اسلامی نقش و نگار (انگریزی: Islamic geometric patterns) میں علامتی آرٹ کو پسند نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہندساتی نقوش کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور صدیوں سے یہی نقوش ارتقا کی منزلیں طے کرنے آئے ہیں۔

سمرقند کی ٹائلز والی مسجد
سمرقند، ازبکستان میں بی بی خانم مسجد کا مینار۔ یہ 10، 8 اور 5 نقاط پر مبنی ستاروں والے مختلف ہندسہ والے نقوش ہیں۔
مراکش کا بن یوسف مدرسہ۔ دروازہ پر 16 نقاط والے ستاروں سے نقش و نگاری کی گئی ہے۔ ہر محراب عربی نقوش سے گھراہوا ہے اور بیچ میں اسلامی خطاطی بھی کی گئی ہے۔ اس کے نیچے 8 نقاط والے ستاروں پر مبنی رنگین ٹائل کی نقاشی ہے۔

اسلامی فنون میں ہندسہ کا استعمال کر کے خوبصووت نقوش تیار کیے جاتے ہیں جن میں دائری، خط، مربع، مستطیل اور مخروطی شکلوں کو کبھی ایک دوسرے کے اوپر، کبھی بغل میں، کبھی آپس میں ملا کر نہایت پیچیدہ نقوش بنائے جاتے ہیں اور ان نقوش میں فسیفسا کی متعدد اقسام بھی شامل ہیں۔ یہ نقوش عمارت کے ستون، مینار، دیوار اور گنبدوں پر بنے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی پورے نقش و نگار میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ان نقوش کو استعمال میں لاتے ہوئے خوبصورت پھول بنائے جاتے ہیں، اسلامی خطاطی کی نمائش کی جاتی ہے اور ان کے علاوہ دیگر قسم کے نقوش پس منظر اور دیگر جگہوں پر بنائے جاتے ہیں۔ ان نہایت گنجلک نقوش کی ابتدا 9ویں صدی میں سیل نقوش سے ہوئی اور13ویں صدی میں 6 یا 13 نقاط پر مشتمل نقوش نے ان سہل نقوش کی جگہ لے لی۔ 16ویں صدی آتے آتے یہ نقوش 14 یا 16 نقاط پر بننے لگے۔

اسلامی نقوش و نگار اسلامی فنون کے کئی شکلوں میں نطر آتے ہیں جیسے تعمیرات، کلیمی قالین، ایرانی گیریس، مراکشی زلیج اور ٹائلز، مقرنص، چھت، جالی (پتھروں میں چھید کر کے بنائے گئے نقوش)، خزف، چمڑے، داغ نما گلاس، لکڑی اور دھات وغیرہ پر یہ نقوش بنائے جاتے ہیں۔

مغربی ممالک میں اسلامی نقوش کی طرف رغبت بڑھی ہے۔ مصوروں اور مجسمہ ساز جیسے 12ویں صدی کے ایم سی ایشر اور ریاضئ دان اور طبیعیات دان جیسے پیٹر جے جو اور پال استہاردت جنھوں نے 2007ء میں اصفہان میں موجود درب امام کی ٹائلس کی نقش و نگاری کے زمانہ کو لے کر متنازع عدی کیا تھا۔

پس منظر

ترمیم

اسلامی تزئین کاری

ترمیم

چونکہ اسلام میں بت کی پوجا سخت منع ہے اور حرام ہے لہذا اسلامی فنون میں علامتی آرٹ سے بھی احتراز کیا گیا ہے تاکہ اشیاء کی عبادت کا شائبہ بھی نا رہے۔[1][2] چونکہ اسلام میں علامتی آرٹ ممنوع ہے لہذا مصوروں نے غیر علامتی اور بالخصوص ریاضی اور ہندسہ والے نقوش کی طرف توجہ دی۔[3] اسلامی نقش و نگار قدیم یونانی، قدیم رومی اور [[ساسانی سلطنت}ساسانی]] نقوش سے اثر لے کر ایجاد کیے گئے۔ اسلامی تزئین کاری کے تین طریقے ہیں؛ عربی نقش و نگاری جس میں پودوں کئی ذریعے تزئین کاری کی جاتی ہے یعنی پیڑ پودوں کے نقوش بنائے جاتے ہیں، دوسرے اسلامی خطاطی اور تیسرے اسلامی نقش و نگار۔ بسا اوقات تینوں کو ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔[4] ریاضی اور ہندسہ والے نقوش اور عربی نقوش اسلامی لیس دار نقوش کے نمونے ہیں۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Bouaissa، Malikka (27 جولائی 2013)۔ "The crucial role of geometry in Islamic art"۔ Al Arte Magazine۔ 2019-03-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-12-01
  2. Bonner، Jay (2017)۔ Islamic geometric patterns : their historical development and traditional methods of construction۔ New York: Springer۔ ص 1۔ ISBN:978-1-4419-0216-0۔ OCLC:1001744138
  3. Bier، Carol (ستمبر 2008)۔ "Art and Mithãl: Reading Geometry as Visual Commentary"۔ Iranian Studies۔ ج 41: 9۔ JSTOR:25597484
  4. "Geometric Patterns in Islamic Art"۔ Heilbrunn Timeline of Art History۔ Metropolitan Museum of Art۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-12-01
  5. Hankin، Ernest Hanbury (1925)۔ The Drawing of Geometric Patterns in Saracenic Art. Memoirs of the Archaeological Survey of India No. 15۔ Government of India Central Publication Branch