انجم صدیقی بہرائچی
عقیل احمد صدیقی انجم ؔ صدیقی کی پیدائش 02جولائی1945ء کو شہر بہرائچ کے محلہ شیخیاپورہ میں ایک معزز خاندان میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام حاجی مجیب اللہ صدیقی تھا۔ جو صاحب زاہد شب بیدار ،مصلح قوم ،صوفی منش اور ایک درد مند اانسان تھے۔ ۔[1]
انجم صدیقی بہرائچی | |
---|---|
انجم صدیقی بہرائچی | |
پیدائش | عقیل احمد صدیقی 02جولائی1945ء محلہ شیخیاپورہ شہر بہرائچ اتر پردیش بھارت |
وفات | 21 جولائی 2021ء مطابق 10 ذی الحجہ 1442ھ محلہ شیخیاپورہ شہر بہرائچ اتر پردیش بھارت |
آخری آرام گاہ | آبائی قبرستان مخدوم سید بڈھن بہرائچیؒ نزد مولوی باغ قبرستان شہر بہرائچ |
پیشہ | تدریسی،شاعری |
زبان | اردو,انگرزی |
قومیت | بھارتی |
شہریت | بھارتی |
تعلیم | ایم۔اے(اردو تاریخ)،بی۔ایڈ،ادیب کامل |
مادر علمی | گورکھپور یونیورسٹی اور اودھ یونیورسٹی فیض آباد |
موضوع | نعت ،غزل ،نظم |
اہم اعزازات | اردو محفل بہرائچ کا اعزاز،سیرت کمیٹی بہرائچ کا اعزاز،سہارا انڈیا ماس کمیونی کیشن کی جانب سے 2بار اعزاز |
رشتہ دار | صوفی ابومحمد واصل بہرائچی |
حالات
ترمیمانجم ؔ صدیقی کا تعلق شہر بہرائچ کے ایک قدیم شیوخ خانوادہ سے ہے جہاں تصوف اور شاعری کے چرچے تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم ماڈل اسکول (موجودہ وقت میں ناز میموریل )بڑی ہات میں ہوئی پھر انٹر تک گورمینٹ انٹر کالج بہرائچ سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے گورکھپور یونیورسٹی اور اودھ یونیورسٹی فیض آباد سے ایم۔ اے(اردو تاریخ)،بی۔ ایڈ،ادیب کامل کی سند حاصل کی۔ پوسٹ گریجویٹ کرنے کے بعد آپ نے شہر بہرائچ کے مشہور تعلیمی ادارہ آزاد انٹر کالج میں استاد ہو گئے اور وہی سے پرنسپل کے عہدے سے رٹایر ہوئے۔ آپ انگریزی کے استاد تھے اور آج بھی تعلیمی شوبعے سے جڑے ہوئے ہے۔
ادبی خدمات
ترمیمانجم ؔ صدیقی ضلع اور شہر بہرائچ کے مشہور شاعر ہے۔ آپ کا ادبی سفر کا آغاز 1964ء میں ہوا تھا۔ آپ غزل گو شاعر ہے۔[2]آپ نے ملک کے تما م مشاعروں میں شرکت کی ہے اور ملک اور بیرون ملک کے ادبی جریدوں میں آپ کی غزلیں اور نظمیں شائع ہوتی رہی تی ہے۔ آپ نے غزلوں اور نطموں کے علاوہ قطعات اور گیت بھی لکھے ہیں۔ انجم ؔ صدیقی کے کلام میں تصوف اور تغزل کا ایسا حسین امتیزاج ملتا ہے جس کی مثال اردو ادب میں کم ہی ملتی ہے۔ مومنؔ اردو کے شہنشاہ تغزل ہیں ان کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے مقطوں میں انھوں نے اپنے تخلص کی رعایت سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے
” | مومن ؔ چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ | “ |
” | مومنؔ نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم | “ |
اسی طرح انجم ؔ صدیقی نے اپنے مقطوں میں مومنؔ کی اس روایت کو قائم رکھا ہے
” | صرف انسان کا ہی ذکر نہیں
ماہ انجم ؔ ہیں تیرے شیدائی |
“ |
” | سبھی ہیں محوحیرت بزم میں کیسا اجالا ہے
یہ انجم ؔ ہے جس کی روشنی معلوم ہوتی ہے |
“ |
انجم صدیقی کے بارے میں عبرت ؔ بہرائچی لکھتے ہے کہ
” | انجم کی طبیعت میں شعرگوئی کا فطری جوہر ہونے کی وجہ سے بہت جلد صف شعراء میں شامل ہو گئے ۔ جہاں تک انجم کی شہرت کا تعلق ہے وہ آل انڈیا مشاعروں کی ضرورت بن چکے ہیں اور ان کا کلام اکثر و بیشتر ریڈیو ااور ٹی وی سے نشر ہو تا رہا ہے۔انجم ؔ صدیقی کو امیروں اور رئسوں کی خوشامد سے دور رہتے ہے طبیعت میں بڑی نفاست اور رنگینی ہے ۔یہ جو کچھ کہتے ہے سچائی اور بے باکی کے ساتھ کہتے ہے۔اسکے علاوہ جو کچھ لکھتے ہیں وہ تاثر میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔انجم کی غزل گوئی بڑے اونچے درجہ کی چیز ہے ۔ان کی طبعیت میں عنقب کی شگفتگی گرائی اور نکتہ آفرینی ہے ،ان کی فکر طوفانوں کا زور اور سیلاب کی دراکی لے کر اٹھتی ہے اور نگاہ کے میدانوں اور خیال کی گذرگاہوں پہ چھاجاتی ہے۔دبستان بہرائچ میں انجم کے نام کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ان کا شمار اچھے غزل گو شاعر میں کیا جاتا ہے ،کلام بہت لطیف اور نازک ہوتا ہے ۔ | “ |
مشہور شاعر اظہار وارثی انجم ؔ صدیقی کے بارے میں لکھتے ہے کہ
” | انجم صدیقی نے اپنی غزلوں میں غزل کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے پر اثر انداز اور سلیس زبان میں اپنے خیالات کی ترجمانی کی ہے۔جدید عصر میں ہونے والے نت نئے تجربات اور انقلابات سے دور رہ کر انھوں نے اپنے لہجے اور اپنی شناخت کو محفوظ رکھا ہے۔انکی غزل کے کنیوس پر معاملات حسن اور عشق کے شوخ رنگوں کی فرادانی کے باوجود بھی کہیں کہیں سماجی بدحالی ،ماحول کے کرب اور حب الوطنی کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں۔ | “ |
ادبی شخصیات سے رابطہ
ترمیمانجم صاحب کے استاد حکیم محمد اظہر ؔ وارثی تھے۔ انجم صاحب کا ادبی صفر چار دایؤہیوں پر مشتمل ہے اس دوران آپ کا اپنے وقت کے تمام بڑے ادیبوں اور شاعروں سے رابطہ رہا۔ جس میں شفیع بہرائچی محمد نعیم اللہ خیالی وصفی بہرائچی عبرت بہرائچی ،جمال بابا، ایمن چغتائی نانپاروی،فراق گورکھپوری،نشہور واحدی،مجروح سلطان پوری،خمار بارہبنکوی،کیفی اعظمی،محسن زیدی،شوق بہرائچی|شوق ؔبہرائچی،عمر قریشی گورکھ پوری،ملک زادہ منظور احمد،فنا نظامی،دل لکھنوی،انورمرزاپوری،خاموش غازی پوری،اجمل سلطان پوری،ساگر مہندی ،رزمی بہرائچی صاحب،رئیس صدیقی بہرائچی،لطیف بہرائچی،سید خالد محمود وغیرہ سے آپ کے قریبی تعلوقات رہے۔
ادبی کاویشے
ترمیمانجم صدیقی صاحب کا ایک مجموعہ کلام تابشیں (مطبوعہ 1994ء) جو غزلوں پر مشتمل ہے
انعامات
ترمیمانجم صدیقی صاحب کو سہارا انڈیا ماس کمیونی کیشن کی جانب سے دو بار اعزاز سے نوازا گیا۔ ادبی و ثفاقتی تنظیم اردو محفل بہرائچ کی جانب سے پرانی نسل کے بہترین شاعر کے ایورڈ سے نوازا گیا۔ سیرت کمیٹی بہرائچ کی جانب سے اعزازی سند سے نوازا گیا۔
وفات
ترمیمانجم ؔ صدیقی کو کچھ ماہ پہلے فالج کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے 1 ماہ تک ہاسپٹل میں زیر علاج رہے اور 21 جولائی 2021ء کو مطابق 10 ذی الحجہ 1442ھ کو بوقت 6 بجے شام آپ کی وفات ہوئی۔آپ کی نماز جنازہ آپ کے عزیز مولانا مفتی شمس الدین نے پڑھائی اور آپ کی تدفین آپ کے آبائی قبرستان سید بڈھن بہرائچیمیں جد امجد مخدوم بڈھن بہرائچیؒ کے قریب ہوئی۔[حوالہ درکار]
نمونہ کلام
ترمیم” | پہلے بھی ماحول بگڑا تھا مگر ایسا نہ تھا
ادمی ہی ادمی کے خون کا پیاسا نہ تھا |
“ |
” | سب ترے حسن کا عکس ہیں
ماہ وانجم ،گھٹا ،چاندنی |
“ |
” | میرے آنسو جو دیکھنا چاہو
اپنا دامن نچوڑ کر دیکھو |
“ |
بیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- تابشیں (مطبوعہ 1994ء)از انجم ؔ صدیقی بہرائچی