عبد الرحمن بن ابو بکر
عبد الرحمن بن ابو بكر عبد اللہ بن ابو قحافہ کے بیٹے تھے۔ان کے والد ابو بکر کے خلیفہ بلا فصل ہونے کے حوالے جن کتب احادیث میں درج ہیں ان تمام صحیح و مستند احادیث کے تمام راوی ثقہ،عادل اور ضابط ہیں اور اس پر تمام اہل سنت والجماعت کا اجماع و اتفاق ہے۔
عبد الرحمن بن ابو بکر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
تاریخ وفات | سنہ 675 |
زوجہ | قريبہ بنت ابی اميہ |
اولاد | ابو عتیق محمد بن عبد الرحمن |
والد | ابوبکر صدیق |
والدہ | ام رومان |
بہن/بھائی | محمد بن ابی بکر، عبد اللہ بن ابو بکر، طفیل بن عبد اللہ الازدی، عائشہ بنت ابوبکر، اسماء بنت ابی بکر، ام کلثوم بنت ابو بکر |
عملی زندگی | |
پیشہ | سائنس دان |
درستی - ترمیم ![]() |
نام، نسبترميم
عبد الرحمن نام، ابو عبد اللہ کنیت، اسلام لانے سے پہلے نام عبد العزیٰ تھا خلیفہ اول ابوبکر صدیق کے بیٹے تھے، والدہ کا نام ام رومان تھا، ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر اور یہ دونوں حقیقی بھائی بہن تھے۔
ابتدائی حالاتترميم
ابوبکر کا تمام خاندان ابتداہی میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوا، لیکن عبد الرحمن اس سے مستثنیٰ تھے، وہ عرصہ تک اپنے قدیم مذہب کے حامی رہے، غزوۂ بدر میں مشرکین قریش کے ساتھ تھے، اثنائے جنگ میں انہوں نے آگے بڑھ کر"ھل من مبارز" کا نعرہ لگایا، تو ابوبکر صدیق کی آنکھوں میں خون اتر آیا، انہوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا، لیکن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اجازت نہ دی[1] غزوۂ اُحد میں بھی وہ مشرکین مکہ کے ساتھ تھے۔فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا اورہجرت بھی کی۔
اسلامترميم
عبد الرحمن صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان لائے اور مدینہ پہنچ کر اپنے والد کے ساتھ رہنے لگے، ابوبکر کے گھر کے تمام کام اور ذاتی کاروبار زیادہ تر یہی انجام دیتے تھے۔تھے اورنہایت اطاعت شعاری کے ساتھ ان کے غیظ وغضب کو برداشت کرتے تھے، ایک مرتبہ شب کے وقت چند اصحابؓ صفہ حضرت ابوبکرؓ کے یہاں مہمان تھے، انہوں نے حضرت عبدالرحمن ؓ کو ہدایت فرمائی کہ: "میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جاتا ہوں تم میرے واپس آنے سے پہلے ان کی مہمان نوازی سے فارغ ہوجانا" حضرت عبدالرحمنؓ نے حسب ہدایت وقت پر مہمانوں کے سامنے ماحضر پیش کیا ؛لیکن انہوں نے صاحب خانہ کی غیر موجودگی میں کھانے سے انکار کردیا، اتفاق سے حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت دیر کے بعد تشریف لائے اور یہ معلوم کرکے کہ مہمان اب تک بھوکے بیٹھے ہیں، حضرت عبدالرحمنؓ پر نہایت برہم ہوئے اورگالی دے کر کہا"خدا کی قسم!اس کو کھانے میں شریک نہیں کروں گا" حضرت عبدالرحمن ؓ ڈر سے مکان کے ایک گوشہ میں چھپ رہے تھے ،وہ کسی قدرجرأت کرکے سامنے آئے اوربولے، آپ مہمانوں سے پوچھ لیجئے کہ میں نے کھانے کے لیے اصرار کیا تھا، انہوں نے تصدیق کی اور کہا، واللہ! جب تک آپ عبدالرحمن کو نہ کھلائیں گے ہم لوگ بھی نہ کھائیں گے، غرض اسی طرح ان کا غصہ ختم ہوا، اوردسترخوان بچھایا گیا، حضرت عبدالرحمن ؓ فرماتے ہیں کہ اس روز کھانے میں اس قدر برکت ہوئی کہ ہم لوگ کھاتے جاتے تھے، لیکن وہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ میں اس میں سے کچھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھی لے کر حاضر ہوا جس کو آپ ﷺ اور ان کے بہت سے اصحاب نے تناول فرمایا۔ [2]
غزواتترميم
عبد الرحمن فطرۃ نہایت شجاع و بہادر تھے، خصوصاً تیر اندازی میں کمال رکھتے تھے، واقعہ حدیبیہ کے بعد عہدِ نبوت میں جس قدر معرکے پیش آئے وہ ان میں سے اکثر میں جانبازی و پامردی کے ساتھ سرگرمِ کار زار تھے۔
جنگ یمامہترميم
یمامہ کی خونریز جنگ میں عبد الرحمن نے اپنی تیراندازی کا غیر معمولی کمال دکھایا، انہوں نے اس جنگ میں دشمن کے ساتھ بڑے جانباز افسروں کو نشانہ بنا کر واصلِ جہنم کیا۔ قلعہ یمامہ کی دیوار ایک جگہ سے شق ہو گئی تھی، مسلمان اسی راستہ سے اندر گھسنا چاہتے تھے، لیکن دشمن کا ایک سردار محکم بن طفیل نہایت جانبازی کے ساتھ اس جگہ اڑا ہوا تھا عبد الرحمن نے تاک کر اس کے سینہ پر ایک ایسا تیر مارا کہ وہیں تڑپ کر ڈھیر ہو گیا اور مسلمان اس کے ساتھیوں کو لیتے ہوئے اندر گھس گئے۔[3]
یزید کی بیعت سے انکارترميم
امیر معاویہ ؓ نے یزید کی جانشینی کے لیے اپنی زندگی ہی میں کوشش شروع کردی تھی، ایک دفعہ ان کی ایما سے مروان بن حکم والی مدینہ نے مسجد نبوی ﷺ میں لوگوں کو جمع کرکے یزید کے لیے بیعت لینا چاہا، اس وقت جن لوگوں نے اس کی مخالفت میں صدا بلند کی ان میں ایک حضرت عبدالرحمنؓ بھی تھے، انہوں نے مروان سے غضب آلود لہجہ میں کہا، کیا تم لوگ خلافت کو موروثی بادشاہت بنادینا چاہتے ہو، مروان نے برہم ہوکر کہا، صاحبو! یہ وہی ہے جس کی نسبت قرآن میں آیا ہے، والذی قال لوالدیہ اف لکما (یعنی والدین کی اطاعت نہ کرنے پر خدانے ان کی مذمت کی ہے) ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اپنے حجرہ میں یہ گفتگوسن رہی تھی، وہ غضبناک ہوکر بے اختیار بول اٹھیں، نہیں !واللہ نہیں!! عبدالرحمنؓ کے متعلق نہیں ہے، اگر چاہو تو میں اس کا نام لے سکتی ہوں جس کی نسبت یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ (اسد الغابہ جلد ۳،یہ واقعہ بخاری میں بھی مذکور ہے ) امیر معاویہ ؓ کو حضرت عبدالرحمن ؓ کی مخالفت کاحال معلوم ہوا تو انہوں نے ان کو خوش کرنے کے لیے ان کے پاس ایک لاکھ درہم کے توڑے بھیجدئیے، لیکن حضرت عبدالرحمن ؓ نے غایت بے نیازی کے ساتھ واپس کردیا اورفرمایا "واللہ ! میں دین کو دنیا کے عوض فروخت نہیں کرسکتا " [4]
وفاتترميم
حضرت عبدالرحمن ؓ اس واقعہ کے بعد مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے آئے، اورشہر سے تقریبا ۱۰ میل کے فاصلہ پر "حبشی" نام ایک مکان میں اقامت پذیر ہوئے ، یہاں تک کہ53ھ میں ایک روز ناگہانی طور پر گوشہ عزلت میں واصل بحق ہوئے، بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سے ان کو اپنی صحت کے متعلق کسی قسم کی کوئی شکایت نہ تھی، وفات کے دن حسب معمول سوئے مگر ایسی نیند سوئے کہ پھر نہ اُٹھ سکے، عائشہ صدیقہ کے دل میں اس ناگہانی حادثہ کے باعث شبہ ہوا کہ کسی نے زہر وغیرہ دے کر مارڈالا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ایک عورت عائشہ کے گھر آئی، بظاہر توانا و تنددرست تھی، ایک مرتبہ سجدہ کیا اورایسا سجدہ کیا پھر اس سے سرنہ اُٹھایا، اس واقعہ کے بعد سے ان کا شک جاتا رہا۔ ام المومنین عائشہ کو ان کے انتقال کی خبر ملی تو وہ حج کی نیت سے مکہ آئیں اور بھائی کی قبر پر کھڑی ہو کر بے اختیار روئیں، اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے:
- وکنا لندمانی جذیمۃ حقبۃ من الدھر حتی قیل لن یتصدعا
- فلما تفرقنا کانی ومالکا لطول اجتماع لم بنت لیلۃ معا
پھر مرحوم بھائی کہ روح سے مخاطب ہو کر بولیں، بخدا، اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو اس قدر نہ روتی اور تم کو اسی جگہ دفن کرتی جہاں تم نے وفات پائی تھی۔[5][6]