ترچھا متن

یورپ میں اسلام
  <۱%
  %۱-%۲ (اٹلی، ناروے، یونان)
  %۳-%۴ (جرمنی، سویڈن، سربیا)
  %۵-%۱۰ (ہالینڈ، فرانس)
  %۶۰-%۸۰ (البانیہ)
  %۸۰-%۹۵ (کوسوو)
  >%۹۵ (ترکی)

اسلام 2001ء کی مردم شماری میں آسٹریا کی کل آبادی کا 4.22 فیصد ہے۔ دیگر ابنائے وطن میں کاتھولک (73.6٪)، لادینی (12 فیصد) اور پروٹسٹنٹ (4.7٪) ہیں۔ 8032926 افراد کی رہائشی آبادی میں آسٹریا میں تقریباً 338988 مسلمان موجود ہیں۔

1971ء میں آسٹریا کی آبادی کا صرف 0.3 فیصد مسلمانوں پر سرکاری طور پر درج کیا گیا تھا۔ 1981ء میں صرف 158776 کے مسلمانوں کو سروے (آبادی کا 2 فیصد) میں شمار کیا گیا تھا۔ 10 سال کے اندر آسٹریا میں مسلمانوں کی دگنی تعداد ترکی سے آنے والوں کی جانب سے ان کے مذہب کے بارے میں مردم شماری میں صحیح بیان دینے سے ہوئی ہے۔

دوسرے ممالک کے تارکین وطن

ترمیم
قوم تعداد ماخذ
ترک 500,000+ [1]
بوسنیائی 128,047 [2]
افغان 31,300
کرد 26,770
چچنیائی 25,000 [3]
ایرانی 12,452
عرب 12,100
پاکستانی 8,490

آسٹریا کی مساجد

ترمیم
 
آسٹریا کی ایک مسجد

آسٹریا کی قدیم ترین مسجد 1887ء فوجی خدمت میں شامل مسلمانوں کی سہولت کے لیے آسٹریائی حکومت کی جانب سے ویانا میں بنائی گئی تھی۔ اس وقت ملک میں 200 سے زائد مساجد ہیں۔[4]

اسلام کا تسلیم شدہ موقف

ترمیم

آسٹریا میں اسلام گذشتہ سو سالوں سے سرکاری طور پر ایک تسلیم شدہ مذہب ہے۔ تاہم یہاں کے زیادہ تر عوام ایک اور تاریخی واقعے کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ یہ واقعہ سنہ 1683ء میں ویانا کا محاصرہ ہے، جب مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کی مسیحیوں کے زیرِ تسلط یورپ کی جانب پیش قدمی روک دی گئی تھی۔ حالیہ چند برس میں آسٹریا کے انتہائی دائیں بازوں کے خیالات کے حامی سیاست دانوں کے اسلام مخالف بیانات شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔[5]

2015ء سے اسلام مخالف جرمن تنظیم پیگیڈا کے حامیوں نے مسلمانوں اور ان کے مذہب کے خلاف ریلیاں نکالنا شروع کیا۔ ویانا میں نکالی جانے والی ان کی ریلیوں میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی اور ان میں سے بعض نے نازی سیلوٹ بھی کیا۔ پیگیڈا جرمنی کے سیاسی محاذ پر قدرے نئی ہے جبکہ آسٹریا میں دائیں بازو کی سخت گیر جماعت ’فریڈم پارٹی‘ برسہا برس سے ’اینٹی امیگریشن‘ اور ’اینٹی اسلامائیزیشن‘ کے پلیٹ فارم سے تحریک چلا رہی ہے۔[6] اس طرح مسلمانوں کی تعداد کے اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی مخالفت کرنے والے حلقے بھی آسٹریا میں بڑھ رہے ہیں۔

سنہ 2018ء میں چانسلر سیباسٹین کرٹز نے اعلان کیا کہ آسٹریا ترکی کی امداد سے چلنے والی سات مسجدوں کو بند اور چالیس اماموں کو ملک بدر کر رہا ہے۔ ان مساجد کو ترکی کی نظامت برائے مذہبی امور (مختصراً دیانت) کے ذریعہ امداد ملتی تھی۔ چانسلر نے اس بندش کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اقدام کے ذریعہ سیاسی اسلام کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ اس اعلان میں مزید کہا گیا کہ آسٹریا کے معاشرے میں اسلامیت، انتہا پسندی اور متوازی معاشروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔[7][8]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2015 
  2. Bosnian Austrians
  3. Refworld | Continuing Human Rights Abuses Force Chechens to Flee to Europe
  4. Islam in Austria - Euro-Islam: News and Analysis on Islam in Europe and North America
  5. BBC Urdu - آس پاس - آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب
  6. آسٹریا میں اسلام مخالف تنظیم کا پہلا مظاہرہ - BBC News اردو
  7. SVT Nyheter (2018-06-08)۔ "Österrike stänger sju moskéer"۔ SVT Nyheter (بزبان سویڈش)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2018 
  8. "آسٹریا ترکی کی امداد سے چلنے والی سات مسجدوں کو مقفل اور ان کے اماموں کو ملک بدر کر رہا ہے"۔ نیویارک ٹائمز (بزبان انگریزی)۔ 2018-06-08۔ ISSN 0362-4331۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2018