احمد عقیل روبی
پروفیسر احمد عقیل روبی (پیدائش: 6 اکتوبر 1940ء - وفات: 23 نومبر 2014ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے شاعر، ادبی نقاد، مترجم، ڈراما نویس، فلمی کہانی نویس، ناول نگار، سوانح نگار اور معلم تھے۔
احمد عقیل روبی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: غلام حسین) |
پیدائش | 6 اکتوبر 1940ء لدھیانہ ، برطانوی پنجاب |
وفات | 23 نومبر 2014ء (74 سال) لاہور ، پاکستان |
وجہ وفات | پھیپھڑوں کا سرطان |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
تعلیمی اسناد | ایم اے |
پیشہ | شاعر ، ناول نگار ، پروفیسر ، ادبی نقاد |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، پنجابی |
ملازمت | فورمن کرسچین کالج |
کارہائے نمایاں | علی پور کا مفتی یونان کا ادبی ورثہ نصرت فتح علی خان علم ودانش کے معمار قتیل کہانی جنگل کتھا |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیموہ 6 اکتوبر 1940ء کو لدھیانہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ وہ والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے۔
تعلیم
ترمیمانھوں نے ایف اے تک تعلیم خانیوال میں حاصل کی۔ بی اے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان اور ایم اے جامعہ پنجاب لاہور سے کیا۔
تدریس
ترمیماحمد عقیل روبی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ملازمت کی ابتدا ڈگری کالج مظفر گڑھ سے بطور لیکچرار کی۔ کچھ عرصہ صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں بھی تعینات رہے۔ وہاں سے ان کا تبادلہ شیخوپورہ ہو گیا۔ 1983ء میں ان کا تبادلہ فورمن کرسچین کالج لاہور میں ہو گیا، فورمن کرسچین کالج میں صدر شعبہ اردو بھی رہے۔ اسی کالج سے 2000ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔
ادبی زندگی
ترمیماحمد عقیل روبی وسیع المطالعہ شخص تھے، یونانی ادب ان کا خاص موضوع تھا۔ ان کی کتاب علم ودانش کے معمار شاہکار کتاب ہے جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شائع کی گئی
تصانیف
ترمیمان کی 30 کے لگ بھگ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سوکھے پتے بکھرے پھول (شاعری)، ملی جلی آوازیں (انگریزی نظموں کا ترجمہ)، آخری شام (منظوم ڈراما)، سورج قید سے چھوٹ گیا (نظمیں)، کہانی ایک شہر کی (طویل نظم)، بلائی ٹس (یونانی شاعری کا ترجمہ)، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب (ناول)، چوتھی دنیا (ناول)، بنجر دریا (ناول)، جنگل کتھا (ناول)، فاہیان، ساڑھے تین دن کی زندگی (ناول)، کھرے کھوٹے، جناور کتھا، نصرت فتح علی خان (سوانح )، کرنیں تارے پھول (بچوں کی نظمیں)، علم ودانش کے معمار (سوانح)، ایڈی پس ریکس میڈیا (ترجمہ)، دوسرا جنم (انگریزی نظموں کا ترجمہ)، یونان کا ادبی ورثہ (سوانح و تنقید)، دو یونانی کلاسک ڈرامے (ترجمہ)، باقر صاحب (خاکہ)، مجھے تو حیران کر گیا وہ (ناصر کاظمی کی سوانح)، بولڈ اینڈ بیوٹی فل، قتیل کہانی (خاکہ)، علی پور کا مفتی (طویل خاکہ) اور معزز فاحشہ شامل ہیں۔
اعزازات
ترمیمحکومت پاکستان کی جانب سے ادب، ڈراما نگاری اور شاعری کے میدان میں آپ کی وسیع تر خدمات پر 14 اگست 2012ء کو تمغا امتیاز سے نوازا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج لاہور، ایجوکیشن یونیورسٹی اور ایم اے او کالج لاہور کی جانب سے آپ کی شخصیت اور فن پر ایم فل اور ایم اے کے تھیسز لکھے جا چکے ہیں۔
شوبز
ترمیمادب کے علاوہ ان کا تعلق شوبز سے بھی رہا۔ استاد نصرت فتح علی خان کے حوالے انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی۔ انھوں نے بہت سی پنجابی فلموں کے لیے گیت بھی لکھے جن میں چوڑیاں (فلم)، مجاجن، لونگ دا لشکارہ، نکی جئی ہاں کر کے، مہندی والے ہتھ (فلم)، جگ ماہی شامل ہیں۔ ان کے بہت مشہور ہوئے جس کی وجہ سے انھیں نگار ایوارڈز سمیت بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اردو فلموں کے لیے بھی گیت لکھے جن میں تیرے پیار میں، کوئی تجھ سا کہاں، رخصتی اور شرارت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے۔
وفات
ترمیماحمد عقیل روبی 23 نومبر 2014ء کو پھپھڑوں کے سرطان کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سید ابو الہاشم (25 نومبر 2014ء)۔ "احمد عقیل روبی بھی اس دنیا کو چھوڑ گئے"۔ روزنامہ نوائے وقت کراچی
- ↑ اسلم لودھی (21 دسمبر 2020ء)۔ "پروفیسر احمد عقیل روبی"۔ روزنامہ دنیا کراچی