اختر الایمان (پیدائش: 12 نومبر 1915ء— وفات: 9 مارچ 1996ء ) ضلع بجنور (اترپردیش) کی تحصیل نجیب آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام مولوی فتح محمد تھا ۔[1] اختر الایمان جدید نظم کے مایہ ناز شاعر ہیں اور انھوں نے بالی ووڈ کو بھی خوب سیراب کیا ہے۔ اخترالایمان کا پیدائشی نام راؤ فتح محمد رکھا گیا تھا۔ راؤ اس راجپوت گھرانے کی وجہ سے تھا، جن سے ان کا تعلق تھا۔ اسی نام کی مناسبت سے ان کے گاؤں کا نام راؤ کھیڑی تھا۔[2] انھیں 1963ء میں فلم دھرم پوتر میں بہتری مکالمہ کے لیے فلم فیئر اعزاز سے نوازا گیا۔ یہی اعزاز انھیں 1966ء میں فلم وقت (فلم) کے لیے بھی ملا۔ 1962ء میں انھیں اردو میں اپنی خدمات کے لیے ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ملا۔ یہ اعزاز ان کا مجموعہ یادیں کے لیے دیا گیا تھا۔

اختر الایمان (شاعر)
معلومات شخصیت
پیدائش 12 نومبر 1915ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گڑھوال ڈویژن   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 مارچ 1996ء (81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دہلی یونیورسٹی
علی گڑھ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  منظر نویس   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
دستخط
 
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور تعلیم ترمیم

ان کی ولادت 1915ء میں پتھر گنج، نجیب آباد ، بجنور ضلع، اتر پردیش، بھارت میں ہوئی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم بجنور میں ہی حاصل کی جہاں ان کی ملاقات اردو شاعر خورشید الاسلام سے ہوئی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معلم تھے اور رالف رسل سے ان کا گہرا واسطہ تھا۔ اختر الایمان نے ذاکر حسین دہلی کالج سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔

کیرئر ترمیم

یوں تو اردو شاعری میں غزل کا بول بالا رہا ہے اور ابتداءا ہر شاعر غزل میں طبع آزامائی کرتا ہے مگر اخترالایمان نے غزل کی بجائے نظم کو ترجیح دی اور ایک کامیاب نظم کے شاعر بن کر ابھرے۔ یہ بات الاگ ہے کہ ان کی زبان غیر شاعرانہ ہے۔ لیکن ان کا پیغام بہت موثر ہے۔

شاعرانہ نام کی وجہ ترمیم

اس قلمی نام کو چننے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے 1334ھ کا سال نکلتا ہے جو 1915ء اور 1916ء کو محیط ہے۔ اختر الایمان کی ولادت 12 نومبر 1915ء کو ہوئی تھی۔[2]

تعلیم اور ابتدائی ملازمت ترمیم

اختر الایمان نے دہلی یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا تھا۔[1] انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔[2]

اس کے بعد کچھ عرصے تک وہ محکمہ سول سپلائز سے جڑے رہے۔ پھر انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بھی کام کیا تھا ۔[1]

ممبئ منتقلی ترمیم

اختر الایمان ابتدائی ملازمتوں کے بعد میں فلموں میں کرنے سے پہلے پونے گئے تھے۔[2] پھر وہ ممبئی نقلِ مقام کر گئے تھے جہاں تاحیات فلموں میں مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔[1]

ذاتی زندگی ترمیم

اختر الایمان نے اپنی سوانح اور کچھ نظموں میں کئی لڑکیوں یا عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ یہ ان کی سلطانہ منصوری سے شادی سے پہلے کے واقعات تھے۔ اختر کی یہ شادی ہندوستان کی تقسیم کے دور میں ہوئی تھی۔ ان کی اولاد کی تعداد چار ہے۔ ان کی ایک لڑکی کا نام اسما ہے جبکہ سب سے بڑی لڑکی کا نام شہلا ہے۔[2] ان کی ایک اور لڑکی کا نام رخشندہ ہے۔ ان کے علاو ایک لڑکا ہے جس کا نام رامش ہے، یہ تیسرے نمبرپ رہے۔

ادبی تخلیقات ترمیم

اختر الایمان کی تصانیف میں ایک منظوم ڈراما بعنوان “سب رنگ“ 1948ء میں چھپا تھا۔ ان کے کلام کے مجموعے کا عنوان “یادیں “ تھا۔ اسے 1962ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔ انکا آخری مجموعہ کلام ان کے انتقال کے بعد “زمستان سرد مہری کا “ کے نام سے شائع ہوا تھا۔[1]

شاعری کی نوعیت ترمیم

اخترالایمان نطم کے شاعر تھے۔ ان کی تقریبًا تمام نطمیں ہیئت کے اعتبار سے آزاد یا معرا ہیں۔ اخترالایمان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے روایتی شعری وضع داری سے خود کو الگ رکھا۔ ان کی شاعری کو فکری لحاظ سے “اس عہد کا ضمیر“ کہا گیا ہے ۔[1]

حلقہ احباب ترمیم

اخترالایمان جب نوشادی شدہ تھے، میراجی ان کے گھر میں مہمان تھے۔ اختر کی سوانح کے بقول، وہ اچھے مہمان نہیں تھے، ان کی صحت خراب رہتی تھی۔ پھر بھی نوشادی شدہ جوڑا ان کی دیکھ ریکھ میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا تھا۔

میراجی کے علاوہ راجندر سنگھ بیدی، مجروح سلطانپوری، جانثار اختر اور قاضی سلیم سے اخترالایمان کے گھریلو مراسم تھے۔[2]

نمونہ کلام ترمیم

نہ زہر خند لبوں پر، نہ آنکھ میں آنسو نہ زخم ہائے دروں کو ہے جستجوئے مآل​
نہ تیرگی کا تلاطم، نہ سیل رنگ و نور نہ خار زار تمنّا نہ گمرہی کا خیال​
نہ آتش گل و لالہ کا داغ سینے میں نہ شورش غم پنہاں، نہ آرزوئے وصال
نہ اشتیاق، نہ حیرت، نہ اضطراب، نہ سوگ سکوت شام میں کھوئی ہوئی کہانی کا​
طویل رات کی تنہائیاں نہیں ہے رنگ ابھی ہوا نہیں شاید لہو جوانی کا​
حیات و موت کی حد میں ہیں ولولے چپ چاپ گزر رہے ہیں دبے پاؤں قافلے چپ چاپ!




[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث اختر الایمان اردو انسائیکلوپیڈیا پر[مردہ ربط]
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث اخترالایمان، میرے والد، اسما حسین، ہماری زبان، 02-05-16
  3. "اختر الایمان: جمالیاتی لیجینڈ | اردو ویب ڈیجیٹل لائبریری"۔ 25 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جون 2016 

فلمی زندگی