سقوط حیدرآباد
آپریشن پولو، جو ایک “کوڈ“ نام دیا گیا تھا حیدرآباد اسٹیٹ پر "پولیس ایکشن" کا۔[5][6] ستمبر 1948ء میں بھارتی افواج کا ایک ملٹری ایکشن تھا جس کا مقصد آصف جاہی سلطنت کو ختم کرکے حیدرآباد ریاست کو “انڈین یونین “ میں شامل کرنا تھا۔
آپریشن پولو Operation Polo - 1948 | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
ریاست حیدرآباد 1909ء (بغیر برار). | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
ڈومنین بھارت | حیدرآباد | ||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
سردار پٹیل رائے بچر جویانتو ناتھ چودہری |
سید احمد العیدروس قاسم رضوی | ||||||
طاقت | |||||||
35,000 بھارتی مسلح افواج |
22,000 ریاست حیدرآباد افواج اندازہ 200,000 رضاکار (بے قاعدہ افواج)[حوالہ درکار] | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
32 ہلاک[1] 97 زخمی |
ریاست حیدرآباد افواج:807 ہلاک نامعلوم زخمی 1647 جنگی قیدی[2] رضاکار: 1,373 ہلاک, 1,911 گرفتار[2] | ||||||
سرکاری: 27,000 - 40,000 شہری ہلاک[3] عالمانہ تخمینہ: 200,000 شہری ہلاک[4] |
تاریخ
ترمیمریاستِ حیدرآباد دکن جس کا جغرافیائ نقشہ ہر دور میں بدلتا رہا 17ستمبر 1948ء تک جب ہندوستانی فوجوں نے نظام کی حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت تک بھی ایک عظیم رقبہ پر پھیلا ہوا 86ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھا۔ 1923ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب' افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوش حالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔۔ لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لیے " مدینہ بلڈنگ " کے نام سے شان دار عمارتیں جو آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لیے وقف تھیں جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لیے رباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوادی تھیں۔ ریاستِ حیدرآباد جس کی تاریخ 13ویں صدی کے آخر میں علأ الدین خلجی کی آمد سے شروع ہو کر بہمنی' شاہی اور آصفجاہی دور تک بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے۔ موجودہ حیدرآباد تقریباً دو ہزار مربع میل پر مشتمل ایک شہر ہے جس کے باقی حصے ریاستِ آندھرا پردیش' کرناٹک اور مہا راشٹرا میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ریاستٓ حیدرآباد کی خصوصیت تھی کہ یہ ہمیشہ امن و آشتی کا علمبردار ' ہندو مسلم یکجہتی کی مثال اور علم و ادب نوازی کی ایک ایسی مثال تھا جس کو دنیا تمام کے علمأ و دانشور مفکرین و مورخین نے آکر اپنی خدمات سے مزید چار چاند لگائے۔[7]
ریاستِ حیدرآباد کا قیام
ترمیمجس وقت نادر شاہ کی فوجوں نے دہلی میں آخری مرد کو تک ختم کر دینے کا تہیہ کر لیا تھا ایک سفید ریش بزرگ فخر الدین خان نظام الملک جن کے دادا خواجہ عابد نے اورنگ زیب سے اپنی شجاعت کے انعام میں خلیج خان کا خطاب حاصل کیا تھا'نادر شاہ کے قدموں میں اپنی پگڑی رکھ کر انسانیت پر رحم کی درخواست کی تھی۔ نادر شاہ نے اس بزرگ کا احترام کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو واپسی کا حکم دیااور قمر الدین علی خان دکن کے صوبہ دار کی حیثیت سے دکن میں آصفجاہی خاندانِ نظام کی بنیاد رکھی جس وقت 1748ء میں ان کا انتقال ہوا اس وقت ریاستِ حیدرآباد نربدا سے ترچنا پلی تک اور کوکن سے مدراس تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد انگریز اور فرانسیسی حکومتوں نے اپنے داخلے کی کوششیں شروع کر دیں اور انھی کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں بعد کے جانشینوں میں قتل و بغاوت کے ذریعۂ تخت کے لیے رسہ کشی جاری رہی انگریز کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کی سازشوں نے 1948ء تک بھی خاتمہ ریاست تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور ریاستِ حیدرآباد کی سرحد میں ہر دور میں سکڑتی رہیں۔
انجام
ترمیمریاست حیدرآباد کا بالاخر ہندوستان میں شامل ہونا ایک منطقی اور فطری امر تھا جس کے اسباب کئی تھے۔ مثلاً یہ کہ ہندوستان کے نقشے پر حیدرآباد کی ریاست ایسے مقام پر تھی جس کے چاروں طرف جمہوری آزاد ہندوستان کی سرحدیں تھیں۔ دوسرے یہ کہ انقلاباتِ زمانہ نے عوام کے ذہنوں میں ساری دنیا میں ہی ایک جمہوری شعور بیدار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں عوام کی اتنی بڑی تعداد کا چاہے وہ مسلمان ہوں کہ ہندو ایک بادشاہ کے ساری عمر زیرِ حکومت رہنا ممکن نہیں تھا۔ تیسرے یہ کہ کسی اسٹیٹ کی بقا کے لیے اس کے بین لاقوامی رابطے صرف بندر گاہوں یا ایر پورٹس پر منحصر ہوتے ہیں جو موجود نہیں تھے نہ دفاعی ساز و سامان تھے نہ فوج اور چوتھے یہ کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندوستانی عوام نے لاکھوں کی تعداد میں اپنی جان و مال کی قربانیاں دی تھیں جنگِ آزادی کے طویل مرحلے میں مبتلأ ہوئے بغیر انگریز سے آزادی حاصل کر لینا اور قربانیاں دینے والے ہندوستان کے مساوی ملک کا درجہ حاصل کر لینا نہ تو اصولی طور پر ممکن تھا اور نہ عملی طور پر۔ ان وجوہات کی بنأ حیدرآباد کا ہندوستان میں شامل ہو جانا یا شامل کر لیا جانا ایک لازمی امر تھا جو بالاخر ہونا تھا لیکن اگریہ کام عوامی شعور کو بیدار کر کے پُر امن طور پر سامنے آتا تو شائد تاریخ کا شاندار کارنامہ ہوتا لیکن بد قسمتی سے جن حالات میں سقوطِ حیدرآباد ہوا وہ نہ صرف مسلمانوں کی بد نصیبی کی تاریخ کا ایک المیہ ہے بلکہ خود ہندوستان کی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے جس کی ذمہ دار ایک طرف وہ ہندوستانی لیڈرشپ تھی جو تعصب اور نفرت کے ذریعۂ حیدرآباد کو بحیثیت ایک مسلم اسٹیٹ کے ختم کرنے کے در پئے تھی تو دوسری طرف وہ مسلمان قیادت تھی جو تعصب کا جواب تعصب اور نفرت کا جواب سے دینے کے جذباتی رویہ ٔ پر کھڑی تھی تیسری طرف سخی و عوام پرور نظام تھے جن کی سیاست نا عاقبت اندیشی اور خام خیالی پر مبنی تھی۔ بقول ابوالاعلی مودودی کے جنھوں نے سقوطِ حیدرآباد سے 9ماہ قبل قاسم رضوی کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ " نظام کی حکومت ریت کی ایک دیوار ہے جس کا ڈھ جانا یقینی ہے رئس اپنی جان و املاک بچا لے جائگا اور عوام پس جائنگے ان حالات سے قبل ہر قسم کے تصادم کو روکا جائے اور ہر قیمت ہندوستان سے پر امن سمجھوتہ کر لیا جائے " ( حوالہ ' زوالِ حیدرآباد کی ان کہی داستان ' از مشتاق احمد خان لاہور ) لیکن افسوس کہ یہ خط قاسم رضوی صاحب نے جوش میں پھاڑ دیا جو اس وقت کی مسلمان قیادت کی سوچ' فکر و دانش کا رخ کے تعین میں ایک اہم ثبوت ہے۔ اگرچیکہ امت کو نواب بہادر یار جنگ کی صورت میں ایک بار پھر تاریخ کو دہرانے والا انسان مل گیا تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا ان کو زہر دیکر شہید کر دیا گیا۔ آخری صدرِ اعظم لائق علی خان اپنی کتاب دی ٹریجڈی آف حیدرآباد میں لکھتے ہیں کہ " نواب بہادر یار جنگ کی موت پر اگر کسی کو خوشی ہوئی تو وہ نظام تھے۔ قائدِ ملت نواب بہادر یار جنگ کے انتقال کے بعد مسلمان قیادت کی امیدوں کا آخری چراغ گُل ہو گیا اور ملت کی کشتی مسلسل ڈوبتی رہی۔ نواب میر عثمان علی خان جن افراد کے درمیان تھے ان کی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 13سپٹمبر 1948ء کو ہندوستان کے پولیس ایکشن کے ساتھ ہی سب سے پہلے عثمان آباد میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کی خبر نظام تک پہنچی تو ان الفاظ میں کہ " سرکار قاتلانِ حسین پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے "۔ ( حوالہ " زوالِ حیدرآباد " مظہر علی خان حیدرآباد )۔ مختصر یہ کہ مسلمان قیادت کا یہ ایک ایسا منظر تھا دوسری طرف جبکہ کانگریس پرریاستِ حیدرآباد میں امتناع عائد تھا اس کی مدد سے اسٹیٹ کانگریس' ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج تحریک نے شورش برپا کرنے بیرونِ ریاست ہندوؤں پر مظالم کی فرضی داستانیں پیش کر کے ریاست کے خلاف قومی اور بین الاقوامی رائے ہموار کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اگرچیکہ ان سازشوں کو ہندو مسلم عوام کا تعاون حاصل نہ ہو سکا لیکن حکومت کی خاموشی نے فرقہ واریت کے زہر کے پھیلنے میں مدد کی اور رفتہ رفتہ فسادات ہونے لگے۔ لاتور کا فساد حیدرآباد کی تاریخ میں اہم فساد اور فرقہ پرستوں کے لیے پہلی بڑی کامیابی کی شکل میں سامنے آیا جس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب سے ایک تنظیم " انجمن دفاع المسلمین " کے نام سے قائم کی گئی جس کا بعد میں مجلس اتحاد المسلمین نام پڑا۔ اس تنظیم کے دستور سازوں نے روزِ اول سے ہی حیدرآباد کے درد ناک انجام کی بنیاد ڈالی۔ اس کے دستور کی سطرِ اول میں جو موقف پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ " مسلمانانِ مملکتِ آصفیہ کی یہ حیثیت ہمیشہ برقرار رہے کہ فرمانروائے ملک کی ذات اور تخت انھی کی جماعت کے سیاسی اقتدار کا مظہر ہے۔ اس بنا پر مملکت کی ہر دستوری ترمیم میں فرمانروا کے اقتدارِ شاہانہ کی بقا و احترام مقدم رہے "۔ ( حوالہ مولانا مظہر علی کامل سابق صدر اتحاد المسلمین روزنامہ جنگ 14اگست 1982ء )۔ یہ نقطہ ٔ نظر مسلمانوں کی سیاسی خودکشی کا آغاز بنا اس لیے کہ " مسلمان اقلئت میں تھے جو سیاسی برتری انھیں حاصل تھی وہ آبادی کی بنا پر نہیں بلکہ خاندانِ آصفیہ کی فرمانروائی اور اقتدار کی رہی نِ منت تھی جس کے در پردہ انگریز کی مستقل غلامی کا اقرار بلکہ عہد تھا"۔
1939ء میں تلنگانہ کے علاقے میں کمیونسٹ تحریک نے جنم لیا جن کے قائدین میں مخدوم محی الدین جیسے رہنما و شاعر شامل تھے۔ ایک عرصہ تک یہ تنظیم کانگریس اور رضاکاروں کے درمیان ایک سمجھوتے کا راستہ نظر آئی لیکن بد قسمتی سے جلد ہی فرقہ پرست تنظیموں کا آلۂ کار بن کر رہ گئی اور بجائے حیدرآباد کی آزادی اور ہندوستان میں شمولیت کا پُر امن راستہ اختیار کرتی مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ بن گئی۔ کانگریس کے صدر راما نند تیرتھ نے اس کی مال اور ہتھیار سے مدد کی۔ رضا کار قدیم اسلحہ جیسے بھر مار بندوقوں ' لاٹھیوں اور تلواروں سے لیس تھے جب کہ فرقہ پرست کارندے جدید اسلحہ کے ساتھ تربیت یافتہ سابق فوجیوں پر مشتمل تھے۔ اگر چیکہ دونوں فریق ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیے ہوئے تھے لیکن فرقہ پرست ہمیشہ ایسے نشانوں پر حملہ کرتے ' قتل و غارت گری مچاتے جہاں رضاکار پہنچتے پہنچتے گھنٹوں بلکہ دن لگا دیتے نتیجہ میں فرقہ پرست اپنا کام کر کے فرار ہو چکے ہوتے اور رضاکار اپنے خونیں انتقام میں ان باقی ماندہ ہندوؤں سے بدلہ چکاتے تو جو اس قضیہ میں بے گناہ ہوتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ ان بے گناہوں کے ساتھ جو کچھ پھر بدلہ کی شکل میں پیش آتا اس کی ہندوستانی پریس میں تشہیر ہوتی ا ور ہندوستانی عوام اور فوج کے دلوں میں حیدرآباد کے ہندوؤں کی تائد میں انتقام کے شعلے بھڑک اٹھتے ۔[7] فی الحقیقت حیدرآباد اور ہندوستان دونوں کی قیادتیں اپنے اپنے مقاصد سے خلوص رکھتی تھیں حیدرآباد یہ چاہتا تھا کہ ایک با وقار سمجھوتے کے ذریعہ ٔ فیصلہ ہو اور ہندوستان یہ چاہتا تھا کہ حیدرآباد مشروط طور پر بغیر کسی مراعات کا مطالبہ کرے ' الحاق کرے۔ نہرو اور سردار پٹیل کی دور اندیش نگاہیں کسی اسٹیٹ کو مراعات دے کر حاصل کرنے کے وہ نتائج دیکھ رہی تھیں جو آج کشمیر میں پیش آ رہے ہیں۔ دونوں جانب سے اپنی اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رہا۔ نظام آخری وقت تک بھی لارڈ ماؤنٹ بیاٹن سے حیدرآباد میں ملاقات چاہتے تھے۔ آخری صدرِ اعظم ( وزیرِ اعظم کے لیے صدرِ اعظم کی اصطلاح رائج تھی)۔ میر لائق علیکی مئی 1948ء میں دہلی میں جواہر لعل نہرو سے ملاقاتیں اور اس سے قبل کی مراسلت اور نظام کا جنرل چودھری سے اگریمنٹ یہ کام کے مطالعہ سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ حکومتِ حیدرآباد با وقار سمجھوتے کے ذریعۂ مسلۂ کا حل چاہتی تھی کیونکہ فوجی اعتبار سے پہلے سے ہی بے بس و بے یار و مددگار تھی دوسری طرف ہندوستان کی جانب سے مکمل معاشی Blockade ہو چکا تھا غذائی اجناس ' دوائں و پوسٹ و ٹیلیگراف وغیرہ سب کچھ ہندوستانی بندرگاہوں پر روک دیا گیا تھا حیدرآباد میں داخل ہونے والوں کے لیے ہندوستان کا ویزا حاصل کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ان حالات میں حیدرآباد کا آزادی کا مطالبہ کرنا اور منوانا خارج از امکان تھا۔
دوسری طرف جو مصلحت کار فرما تھی وہی آج الجیریا' مصر ' بوسنیا اور پنجاب وغیرہ میں نمایاں ہے کہ کمزور کا صفایا کرنے کے لیے اس کو تصادم پر مجبور کر دیا جا تا ہے تاکہ ظالم ہونے کا الزام سر پر نہ آئے اس کے لیے پریس پروپگنڈہ بنیاد پرستی جیسی اصطلاحیں (Arms Embargo , TADA, EITA,) جیسے قوانین کے ذریعئے مظلوم کو ظالم بنا کر قومی اور بین الاقوامی رائے کو ظالم کے حق میں ہموار کر دیا جاتا ہے یہی کچھ حیدرآباد میں ہوا۔ رضاکار تنظیم جو حقیقت میں فرقہ پرستی کے مقابلے میں وجود میں آئی تھی اس کو بہانہ بنایا گیا۔ یہ گروہ آزاد نوجوان پر مشتمل تھا جو حکومت سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا۔ اس کو بہانہ بنا کر پورے حیدرآباد کو رضاکار تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا اس کے قائدین کی شعلہ بیا نی ہر دور میں بلند رہی جو موافقین کے لیے جذباتیت کا سامان پیدا کرتی ہے اور مخالف کے لیے دھمکی کا خوف طاری کر دیتی ہے۔ اس وقت کے نازک حالات میں رضاکار قائدین کی تقریروں نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ 6 اپریل 1948ء کو ہندوستان ٹائمز میں ایک فتنہ انگیز خبر شائع ہوئی کہ قاسم رضوی نے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا عزم کیا ہے۔ اتحادالمسلمین نے تردید کی کہ اس قسم کی تقریر سرے سے ہوئی ہی نہیں لیکن تیر نکل چکا تھا جو اپنا کام کر گیا اور جواہر لعل نہرو کو پولیس ایکشن کا جواز مل گیا۔ 24 اپریل کو انھوں نے آل انڈیا کانگریس اجلاس میں انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ حیدرآباد ہندوستان کے سینے پر ایک نا سور ہے اور الٹی میٹم دیا کہ الحاق یا جنگ دونوں میں سے کسی ایک کے لیے حیدرآباد تیار ہو جائے۔ سردار پٹیل نے اتحاد المسلمین کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا اور ایک آزاد اسمبلی کے قیام کے لیے بھی سفارش کی۔
ہندوستان کا سخت گیر رویہ اس وقت کے کشمیر کے حالات کو بغور مطالعہ کر نے پر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ آزادی کے ایک سال کے اندر ہی 1948ء میں پاکستان سے جنگ چھڑ گئی حیدرآباد کو مراعات دے کر سمجھوتہ کرنے میں اس کو بھی پاکستان کی وہی پشت پناہی حاصل تھی جس سے خود ہندوستان 'پاکستان و کشمیر تینوں کو جو نقصانات ہوئے اور نصف صدی سے جاری ہیں اسباب حیدرآباد کے خلاف سخت گیر سلوک کو justify کرتے ہیں۔
پولیس ایکشن یا آپریشن پولو
ترمیم1947 تا 1948ء ایک سال تک Stands till agreement کے ذریعۂ حیدرآباد پر ایکشن روکا گیا جس کی اہم وجہ یہ تھی کشمیری محاذ پر ہندوستانی فوجیں برسرِ پیکار تھیں اور حیدرآباد اور کشمیر دونوں کے کیسس اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں شامل تھے اس لیے مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ حیدرآباد کے مسلیے کو ابھی اور مضبوط ہونے تک کسی قسم کی جنگ یا ایکشن سے گریز کیا جاے۔ ٔ اس دوران نظام نے ریاستِ نو پاکستان کو لاکھوں روپئے کی مدد کی اور اور اس کے قیام میں اہم رول ادا کیا مگر بحرحال اتنی رقم تو وہ دے نہیں سکتے تھے جو انگریزوں پر لٹا چکے تھے پر افسوس کہ نظام کی تقدیر میں یہی رہا کہ وہ جس پر اپنا مال لٹاتے وہ انھیں بچانے میں ناکام ہوتا۔ اس دوران نظام جن غلطیوں کا مسلسل ارتکاب کرتے رہے اس کا خمیازہ ناقابلِ اندازہ تھا جنرل ایدروس کا تقرر ' مرزا اسمعیل کا وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب جن کی آمد کے ساتھ ہی نواب علی یاور جنگ اور زین یار جنگ جیسے غیر حیدرآبادی متعصب انسانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ نظام ایک طرف تو رضاکاروں سے حکومت کی برأت کا حکومتِ ہند کے سامنے اظہار کرتے رہے اور دوسری طرف 6 مئی 1947ء کوانہوں نے اپنی سالگرہ کے جشن میں جو رضاکاروں کی طرف سے منایا گیا ہزاروں رضاکار نوجوانوں کو پریڈ کرنے کی اجازت دی۔ اب تصویروں کے ذریعہ ٔ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں تشہیر ہوئی کہ نظام اور رضاکار ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ حالانکہ افتضائے حقیقت ایسی نہیں تھی نظام ہندو سے زیادہ رضاکاروں سے مشکوک رہے۔ جب stand still اکریمنٹ پر ایمان داری سے عمل جاری نہ رہ سکا ہندوستان مسلسل حیدرآباد پر اگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا رہا اور نظام ہندوستان پر الزام لگاتے رہے حل کی نہ کوئی صورت تھی نہ کوئی ایسی شخصیت جو سمجھوتے کی راہ پیدا کر سکے۔ مہاتما گاندھی ایک قیمتی شخصیت تھے جو حیدرآبادی کانگریسی رہنماؤں کی امیدوں کا مرکز تھے لیکن سردار پٹیل کے ایما پر ان کو بھی انسانیت دوستی کے نتیجے میں گولی مار دی گئی ( حوالہ بلٹز The top 10 assassinations نومبر 1976) حیدرآباد کی سخت ترین معاشی ناکہ بندی ہو چکی تھی ذرایعٔ حمل و نقل کے ساتھ ہی تیل پٹرول اور پینے کے پانی کے لیے کلورین بند ہو گئے شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔ دواؤں کا سلسلہ بہت پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔ فوجی چھیڑ چھاڑ کے واقعات شروع ہو گئے عثمان آباد کی چوکھی پر حیدرآباد کی ایمیگریشن اور ہندوستانی فوجیوں کی جنگ میں بے شمار افرادہلاک ہوئے۔ راست حملے کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات اور پاکستان کے کود پڑنے کا خطرہ تھا لیکن میجر جنرل چودھری کی My Secret Diary کے بموجب فروری 1948 ء میں منصوبہ کو قطیعت دے دی گئی۔ فوجی کارروائی کا نام " أپریشن پولو " رکھا گیا۔ نظام کے خاندان کی تذلیل کے لیے یہ نام چنا گیا تھا۔ کیونکہ آصفجاہی شاہزادے اور اُمرأ پولو کھیل کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ ماہر بھی تھے۔ ہزاروں روپیوں کی شرطیں بھی لگائی جاتیں۔ جنرل چودھری اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ" 11 ستمبر 1948ء کو محمد علی جناح کا انتقال کر جانا افسروں اور جوانوں کے لیے ایک فالِ نیک ثابت ہوا۔ گاندھی جی پہلے ہی راستہ سے ہٹ چکے تھے۔ اب جناح بھی نہ رہے حملے کی زبردست تیاریاں شروع ہو گئں۔ ادھر لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نظام کو یقین دلا رہے تھے کہ نہرو حکومت ان کی اچھی طرح حفاظت کرے گی جبکہ نظام کی حیدرآبادی ناکہ بندی کے خاتمہ کی درخواست مسلسل حیلے بہانوں سے ٹالی جا رہی تھی۔ 13 ستمبر کو 4.30 بجے حیدرآباد کی 22 سمتوں سے ہندوستانی فوج داخل ہوئی اور شولا پور کی طرف سے اور دوسرے بیرہ واڑی کی طرف سے سخت ترین حملے رہے۔ حیدرآبادی فوجیں مسلسل پسپا ہوتی رہیں جس کے اکثر کمانڈر مسلمان تھے۔ چار دن تک مسلسل ہزا رہا مسلمانوں کے مرنے کی اطلاعات آتی رہیں ورنگل' بیدر اور اورنگ آباد پر اندھدھند بمباری کے ذریعئے لاکھوں انسان خاک میں مل گئے یا پھر بے گھر ہو گئے۔ 16 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں یہ معاملہ پیش آنے والا تھا اور آیا بھی لیکن ہندوستان نے اس کو نظام حکومت میں چند فرقہ پرست افراد کے خلاف ایک پولیس ایکشن کا نام دے کر مزید وقت لے لیا۔ عجیب پولیس ایکشن تھا جنرل چودھری کی ڈائری کی تفصیلات کے بموجب پولیس کب نفری حسبِ ذیل تھی۔ 1)۔ ایک بکتر بند برگیڈ جس میں پونا ہارس تیسری کویلری اور سترویں ڈوگرا رجمنٹ کی نویں بٹالین شامل تھی۔ 2)تین انفانٹری بٹالین کی تین رجمنٹیں۔ 3)فیلڈ آرٹیلری کی تین رجمنٹ۔ 4)Anti tank رجمنٹ۔ 5)18th کویلری کا ایک ٹروپ۔ 6)بکتر بند ڈویزن معہ ایک بکتر بند برگیڈ۔ 7)170شرمن ٹینک۔
دوسری طرف جو فوج سامنے تھی اس کو ختم کرنے کے لیے چار گھنٹے کافی تھے۔ لیکن چار دن میں ہتھیار ڈال چکی تھی۔ Stand Still Agreement کی وجہ سے امریکا اور سعودی عرب وغیرہ تمام ممالک حیدرآباد کے معاملے پر ٓگے بڑھنے سے انکار کر چکے تھے۔ 17 ستمبر کو جنرل چودھری نے حیدرآباد کے فتح ہوجانے کی دہلی کو اطلاع دے دی۔ نظام کی معیت میں ریڈیو اسٹیشن پہنچ کر انھوں نے نظام سے ایک ہی لکھا ہوا اعلان پڑھوایا کہ وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔ 17 اور 18 ستمبر کی شب وحشیوں کی عید کی رات تھی جہاں کوئی مسلمان نظر آتا ختم کر دیا جاتا۔ کمیونسٹوں ' آریہ سماج اور ہندو مہا سبھا کے کارندوں نے فوجیوں کو ایک ایک مسلمان کے گھر اور مال کی نشان دہی کروائی۔ جی بھر کر لوٹا۔ عورتیں بے عصمت ہوئں۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ آج بھی حیدرآباد کے لوگ اس ظلم کے حوالے سے ستمبر کو ستم کا مہینہ کہتے ہیں۔ موسی ندی میں اتنی لاشیں پھینکیں گئیں کہ اس کا پانی سرخ ہو گیا۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کی تفصیل سروجنی نائڈو اور مہاتما گاندھی کے نواسے گانڈھی جیسے ایماندار کانگریسیوں نے بیان کی ہے کہیں ان کی رپورٹیں آج بھی منوں بھر فائلوں کے نیچے پڑی ہوں گی۔ جنرل چودھری لائق علی وزارت کی برطرفی اور لائق علی سمیت تمام وزرأ ' قاسم رضوی ' قائدینِ مجلس اتحاد المسلمین رضاکاران کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پرنس آف برائر جن کو لائق علی کے بعد وزارت کی تشکیل کا خواب دکھایا گیا تھا نشہ میں مخمور جنرل چودھری کے سامنے وزارت کی تشکیل کی دعوت کے انتظار میں جھک کر کھڑے تھے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ http://indianarmy.nic.in - Official Indian army website complete Roll of Honor of Indian KIA
- ^ ا ب
- ↑ Thomson, Mike (September 24, 2013)۔ "Hyderabad 1948: India's hidden massacre"۔ BBC۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ September 24, 2013
- ↑ A.G. Noorani (Mar 3–16, 2001)۔ "Of a massacre untold"۔ Frontline۔ 18 (05)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2014۔
The lowest estimates, even those offered privately by apologists of the military government, came to at least ten times the number of murders with which previously the Razakars were officially accused...
- ↑ "Hyderabad Police Action"۔ Indian Army۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2014
- ↑ "Hyderabad on the Net"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2014
- ^ ا ب Taemeer News: زوال حیدرآباد کی کہانی
بیرونی روابط
ترمیم- A Blog by Narendra Luther on Operation Polo
- Picture of VII Nizam with Sardar Patel after his surrenderآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hindu.com (Error: unknown archive URL)
- From the Sundarlal Report, Frontline, مارچ 3-16، 2001
- In the Nizam's dominion
- Armchair Historian – Operation Polo (Monday, 18 September 2006) – Contributed by Sidin Sunny Vadukut – Last Updated (اتوار، 18 ستمبر 2006)