ام سلیم
ام سلیم بنت ملحان انس بن مالک کی ماں تھیں۔آپ کا نام رُمَیْصاء بنتِ مِلْحان انصاریہ اور کنیت اُمِّ سُلیم ہے۔ آپ حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے والد حضرت سیّدُنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی رَضاعی خالہ اور خادمِ رسول حضرت سیّدُنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں، آپ کا تعلق قبیلۂ بنی نَجَّار سے ہے، آپ شرفِ اسلام و بیعت سے سرفراز ہوئیں۔آپ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مالک بن نَضْر سے ہوا جس سے آپ کے ہاں حضرت انس اور حضرت بَرَّاء رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی، ربِّ کریم نے جب آپ کو ایمان کی دولت سے نوازا تو آپ نے اپنے شوہر کو بھی اسلام کی دعوت دی مگر وہ نہ مانا اور غضبناک ہوکر ملکِ شام چلا گیا اور وہیں مرگیا۔ مالک بن نَضْر کی موت کے بعد آپ کا نکاح حضرت ابوطلحٰہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ہوا جن سے آپ کے ہاں حضرت عبد اللہ اور حضرت ابوعُمَیر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی۔ [1] آپ نے دور خلافت راشدہ میں وفات پائی ۔
الرُمَيصاء أم سليم بنت ملحان | |
---|---|
ام سليم بنت مِلْحان بن خالد بن زيد بن حرام بن جندب انصاریہ خزرجہ | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 1 ہزاریہ |
تاریخ وفات | سنہ 800ء (199–200 سال) |
لقب | رمیصہ (الرُمَيصاء) |
شوہر | مالك پھر ابو طلحہ |
اولاد | انس بن مالك، ابو عمير بن ابی طلحہ، عبد الله بن ابی طلحہ |
عملی زندگی | |
نسب | بنو خزرج |
پیشہ | نرس ، فوجی افسر |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمسہلہ یا رملہ نام، اُمّ سُلیم کنیت، غمیصاء اور رمیصاء لقب۔ سلسلہ نسب یہ ہے : اُم سُلیم بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔ ماں کا نام ملیکہ بنت مالک بن عدی بن زید مناۃ تھا۔ آبائی سلسلہ سے اُمّ سلیم سلمیٰ بنت زید کی پوتی تھیں، سلمیٰ عبد المطلب جد رسول اللہﷺ کی والدہ تھیں۔ اسی بنا پر اُمّ سلیم آنحضرتﷺ کی خالہ مشہور ہیں۔ [2][3]
نکاح
ترمیمپہلے مالک بن نضر سے نکاح ہوا۔ مالک چونکہ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہنا چاہتے تھے اور اُمّ سلیم تبدیلِ مذہب پر اصرار کرتی تھیں، اس لیے دونوں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور مالک ناراض ہو کر شام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا۔ ابو طلحہ نے جو اسی قبیلہ سے تھے نکاح کا پیغام دیا لیکن اُمّ سلیم کو اب بھی وہی عذر تھا، یعنی ابو طلحہ مشرک تھے اس لیے وہ ان سے نکاح نہیں کر سکتی تھیں۔ ۔[4][5] [2]
اسلام
ترمیممدینہ میں اوائلِ اسلام میں مسلمان ہوئیں۔آپ کا شمار سابقوں الاولون میں ہوتا ہے۔مدینہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں، مالک چونکہ اپنے آبائی مذہب پرقائم رہنا چاہتے تھے اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا تبدیل مذہب پراصرار کرتی تھیں اس لیے دونوں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور مالک ناراض ہوکرشام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا، ابوطلحہ نے جواسی قبیلہ سے تھے نکاح کا پیغام دیا؛ لیکن حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کواب بھی وہی عذرت تھا، یعنی ابوطلحہ مشرک تھے، اس لیے وہ ان سے نکاح نہیں کرسکتی تھیں؛ غرض ابوطلحہ نے کچھ دن غورکرکے اسلام کا اعلان کیا اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہاکے سامنے آکر کلمہ پڑھا، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب تم ان کے ساتھ میرا نکاح کردو [6] ساتھ ہی مہر معاف کر دیا اور کہا، میرا مہر اسلام ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ یہ نہایت عجیب وغریب مہر تھا۔[7][8][9]
حالات زندگی
ترمیمنکاح کے بعد حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیعت عقبہ میں شرکت کی اور چند ماہ کے بعد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا اپنے صاحبزادے (حضرت انس رضی اللہ عنہ) کولے کرحضور میں آئیں اور کہا: انیس کوآپ کی خدمت کے لیے پیش کرتی ہوں، یہ میرا بیٹا ہے، آپ اس کے لیے دعا فرمائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی [10] اسی زمانہ میں آپ نے مہاجرین اور انصار میں مواخاۃ کی اور یہ مجمع انھی کے مکان میں ہوا۔ [11] .[12]
- اسی زمانہ میں آپ نے مہاجرین و انصار میں مواخات کی اور یہ مجمع انھی کے مکان میں ہوا۔
- غزوات میں حضرت اُمّ۔ ُسلیمؓ نے نہایت جوش سے حصہ لیا۔ صحیح مسلم میں ہے :
- کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ یَغْـزُوْ بِاُمِّ سُلَیـْمٍ وَنِسْوَۃٌ مِنَ الْاَنْصَارِ مَعَہٗ اِذَا غَزَیٰ فَیَسْقِیْنَ الْمَائَ وَیُدَاوِیْنَ الْجَرْحیٰ۔
- ’’آنحضرتﷺ حضرت اُمّ۔ ُسلیمؓ اور انصار کی چند عورتوں کو غزوات میں ساتھ رکھتے تھے جو لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کو مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ‘‘غزوۂ احد میں جب مسلمانوں کے جمے ہوئے قدم اُکھڑگئے تھے، وہ نہایت مستعدی سے کام کررہی تھیں، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کودیکھا کہ مشک بھربھر کرلاتی تھیں اور زخمیوں کوپانی پلاتی تھیں، مشک خالی ہوجاتی تھی توپھرجاکر بھرلاتی تھیں۔[13]
- 5ھ میں آنحضرتﷺ نے زینب سے نکاح کیا۔ اس موقع پر اُمّ سلیم نے ایک لگن میں مالیدہ بنا کر انس کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ آنحضرتﷺ سے کہنا کہ اس حقیر ہدیہ کو قبول فرمائیں۔
- 7ھ میں خیبر کا واقعہ ہوا، اُمّ سلیم اس میں شریک تھیں، آنحضرتﷺ نے صفیہ سے نکاح کیا تو اُمّ سلیم ہی نے صفیہ کو آنحضرتﷺ کے لیے سنوارا تھا۔[14]
- غزوۂ حنین میں وہ ایک خنجر ہاتھ میں لیے تھیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا خنجر لیے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کروگی؟ بولیں اگرکوئی مشرک قریب آئے گا تواس سے اس کا پیٹ چاک کردوں گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کرمسکرادیئے، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ کے جولوگ فرار ہو گئے ہیں ان کے قتل کا حکم دیجئے، ارشاد ہوا، خدا نے خود ان کا انتظام کر دیا ہے۔
- بخاری شریف وغیرہ میں ان کا ایک بہت ہی نصیحت آموز اور عبرت خیز واقعہ لکھا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ام سلیم کا ایک بچہ بیمار تھا جب ابو طلحہ صبح کو اپنے کام دھندے کے لیے باہر جانے لگے تو اس بچہ کا سانس بہت زور زور سے چل رہا تھا ابھی ابوطلحہ مکان پر نہیں آئے تھے کہ بچہ کا انتقال ہو گیا بی بی ام سلیم نے سوچا کہ دن بھر کے تھکے ماندے میرے شوہر مکان پر آئیں گے اور بچے کے انتقال کی خبر سنیں گے تو نہ کھانا کھائیں گے نہ آرام کر سکیں گے اس لیے انھوں نے بچے کی لاش کو ایک الگ مکان میں لٹا دیا اور کپڑا اوڑھا دیا اور خود روزانہ کی طرح کھانا پکایا پھر خوب اچھی طرح بناؤ سنگار کر کے بیٹھ کر شوہر کے آنے کا انتظار کرنے لگیں جب ابو طلحہ ر رات کو گھر میں آئے تو پوچھا کہ بچہ کا کیا حال ہے؟ تو بی بی ام سلیم نے کہہ دیا کہ اب اس کا سانس ٹھہر گیا ہے ابو طلحہ مطمئن ہو گئے اور انھوں نے یہ سمجھا کہ سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے پھر فوراً ہی کھانا سامنے آگیا اور انھوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بیوی کے بناؤ سنگار کو دیکھ کر انھوں نے بیوی سے صحبت بھی کی جب سب کاموں سے فارغ ہو کر بالکل ہی مطمئن ہو گئے تو بی بی ام سلیم نے کہا کہ اے میرے پیارے شوہر! مجھے یہ مسئلہ بتایئے کہ اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی امانت ہو اور وہ اپنی امانت ہم سے لے لے تو کیا ہم کو برا ماننے یا ناراض ہونے کا کوئی حق ہے؟ ابو طلحہ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں امانت والے کو اس کی امانت خوشی خوشی دے دینی چاہے شوہر کا یہ جواب سن کر ام سلیم نے کہا کہ اے میرے سرتاج! آج ہمارے گھر میں یہی معاملہ پیش آیا کہ ہمارا بچہ جو ہمارے پاس خدا کی ایک امانت تھا آج خدا نے وہ امانت واپس لے لی اور ہمارا بچہ مرگیا یہ سن کر ابو طلحہ چونک کر اٹھ بیٹھے اور حیران ہو کر بولے کہ کیا میرا بچہ مر گیا؟ بی بی نے کہا کہ جی ہاں ابو طلحہ نے فرمایا کہ تم نے تو کہا تھا کہ اس کے سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے بیوی نے کہا کہ جی ہاں مرنے والا کہاں سانس لیتاہے؟ ابو طلحہ کو بے حد افسوس ہوا کہ ہائے میرے بچے کی لاش گھر میں پڑی رہی اور میں نے بھر پیٹ کھانا کھایا اور صحبت کی۔ بیوی نے اپنا خیال ظاہر کر دیا کہ آپ دن بھر کے تھکے ہوئے گھر آئے تھے میں فوراً ہی اگر بچے کی موت کا حال کہہ دیتی تو آپ رنج و غم میں ڈوب جاتے نہ کھانا کھاتے نہ آرام کرتے اس لیے میں نے اس خبر کو چھپایا ابو طلحہ صبح کو مسجد نبوی ﷺمیں نماز فجر کے لیے گئے اور رات کا پورا ماجرا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے عرض کر دیا آپ ﷺ نے ابو طلحہ کے لیے یہ دعا فرمائی کہ تمھاری رات کی اس صحبت میں ﷲ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرمائے اس دعائے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ اسی رات میں بی بی ام سلیم کے حمل ٹھہر گیا اور ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبد ﷲ رکھا گیا اور ان عبد اﷲ کے بیٹوں میں بڑے بڑے علما پیدا ہوئے۔[16][17][18][19]
وفات
ترمیمحضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی وفات کا سال اور مہینہ معلوم نہیں؛ لیکن قرینہ یہ ہے کہ انھوں نے خلافتِ راشدہ کے ابتدائی زمانہ میں وفات پائی ہے۔سیرت کی کتابوں میں آپ کا سنہ وفات تو مذکور نہیں البتہ علّامہ ابنِ حجر عَسقلانی علیہ الرَّحمہ نے لکھا ہے کہ آپ کی وفات حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔[20] [21]
اولاد
ترمیمجیسا کہ اوپر معلوم ہوا انھوں نے دو نکاح کیے تھے، پہلے شوہر سے حضرت انس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے دو لڑکے پیدا ہوئے، ابوعمیر اور عبد اللہ، ابوعمیر صغرِ سنی میں فوت ہو گئے اور عبد اللہ سے نسل چلی۔
فضل وکمال
ترمیم- ایک دن حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت اُمِّ سُلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور ایک مَشکیزے سے پانی پیا، حضرت اُمِّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے مَشکیزے کے اُس حصّے کو کاٹ کر بطورِ تبرک اپنے پاس رکھ لیا جس حصّے سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پانی پیا تھا۔[22]
- پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ کے پاس تشریف لاتے اور قیلولہ فرماتے تھے، آپ حُضورِ اکرم کے لیے چمڑے کا بستر بچھادیتی تھیں، جس پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام کرتے تھے، حُضور کو پسینہ بہت آتا تھا تو آپ حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاپسینہ جمع کرلیتیں اور اسے خوشبو میں ڈال لیتی تھیں، ایک مرتبہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہوئے تو ارشاد فرمایا: اے اُمِّ سُلیم! یہ تم کیا کررہی ہو؟ عرض کی:حُضور! یہ آپ کا پسینہ ہے جسے ہم اپنی خوشبو میں ڈال لیتے ہیں یہ بہترین خوشبو ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے عرض کی:یَارسولَ اللہ! ہم اس کی برکت کی اپنے بچّوں کے لیے اُمید کرتے ہیں، فرمایا: تم ٹھیک کرتی ہو۔ چنانچہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے وصیت کی کہ ان کے حَنُوْط میں اس خوشبو کو ملایا جائے لہٰذا حضرت انس کی وصیت کے مطابق ان کے حَنُوْط میں اس خوشبو کو ملادیا گیا۔[23]
- حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ جنّت میں ہوں اچانک ابوطلحٰہ کی زوجہ رُمَیصاء کو جنّت میں پایا۔[24]
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے چند حدیثیں مروی ہیں، جن کو حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، ابوسلمہ اور عمرو بن عاصم نے ان سے روایت کیا ہے لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں ایک مسئلہ میں اختلاف ہوا تھا تو ان بزرگوں نے انھی کوحکم مانا۔[25] ان کومسائل کے پوچھنے میں کچھ عار نہ تھا، ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) خدا حق بات سے نہیں شرماتا کیا عورت پرخواب میں غسل واجب ہے، ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یہ سوال سن رہی تھیں؛ بیساختہ ہنس پڑیں کہ تم نے عورتوں کی بڑی فضیحت کی؟ بھلا کہیں عورتوں کو بھی ایسا ہوتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں؟ ورنہ بچے ماں کے ہم شکل کیوں ہوتے ہیں۔[26]
اخلاق
ترمیمحضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا میں بڑے بڑے فضائل اخلاق جمع تھے، جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ اپنے پہلے شوہر سے صرف اس بنا پر علیحدگی اختیار کی کہ وہ اسلام قبول کرنے پر رضا مند نہ تھے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا تو محض اس وجہ سے ردکردیا کہ وہ مشرک تھے اس موقع پر انھوں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو جس خوبی سے اسلام کی دعوت دی وہ سننے کے قابل ہے، مسنداحمد میں ہے: قَالَتْ: يَاأَبَاطَلْحَةَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ إِلَهَكَ الَّذِى تَعْبُدُ تَنْبُتُ مِنَ الأَرْضِ، قَالَ: بَلىٰ، قَالَتْ: أَفَلَا تَسْتَحْيِيْ تَعْبُدْ شَجَرَةَ؟۔[27] ترجمہ: حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ! تم جانتے ہو کہ تمھارا معبود زمین سے اُگاہے؟ انھوں نے جواب دیا ہاں! حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا بولیں تو پھر تم کو درخت کی پوجا کرتے شرم نہیں آتی؟۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ پر اس تقریر کا اتنا اثر ہوا کہ فوراً مسلمان ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حددرجہ محبت کرتی تھیں، آپ اکثر ان کے مکان تشریف لے جاتے اور دوپہر کو آرام فرماتے تھے، جب بستر سے اُٹھتے تو وہ آپ کے پیسنے اور ٹوٹے ہوئے بالوں کو ایک شیشی میں جمع کرتی تھیں۔[28] ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشک سے منہ لگا کر پانی پیا تو وہ اُٹھیں اور مشک کا منہ کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہنِ مبارک مس ہوا ہے۔[29] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان سے خاص محبت تھی، صحیح مسلم میں ہے: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَايَدْخُلُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّاعَلَى أَزْوَاجِهِ إِلَّاأُمِّ سُلَيْمٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ إِنِّي أَرْحَمُهَا قُتِلَ أَخُوهَا مَعِي۔[30] ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات کے علاوہ اور کسی عورت کے یہاں نہیں جاتے تھے؛ لیکن اُم سلیم رضی اللہ عنہا مستثنیٰ تھیں لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا: مجھے ان پر رحم آتا ہے کہ ان کے بھائی (حرام رضی اللہ عنہ) نے میرے ساتھ رہ کر شہادت پائی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہ کہ آپ اکثر اوقات حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لیجاتے تھے، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نہایت صابر اور مستقل مزاج تھیں، ابو عمیران کا بہت لاڈلا اور پیارا بیٹا تھا؛ لیکن جب اس نے انتقال کیا تونہایت صبر سے کام لیا اور گھر والوں کو منع کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کی خبر نہ کریں، رات کو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا؛ لیکن عجیب انداز سے کیا بولیں اگر تم کوکوئی شخص عاریۃً ایک چیز دے اور پھراس کوواپس لینا چاہے توکیا تم اس کے دینے سے انکار کروگے؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کبھی نہیں، کہا تواب تم کواپنے بیٹے کی طرف سے صبر کرنا چاہیے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ یہ سن کرغصہ ہوئے کہ پہلے سے کیوں نہ بتلایا، صبح اُٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا: خدا نے اس رات تم دونوں کوبڑی برکت دی۔[31] اسی طرح ایک مرتبہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں کچھ بھیج دو، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے چند روٹیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر پیش کر دیں، آپ مسجد میں تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بھی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے تم کو بھیجا ہے؟ بولے جی ہاں! فرمایا: کھانے کے لیے؟ کہا: ہاں! آپ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کولے کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لائے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: اب کیا کیا جائے؟ کھانا نہایت قلیل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجمع کے ساتھ تشریف لائے ہیں، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے نہایت استقلال سے جواب دیا کہ ان باتوں کوخدا اور رسول زیادہ جانتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے تو حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے وہی روٹیاں اور سالن سامنے رکھ دیا، خدا کی شان اس میں بڑی برکت ہوئی اور سب لوگ کھا کر سیر ہو گئے۔[32] حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے فضائل ومناقب بہت ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں جنت میں گیا تو مجھ کو آہٹ معلوم ہوئی، میں نے کہا کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ انس رضی اللہ عنہ کی والدہ غمیصاء بنت ملحان ہیں۔[33] [34]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (طبقات ابن سعد،ج 8،ص312، تھذیب التھذیب،ج 10،ص523، معجم الصحابہ،ج 1،ص241)
- ^ ا ب أم سليم بنت ملحان-قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-12-25 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أم سليم بنت ملحان آرکائیو شدہ 2015-04-14 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الاستیعاب، کتاب کنی النساء، باب السین 3597، ام سلیم بنت ملحان، ج4، ص494
- ↑ سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس
- ↑ (اصابہ، بحوالۂ ابنِ سعد)
- ↑ ناس من أمتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله يركبون ثبج آرکائیو شدہ 2016-08-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ راكبة البحر موسوعة الاسرة المسلمة آرکائیو شدہ 2017-05-13 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أم حرام بنت ملحان قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-04-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مسلم:2/352۔ بخاری:2/944)
- ↑ (صحیح بخاری باب مناقب)
- ↑ حرام بن ملحان 01/05/2006 قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-01-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (بخاری، کتاب المغازی:2/581)
- ↑ سیر الصحابیات، مؤلف، مولانا سعید انصاری 89،مشتاق بک کارنر لاہور
- ↑ (صحیح مسلم:2/103)
- ↑ جنتی زیور،عبد المصطفٰی اعظمی، صفحہ515 تا 517، ناشر مکتبۃ المدینہ باب المدینہ، کراچی۔
- ↑ سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس
- ↑ في طبقات ابن سعد (426/8) ونحوه في الإصابة لابن حجر (243/8) وكذا في الحلية لأبي نعيم (59/2)
- ↑ النسائي (114/6) ومسنده صحيح ونحوه بطرق متعددة
- ↑ (تقریب التھذیب،ص1381)
- ↑ الأعلام (15 ایڈیشن)۔ بيروت: دار العلم للملايين۔ ج مج3۔ 2002۔ ص 33
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط|الأول=
يفتقد|الأول=
(معاونت) والوسيط غير المعروف|authr1=
تم تجاهله يقترح استخدام|author1=
(معاونت) - ↑ (مسند احمد،ج 10،ص319، حدیث:27185)
- ↑ (بخاری،ج4،ص182، حدیث:6281، مسلم، ص978، 979، حدیث:6055، 6057، مسند احمد،ج 4،ص451، حدیث:13365)
- ↑ (بخاری،ج 2،ص525، حدیث: 3679)
- ↑ (مسند:6/430،431)
- ↑ (مسند:6/692،306)
- ↑ (اصابہ:8/243، بحوالہ مسند)
- ↑ (بخاری:2/929)
- ↑ (مسند:6/376)
- ↑ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ أُمِّ سُلَيْمٍ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَبِلَالٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،حدیث نمبر:4493، شاملہ، موقع الإسلام)
- ↑ (صحیح مسلم:2/342)
- ↑ (بخاری:2/810)
- ↑ (صحیح مسلم:2/342)
- ↑ (بخاری جلد1 ص505 علامات النبوۃ و بخاری جلد2 ص989)