ نو کی ریاست تھی اور یہاں ہان قبائل اور شیونگ نو نے دوسری صدی قبل مسیح سے پہلی صدی عیسوی کے دوران لڑائیاں لڑیں اور ہان قبائل کو شکست ہوئی۔ انھوں نے اس جھیل کو "عظیم سمندر" قرار دیا جو 4 روایتی سمندروں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہاں رہنے والا سائبیرین قبیلہ کریکن اسے اپنی زبان میں "ڈھیروں پانی" کہتا تھا۔ بعد میں بوریات نے اس کا نام "قدرتی پانی" رکھا اور پھر یاکوت نے اسے "امیر جھیل" کہا۔ 17ویں صدی میں روس جب یہاں پہنچا تو یورپیوں کو اس جھیل کا علم ہوا۔ 1643 میں یہاں پہلا روسی مہم جو پہنچا۔

647 تا 682 یہ جھیل تانگ بادشاہت کے ماتحت علاقے کا حصہ رہی۔

روس کی سائبیریا کو فتح کرنے کی مہم کے دوران روس کا رقبہ جھیل کے اردگرد بورات علاقے میں 1628 تا 1658 تک پھیلا۔ پہلے یہ کام انگارا دریا کے بہاؤ کے اوپر کی سمت اور پھر لینا دریا کے جنوبی کنارے سے حرکت کرتے ہوئے پورا ہوا۔

1896 تا 1902 میں تعمیر ہونے والی ٹرانس سائبیرین ریلوے یہاں پہنچی۔ جھیل کے جنوب مغربی کنارے پر بنائی جانے والی اس خوبصورت گزرگاہ کی خاطر 200 پل اور 33 سرنگیں بنائی گئیں۔ تکمیل سے قبل ریل کاروں کو بذیعہ بحری جہاز آگے بھیجا جاتا رہا۔ 1918 میں یہاں چیکوسلواکیہ اور سرخ فوج کے درمیان یہاں مختصر جھڑپ ہوئی۔ سردیوں میں جھیل کی سطح جمنے کی وجہ سے یہاں پیدل سفر ممکن ہو جاتا تھا مگر فراسٹ بائٹ اور انتہائی سرد ہوا کا سامنا پھر بھی کرنا پڑتا تھا۔ 1956 میں انگارا دریا پر ارکُتسک ڈیم بنانے کی وجہ سے جھیل کی سطح میں تقریباً ڈیڑھ میٹر کا اضافہ ہوا۔

تحقیق

ترمیم

کئی ادارے جھیل پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ حکومتی ہیں تو کچھ حکومتی اداروں کے معاون ہیں۔ بیکالیان ریسرچ سینٹر یہاں ماحولیاتی، تعلیمی اور تحقیقی منصوبے آزادانہ حیثیت سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

جولائی 2008 میں روس نے یہاں میر اول اور میر دوم کے نام سے دو چھوٹی آبدوزیں بھیجیں جو 1،592 میٹر کی گہرائی میں اتر کر وہاں کے منفرد ماحول کا جائزہ لینے، جغرافیائی اور حیاتیاتی ٹیسٹ کرنے گئیں۔ یہ آبدوزیں 1،580 میٹر کی گہرائی تک پہنچ سکیں۔

1993 میں یہاں نیوٹرینو پر بھی تحقیق شروع ہو گئی ہے جو بیکال ڈیپ انڈرواٹر نیوٹرینو ٹیلیسکوپ کے ساتھ ہو رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے بیکال نیوٹرینو ٹیلیسکوپ NT-200 کو جھیل میں کنارے سے 6ء3 کلومیٹر دور اور 1ء1 کلومیٹر کی گہرائی پر لگایا گیا ہے اور اس میں 192 بصری حصے ہیں۔

معیشت

ترمیم

جھیل بیکال کو عرفِ عام میں سائبیریا کا موتی کہتے ہیں اور یہاں سیاحت اور توانائی کے سے متعلقہ آمدنی نے معاشی ترقی پیدا کی ہے۔ وکٹر گریگوروف کی کمپنی گرینڈ بیکال یہاں تین ہوٹل بنائے اور 570 مختلف نوعیت کی ملازمتیں پیدا کیں۔ 2007 میں حکومت نے بیکال کے علاقے کو خصوصی معاشی علاقہ قرار دیا۔ ہوٹل مائیک اس علاقے میں بننے والا ایک 7 منزلہ ہوٹل ہے۔ 1996 میں یونیسکو نے اس علاقے کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا۔ روس ایٹم جھیل کے قریب ایک لیبارٹری اور بین الاقوامی یورینیم پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی لاگت اڑھائی ارب ڈالر ہوگی اور 2،000 نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

جھیل بیکال دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ وفاقی روسی ادارہ شماریات کے مطابق 2013 میں یہاں 79،179 غیر ملکی سیاح آئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 1،46،937 ہو گئی۔ جھیل کی مقبولیت ہر سال بڑھ رہی ہے مگر سیاحتی سہولیات اس تناسب سے نہیں بڑھ رہیں۔

برف سے بننے والی سڑک جو اولکھن جزیرے کو جاتی ہے، اس جھیل پر واقع واحد قانونی برفانی سڑک ہے۔ 2015 میں یہ سڑک 17 فروری سے 23 مارچ تک کھلی رہی۔ اس سڑک پر برف کی موٹائی 60 سینٹی میٹر ہوتی ہے اور 10 ٹن سے زیادہ وزنی گاڑی کو اس پر گزرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ سڑک عوامی استعمال کے لیے صبح 9 سے شام 6 بجے تک کھلی رہتی ہے۔ اس کی کل لمبائی 12 کلومیٹر بنتی ہے۔

ماحولیاتی سیاحت

ترمیم

موسم کی مناسبت سے جھیل بیکال میں سیاحوں کے لیے مختلف سرگرمیاں دستیاب ہیں۔ عام طور پر جھیل بیکال میں سیاحت کے دو موسم ہیں۔ پہلا موسم برفانی ہے جو وسط جنوری سے وسط اپریل تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران برف کی موٹائی 140 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے اور برف پر عام گاڑیاں چل سکتی ہیں۔ اس طرح سیاح دلچسپی کے مختلف مقامات تک گاڑی کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

ایک میٹر موٹی برف شفاف ہوتی ہے اور اس دوران لوگ ہائیکنگ، برف پر چلتے، برف پر پھسلتے (آئس سکیٹنگ) اور سائیکل چلاتے ہیں۔ اولکھن جزیرے کے اردگرد 200 کلومیٹر کا برفانی راستہ ہوتا ہے۔ اس دوران بیکال سیل بھی دکھائی دے سکتی ہے۔ کچھ مقامی لوگ سیاحوں کو برف پر اپنے خیموں میں رات گزارنے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔

یہ برف وسط اپریل میں پگھلنے لگتی ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے اور زیرِ آب پانی کی گزرگاہیں بھی برف کو کمزور کر دیتی ہیں۔ ہر سال روس میں کئی افراد کمزور برف میں گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سابق یوکرائنی صدر وکٹر یانوکووچ کا بیٹا وکٹر وکٹرووچ یانوکووچ 2015 میں یہاں گاڑی چلاتے ہوئے گاڑی سمیت برف ٹوٹنے سے پانی میں گر کر جاں بحق ہوا۔

دوسرا سیاحتی موسم گرمیوں میں آتا ہے جب سیاح بیکال کے فطری ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے دو مشہور راستے بھی کھل جاتے ہیں جو دو پہاڑی سلسلوں سے گزرتے ہیں۔ پہلا سلسلہ جھیل کے مغربی کنارے پر واقع بیکال سلسلہ کوہ جبکہ دوسرا مشرقی کنارے پر برگوزن سلسلہ کوہ ہے۔

پرندوں کے مشاہدے، جانوروں کے مشاہدے اور مچھلی پکڑنے کے لیے جھیل میں چھوٹی کشتیاں دستیاب رہتی ہیں۔ زیادہ تر جگہوں پر پانی کافی سرد رہتا ہے مگر چند خلیج نما جگہوں پر اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ سیاح آسانی سے تیر سکتے ہیں۔

بیکال میں روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے سیاح ہمیشہ سے آتے رہے ہیں اور اب یورپ اور چین سے بھی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماحولیاتی مسائل

ترمیم

ماحولیاتی کارکنوں نے جھیل بیکال میں آلودگی کے بارے پہلے بھی ذکر کیا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے کائی بڑھ رہی ہے، اومل نسل کی مقامی مچھلی غائب ہو رہی ہے اور مقامی اسفنج بھی مر رہی ہیں۔ اندازہ ہے کہ 2010 سے اب تک 15،000 ٹن سے زیادہ زہریلا آلودہ مادہ جھیل میں پھینکا گیا ہے۔

بیکالسک گودے اور کاغذ کی مل

ترمیم

1966 میں بیکالسک پلپ اینڈ پیپر مل جھیل کنارے بنائی گئی۔ یہ مل کاغذ کا رنگ صاف کرنے کے لیے کلورین کو استعمال کرتی اور آلودہ مواد براہ راست جھیل میں پھینکتی تھی۔ سائنس دانوں نے اس پر سخت احتجاج کیا کہ اس جھیل کے صاف پانی کو سائنسی اور دیگر استعمال کے لیے مخصوص رکھنا چاہیے اور آلودہ مواد کو یہاں پھینکنے کی اجازت نہ ہو۔ کئی دہائیوں کے احتجاج کے بعد نومبر 2008 میں خسارے کے باعث اس مل کو بند کر دیا گیا۔

4 جنوری 2010 کو مل نے دوبارہ کام شروع کیا اور روسی صدر ولادمیر پوٹن نے آبدوز میں بیٹھ کر جھیل کا معائنہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ جھیل میں آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ 28 دسمبر 2013 کو اس مل نے پھر خسارے کے باعث کام چھوڑ دیا اور دیوالیہ پن کا اعلان کیا۔ 800 سے زیادہ کارکنوں کی ملازمت ختم ہو گئی۔ اس مل کا آلودہ پانی کا ذخیرہ ابھی بھی ماحولیاتی خطرہ ہے۔

مشرقی سائبیریا تا بحرالکاہل منسوخ شدہ تیل کی لائن

ترمیم

روسی تیل کمپنی ٹرانس نیفٹ نے مشرقی سائبیریا سے بحرالکاہل تک تیل کی پائپ لائن بنانے کا اعلان کیا جو جھیل سے 800 میٹر دوری سے گزرنی تھی اور اس جگہ ارضیاتی اعتبار سے زلزلوں کا امکان رہتا ہے۔ عوامی احتجاج کے بعد روسی صدر ولادمیر پوٹن نے حکم جاری کیا کہ اس پائپ لائن کو جھیل 40 کلومیٹر دور رکھا جائے۔ ٹرانس نیفٹ نے منصوبے میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں کہ اب یہ پائپ لائن کسی وفاقی یا عوامی نیچرل ریزرو سے نہیں گذرے گی۔ جب روسی صدر نے نئے منصوبے کی منظوری دی تو دو دن بعد اس پر کام شروع ہو گیا۔

مجوزہ یورینیم افزودگی مرکز

ترمیم

2006 میں روسی حکومت نے دنیا کا پہلا بین الاقوامی یورینیم افزودگی کا مرکز بنانے کا اعلان کیا جو انگارسک کے موجودہ ایٹمی مرکز میں بنایا جانا تھا۔

انگارسک شہر دریائے انگارا پر جھیل سے 95 کلومیٹر نیچے کی سمت واقع ہے۔ یہ مرکز 2010 کی دہائی میں تعمیر ہوا۔

چینی باٹلڈ واٹر پلانٹ

ترمیم

چینی ملکیتی ایکوا سب نے جھیل کنارے زمین خریدی اور کُلتُک کے قصبے تک پائپ لائن بچھانے اور پانی کو بوتلوں میں بھرنے کا کارخانہ بنانا شروع کیا۔ اگرچہ جھیل کا پانی کم ہو رہا تھا مگر پھر بھی سالانہ 19 کروڑ لیٹر پانی چین بھیجنے کا منصوبہ تھا۔ عوامی احتجاج کے بعد مقامی حکومت نے جانچ پڑتال تک اس منصوبے پر کام روک دیا۔

زمین کے انتہائی مقامات

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت "A new bathymetric map of Lake Baikal. MORPHOMETRIC DATA. INTAS Project 99-1669.Ghent University, Ghent, Belgium; Consolidated Research Group on Marine Geosciences (CRG-MG), University of Barcelona, Spain; Limnological Institute of the Siberian Division of the Russian Academy of Sciences, Irkutsk, Russian Federation; State Science Research Navigation-Hydrographic Institute of the Ministry of Defense, St.Petersburg, Russian Federation"۔ Ghent University, Ghent, Belgium۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2009 
  2. M.A. Grachev۔ "On the present state of the ecological system of lake Baikal"۔ Lymnological Institute, Siberian Division of the Russian Academy of Sciences۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2009