اختر حسین رائے پوری

نقاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار، مترجم

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری (پیدائش: 12 جون 1912ء- وفات: 2 جون 1992ء) پاکستان کے نامور ترقی پسند نقاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار اور مترجم تھے جو اپنی خود نوشت سوانح حیات گردِ راہ کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں۔

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری
پیدائشسیّد اختر حسین
12 جون 1912(1912-06-12)
رائے پور، برطانوی ہندوستان
وفاتجون 2، 1992(1992-06-02)
کراچی، پاکستان
قلمی ناماختر حسین رائے پوری
پیشہافسانہ نگار، ماہرِ لسانیات، مترجم، نقاد
زباناردو، انگریزی، سنسکرت، بنگالی، فرانسیسی
قومیتپاکستان کا پرچمپاکستانی
نسلمہاجر قوم
تعلیمپی ایچ ڈی (مقالہ: ہند قدیم کی زندگی۔ سنسکرت ادب کے آئینے میں )
مادر علمیعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی، پیرس یونیورسٹی
اصنافافسانہ، تنقید، ترجمہ
ادبی تحریکترقی پسند تحریک
نمایاں کامگردِ راہ
محبت اور نفرت
مقالات گارساں دتاسی
پیاری زمین
ادب اور زندگی
شریک حیاتحمیدہ اختر حسین رائے پوری

حالات زندگی

ترمیم

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری 12 جون 1912ء کو رائے پور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1][2][3] انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری اور سنسکرت زبان میں ایم اے کی سطح کا ایک ساہتیہ النکار کا امتحان بنارس یونیورسٹی سے پاس کیا۔ سوربون یونیورسٹی پیرس سے ہند قدیم کی زندگی۔ سنسکرت ادب کے آئینے میں کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ایم اے او کالج امرتسر میں پروفیسر اور وائس پرنسپل رہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستگی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد محکمۂ تعلیم میں ڈپٹی سیکرٹری اور مرکزی وزارتِ تعلیم میں مشیر رہے۔ کراچی ثانوی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین اور یونیسکو کراچی شاخ کے اولین ڈائریکٹر رہ کر آخرِ عمر تک وزیٹنگ پروفیسر کراچی یونیورسٹی کے طور پر علم و ادب اور فنِ و آگہی کے چراغ روشن کرتے رہے۔[3]

ادبی خدمات

ترمیم

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی پہلی اور اہم شناخت بطور افسانہ نویس ہے کہ اُن کا پہلا اُردو افسانہ زبان بے زبانی کے عنوان سے نیاز فتح پوری کے مجلہ نگار میں چھپا۔ اُن کے مطبوعہ افسانوی مجموعوں میں محبت اور نفرت، زندگی کا میلہ اور ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے افسانے نامی تین کتب قابلِ قدر اہمیت کی حامل ہیں۔ تاریخی و تنقیدی کتب میں حَبش اور اطالیہ، ادب او ر انقلاب، سنگِ میل اور روشن مینار یاد گار مطبوعہ کتب ہیں۔ تراجم میں گورکی کی آپ بیتی (تین جلدیں)، مقالاتِ گارساں دتاسی (دو جلدیں) کے علاوہ سوانح نگاری کے ذیل میں ہی معرکہ آرا خود نوشت گردِ راہ شامل ہے۔ دیگر اُردو تراجم میں کالی داس کی مشہورِ زمانہ تصنیف شکنتلا کا سنسکرت سے اُردو میں خوبصورت ترجمہ، پرل ایس بُک کے ناول گڈارتھ کا اردو ترجمہ پیاری زمین اور قاضی نذر الاسلام کی بنگالی نظموں کا اُردو ترجمہ پیامِ شباب اُن کے سرمایۂ ادب کا قیمتی اثاثہ ہے۔[3]

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اُردو، انگریزی، ہندی، سنسکرت، گجراتی، بنگالی اور فرانسیسی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ سنسکرت، بنگالی اور فرانسیسی سے انھوں نے براہِ راست بعض معروف تراجم کیے۔[3]

''ڈاکٹر اختر حسین راے پوری، حیات و خدمات'' کے عنوان سے ،خالد ندیم کی تحیقیق مجلس ترقی ادب لاہور نے 2009ء میں شائع کی۔

مجلہ ’’اُردو‘‘ میں ’’ناخُدا‘‘ کے قلمی نام سے کتب و جرائد رسائل پر تبصرے بھی رقم کرتے رہے۔ مشہور کتاب ’’ ناقابلِ فراموش‘‘ کے مصنف ویوان سنگھ مفتون کے کے مشہورِ زمانہ ہفت روزہ ’’ریاست‘‘ میں نائب مُدیر اور ہندی جریدے’’وشوانی‘‘ کے اعزازی مُدیر رہے۔ اپنا ذاتی رسالہ بھی ’’جہاں نما‘‘ کے نام سے نکالا جو نہ چل سکا۔1937ء سے 1940ء تک کا زمانہ یورپ میں گزارا۔

تصانیف و تالیفات

ترمیم
  • حبش اور اطالیہ(تاریخ)
  • پیامِ شباب(ترجمہ)
  • مقالات گارساں دتاسی(ترجمہ)
  • پیاری زمین(ترجمہ)
  • شکنتلا(ترجمہ)
  • گورکی کی آپ بیتی حصہ اول(ترجمہ)
  • روشن مینار(تاریخ)
  • گرد راہ(خودنوشت)
  • ادب اور انقلاب(تنقید)
  • زندگی کا میلہ(افسانے )
  • محبت اور نفرت(افسانے)
  • آگ اور آنسو()
  • ادب اور زندگی()

وفات

ترمیم

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری 6 جون 1992ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔[1][2][3]

حوالہ جات

ترمیم