ابراہیم عواد ابراہیم علی البدری السامرائی، جو ابو بکر البغدادی کے نام سے معروف ہیں، عراق اور شام کی شدت پسند تنظیم داعش (اسلامی ریاست) کے بانی اور خلیفہ تھے۔ ان کا نظریہ وہابی جہادی آئیڈیالوجی، سلفیت اور پرائیویٹ جہاد پر مبنی تھا، جس نے داعشیت کی بنیاد رکھی، جو ان کی شدت پسندانہ تشریحات کا ایک تسلسل تھا۔ 29 جون 2014ء کو البغدادی نے موصل میں خلافت کا اعلان کیا اور اپنے آپ کو "امیر المومنین" قرار دیا۔[3]

ابوبکر البغدادی
(عربی میں: أبو بكر البغدادي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: إبراهيم عواد إبراهيم علي البدري السامرائي ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 28 جولا‎ئی 1971ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سامراء   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 اکتوبر 2019ء (48 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باریشا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات خودکش دھماکا [2]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات خود کشی   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام نظر بندی کیمپ بوکا   ویکی ڈیٹا پر (P2632) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت جمہوریہ عراق (1971–2004)
بے وطنی (2004–2019)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بالوں کا رنگ سیاہ   ویکی ڈیٹا پر (P1884) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت عراق اور الشام میں اسلامی ریاست   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن القاعدہ عراق ،  عراق اور الشام میں اسلامی ریاست   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
داعش رہنما (1  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
7 اپریل 2013  – 27 اکتوبر 2019 
 
ابو ابراہیم ہاشمی قریشی  
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ بغداد (2002–2006)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم شریعت   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ڈاکٹریٹ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ امام ،  عسکری قائد ،  دہشت گرد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک سلفی جہادیت   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری القاعدہ ،  عراق اور الشام میں اسلامی ریاست   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاخ داعش فوج   ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ امیر   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں عراقی جنگ ،  شامی خانہ جنگی ،  عراقی خانہ جنگی (2014ء–تاحال) ،  لیبیا کی خانہ جنگی   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ابو بکر البغدادی 28 جولائی 1971ء کو سامراء، عراق میں ایک متوسط طبقے کے سنی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان مذہبی طور پر سلفیت کے اصولوں کا پیروکار تھا، اور انہوں نے ابتدائی طور پر قرآن اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔[4] بغدادی کے خاندان نے اپنے قبیلے کی بنیاد پر اہل بیت سے تعلق کا دعویٰ بھی کیا، حالانکہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔[5]

بغدادی کی نوجوانی میں ان کی دلچسپی مذہبی تعلیمات اور سلفی عقائد میں گہری تھی، جس کے نتیجے میں وہ سلفی جہادی نظریہ کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے جامعہ بغداد سے اسلامی علوم میں گریجویشن کیا اور بعد میں جامعہ صدام برائے اسلامی علوم (موجودہ جامعہ النہرین) سے قرآنی علوم میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی۔[6]

شدت پسندی کی جانب سفر

بغدادی کا شدت پسندی کی جانب سفر 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد شروع ہوا۔ انہوں نے ایک عسکری تنظیم جیشِ اہل السنہ والجماعۃ کے قیام میں حصہ لیا۔ 2004ء میں انہیں فلوجہ میں گرفتار کر کے امریکی قیدخانے "کیمپ بوکا" بھیجا گیا، جہاں ان کی ملاقات القاعدہ عراق کے دیگر رہنماؤں سے ہوئی، جنہوں نے ان کے نظریات کو مزید شدت پسند بنایا۔[7]

متنازعہ قید اور کیمپ بوکا

ابو بکر البغدادی 2004ء میں امریکی افواج کے ہاتھوں فلوجہ میں گرفتار ہوئے اور انہیں جنوبی عراق میں واقع "کیمپ بوکا" جیل میں منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ 2004ء سے 2009ء تک قید رہے۔[8] اس دوران، انہوں نے جیل میں دیگر قیدیوں کے ساتھ روابط استوار کیے، جن میں سابق بعثی فوجی افسران اور جہادی تنظیموں کے ارکان شامل تھے۔[9] کیمپ بوکا میں قید کے دوران، البغدادی نے اپنے نظریات کو مزید شدت دی اور اپنے جہادی اہداف کے لیے نئے حامیوں کو بھرتی کیا۔ [10]کہا جاتا ہے کہ اسی قید کے دوران انہوں نے داعش کی بنیاد رکھنے کے لیے ابتدائی منصوبہ بندی کی تھی، جس نے بعد میں عراق اور شام میں خلافت کا اعلان کیا۔[11]

امریکی حکمت عملی اور بغدادی کی تربیت

کیمپ بوکا میں قید کے دوران ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ امریکی حکام نے دانستہ طور پر بغدادی کو شدت پسند گروہوں کے رہنماؤں سے روابط بڑھانے کی اجازت دی۔[12][13] بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بغدادی کو جان بوجھ کر دیگر جہادی رہنماؤں کے ساتھ رکھا گیا تاکہ اس کی شدت پسندی کو فروغ مل سکے اور وہ بعد میں داعش جیسی تنظیم کی قیادت کے قابل بن سکے۔[14][15] اس نظریے کے حامیوں کے مطابق، جیل میں قیام ان کے لیے ایک "ریڈیکلائزیشن" کی تجربہ گاہ ثابت ہوا، جہاں انہوں نے اپنے جہادی منصوبوں کو مضبوط بنایا اور نئے حامی حاصل کیے۔ [16]اس دعوے کے مطابق، بغدادی کی رہائی کے بعد داعش کی تیز رفتار ترقی امریکی پالیسیوں کا ایک غیر متوقع نتیجہ تھی، جس نے مشرق وسطیٰ میں شدت پسندی کو ایک نیا رخ دیا۔[17][18][19]

داعش کا قیام اور خلافت کا اعلان

داعش (عربی: (داعش) الدولة الإسلامية في العراق والشام)، (انگریزی: Islamic State of Iraq and Syria (ISIS)) یا اسلامک اسٹیٹ (IS) بھی کہا جاتا ہے، ایک شدت پسند سلفی-جہادی تنظیم ہے جس کی بنیاد ابو مصعب الزرقاوی نے القاعدہ عراق کے طور پر 2004ء میں رکھی۔ بعد میں اس تنظیم کو ابو بکر البغدادی نے سنبھالا اور 2014ء میں موصل کی فتح کے بعد خلافت کا اعلان کیا۔ داعش نے زرقاوی کے نظریات سے متاثر ہو کر فرقہ وارانہ تشدد، غیر ریاستی مسلح جدوجہد، اور خلافت کے قیام کو اپنی عسکری اور نظریاتی حکمت عملی کا مرکز بنایا۔[20]

داعش کا نظریہ سلفیت اور وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر قائم ہے، جس میں پرائیویٹ جہاد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ داعش نے اسلامی خلافت کے قیام کے لیے مختلف ممالک میں غیر ریاستی مسلح کارروائیاں کیں اور اپنی خود مختاری کا دعویٰ کیا۔ تنظیم کا مقصد ایک عالمی اسلامی خلافت کا قیام تھا، جسے وہ عسکری اور سیاسی ذرائع سے نافذ کرنا چاہتی تھی۔[21]

داعشیت

داعشیت، ابوبکر البغدادی کی قیادت میں فروغ پانے والا شدت پسند نظریہ ہے، جو بنیادی طور پر زرقاویت، وہابی جہادی آئیڈیالوجی، اور سلفیت کی سخت گیر تشریحات پر مبنی ہے۔ داعشیت کا بنیادی مقصد اسلامی خلافت کا قیام ہے، جس کے لیے غیر ریاستی مسلح جدوجہد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے تحت، داعشیت نے پرائیویٹ جہاد کو ایک لازمی اصول قرار دیا اور اہل تشیع، غیر مسلم طاقتوں، اور یہاں تک کہ بعض سنی مسلم گروہوں کے خلاف بھی شدید تشدد کو فروغ دیا۔

داعشیت کے چند اہم اصول درج ذیل ہیں:

  • داعشیت کا بنیادی ہدف ایک عالمی خلافت کا قیام ہے، جسے عسکری طاقت کے ذریعے نافذ کیا جائے۔
  • داعشیت میں پرائیویٹ جہاد کو جائز سمجھا گیا ہے، جس کے تحت تنظیمی سطح پر مسلح کارروائیاں کی جاتی ہیں، چاہے ریاستی منظوری شامل نہ ہو۔
  • داعشیت نے اہل تشیع کے خلاف شدت پسندانہ کارروائیوں کو جائز قرار دیا، جو زرقاویت کا ایک اہم حصہ تھا۔
  • داعشیت، وہابیت اور سلفیت کی سخت گیر تشریحات پر مبنی ہے، جس میں شرعی قوانین کی سختی سے نفاذ کی حمایت کی جاتی ہے۔

داعشیت کے نظریہ نے نہ صرف عراق اور شام بلکہ عالمی سطح پر بھی شدت پسندی کو فروغ دیا اور مختلف ممالک میں جہادی تنظیموں کے لیے ایک مثال قائم کی۔[22]

خلافت کا طرز حکمرانی

بغدادی نے اپنے زیر تسلط علاقوں کو "ولایتوں" میں تقسیم کیا، جہاں گورنروں کو مقرر کیا گیا۔ ہر ولایت کے لیے "امیر" یا "والی" مقرر کیا جاتا تھا، جو فوجی، قانونی، اور انتظامی امور کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ بغدادی نے اپنی فوج کے سربراہ کے طور پر ابو عمر الشیشانی کو مقرر کیا اور ابو محمد العدنانی کو تنظیم کا ترجمان بنایا۔[23]

موت

اکتوبر 2019ء میں، امریکی افواج نے ادلب، شام میں ایک کارروائی کے دوران بغدادی کا ٹھکانہ نشانہ بنایا۔ حملے کے دوران، بغدادی نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا تاکہ گرفتاری سے بچ سکیں۔[24]

تنقید

بغدادی کے شدت پسند نظریات پر عالمی سطح پر سخت تنقید کی گئی۔ ان پر مغربی ممالک اور مسلم علماء دونوں نے تنقید کی، جنہوں نے ان کے نظریات کو خارجی قرار دیا اور مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنے کا الزام عائد کیا۔[25]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. تاریخ اشاعت: 27 اکتوبر 2019 — ISIS leader al-Baghdadi confirmed dead after apparent suicide during U.S. operation: sources — اخذ شدہ بتاریخ: 28 اکتوبر 2019
  2. La Vanguardia اور La Vanguardia — اخذ شدہ بتاریخ: 28 اکتوبر 2019
  3. "Abu Bakr al-Baghdadi's Rise and the Caliphate's Declaration"۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  4. "Baghdadi's Early Life and Sufi Roots"۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  5. Patrick Cockburn (2015)۔ The Rise of Islamic State: ISIS and the New Sunni Revolution۔ Verso Books۔ صفحہ: 45–47۔ ISBN 9781784780401 
  6. "Baghdadi's Academic Background and Religious Studies"۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 [مردہ ربط]
  7. Syed Saleem Shahzad (2011)۔ Inside Al-Qaeda and the Taliban: Beyond Bin Laden and 9/11۔ Pluto Press۔ صفحہ: 187–189۔ ISBN 9780745331011 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  8. "Inside Camp Bucca, the Guantanamo of Iraq"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  9. Fawaz A. Gerges (2016)۔ ISIS: A History۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 90–92۔ ISBN 9780691170008 
  10. Fawaz A. Gerges (2016)۔ ISIS: A History۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 90–92۔ ISBN 9780691170008 
  11. "Inside Camp Bucca, the Guantanamo of Iraq"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  12. William McCants (2015)۔ The ISIS Apocalypse: The History, Strategy, and Doomsday Vision of the Islamic State۔ St. Martin's Press۔ صفحہ: 75–78۔ ISBN 9781250080905 
  13. "How America Helped ISIS Rise From the Ashes of Iraq"۔ Foreign Policy۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 [مردہ ربط]
  14. William McCants (2015)۔ The ISIS Apocalypse: The History, Strategy, and Doomsday Vision of the Islamic State۔ St. Martin's Press۔ صفحہ: 75–78۔ ISBN 9781250080905 
  15. William McCants (2015)۔ The ISIS Apocalypse: The History, Strategy, and Doomsday Vision of the Islamic State۔ St. Martin's Press۔ صفحہ: 75–78۔ ISBN 9781250080905 
  16. Fawaz A. Gerges (2016)۔ ISIS: A History۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 90–92۔ ISBN 9780691170008 
  17. "How America Helped ISIS Rise From the Ashes of Iraq"۔ Foreign Policy۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 [مردہ ربط]
  18. "How America Helped ISIS Rise From the Ashes of Iraq"۔ Foreign Policy۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 [مردہ ربط]
  19. "Inside Camp Bucca, the Guantanamo of Iraq"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  20. "How ISIS Was Formed and Its Expansion Across the Middle East"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  21. William McCants (2015)۔ The ISIS Apocalypse: The History, Strategy, and Doomsday Vision of the Islamic State۔ St. Martin's Press۔ صفحہ: 75–78۔ ISBN 9781250080905 
  22. Fawaz A. Gerges (2015)۔ "The Ideology of ISIS: How Baghdadi's Leadership Shaped the Jihadist Movement"۔ International Journal of Middle East Studies۔ 47 (3): 345–347 
  23. "Baghdadi's Governance Model in the Islamic State"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  24. "Abu Bakr al-Baghdadi Dies in US Raid"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  25. Fawaz A. Gerges (2016)۔ ISIS: A History۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 90–92۔ ISBN 9780691170008