اسماء بنت ابی بکر
اسماء، لقب ذات النطاقین۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی صاحبزادی۔ ہجرت سے 27 سال قبل مکے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی زبیر بن العوام سے شادی ہوئی تھی۔73ھ کو فوت ہوئی عمر 100 سال پائی۔
اسماء بنت ابی بکر | |
---|---|
(عربی میں: أسماء بنت أبي بكر) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 595ء مکہ |
وفات | اکتوبر692ء (96–97 سال) مکہ |
شہریت | خلافت راشدہ سلطنت امویہ |
شریک حیات | زبیر ابن العوام |
اولاد | عبداللہ ابن زبیر ، عروہ بن زبیر ، منذر بن زبیر |
والد | ابوبکر صدیق |
والدہ | قتیلہ بنت عبدالعزی |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدثہ |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ یرموک |
درستی - ترمیم |
وجہ تسمیہ
ترمیمآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ روانہ ہونے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے انھوں نے اپنی پیٹی کا پٹکا پھاڑ کر ناشتے دان کا منھ بند کیا۔ عربی میں پٹکے کو نطاق کہتے، لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ذات النطاقین کا لقب دیا۔ رسول اللہ اور ابوبکر صدیق غار ثور میں رہے تو یہی ان کا کھانا پہنچاتی رہیں۔
حالات زندگی
ترمیمیہ امیر المؤمنین ابو بکر صدیق کی صاحبزادی حضرت ام المؤمنین عائشہ کی بہن اور جنتی صحابی حضرت زبیر بن العوام کی بیوی ہیں حضرت عبد اللہ بن زبیر انھی کے شکم سے پیدا ہوئے ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں کچھ دنوں تک اولاد نہیں ہوئی تو یہودیوں کو بڑی خوشی ہوئی بلکہ بعض یہودیوں نے یہ بھی کہا کہ ہم لوگوں نے ایسا جادو کر دیا ہے کہ کسی مہاجر کے گھر میں بچہ پیدا ہی نہیں ہوگا اس فضاء میں سب سے پہلے جو بچہ مہاجرین کے یہاں پیدا ہوا وہ یہی عبد ﷲ بن زبیر تھے پیدا ہوتے ہی حضرت بی بی اسماء نے اس اپنے فرزند کو بارگاہ رسالت ﷺ بھیجا حضور اقدس ﷺ نے اپنی مقدس گود میں لے کر کھجور منگائی اور خود چبا کر کھجور کو اس بچے کے منہ میں ڈال دیا اور عبد ﷲ نام رکھا اور خیر و برکت کی دعا فرمائی یہ اس بچے کی خوش نصیبی ہے کہ سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں گئی وہ حضور ﷺ کا لعاب دہن تھا چنانچہ حضرت اسماء کو اپنے بچے کے اس شرف پر بڑا ناز تھا ان کے شوہر حضرت زبیر رشتہ میں حضور ﷺ كے پھوپھی زاد ہیں مہاجرین میں بہت ہی غریب تھے حضرت بی بی اسماء جب ان کے گھر میں آئیں تو گھر میں نہ کوئی لونڈی تھی نہ کوئی غلام گھر کا سارا کام دھندا یہی کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ گھوڑے کا گھاس دانہ اور اس کی مالش کی خدمت بھی یہی انجام دیا کرتی تھیں بلکہ اونٹ کی خوراک کے لیے کھجوروں کی گٹھلیاں بھی باغوں سے چن کر اور سر پر گٹھری لاد کر لایا کرتی تھیں ان کی یہ مشقت دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق نے ان کو ایک غلام عطا فرما دیا تو ان کے کاموں کا بوجھ ہلکا ہو گیا آپ فرمایا کرتی تھیں کہ ایک غلام دے کر گویا میرے والد نے مجھے آزاد کر دیا ۔
عبد اللہ بن زبیر
ترمیمعبداللہ بن زبیر آپ ہی کے صاحبزادے تھے۔ جنھوں نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے سات برس تک اپنی حکومت قائم رکھی۔ عبدالملک کے زمانے میں جب حجاج بن یوسف نے مکہ کا محاصرہ کر لیا اور تنگ آکر بہت سے لوگ بھی حضرت زیبر کا ساتھ چھوڑ گئے تو آپ نے اپنی والدہ حضرت اسما سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ انھوں نے فرمایا کہ بیٹا اگر تجھے یقین ہے کہ تو حق پر ہے تو میں خوش ہوں گی کہ تو راہ حق میں لڑتا ہوا شہید ہو جائے۔ لیکن اگر دنیاوی جاہ طلبی کے لیے لڑ رہا ہے تو تجھ سے برا کوئی نہیں۔ ماں کی یہ بات سن کر ابن زبیر مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ حجاج نے تین دن تک ان کی لاش کو سول پر لٹکائے رکھا۔ تیسرے دن حضرت اسماء اس طرف سے گزریں اور سولی پر بیٹے کی لٹکتی ہوئی لاش دیکھ کر فرمایا (ابھی اس شہسوار کے اترنے کا وقت نہیں آیا۔ ) بیٹے کی موت کے تھوڑے دنوں بعد تقریباً سو سال کی عمر میں جمادی الاول 73ھ ہجری میں انتقال ہوا۔ ان سے ساٹھ کے قریب حدیثیں مروی ہیں۔
خصوصیات
ترمیمیہ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی بہادر اور دل گردہ والی عورت تھیں ہجرت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں جب حضور ﷺ كا توشہ سفر ایک تھیلے میں رکھا گیا اور اس تھیلے کا منہ باندھنے کے لیے کچھ نہ ملا تو حضرت بی بی اسماء نے فوراً اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر اس سے توشہ دان کا منہ باندھ دیا اسی دن سے ان کو ذات النطاقین (دوپٹکے والی) کا معزز لقب ملا حضرت ابو بکر صدیق نے تو حضور ﷺ کے ساتھ ہجرت کی لیکن حضرت اسماء نے اس کے بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کی ۔[1]
63ھ میں واقعہ کربلا کے بعد جب یزید بن معاویہ کی فوجوں نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حضرت عبد ﷲ بن زبیر نے ان ظالموں کا مقابلہ کیا اور یزیدی لشکر کو دوڑا دوڑا کر مارا اس وقت بھی حضرت اسماء مکہ مکرمہ میں موجود رہ کر اپنے فرزند حضرت عبد ﷲ بن زبیر کی ہمت بڑھاتی اور ان کی فتح و نصرت کے لیے دعائیں مانگتی رہیں اور جب عبدالملک بن مروان کے زمانہ حکومت میں حجاج بن یوسف ثقفی ظالم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حضرت عبد ﷲ بن زبیر نے اس ظالم کی فوجوں کا بھی مقابلہ کیا تو اس خوں ریز جنگ کے وقت بھی حضرت اسماء مکہ مکرمہ میں اپنے فرزند کا حوصلہ بڑھاتی رہیں یہاں تک کہ جب عبدﷲ بن زبیر کو شہید کر کے حجاج بن یوسف نے ان کی مقدس لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور اس ظالم نے مجبور کر دیا کہ بی بی اسماء چل کر اپنے بیٹے کی لاش کو سولی پر لٹکی ہوئی دیکھیں تو آپ اپنے بیٹے کی لاش کے پاس تشریف لے گئیں جب لاش کو سولی پر دیکھا تو نہ روئیں نہ بلبلائیں بلکہ نہایت جرأ ت کے ساتھ فرمایا کہ سب سوار تو گھوڑوں سے اتر گئے لیکن اب تک یہ سوار گھوڑے سے نہیں اترا پھر فرمایا! کہ اے حجاج! تونے میرے بیٹے کی دنیا خراب کی اور اس نے تیرے دین کو برباد کر دیا ۔
تدفین
ترمیماس واقعہ کے بعد بھی چند دنوں حضرت اسماء زندہ رہیں مکہ مکرمہ کے قبرستان میں ماں بیٹے دونوں کی مقدس قبریں ایک دوسرے کے برابر بنی ہوئی ہیں جن کو نجدیوں نے توڑ پھوڑ ڈالا ہے مگر ابھی نشان باقی ہے۔[2]
اولاد
ترمیمحسب ذیل اولاد ہوئی، عبد اللہ رضی اللہ عنہ، منذر، عروہ، مہاجر، خدیجۃ الکبریٰ، ام الحسن، عائشہ۔ [3]
حلیہ
ترمیمحضرت اسماء رضی اللہ عنہا سو برس (100 سال) کی تھیں؛ لیکن ایک دانت بھی نہیں گرا تھا اور ہوش و حواس بالکل درست تھے [4] دراز قد اور لحیم شحیم تھیں، اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ [5]
فضل وکمال
ترمیمآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے 56/حدیثیں روایت کی ہیں، جو صحیحین اور سنن میں موجود ہیں، راویوں میں حسب ذیل اصحاب ہیں: عبد اللہ رضی اللہ عنہ، عروہ (پسران) عباد بن عبد اللہ، عبد اللہ بن عروہ (نبیرگان)، فاطمہ بنت المنذر، ابن زبیر رضی اللہ عنہ، عبادہ بن حمزہ بن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن کیسان (غلام)، ابن عباس رضی اللہ عنہ، صفیہ بنت شیبہ، ابن ابی ملیکہ، وہب بن کیسان، ابوبکر وعامر (پسرانِ ابن زبیر رضی اللہ عنہ)، مطلب بن حنطب، محمد بن منکدر، مسلم معری، ابونوفل ابن ابوعقرب۔
۔اخلاق
ترمیمحضرت اسماء رضی اللہ عنہا بالطبع نیکی کی طرف مائل تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے، نماز کو بہت طول دیا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا ان کے پاس دوعورتیں کھڑی تھیں، جن میں ایک فربہ اور دوسری لاغر تھی یہ دیکھ کر انہو نے اپنے دل کوتسلی دی کہ مجھے ان سے زیادہ دیرتک کھڑا رہنا چاہیے [6] لیکن چونکہ نماز کئی گھنٹے تک ہوئی تھی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کوغش آگیا اور سرپرپانی چھڑکنے کی نوبت آئی۔ [7] ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ ان کے سرمیں درد ہوتا تو سر پکڑ کرکہتیں (یہ میرا گناہ ہے اور جو گناہ خدا معاف کرتا رہتا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں)۔ حق گوئی ان کا خاص شعار تھا اس کی متعدد مثالیں اوپر گزرچکی ہیں، حجاج بن یوسف جیسے ظالم اور جبار کے سامنے وہ جس صاف گوئی سے کام لیتی تھیں وہ بجائے خود اپنے آپ ہی نظیر ہے، ایک دن وہ منبر پر بیٹھا ہوا تھا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنی کنیز کے ساتھ آئیں اور دریافت کیا کہ امیر کہاں ہے، معلوم ہوا تو حجاج کے قریب گئیں، اس نے دیکھتے ہی کہا: تمھارے بیٹے نے خدا کے گھر میں الحاد پھیلایا تھا، اس لیے خدا نے اس کوبڑا دردناک عذاب دیا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے برجستہ جواب دیا تو جھوٹا ہے، وہ ملحد نہ تھا؛ بلکہ صائم، پارسا اور شب بیدار تھا۔ [8] نہایت صابر تھیں، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک قیامت تھی جوان کے لیے قیامتِ کبریٰ بن گئی تھی؛ لیکن اس میں انھوں نے جس عزم، جس استقلال، جس صبر اور جس تحمل سے کام لیا اس کی تاریخ میں بہت کم نظیریں مل سکتی ہیں۔ حددرجہ خوددار تھیں، حجاج بن یوسف جیسے امیر کی نخوت بھی ان کی خودداری کی چٹان سے ٹکرا کر چور چور ہوجاتی تھی۔ بااینہمہ نہایت متواضع اور خاکسار تھیں، محنت مشقت میں ان کوبالکل عار نہ تھا؛ چنانچہ جب ان کا نکاح ہوا توحضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ نہ تھا، صرف ایک اونٹ اور ایک گھوڑا تھا، وہ گھوڑے کودانہ دیتی، پانی بھرتی اور ڈول سیتی تھیں، روٹی پکانی نہیں آتی تھی، اس لیے آٹا گوندھ کر رکھتی اور انصار کی بعض عورتیں پکادیتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوجوزمین عنایت فرمائی تھی وہاں جاکر وہ چھوہاروں کی گٹھلیاں چنتی اور تین فرلانگ سے سرپرلادکرلاتی تھیں ایک دن اسی حالت میں آرہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی آپ نے اپنے اونٹ کوبٹھایا کہ سوار ہوجائیں؛ لیکن ان کوشرم معلوم ہوئی اور اونٹ پرنہ بیٹھیں گھرآکر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے سارا قصہ بیان کیا انھوں نے کہا: سبحان اللہ سرپربوجھ لادنے سے شرم نہیں آئی؟ کچھ زمانہ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کوایک غلام دیا جوگھوڑے کی تربیت اور پرداخت کرتا تھا؛ اسی وقت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی مصیبت کم ہوئی، کہتی تھیں فَکَأَنَّمَا اعتَقَنِیْ یعنی گویا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ کوآزاد کر دیا۔ غربت کی وجہ سے جوکچھ خرچ کرتیں ناپ تول کرخرچ کرتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ پھرخدا بھی ناپ کردیگا، اس وقت سے یہ عادت چھوڑ دی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آمدنی وافرہوگئی اور پھرکبھی تنگدست نہیں ہوئیں۔ [9] حددرجہ فیاض تھیں، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے ان سے بڑھ کرکسی کوفیاض نہیں دیکھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وفات کے وقت ترکہ میں ایک جنگل چھوڑا تھا جوان کے حصہ میں آیا تھا؛ لیکن انھوں نے اس کوایک لاکھ درہم پرفروخت کرکے کل رقم عزیزوں پرتقسیم کردی [10] بیمار پڑتیں تواپنے تمام غلام آزاد کردیتی تھیں [11] حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا مزاج تیز تھا اس لیے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں بلااجازت ان کے مال سے فقراء کوخیرات دے سکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ [12] ایک مرتبہ ان کی ماں مدینہ میں آئیں اور ان سے روپیہ مانگا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ مشرک ہیں، کیا ایسی حالت میں ان کی مدد کرسکتی ہوں؟ ارشاد ہوا: ہاں! (اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو)۔ [13] حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے کئی حج کیے، پہلا حج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا [14] اس میں جوکچھ دیکھا تھا [15] ان کوبالکل یاد تھا؛ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب حج کے لیے آئیں اور مزدلفہ میں ٹھہریں تورات کو نماز پڑھی؛ پھر اپنے غلام سے پوچھا: چاند چھپ گیا، اس نے کہا نہیں، جب چاند ڈوب گیا بولیں کہ اب رمی کے لیے چلو، رمی کے بعد پھرواپس آئیں اور صبح کی نماز پڑھی، اس نے کہا آپ نے بڑی عجلت کی، فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشینوں کواس کی اجازت دی ہے [16] جب کبھی حجون سے گذرتیں، کہتیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہاں ٹھہرے تھے، اس وقت ہمارے پاس بہت کم سامان تھا، ہم نے اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور زبیر رضی اللہ عنہ نے عمرہ کیا تھا اور طواف کرکے حلال ہوئے تھے۔ [17] نہایت بہادر تھیں، اخلاقی جرأت کے چند واقعات اوپر گذر چکی ہیں، سعید بن عاص کے زمانہ حکومت میں جب اسلام میں فتنہ پیدا ہوا اور بے امنی شروع ہو گئی توانہوں نے ایک خنجر رکھا تھا، لوگوں نے پوچھا: اس کا کیا فائدہ ہے؟ بولیں اگر کوئی چور آئے گا تواس سے اس کا پیٹ چاک کرونگی۔ [18] حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے تقدس کا عام چرچا تھا، لوگ ان سے دعا کراتے تھے، جب کوئی عورت بخار میں مبتلا ہوتی اور دعا کے لیے آتی تواس کے سینہ پرپانی چھڑکتیں اور کہتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کوپانی سے ٹھنڈا کرو۔ [19] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ بخار آتشِ جہنم کی گرمی سے ہے، اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ [20] گھر کا کوئی آدمی بیمار ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ (جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت ان کے سپرد کیا تھا) دھوتی اور اس کا پانی پلاتی تھیں، اس سے بیمار کو شفا ہو جاتی تھی۔ [21]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ الاستیعاب ،باب النساء،باب الالف3259،أسماء بنت ابی بکر،ج4،ص345
- ↑ جنتی زیور،عبد المصطفٰی اعظمی، صفحہ508،ناشر مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
- ↑ (طبری:3/2461)
- ↑ (اصابہ:8/8)
- ↑ (مسند:6/348۔ اسدالغابہ:5/393)
- ↑ (مسند:6/349)
- ↑ (بخاری:1/144)
- ↑ (مسند:6/351)
- ↑ (مسند:6/352)
- ↑ (بخاری،بَاب هِبَةِ الْوَاحِدِ لِلْجَمَاعَةِ)
- ↑ (خلاصۂ تہذیب:488)
- ↑ (مسند:6/353)
- ↑ (صحیح بخاری:2/884)
- ↑ (صحیح مسلم:1/479)
- ↑ (بخاری:1/237)
- ↑ (بخاری:1/237)
- ↑ (بخاری:1/237)
- ↑ (ذیل طبری:13/2461)
- ↑ (صحیح بخاری:2/852)
- ↑ (صحیح بخاری، بَاب الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ)
- ↑ (مسند:6/348)