نواب بہادر یار جنگ (اصل نام: محمد بہادر خان)، پیدائش: 1905ء، وفات: 1944ء تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے ایک رہنماء تھے۔ جو حیدر آباد دکن میں پیداہوئے۔ نسلاً نورزئی پٹھان تھے۔ والد نواب نصیر یار جنگ جاگیردار تھے۔ بیس بائس سال کی عمر میں سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ مسلم ممالک اور مسلمانوں کے حالات سے گہرا شغف تھا۔ اسلامی ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ برطانوی اقتدار کے مخالف تھے۔ حیدرآباد کے جاگیردار ان کے اس رویے سے نالاں تھے لیکن ان کی مخالفت نے ان کی عزم کو اور پختہ کیا اور وہ برصغیر کے مسلمانوں کی بہتری کے لیے آخر دم تک کوشاں رہے۔ آپ نے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد ڈالی۔ اس جماعت نے ریاست اور ریاست کے باہر، مسلمانوں کی بہتری کے لیے بڑا کام کیا۔ آپ کا شمار چوٹی کے مقرروں میں ہوتا ہے۔

نواب بہادر یار جنگ
نواب بہادر یار جنگ

معلومات شخصیت
پیدائش 3 فروری 1905ء
حیدرآباد، دکن، ریاست حیدرآباد، برطانوی ہندوستان، موجودہ بھارت
وفات 25 جون، 1944ء (عمر: 39 سال)
حیدرآباد، دکن، ریاست حیدرآباد، برطانوی ہندوستان، موجودہ بھارت
قومیت برطانوی ہندوستان
دیگر نام قائد ملت، بہادر یار جنگ
مذہب اسلام
جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، آل انڈیا مسلم لیگ، تحریک خاکسار
زوجہ تلمین خاتون
والدین والد: نواب یاسر یار جنگ والدہ: خاتون
عملی زندگی
مادر علمی مدرسہ دار العلوم، موجودہ سٹی کالج، حیدرآباد
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  فارسی ،  ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت نمایاں شخصیت تحریک پاکستان، فلسفی، سرگرم عمل شریعت، قانون، اسلام آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، آل انڈیا مسلم لیگ، تحریک خاکسار
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس جو لاہور میں منعقد ہوا شرکت کی۔ اور بڑی معرکہ آرا تقریر کی۔ آل انڈیا سٹیٹس مسلم لیگ کے بانی اور صدر تھے۔ سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر والئی ریاست کی طرف سے پابندیاں بھی عائد ہوئیں۔ آپ نے خطاب و منصب چھوڑا۔ جاگیر سے بھی دشت کش ہو گئے لیکن اپنے نظریات سے منحرف نہ ہوئے۔

خیالات ترمیم

نواب بہادر یار جنگ بنیادی طور پر اسلامی حکومت کے حامی تھے۔ وہ حیدرآباد، دکن کے مسلمانوں میں دین بے داری کے لیے کوشاں تھے۔ انھوں نے کئی پر جوش تقاریر کیے تھے اور شہر کے کئی مسلمانوں میں مذہبی جذبہ پیدا کیا۔ اس وجہ سے نظام حیدرآباد کے ان کے تعلقات تلخ ہو گئے تھے۔ ان پر تقریر کی پابندی بھی عائد ہو گئی تھی۔ ایک موقع پر انھیں تقریری پابندی کے ساتھ ساتھ نظر بند بھی کر دیا گیا تھا۔ کچھ لوگ ان کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ اس وقت انھوں نے اعتراف کیا کہ ان پر تقریر کی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ تاہم اور اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے کہتے رہے کہ اگر میں تقریر کرتا تو یہ کہتا اور یہ بیان کرتا۔ اس طرح دوران پابندی بھی انھوں نے حیدرآباد کے عوام کے رو بہ رو اپنی بات کہ دی۔ وہ حالات اور مصلحت کے تحت کام کرتے تھے۔ ان کے بھتیجے کو شہر کے کچھ غیر مسلم لوگوں نے قتل کر دیا تھا۔ اس موقع پر بھی انھوں نے اپنے حامیوں سے صبر کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ مسلمانوں کو دور اندیش اور مصلحت شناس بنانا چاہتے تھے۔ وہ دینی اور مذہبی جذبے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے بھی حامی تھے۔ وہ کئی رفاہی کاموں میں پیش پیش تھے اور دنیا کو عارضی اور آخرت کو دائمی مانتے تھے۔ [1]

عملی زندگی ترمیم

بے شمار دولت کے باوجود وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ کم گفتار مگر اچھے مقرر تھے۔ وہ شادی شدہ تھے۔ تاہم ان کی ایک بیوی ہی تھی، نہ کہ نوابوں کی طرح انھوں نے کوئی حرم قائم کیا۔ بد قسمتی سے وہ لا ولد تھے۔ اس کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد ان کی قائم کردہ مجلس اتحاد المسلمین ایک اور ہی شخص یعنی قاسم رضوی نے کمان سنبھالی تھی۔ دونوں کے مزاج اور کار کردگی کے طریقوں میں کافی فرق تھا۔ چنانچہ جہاں نواب بہادر یار جنگ کے دور میں مجلس ایک پر امن تنظیم تھی، وہیں قاسم رضوی نے اسے نجی فوج کا رنگ دے دیا۔ مجلس کے لیے کام کرنے والوں کو رضاکار کہا جانے لگا۔ جہاں نواب بہادر یار جنگ نظام سے متصادم تھے، وہیں قاسم رضوی ایسے متشدد انداز میں نظام کی حمایت میں آگے آئے جس سے خود نظام ششدر رہ گئے تھے۔

وفات ترمیم

کہا جاتا ہے کہ 25 جون 1944ء کو حرکت قلب بند ہونے سے آپ کا انتقال ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو زہر دیا گیا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم