ابو الجلال ندوی
ابو الجلال ندوی (پیدائش: 22 اپریل، 1894ء - وفات: 14 اکتوبر 1984ء) ہندستانی نژاد پاکستانی محقق، نقاد، معلم اور ماہرِ لسانیات تھے جنھوں نے موہن جو دڑو سے برآمد ہونے والی قدیم مہروں کی تشریح و توضیح پر تنقیدی اور وقیع کام کیا۔ ابو الجلال ندوی دار العلوم ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد سید سلیمان ندوی کی رہبری میں دار المصنفین میں کام کرتے رہے، جہاں کی علمی و تحقیقی فضا نے ان کے ادبی و لسانیاتی ذوق کو پروان چڑھایا اور بعد ازاں ان کی تحقیقات، بالخصوص اعلام القرآن اور لسانی تحقیقات معارف کے صفحات کے ذریعہ اہلِ علم تک پہنچیں۔
ابو الجلال ندوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 22 اپریل 1894ء چریاکوٹ ، اعظم گڑھ ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 14 اکتوبر 1984ء (90 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | سعود آباد |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت پاکستان (1950–) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم ندوۃ العلماء |
پیشہ | ماہرِ لسانیات ، محقق ، معلم ، صحافی |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، عربی ، فارسی ، سنسکرت ، عبرانی |
شعبۂ عمل | وادی سندھ کا رسم الخط ، علم اشتقاق ، تقابل ادیان |
ملازمت | شبلی نیشنل کالج، اعظم گڑھ ، دار المصنفین شبلی اکیڈمی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ابو الجلال ندوی کی زندگی کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ جب وہ ہندوستان میں رہ کر اعلام القرآن اور قدیم تہذیبوں بالخصوص یمنی تہذیب کے کتبات وغیرہ پر کام کر رہے تھے۔ دوسرا حصہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ابو الجلال ندوی تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہوئے اور وہاں اپنی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے ہڑپہ اور موئن جو دڑو کی تہذیبوں پر کام کیا۔ ابو الجلال ندوی اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ قدیم زبانیں عبرانی اور سنسکرت بھی جانتے تھے، چنانچہ ان کی یہ متعدد الالسنہ صلاحیت موہن جو دڑو اور یمنی تہذیب کے قدیم کتبات پر تحقیقی کام میں انتہائی معاون رہی۔
حالات زندگی
ترمیمابو الجلال ندوی کی پیدائش 22 اپریل 1894ء میں چریاکوٹ، اعظم گڑھ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں ہوئی۔[1][2] ابتدائی تعلیم گاؤں کے مولوی الیاس اور اپنے والد سے حاصل کی، اس کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے۔ فراغت کے بعد شبلی نیشنل کالج میں مدرس ہوئے۔ 1923ء میں سید سلیمان ندوی نے ان کی صلاحیت دیکھ کر دار المصنفین میں رفیق کے منصب سے سرفراز کیا۔ پانچ چھ برس دار المصنفین کے قیام کے بعد مدرسہ جمالیہ کے پرنسپل ہوکر مدراس چلے گئے۔[3] 1927ء میں ابو الجلال ندوی نے سید سلطان بہمنی اور نذیر احمد شاکر کے ساتھ مل کر مدراس سے روزنامہ مسلمان جاری کیا جو اب بھی جاری ہے اور تمل ناڈو کا واحد اردو اخبار ہے جس نے کتابت کے فن کو زندہ رکھا ہے اور مکمل اخبار کی کتابت کی جاتی ہے۔[4] لسانیات اور دوسرے تحقیقی موضوعات پر جب ان کے مضامین معارف اور دیگر جرائد میں شائع ہوئے تو ملک کے علمی حلقوں میں ان کی شہرت بڑھی، اہم کتابوں پر تبصرے بڑی عرق ریزی اور توجہ سے کرتے۔[3] لسانیات، علم الاشتقاق اور تقابل ادیان ان کا خاص موضوع تھا۔ وہ اردو کے علاوہ عربی، فارسی، عبرانی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے وادیٔ سندھ خصوصاً موئن جو دڑو سے برآمد ہونے والی قدیم مہروں کی تشریح و توضیح [2] اور ان مہروں کی روشنی میں وادیٔ سندھ کے قدیم رسم الخط پر تحقیق کی[5] اور اس حوالے سے ان کے متعدد مقالات بھی شائع ہوئے۔
وید، گیتا، اپنیشد اور ہندوستان کے دوسری مذہبی کتابوں کا بھی گہرا علم تھا۔ کوئی کتاب تو مرتب نہ کر سکے لیکن ماہنامہ معارف اور دوسرے معیاری رسالوں میں ان کے اعلیٰ تحقیقی مضامین سے ان کی علمی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آخر عمر میں پاکستان چلے گئے۔[3]
وفات
ترمیمابوالجلال ندوی کا انتقال 14 اکتوبر 1984ء میں کراچی، پاکستان میں ہوا اور سعود آباد، ملیر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف مولانا ابو الجلال ندوی، سوانح و تصانیف ڈاٹ کام، پاکستان
- ^ ا ب پ عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 567
- ^ ا ب پ "مولانا ابو الجلال ندوی، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ، بھارت"۔ 18 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2015
- ↑ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔ "اردو صحافت- کل، آج اور کل"۔ جہانِ اردو، حیدرآباد، بھارت۔ 06 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2015
- ↑ "وادیٔ سندھ کا رسم الخط، نیا نقطۂ نظر، آفتاب ون بلاگ، بھارت"۔ 20 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2015